میرے بعض شاگرد اکثر مجھ سے پوچھتے ہیں کہ سر ہم کس موضوع
پر لکھیں۔ میرا جواب یہ ہوا کرتا ہے کہ لکھنے والے کو موضوعات تلاش کرنے کی
ضرورت نہیں بلکہ موضوعات از خود لکھاری کی تلاش میں رہتے ہیں اوراس کی منت
سماجت کرتے ہیں کہ خدارا ہمیں اپنے رشحات قلم میں شامل کر لیجئے۔ کالم نگار
جو سیاسی ، معاشی، معاشرتی،عالمی و ملکی حالاتِ حاضرہ اور روز مرہ کے مسائل
پر لکھتے ہیں انہیں تو دنیا میں قائم حکومتیں اور ان میں شامل سیاست داں
خود ہی موضوع فراہم کر دیتے ہیں۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار نت نئے
کارہائے نمایاں انجام دیتے رہتے ہیں جنہیں کالم نگار اپنا موضوع بنا تے ہیں
۔ سعودی عرب میں’ ریاض کانفرنس ‘ ، امریکی صدر کا دورہ سعودی عرب ، اسلامی
ملکوں کے سربراہوں سے خطاب، پاناما لیکس کا فیصلہ ، جے آئی ٹی کا قیام اور
اس کی کاروائی، بجٹ کا اعلان وغیرہ موضوعات کالم نگاروں کا موضوع رہے۔ ڈان
لیکس کی رپورٹ نے پرویز رشید کے بعد طارق فاطمی، راؤتحسین کو قربانی کا
بکرا بنایاہی تھا کہ کراچی سے تعلق اور پنجاب سے سینیٹر منتخب ہونے والے
نہال ہاشمی نے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری میں تمام حدود عبور کر گئے۔بقول
کالم نگار مظہر برلاس’ ’چالاک لوگوں نے ان کا گاؤں دینہ ضلع جہلم کے قریب
شو کیا تھا۔ جب میں نے چوہدری شہباز حسین سے یہ بات پوچھی تو چوہدری شہباز
حسین کہنے لگے ۔۔ نہال ہاشمی نے یہ گاؤ کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا ہوگا،
ہمارا خاندان قریب ایک صدی سے اس علاقے سے سیاست کررہا ہے ہم نے کبھی نہال
ہاشمی کو یہاں آتے نہیں دیکھا‘‘۔ سینیٹر کی سیٹ کے لیے غلط بیانی کی جائے
گی تو کبھی تو پکڑ ہو ناہی تھی۔ نہال ہاشمی نے از خود دعوت دی کہ لوگ ان کے
شجرہ نصب کے بارے میں، خاندان کے بارے میں، پنجاب سے تعلق کے بارے میں ، ان
کی سیاسی خدمات کے بارے میں، کراچی والوں کے لیے ان کی خدمات کا پوسٹ مارٹم
کریں گے۔کہتے ہیں کہ حیثیت سے بڑھ کر عزت و توقیری مل جائے توزیادہ عرصہ
ہضم نہیں ہوتی۔ نہال ہاشمی کے والد سابقہ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش ) میں
کام کیا کرتے تھے ، نہال ہاشمی نے بھی اپنی زندگی کے ابتد ائی دن وہاں
گزارے ان کا خاندان 1971میں کراچی منتقل ہوا ۔ مشرقی پاکستان میں نہال
ہاشمی جمعیت طلبہ سے بھی وابستہ رہے۔ پڑھے لکھے ، ٹیلنٹڈ آدمی ہیں۔ انہیں
پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ میں مسلسل تین بار نمائندگی کرنے کا اعزاز
بھی حاصل ہے یہ اعزاز ان کے علاوہ ذوالفقار علی بھٹو اور شریف الدین
پیرزادہ کو ہی حاصل رہا۔ 1993 میں نون لیگ میں شامل ہوئے اور بہت جلد اپنے
قائد کی قربت حاصل کر لی۔ اس کی وجہ ان میں صلاحیتوں کا پایا جانا تھا۔،
نون لیگ کو سندھ اور کراچی سے ٹیلنٹڈ افراد درکار تھے، جسٹس (ر) سید غوث
علی شاہ نون لیگ سے ناراض ہوگئے تھے ، حکومت کو سندھ خصوصاً کراچی سے
نمائندگی درکار تھی نہال ہاشمی کو سینٹ کا رکن بنا دیا گیا۔ یہ وزیر اعظم
کے مشیر بھی رہ چکے ہیں۔نون لیگ کراچی کے صدارت بھی رہے۔دیکھا جائے تو عملاً
نون لیگ کے لیے کراچی میں ان کی کارکردگی صفر رہی، یہ پیشے کے اعتبار سے
وکیل ہیں بولنا جانتے ہیں اس لیے زبانی جمع خر چ پر کام چلا رہے تھے۔ جیسا
کہ کراچی میں سیاسی خلاپیدا ہوا تھا اگر نون لیگ چاہتی تو کراچی والوں کے
دل جیت سکتی تھی ۔ یہ کام نون لیگ کے کراچی میں ذمہ داران کا ہی کرنا تھا
انہیں تو سرکاری مراعات ویسے ہی مل رہی تھیں تو کیاضرورت تھی ہل چلانے کی۔
اِسے پاناما لیکس کا تسلسل ہی کہا جائے گا ۔ اس لیے کہ جے آئی ٹی کے سامنے
میاں صاحب کے بچوں کی پیشی نون لیگیوں اور نواز شریف کے چاہنے والوں کے
دلوں پر گہرے زخم دے رہی ہے۔ان کا رویہ اور گفتگو سے اندازہ ہورہا ہے ۔
نہال ہاشمی کا واقعہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔بات کا سلسلہ یہاں سے شروع ہوا کہ
نون لیگ کے سینیٹرنہال ہاشمی کراچی میں کسی تقریب میں مدعو تھے وہاں انہوں
نے جوش خطابت میں تقریر کی اس میں وہ سب کچھ بھول گئے کہ وہ کیا کہہ رہے
ہیں، اس کے اثرات کتنی دور تک جائیں گے۔ آپے سے باہر، جذبات سے لبریز، غصب
ناک کیفیت ،ماتھے پر شکنیں، آنکھیں بند، اگر کھلی ہوئی ہوتیں تو انگارے
برسارہی ہوتیں، اچھل کود کی کیفیت ، لگ رہا تھا کہ وہ زمین پر نہیں بلکہ
مولٹی فوم کے آٹھ انچ کے گدے پر کھڑے ہوکر دشمن سے مخاطب ہیں۔ فرمایا
’’شریف فیملی کا حساب لینے والوں کو چھوڑیں گے نہیں‘‘ ، ’’ آج حاضر سروس ہو
کل ریٹائر ہوجاؤگے‘‘،’’ ہم تمہاری بچوں اور خاندان کے لیے پاکستان کی زمین
تنگ کردیں گے‘‘۔نہال ہاشمی کی اوقات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے
کہ ان کی اس تقریب کو کسی چینل نے کور نہیں کیا، انہوں نے یہ آگ کے گولے نہ
معلوم کس کے کیمرے کے سامنے برسائے، کوئی اپنے موبائل سے ان کی مووی بنا
رہا ہوگا، تین دن بعد اس نے یہ مووی سوشل میڈیا پر وائرل کردی۔ اب تو میڈیا
خواب خفلت سے ایسے جاگا جیسے کسی نے نیچے بم رکھ دیا ہو ، ہر چینل پر نہال
ہی نہال، نہال نے میاں صاحب کے تمام درباریوں کو پیچھے چھوڑ دیا ، ان کا
خیال ہوگا کہ وہ ایسا کرکے درباریوں کی صف میں اول نمبر پر پہنچ جائیں گے۔
پر ایسا نہ ہو۔ تماشہ دیکھنے ہم بھی گئے تھے پر تماشہ نہ ہوا۔ سپریم کورٹ
کے چیف جسٹس نے سو موٹو بعد میں لیا اس پہلے خود ان کی پارٹی کی جانب سے ان
کے اس اقدام کی سخت مذمت کی گئی، وزیر اعظم نے پارٹی سے ان کی بنیادی رکنیت
ختم کردی، ان سے سینٹر کی حیثیت سے استعفیٰ بھی لے لیا گیا۔ اس میں کوئی شک
نہیں کہ وزیر اعظم کی جانب سے اس انتہائی تیز رفتاری سے نہال ہاشمی کے خلاف
اقدامات کیے گئے۔ ٹی چینل پر ہر ایک نے نہال ہاشمی کے اس اقدام کی مذمت کی۔
اگلے دن موصوف کی پیشی سپریم کورٹ میں ہوئی۔ دھاڑتا، آگ برساتا شیرعدالت
میں بکری بنا میری توبہ میری توبہ کر رہا تھا۔ کہا ’’میں حالت وضوع میں ہوں
کلمہ پڑھ کر کہتا ہوں کہ کسی ادارے کو دھمکی نہیں دی ہے، میں روزے سے تھا ،
خواب میں بھی توہین عدالت کا نہیں سوچ سکتا،میں نے اپنی تقریر میں کسی
ادارے کو کو تنقیدکا نشانہ نہیں بنایا تھا بلکہ عمومی طور پر بات کی تھی،
میں اپنے کہے پر شرمندہ ہوں اور عدالت سے معافی کا طلب گار ہوں، اس لیے
امید ہے کہ عدالت مجھے معاف کر دے گی‘‘۔ شیر کی ساری شیری جاتی رہی، گیدڑ
بھپکی ہوا ہوگئی۔ عدالت نے ان کی معافی قبول نہیں ہوئی اور انہیں اظہار
وجوہ کا نوٹس جاری کرکے اگلی پیشی پر حاضر ہونے کے احکامات جاری ہوئے۔
ایک دکنی محاورہ ہے کہ’’آسمان پو تھوکے تو اپن پوچ گرتا‘‘ ۔ دکنی کے اس
محاورے میں اُس بے وقوف کی طرف اشارہ ہے کہ جو غصہ میں آپے سے باہر ہوجاتا
ہے اور آسماں کی طرف منہ اُٹھا کر تھوکتا ہے۔ اس بے وقوف کو یہ نہیں معلوم
کہ یہ تھوک خود اس کے منہ پر گرے گا۔ غصہ کی کیفیت نہال ہاشمی کے چہرے سے
صاف عیاں تھی، فرق یہ تھا کہ وہ کسی پر زمین تنگ کرنے کی بات کر رہے تھے اس
لیے لال پیلے اور بند آنکھوں کے ساتھ ان کا منہ زمین کی جانب تھا۔ چیف جسٹس
آف پاکستان نے سو موٹو لیتے ہوئے انہیں طلب کر لیا۔ پیشی پرعدالت کی برہمی
اور غصہ جائز تھا۔ عدالت نے اول فول بکنے والے کو طلب کیا تھا اور وہ نہال
ہاشمی اور اٹارنی جنرل سے مخاطب تھی۔ سخت الفا ظ ، چبھتے ہوئے جملوں کا ادا
ہونا لازمی تھا دیگر باتوں کے علاوہ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیتے ہوئے
کہا کہ نہال ہاشمی کی آواز میں کوئی اور بول رہا تھا، انہوں نے کہا کہ
ہمارے ملک میں بڑوں کی لڑائی میں بچوں کو لانے کا رواج نہیں ہے، اٹارنی
جنرل سے استفسار کیا گیا کہ بچوں کو لڑائی میں شامل کرنے والے کون لوگ ہوتے
ہیں؟ اٹارنی جنرل گویا ہوئے، بزدل لوگ ایسا کرتے ہیں،جواب میں جسٹس عظمت
سعید نے کہا بزدل نہیں بلکہ مانیا اور دہشت گرد ایسا کرتے ہیں ، مبارک ہو
مسٹر اٹارنی جنرل ! آپ کی حکومت نے سیسیلین مافیا(The Sicilian Mafia)اٹلی
کے جرائم پیشہ افراد کا گروہ)جوائن کر لیا ، مافیا والے ایسی دھمکیاں دیتے
ہیں‘‘۔ کالم نگار افتخار احمد کے مطابق جس مافیا کا ذکر کیا گیا اس مافیا
کا کردار اطالوی نسل کا تھا، تعلق اٹلی کے ایک جزیرہ نما علاقے سسلی سے تھا۔
یہ مافیا دنیا میں طاقتور ترین جرائم پیشہ گروہ میں سے تھا۔اس گروہ نے کئی
دہائیوں تک سسلی پر حکومت کی ‘۔ اس مافیا نے ظلم کی انتہا کردی تھی۔انہوں
نے بھی اپنے خلاف کاروائی کرنے والوں کو ایک ایک کرکے قتل کردیا تھا۔سسلی
مافیا کا یہی کردار یہاں وجہ بنا حوالہ دینے گا۔ جسٹس عظمت سعید کے علاوہ
دیگر دونوں جج صاحبان نے بھی نہال ہاشمی کی خوب خوب کلاس لی۔ جسٹس عظمت
سعید کی باتیں حکومت کو ٹھک سے جا کر لگیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت
خاموش رہتی ، معاملا نہال ہاشمی اور عدالت کا تھا، حکومت نے نہال ہاشمی کے
ساتھ جو کچھ کر دیا تھا وہ حکومت کے حق میں بہت تھا۔لیکن سیاست نام ہی اسی
چیز کا ہے حکومت کو عدالت کی مافیا والی بات تیر کی طرح جا کر لگی ، حکومت
کے ترجمان نے فوری طور پر بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ’’ریمارکس ضابطہ
اخلاق اور حلف کے منافی ہیں۔ حکومت کو سیسیلین مافیا اور اٹارنی جنرل کو اس
کا نمائندہ قرار دینا انتہائی افسوس ناک جس سے دنیا بھر میں ایک ملک کی
حیثیت سے پاکستان کی شناخت اور وقار کو شدید دھچکا پہنچا ہے ‘‘۔ اس سے قبل
پاناما لیکس میں معزز جسٹس نے گارڈ فادر کا ذکر کیاتھا۔حکمراں طبقے کو
سنجیدگی کے ساتھ سوچنا ہوگا کہ آخر ایسا کیوں ہورہا ہے گارڈ فادر کے بعد
سسلی مافیا ؟اس کے پیچھے کیا عوامل کارفرماہیں۔ اب معاملہ عدالت اور حکومت
کے درمیان کھینچا تانی والا ہوگیا ہے۔اسے ریاستی اداروں کے درمیان تصادم کی
کیفیت نظر آرہی ہے۔جو کسی بھی اعتبار سے ملک ، عوام اور خود حکمراں جماعت
کے لیے مفید نہیں۔ پاناما لیکس کے فیصلے کے نتیجے میں بننے والی جے آئی ٹی
اور اس میں نواز شریف کے بیٹوں کی پیشکی پر میاں صاحب کی صفِ اول کے کھلاڑی
کئی دنوں سے آپے سے باہردکھائی دے رہے تھے۔ گمان ہے کہ نون لیگ اپنی سابقہ
حکمت عملی پر دوبارہ لوٹ رہی ہے۔ کسی بھی دن کوئی دھماکہ ہوسکتا ہے۔ نواز
شریف کا دفع کرتے وزرا کئی دن سے سخت زبان استعمال کر تے دکھائی دے رہے تھے،
اس میں آخری کیل نہال ہاشمی نے ٹھونک دی۔ ایک سینئر کالم نگار جو سرکارکی
ایک بڑی سیٹ پر بھی براجمان ہیں شاعر اور ادیب بھی ہیں نے رائے دی ہے کہ
’یہ رویہ عمران خان کی جانب سے آیا ہے ‘یعنی سخت زبان استعمال کرنا، اداروں
کے خلاف باتیں کرنا، ڈرانہ دھمکانا وغیرہ وغیرہ ،عوام کا حافظہ اتنا بھی
کمزور نہیں۔ اس قسم کا رویہ کپتان کے سیاست میں پیدا ہونے سے پہلے سے موجود
ہے ۔ نون لیگ ماضی میں اس قسم کے رویے کا مظاہرہ کرچکی ہے۔ سخت زبان چھوٹے
میاں صاحب نے کم استعمال کی ہے، گھسیٹنے والی باتیں لوگ بھولے نہیں ہیں۔
عدالت پر حملہ کس نے کیا تھا؟ یہ ہماری سیاست کا پرانا طرز عمل ہے، البتہ
عمران خان نے اس تسلسل کو جاری رکھا ، نون لیگ کے شیر اور پی پی کے جیالے
بھی کچھ کم نہیں ایک سیر تو دوسرا سوا سیر ہے۔ نون لیگیوں کو قدر تحمل اور
برداشت سے کام لینا چاہیے ۔ اگر جے آئی ٹی کی رپورٹ کے نتیجے میں میاں صاحب
کو گھر بھی بھیج دیا جاتا ہے تو کیا قیامت آجائے گی۔ حکومت کرنے کا اختیار
تو پھر بھی نون لیگ کے پاس ہی رہے گا۔ کیا اس سے قبل پی پی کے وزیر اعظم کو
عدالت نے گھر نہیں بھیجا تھا، تو کیا اس وقت جیالوں نے یہی کچھ کیا تھا جو
نہال ہاشمی اور نون لیگ کے چند سیاسی اداکار کر رہے ہیں۔ پیغام دینا مقصود
تھا وہ وائیرل ہوگیا، اب نہال ہاشمی کو عدالت جو بھی سزا دے اس سے کیا کوئی
فرق نہیں پڑے گا۔ بقول اعتزاز احسن’ اگر آئندہ بھی نواز شریف حکمراں ہوئے
تو نہال ہاشمی سندھ کا گورنر ہوگا‘۔ نون لیگ کی تاریخ بھی کچھ اسی قسم کی
ہے۔ حالیہ مثال مشاہد اللہ خان اور پرویز رشید کی سامنے ہے۔آگ کو ٹھنڈا
کرنے کی ایک ترکیب یہ بھی ہے جو میاں صاحب اپناتے ہیں۔ جوں ہی کوئی واقعہ
ہوا فوری طور پر بکرا صدقہ کردیا تاکہ بڑی مصیبت ٹل جائے ۔ ہر ایک کا اپنا
اپنا انداز ہے۔صدقے کے ویسے بھی بہت فوائد ہیں۔ صدقہ بلاؤں کو ٹالتا ہے،
مصیبتوں کو دور کرتا ہے، بیماریوں کو دور کرتا ہے۔ جس چیز میں اس قدر فوائد
ہوں تو اس پرعمل کرنے کا حق تو بنتا ہے۔
میں اپنے کئی کالموں میں یہ بات کئی بار لکھ چکا ہوں کہ ہماری بڑی بڑی
سیاسی جماعتوں میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے اپنے کارکنوں کو خوب خوب تیار
کیا جاتا ہے۔کیسے نعرے لگائیں، کس طرح دھوپ گرمی بارش میں سڑکوں پر پارٹی
کے حمایت میں کھڑا رہا جائے، لیکن کوئی جماعت بھی (سوائے جماعت اسلامی کے)
اپنے کارکنوں کی تربیت پر توجہ نہیں دیتی۔ پارٹی کے وہ اراکین جو رکن قومی
اسمبلی ، سینٹ اور صوبائی اسمبلی ہیں وہ پارٹی کی صفِ اول کی ٹیم ہوتی ہے
پارٹی سربراہ کے بعد وہی منتخب نمائندے عوام کے بھی ہوتے ہیں اور اپنی
جماعت میں بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان سے بڑھ کر وزراء اور مشیران ہوتے ہیں ۔
ان کا طرز عمل گویا پارٹی کی پالیسیوں کاعکاس ہوا کرتا ہے۔ کوئی ایک بھی
گری ہوئی اور گھٹیا زبان استعمال کرے گا، غیر اخلاقی حرکت کرے گا اس کا اثر
پوری جماعت پر اور نچلے کارکنوں پر پڑتا ہیں۔
نہال ہاشمی جیسی زبان کے مالک اور بھی ہیں۔ روز ٹاک شوز میں اپنی پارٹی کے
پرچم کو بلند کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ جب تک ہمارے اندر سے ’’ہم اورمیں‘‘ نہیں
جائے گی ہم مہذب قوم نہیں بن سکتے۔ صبر ،تحمل ، برداشت کی سخت ضرورت ہے۔
سیاسی جماعتوں میں جماعتوں کے سربراہان ہی اپنے کارکنوں کو اچھے اور برے کی
ترغیب دے سکتے ہیں۔ اگر انہیں بے لگام کر دیا گیا تو پھر ہمارا اللہ ہی
حافظ ہے۔
|