پاکستان اور سی پیک

تحریر:فرزین زاہد

ملک میں سی پیک یعنی چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے پاے جانے والے خدشات'تحفظات اور منفی پروپیگینڈا کے رد کے لیے درست صورتحال عوام تک پہچانا ضروری ہیتا کہ عوام میں اس منصوبہ کے بارے میں بدگمانیاں پیدا نہ ہوں-ہمارے کچھ ناعاقبت اندیش سیاستدان اور نام نہار دانشور دانستہ یا نا دانستہ دشمن کے ہاتھوں کھیلونہ بن کر عوام کو گمراہ کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن بہت سے سنجیدہ حلقے اس بارے میں عوام میں آگاہی کی مہم بھی چلا رہے ہیں ۔ہم سب کو مل کر ان کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہیے۔اس مقضد کے لیے ہمیں سی پیک(پاک چین اقتصادی راہ داری)کے منصوبے کے بارے میں درست معلومات جاننا بہت ضروری ہے جو کہ کچھ یوں ہیچین کے صدر شی پنگ نے 2013میں ون بیلٹ اور ون روڈ کے منصوبے کا اعلان کیا ون بیلٹ اور ون روڈ سی پیک کا محور ہے۔اس منصوبے کے تحت دو طرح کے عالمی رابطے قائم کرنا مقصود تھے اول:سلک روڈ کے ذریعے اقتصادی رابطہ دوئم :سمندری ذرائع سے رابطہ۔یہ منصوبہ چین سے یورپ،مشرقی افریقہ اور لاطینی امریکہ تک جائے گا۔اب ہم ون بیلٹ اور ون روڈ کی تفصیل دیکھتے ہیں۔اس میں ایک راستہ زمینی ہیں جیسے ون بیلٹ کہتے ہیں اور دوسرا سمندری جسے ون روڈ کہتے ہیں۔پہلہ یہ کہ زمینی راستوں کے منصوبوں میں سڑکیں،ریلوے،ٹریکس،تیل اور گیس پائپ لائنز اور کء معاشی منصوبے جس میں پاور پلانٹس،سول فارمز،موٹرویز،پل،پورٹس اور ہائی اسپیڈ ریلوے لنک قائم کیے جائیں گے اور انکے ذریعے وسطی چین کے علاقے زن جیانک کو ابتد ہی سے و سطی ائشیا سے مربوط کرنے کا پلان ہے۔پھر اس انفراسٹرکچر کو پھیلا کر روس کے شہر ماسکو ،ہالینڈ کے شہر روٹر ڈیم اور اٹلی کے شہر وینس تک لے جانا مقصود ہے۔ ان منصوبوں کے لیے سڑک کی بجائے اس بیلٹ کو پہلے ہی سے موجود زمینی راستوں یعنی سڑکوں اور ریلوں کیساتھ پھیلایا جائے گا۔اس سے چین، منگولیا اور روس،وسطی چین اور مغربی ایشیا،انڈو چائنہ کا علاقہ،پاکستان اور بنگلایش،انڈیا اور میانمار کو آپس میں ملانے کی بنیاد رکھ دی جائے گی۔اس منصوبہ کو چینی صدر نے ون بیلٹ کے نام سے متعرف کروایا۔مختصرا ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ زمینی راستہ جو چین سے وسطی ایشیااور یورپ جائے۔دوسرا یہ کہ سمندری نیٹ ورک کے ذریعے بندرگاہوں اور ساحلی علاقوں میں انفراسٹرکچر منصوبوں کو زمینی راستوں سے مربوط کرانے کا پروگرام بنایا تا کہ جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا سے لے کر مشرقی افریقہ تک اور بحیرہ قلزم تک تجارتی راستوں کا مربوط نظام کر دیا جائے گا ۔اس منصوبے کو چینی صدر نے ون روڈ کے نام سے متعرف کروایا۔مختصرا ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ جو راستہ چین سے جنوب مشرقی ایشیا اور مشرقی افریقہ تک جائے ۔ون بیلٹ اور ون روڈ کو حالیہ تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ قرار دیا جا رہا ہے بلکہ ملک کی سب سے بڑی سرمایہ کاری قرار دیا جا رہا ہیاور پاکستان اس کا نہایت اہم کردار ہے۔اس منصوبہ کے حوالے سے 20اپریل 2015کو پاکستان میں چینی صدر کے دورے کے دوران مختلف شعبوں کی مفاہمت 51 یادداشتوں پر چین اور پاکستان کے درمیان کئی منصوبوں پر رستخط ہوئے تھے جن میں سے ایک یہ ہے کہ گوادر بندرگاہ مکمل 2015 سے لے کر چالیس سال تک کے لییچین کے حوالے کر دی گئی اس کے علاوہ چین کی طرف سے بحیرہ عرب کے ساحل پر واقع گوادر کی بندرگاہ کو جدید ترین بنانے کے بعد نہ صرف فاصلے کم ہو جائیں گے بلکہ یورپ کے ساتھ اٹھنے والی تجارت کی لاگت بھی واضح طور پر کم ہو جائے گی۔اس منصوبہ کے تحت یورپ اور امریکہ کو ایک نئے طریقے سے معاشی تعاون کے بندھن میں باندھ دے گا۔سی پیک (پاک چین اقتصادی راہداری)ایک بہت بڑا تجارتی منصوبہ ہے۔جس کا اصل مقصد پاکستان میں جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں گوادر (گہرے پانی والی بندرگاہ)کو چین کے خود مختار مغربی علاقے سنکیانگ سے جوڑنا اور ریلوے اور موٹروے کے ذریعے تیل اور گیس کی کم وقت میں ترسیل کرنا ہے۔ابتدا میں اس منصوبے پر اٹھانے والی لاگت 46بلین ڈالر کے برابر لگایا گیا ہے اور یہ پراجیکٹ کئی مرحلوں میں 2030تک مکمل ہو گا لیکن اس منصوبے کے لیے زیادہ تر رقوم چینی سرمایہ کاری کی صورت میں مہیا کی جائے گی اور ان مالی وسائل میں وہ آسان شرائط والے قرضے بھی شامل ہوں گے جو بیجنگ حکومت پاکستان کو فراہم کرے گی۔

دراصل ہمیں اپنے ملک کی معاشی و اقتصادی صورت حال کو زمینی حقائق کی روشنی میں دیکھنا چاہیے ،دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ نے ہمارا پورا انفراسٹرکچر تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ملکی معیشت تباہی کے دھانے پر پہنچ چکی تھی۔ایسے میں اگر چین جیسا بہترین دوست ہماری مدد کے لیے آیا ہے اور چالیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے یعنی وہ مشکل وقت میں ہماری مدد کر کے ہمیں اپنے پاوں پر کھڑا کرنا چاہتا ہے ۔توانائی کا بحران روزگار کے مواقع ایسے اقدامات ہیں جن کے اثرات انتہائی مثبت ثابت ہونگے۔اگر ہم آبادی کے اعتبار سے دیکھیں تو ساڑھے چار ارب افراد ان منصوبوں سے مستفید ہونگے۔مشھور اقتصادی میگزین اکانامسٹ کا خیال ہے کہ اس مکمل منصوبہ پر چائنہ کی مجموعی سرمایہ کاری ایک کھرب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔اس منصوبہ میں تقریبا پینسٹھ ممالک کی شمولیت متوقع ہے۔اسی حوالے سے شاہ زیب خان زدہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ ایسا بہت کم ہوتا ہو گا جب ملک کے چاروں وزرائے اعلی سیاسی اختلاف کے باوجود ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں اسی طرح ایسا بہت کم ہو گا جب ستائیس ملکوں کے سربراہ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں لیکن چین میں ساٹھ ملکوں کے نمائندہ ایک فارم پر جمع ہو کر پینسٹھ ملقوں کے لئے ایک عملی منصوبے کو عملی شکل دینے جا رہے ہیں جو عملا دنیا کا نقشہ بدل دے گا۔

یہ منصوبہ نہ صرف ملکوں اور براعظموں بلکہ تہزیبوں کو آپس میں جوڑ دے گا ۔چین تو چاہتا ہے کہ یہ منصوبہ نہ صرف پینسٹھ ممالک تک محدود رہے بلکہ دوسرے ممالک میں بھی شامل ہو۔اس منصوبہ پر عملدرآمد کے لئے پالستان میں بندرگاہواں ریلوے اور سڑکوں کے لئے سلک روڈ پر کام کرنا اور کئی معاشی منصوبے بھی شروع کر دیے گئے ہیں ۔ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس منصوبہ کی کامیابی تھوڑے دنوں پہلے ہی ہمارے سامنے آئی ہے جب ٹرین چین سے برطانیہ اور برطانیہ سے چین پہنچی ۔اس ٹرین کا نام "مشرق کی ہوا "رکھا گیا تھا۔اس ٹرین نے تقریبا آٹھ ہزار میل کا سفر طے کیا جسے دنیا کا سب سے بڑا ٹرین روٹ کہا جا ر ہا ہے۔اگر غور کیا جائے تو اس تحریک کا مقصر نہ صرف سڑکوں،سمندری راستوں اور ان سے منسلک صنعتی تجارتی منصوبوں کا ایک سلسلہ کھڑا کرنا ہی نہیں بلکہ بلکہ اس سے وابستہ ایک منفرد معاشی اور عوامی اشتراک و تعاون ہے۔اس منصوبے کے تحت پاکستانی حکومت کا ارادہ ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ کئی ایسے صنعتی و خطے قائم کئے جائیں گے جن سے نہ صرف روز گار کے نئے مواقع پیدا ہونگے بلکہ وہاں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو بھی مزید پرکشش بنایا جائے گا۔سی پیک ایک منصوبہ کی صورت میں پاکستان کے لئے ایک سنہری موقع ہے کہ اس موقع پر اپنے بہترین معاشی مفارات اور مناسب علاقائی ترقی کے مطابق وہ اس منصوبے کا فائدہ اٹھائیں۔

Sundar Qamar
About the Author: Sundar Qamar Read More Articles by Sundar Qamar: 25 Articles with 23106 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.