اس صورت حال میں پاکستان کی پوزیشن بہت نازک ہوگئی
ہے۔ہمارے ایک سینئر صحافی ووست نے اسے پل صراط پر چلنے سے تشبیہ دی
ہے۔اختلافات دوسروں کے ہوئے اور مسائل ہمارے لئے پیدا ہوگئے ہیں۔ایک ایسا
مسلم پڑوسی جو مشکل وقت میں کام آتا رہا ہے اور دوسرا ایسا جہاں جانے کو دل
ہروقت بے قرار رہتا ہے۔پاکستان اب کس کا ساتھ دے اور کس کا نہ دے۔مسٔلہ
لاینحل سا لگتا نظر آتا ہے۔نواز شریف کو ریاض میں تقریر کے لئے نہ بلا کرتو
سعودیہ والوں نے بہت ہی اچھا کیا اور کئی دیگر اہم مواقع پر نہ شامل ہوکر
بھی بہت کچھ کہہ دیاگیا۔خاموشی بھی ایک زبان ہے۔جس سے بہت واضح پیغامات
دیئے جاتے ہیں۔اگرچہ میڈیاوالوں نے نوازشریف صاحب کی ریاض میں بے توقیری کا
بہت شورمچایا۔لیکن مستقبل کے پاکستان کے لئے راہ تلاش کرنا آسان ہوگیا۔اگر
ریاض میں ایران پر گولہ باری ہوئی تو سعودی عرب اور امریکہ نے کی۔کچھ اور
مسلم ممالک نے بھی ان دونوں کی ہاں میں ہاں ملائی۔اب پاکستان کو آئندہ کے
لئے سوچ سمجھ کر صرف اور صرف اپنے مفاد کو سامنے رکھ کر قدم اٹھانا
چاہئے۔پاکستان دونوں طرف سے مخالفوں میں گھرا ہوا ہے۔بھارتی دشمنی تو آسانی
سے سمجھ میں آجاتی ہے۔لیکن افغانستان کی پائیدار دشمنی پر غور کرنے کے بعد
بھی کچھ پلے نہیں پڑتا۔افغانستان کی دشمنی بھی اب بڑھتے بڑھتے بھارت کے
معیار کے قریب آتی دکھائی دیتی ہے۔افغانستان میں امن بھی دور دور دکھائی
نہیں دیتا۔ایسی صورت حال میں ہمیں ایران کے ساتھ موجودہ ورکنگ ریلیشن شپ سے
آہستہ آہستہ آگے بڑھنا چاہئے۔تجارت2011ء میں3بلین ڈالر سالانہ ہوگئی تھی۔اب
یہ کم ہوکر ایک بلین سے بھی کم ہوچکی ہے۔باسمتی چاول اور آم ایران کی شدید
ضرورت میں آتے ہیں۔انکی برآمدات سے تجارت کو3۔بلین ڈالر سالانہ تک لے آنا
چاہئے۔ضروریات زندگی کی تجارت عالمی پابندیوں میں نہیں آتی۔چھ بڑوں کی طرف
سے ایران کے لئے جو نرمیاں کی گئی تھیں وہ دور ابھی جاری ہے۔کلچرل وفود کا
آنا جانا بھی بڑھنا چاہئے۔حسن روحانی کے دوبارہ صدر بننے سے ایران 6۔بڑوں
سے بات چیت کا آغاز دوبارہ ضرور کرے گا۔پابندیوں میں نرمی کا دورانیہ بڑھنے
کا امکان ہے۔ایرانی اور پاکستانی حکمرانوں کو ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا
پہلے سے زیادہ کرنا ضروری ہے۔حسن روحانی الیکشن سے پہلے پاکستان آئے
تھے۔وزیر خارجہ ایران نے بھی پاکستان کا دورہ چند ماہ پہلے کیا تھا۔ایسے ہی
اب جناب سرتاج عزیز اور نواز شریف کو ایران کا وزٹ کرنا چاہئے۔4پڑوسیوں کے
ہوتے ہوئے ہمارے تعلقات کم ازکم 2سے بہتر ہونا ضروری ہیں۔پاکستان سے اچھے
پڑوسیوں جیسے تعلقات رکھنا ایران کی بھی ضرورت ہے۔تنہائی کاشکار ہونا اس کے
لئے کسی صورت میں فائدہ مند نہ ہوگا۔سعودی عرب سے پاکستان کے تعلقات کئی
اقسام کے ہیں۔یہ پہلے ہی برادرانہ نوعیت کے ہیں۔ان میں کمی آنے کا کوئی
امکان نہ ہے۔ایران سے تعلقات رکھنے کو سعودی عرب ہماری ضرورت سمجھتا ہے۔اسے
پاکستان پر کوئی دباؤ نہیں ڈالنا چاہئے۔آیئے ہم اس گھمبیر اور مشکل صورت
حال میں سے دونوں کو نکالنے کا جائزہ لیتے ہیں۔اور دیکھتے ہیں کہ پاکستان
کیاکچھ کرسکتا ہے۔یہ ذمہ داری صرف پاکستان پر ہی ہے۔دونوں سے تعلقات رکھنے
اور دوستی نبھانے کی جیسی ضرورت پاکستان کی ہے کسی اور ملک کی نہیں
ہے۔پاکستان اس سے پہلے بھی دونوں کو قریب لانے کی کوشش کرچکا ہے۔یہ کام اب
زیادہ توجہ اور عقل وہوش سے کرنے کا وقت ہے۔امریکی صدر ٹرمپ تو ریاض میں
بیانات دیکر اور آگ بھڑکا کر چلاگیا ہے۔اب آگ کو بجھانا پاکستان کے ذمہ
آگیا ہے۔کیاکچھ کیاجائے فارن آفس کے ماہرین آجکل ضرور کوئی خاکہ تیارکر رہے
ہونگے۔پاکستانی۔سعودی اور ایرانی دانشوروں کو بھی آگے آنا چاہئے۔کچھ قابل
عمل تجاویز پیش کرنی چاہئے۔سرتاج عزیز اور انکے ساتھی سب سے
پہلے3۔جنوری2016ء سے پہلے والی صورت حال بحال کرائیں۔یہی تاریخ تھی جب
دونوں کے سفارتی تعلقات ختم ہوگئے۔سعودیہ میں نمر النمر ایک شیعہ عالم دین
کی باقی ساتھیوں کے ساتھ گردن ماردینے کے بعد ایران میں سعودی سفارتخانے کو
جلایا گیا تھا۔اس عمل کو حسن روحانی اور دوسرے ایرانی لیڈروں نے بہت برا
کہاتھا۔سعودیہ نے اپنے سفیر اور عملے کو واپس بلا لیاتھا۔سرتاج عزیز اور
انکی ٹیم کو ایرانی اور سعودی عرب کے دوروں کے دوران سفارتی تعلقات کی
بحالی سے کوشش شروع کرنی چاہئے۔حج ایک دینی فریضہ ہے۔جو صرف مکہ مکرمہ میں
ادا ہوتا ہے۔سعودی عرب کو چاہئے کہ اپنے تمام تحفظات کو ایک طرف رکھتے ہوئے
ایک متعین تعداد میں ایرانیوں کو اسی سال حج کے لئے آنے کی دعوت دی
جائے۔ابھی حج میں تقریباً3ماہ کا عرصہ ہے۔پاکستان سعودی عرب سے یہ کہے کہ
ایرانی حاجیوں پر پابندی ختم کردی جائے۔برف پگھلنے میں وقت تو لگتا ہے۔اگر
پاکستان کی وزارت خارجہ یہ2کام کروانے میں کامیاب ہوجائے تو آئندہ کے لئے
راستہ نکالا جاسکتا ہے۔پاکستان ایسے کاموں کے لئے ترکی سے بھی کام لے سکتا
ہے۔انکی بھی ایران سے سرحدیں ملتی ہیں۔تجارت بھی دونوں ممالک کی آپس میں
کافی ہے۔سعودی عرب اور ایران کے مذہبی خیالات جو ہیں وہ تو جوں کی توں ہی
رہیں گے۔اس کے پیچھے صدیوں کی تاریخ اور اختلافات ہیں۔لیکن دونوں ملکوں کو
ریاستی سطح پر اپنے تعلقات میں بہتری پیداکرنا ضروری ہے۔اور اسی میں
پاکستان کا رول اہم بنتا ہے۔پاکستان کو پھونک پھونک کرقدم رکھنا ضروری
ہے۔تاکہ اس کی وجہ سے حالات مزید نہ خراب ہوجائیں۔اگر سفارتی تعلقات بحال
ہوجاتے ہیں اور ایرانی حجاج پاک سرزمین مکہ سے آجاتے ہیں۔اس کے بعد دونوں
ملکوں کے وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات کا انتظام کیاجائے اور اس ملاقات
کا پاکستان میں انتظام ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ایران اور سعودی عرب
میں2۔اختلافات ایسے ہیں جن پر ٹھنڈے دل ودماغ سے غور کرنے اور اس کے لئے
پہلے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔دونوں ملکوں کے ہاں تیل وگیس کے بڑے
ذخائر ہیں۔عالمی سطح کی قیمتیں مقررکرتے وقت دونوں کی پالیسیاں مختلف ہوتی
ہیں۔سعودی عرب تیل کی قیمتوں کو کم کرکے اپنے لئے عالمی ہمدردیاں سمیٹنے کی
کوشش کرتا ہے۔اور اس کے برعکس ایران تیل وگیس کی قیمتوں کو بلند رکھ کر
اپنی آمدنی میں اضافے کا خواہش مند رہتا ہے۔ایران پر ابھی بھی ایک خاص
مقدار سے زیادہ تیل فروخت کرنے پر پابندیاں ہیں۔کم مقدار کا تیل جب زیادہ
نرخوں پر بکے گا تو آمدنی ہوگی۔اور ایرانی اخراجات اچھے انداز سے پورے
ہوسکیں گے۔سعودی عرب اس پالیسی کو نہیں مانتا۔یہ ایک بڑا نقطہ ہے جہاں
پاکستان کو دونوں کو قریب لانے کی کوشش کرنی ہے۔مذاکرات کی میز پر دنیا کے
بڑے بڑے جھگڑے ختم ہوتے ہیں۔تیل کی قیمتوں کا مسٔلہ بھی انسانیت کی فلاح کو
سامنے رکھ کرحل کیاجاسکتا ہے۔سعودی عرب اور ایران کے درمیان دوسرا بڑا
اختلاف اپنے قریبی علاقوں میں اثرورسوخ بڑھانے کا ہے۔دونوں اپنے کو علاقے
کا چودھری ثابت کرنے کے لئے جدوجہد جاری رکھتے ہیں۔خلیج فارس میں اثر
ورسوخ،شام میں بشار الاسد کی ایرانی حمایت اور یمن میں پہلے حوثیوں کی
ایرانی حمایت اور پھر سعودی عرب کا توپ خانے اور فضائیہ سے سنی قبائل کی
حمایت۔شاید اکیلا پاکستان ان گرے علاقوں کو سفید نہ کراسکے۔یہاں دونوں
فریقوں کے مذہبی ،نسلی اور علاقائی مفادات ہیں۔کئی مسلم ملک ملکر ہی ان
علاقائی جھگڑوں کے بارے کوئی لائحہ عمل بناکر دونوں فریقوں کو دے سکتے
ہیں۔OICکا اجلاس اس کا کوئی حل تجویز کرسکتا ہے۔پاکستان اور ترکی جیسے
ممالک کو روس اور امریکہ کے بغیر ایسے مسائل کاحل ڈھونڈنا چاہئے۔شام۔یمن
اور خلیج فارس میں سعودی عرب اور ایران اپنے اپنے مفادات کے لئے کافی کچھ
کرچکے ہیں۔کئی بڑے مسلم ملک ملکر ان دونوں پر دباؤ ڈال سکتے ہیں۔اور حالات
کو مزید بگڑنے سے بچاسکتے ہیں ۔یمن میں ابھی نہ عملاً روس موجود ہے نہ
امریکہ۔اس پر پہلے توجہ دینی چاہئے۔یہاں2سال سے جاری جنگ سے کچھ حاصل نہیں
ہوااور نہ آئندہ کسی کو کچھ حاصل ہوگا۔پاکستان اور ترکی کو ملکر اس ملک میں
جنگ بندی کرانی چاہئے۔جنگ بندی کے بعد یمن کے مسٔلہ پر دونوں یمنی گروہوں
میں مذاکرات ہوں اور کوئی نہ کوئی حل نکالا جائے۔اقوام متحدہ سے بھی یمن کے
مسٔلہ پر مدد لی جاسکتی ہے۔ابتدا پاکستان کو کرنی چاہئے۔جیساکہ شروع میں
بتایا گیا سعودی عرب اور ایران کے سفارتی تعلقات کی بحالی سے بات شروع
ہو۔دوسرا کام ایرانی باشندوں کو سعودی عرب سے حج کے لئے دعوت ملنا
ہے۔پاکستان اگر یہ 2کام کرلے تو باقی مسائل کے لئے بات آہستہ آہستہ آگے
بڑھائی جاسکتی ہے۔دونوں کو قریب لانے میں پہل کرنا پاکستان کی ذمہ داری میں
آتا ہے۔ |