ٹرمپ کے دورۂ سعودی عرب پر ملاحظات کا ایک جائزہ

تحریر: قاضی رفیق عالم

ٹرمپ سعودی عرب کیا چلے گئے،ہمارے ملک میں ہاہا کار سی مچ گئی،یکطرفہ ٹریفک چلانا اسے ہی کہتے ہیں،کوئی ایک آنکھ بند کر کے کسی چیز کو دیکھتا اور دکھاتا چلا جائے تو وہ ہاتھی کو کبھی گینڈا اور کبھی بکری بتائے گا۔سعودی عرب نے اگر اپنی کامیاب سفارتکاری کے ذریعے وقت کے بدمست ہاتھی کو اپنے آگے جھکنے پر مجبور کر دیا ہے تو اس کی حکمت عملی کی داد دینی چاہئے نہ کہ بے وقوفوں کی طرح شور مچانا چاہئے۔انسان نے بڑے بڑے قوی الجثہ بھینسوں اور بپھرے ہوئے ہاتھیوں اور شیروں تک کو شکست دی ہے تو اس وجہ سے نہیں کہ انسان ان جانوروں سے زیادہ قوی الہیکل اور قوی الجثہ ہے بلکہ ان خوفناک جانوروں کو انسان نے عقل اور حکمت عملی سے ہی زیر کر لیا،اس لئے تو انسان کی عقل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ عقل بڑی کہ بھینس۔

نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اﷲ کی ہر طرح کی غیبی مدد حاصل تھی،فرشتے سرور کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک اشارہ ابرو پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دشمنوں کو دو پہاڑوں کے درمیان پیسنے کے لئے تیار رہتے تھے لیکن اس کے باوجود نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم نے حسن تدبر، عقل اور حکمت عملی کا دامن ہاتھ سے کبھی نہیں چھوڑا۔

صلح حدیبیہ نبی صلی اﷲ علیہ و سلم نے ایسی شرائط پرکیا جو بالکل دشمنوں کی شرائط پر تھا لیکن آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے پھر بھی قبول کیاکیونکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دوررس نگاہیں اس میں پھر بھی مسلمانوں کا فائدہ دیکھ رہی تھیں اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کافروں کی شرائط پر کیا گیا یہی صلح حدیبیہ پورے عرب پر مسلمانوں کی فتح کا سبب بن گیا۔

لیکن آج اگرایسا معاہدہ کوئی مسلمان سربراہ کسی کافر سربراہ سے چاہے نہ بھی کرے اور وہ صرف اسے اپنے ملک آنے دے،اپنی تیل کی سیاست استعمال کرتے ہوئے وہ وقت کی سپر پاور کو اپنی چوکھٹ پر جھکاتے ہوئے ایوارڈ لینے پر مجبور کرے تو اسے اس کی کامیاب سیاست اور سفارتکاری و حکمت عملی کہنا چاہئے نہ کہ سطح بیں لوگوں کی طرح وہ اسے مسترد کرتا پھرے۔

سوال یہ ہے کہ سعودی عرب نے آخر ٹرمپ کے آنے سے کھویا کیا ہے،وہی امریکی صدر جس کے ساتھ ہمارے حکمران صرف ایک منٹ کی ملاقات کے لئے ترستے ہیں ، اگر سعودی انھیں گھیرنے میں اس قدرکامیاب ہو جائیں کہ وہ اپنے پہلے بیرونی دورے کے لئے بھی سعودی عرب کو منتخب کرے تو اس میں ہم کیوں کسی حسد کا شکار ہوں یا کیڑے نکالیں،باقی رہا اسلامی عسکری اتحاد کو ایران کے خلاف استعمال کرنے کا معاملہ تو یہ تو کوئی بھی نہیں چاہتا کہ مسلم ممالک ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوں لیکن جب ایک مسلم ملک مسلسل دوسرے کے خلاف سازشوں اور جارحیت میں مصروف ہو ،وہ عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر اپنے مخالف کئی سنی ممالک کو تباہ و برباد کر چکا ہو،افغانستان میں اسلامی سنی حکومت ختم کروا کر وہاں پاکستان دشمن سیکولر حکومت بنوا دے،عراق میں سنی حکومت ختم کروا کر شیعہ حکومت قائم کروا ئے،یمن میں بھی یہی کوشش کی جائے،شام میں سنی اکثریت نے اٹھنے کی کوشش کی تو انھیں ہلاکو خان کی طرح حملے کر کے تباہ و برباد کر دیا جائے، لاکھوں شھید ہوئے اور لاکھوں پوری دنیا میں دربدر ہوئے جہاں ان کا کوئی پرسان حال نہیں،ایران نے یہ سب کچھ امریکہ اور روس کی مدد سے کیا ،پچھلے دور میں اوباما ایران کی پوری مدد کرتا رہا اور روس تو پہلے سے اب تک مسلسل کر رہا ہے۔ایران روس اورامریکہ کے ساتھ مل کر سنی ممالک کے خلاف عالمی طاقتوں کے ساتھ جو مرضی گٹھ جوڑ کرے،اس کے خلاف کبھی کوئی نہیں بولتا،اب اگر سعودی عرب امریکہ کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو گیا ہے تو کونسا کفر ہو گیا ہے، مرگ بر امریکا کے نعرے آج تک ایران سب سے زیادہ لگاتا رہا ہے لیکن پچھلے37سال سے کیا ایران کا بال بھی بیکا ہوا یا امریکہ اور اسرائیل کا ایران نے معمولی سا بھی بال بیکا کیا ، جتنی بھی تباہی ہوئی،ساری سنی مسلم ممالک کی ہوئی تو کیا اب باقی سنی ممالک بھی اپنی تباہی کا انتظار کرتے۔یہ بھی قرآن کا حکم ہے کہ دو مسلمان گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کی کوشش کرو اور اگر ایک اپنے ظلم و زیادتی پر اڑ جائے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اﷲ کا حکم مان لے(الحجرات:9)

حالات حاضرہ پر نظر رکھنے والا ہر شخص یہ جانتا ہے کہ جب سے خمینی انقلاب آیا،ایران اپنا مسلکی انقلاب عرب ملکوں میں زبردستی برآمد کرنے کی کوشش کر رہا ہے حتیّٰ کہ حج جیسے مقدس فریضے کو بھی ایران نے اپنی سیاست کے لئے استعمال کیا اور وہاں ہمیشہ امن عامہ کے مسائل پیدا کئے جس کی وجہ سے بھگدڑ مچنے سے ہر سال اکثر حاجیوں کی اموات ہونے لگیں اور پھر ایران اس کا الزام بھی سعودی حکومت پر ڈال دیتا ،اسی آڑ میں وہ مکہ مدینہ کو سعودی حکومت سے آزاد کرانے کے اپنے اصل عزائم اور اپنے اصل ٹارگٹ کا اظہار کرتا ہے اور اب تو ایران پورے سعودی عرب کو ملیا میٹ کرنے کی کھلی دھمکی بھی دے چکا ہے، اب اسے اسرائیل یاد رہا نہ امریکا۔سعودی عرب ہی اس کا سب سے بڑا ٹارگٹ بن گیا۔ایران سے صلح کی کوشش اب بھی ضرور ہونی چاہیے اور سعودی عرب پچھلے37برس سے پورے صبر کے ساتھ ہمیشہ ایسی کوششوں کاساتھ دیتا رہاہے لیکن ظاہرہے ہر چیزکی ایک حد ہوتی ہے۔دوسری طرف سے جواب میں جب صلح کی بجائے جارحیت ہی ملے تو آخر دوسرے فریق کو بھی اپنی لائن کچھ بدلنا ہی پڑتی ہے۔ چنانچہ سعودی عرب نے اسرائیل ،ایران اور داعش ایسے دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے ہی ایک مشترکہ اسلامک فورس بنانے کا فیصلہ کیا۔

امریکہ سے امداد لینے کا طعنہ دینے والے بتائیں کہ سعودی عرب نے تو اسی لئے اپنی اسلامک فورس بنائی تاکہ غیر مسلموں کی محتاجی ختم ہو ۔کافروں اور دہشت گردوں کے مقابلے کے لئے امت کا دفاع خود کیا جائے اور ہم اپنے باہمی جھگڑے بھی خود طے کر سکیں،پاکستان کو خاص طور پر اس کی کمان سونپی لیکن پاکستان کی حکومت اور اپوزیشن کوئی بھی کھل کر سعودی عرب کا ساتھ دینے پر راضی نہ ہوا،سعودی عرب نے پاکستان کی جتنی فیاضانہ مدد کی،اس کی مثال کوئی اور ملک پیش نہیں کر سکتا،جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تو اس وقت امریکی دھمکیوں کی وجہ سے ساری دنیا پاکستان کا ساتھ چھوڑ گئی تھی لیکن یہ سعودیہ ہی تھا جسے اگرچہ ہمیشہ امریکی اتحادی بلکہ ایران نواز لابی کے ہاں اسے ''امریکی غلام''کہا جاتا ہے،اس وقت اسی ''امریکی غلام''نے امریکہ سمیت پوری دنیا کی بھی پروا نہ کی اور پاکستان کو 3 سال تک مفت تیل مہیا کیا۔65ء اور 71ء کی جنگوں میں بھی شاہ فیصل شہید نے سعودی حکومت کے اسلحے اور خزانوں کے تمام منہ کھول دیئے اور کہا کہ پاکستان جتنا چاہے‘ان سے لے لے،ایسے دوست کے لئے چاہئے تو یہ تھا کہ ہم بھی اپنا بے لوث تعاون پیش کرتے،اس کی بجائے جب ہماری آزمائش کا وقت آیا تو ہم اگرمگر چونکہ چنانچہ کی لمبی گردان میں پڑ گئے۔ابھی بھی ہمارے وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ ہم نے اس اتحاد کا حصہ بننے کا قطعی فیصلہ نہیں کیا۔

دوسری طرف دیکھیں کہ سعودیہ نے جب اسلامک عسکری اتحاد بنانے کا اعلان کیا تو39مسلم ممالک نے بلا چوں وچرا اس اتحاد میں شمولیت کی حامی بھر لی حالانکہ ان مسلم ممالک پر سعودیہ کے احسانات بھی اس قدر نہیں جس قدر کہ پاکستان پر ہیں اور ان سے شمولیت سے پہلے کوئی مشورہ بھی نہ کیا گیا لیکن انہیں اپنے دوست پر پورا اعتماد ہے ،اسی لئے تو وہ آنکھیں بند کر کے سعودیہ کے ساتھ چل پڑے،سعودیہ نے ایک اشارہ کیا اور وہ سب حاضر ہو گئے ،اب کوئی خود ہی سوچ لے کہ لفٹ زیادہ کسے ملنی چاہئے۔آنکھیں بند کر کے اعتماد کرنے والے دوست کو یا اگر مگر میں پڑے ہوئے کو۔

میں تو سمجھتا ہوں کہ سعودی عرب کی عزت اور حیثیت اس وقت دنیا میں سپر پاور امریکہ سے بھی زیادہ ہے،کسی ملک کے ایک اشارے پر39 ممالک لبیک کہتے ہوئے اس قدر آنکھیں بند کر کے اس کے پیچھے نہیں چلتے جس قدر کہ سعودیہ کے پیچھے چلتے ہیں اور سعودیہ ہی کیا،وقت کی سپر پاور امریکہ بھی اس کے آگے جھکنے پر مجبور ہے۔کہتے ہیں کہ ٹرمپ تو اپنا اسلحہ وہاں بیچنے آیاتھا،اسے اپنے سپر ملک کی معیشت چلانے کے لئے رقم چاہئے تھی اور بس۔سو وہ لے گیا۔ہاں چلیں، وہ اسلحہ بیچنے ہی آیا تھا تو سعودیہ بھی تو انہیں اپنا تیل بیچتا ہے،ہر ملک کے پاس جو چیز ہوتی ہے،وہ اسے بیچتا ہے اور اس کے لئے منڈیاں تلاش کرتا ہے۔کچھ لو،کچھ دو کی بنیاد پر ہی ساری دنیا کا نظام ازل سے چلا آرہا ہے لیکن اس سارے عمل میں جھکا کون؟سوالی اور ملتجی بن کر اور چل کر آیا کون؟کسے کس کی زیادہ ضرورت پڑی؟میں تو کہتا ہوں کہ اس لحاظ سے عصر حاضر میں سعودی عرب اﷲ کے فضل سے امریکہ سے بھی بڑی سپر طاقت ہے۔اگر سعودی حکمرانوں کو امریکہ کی زیادہ ضرورت ہوتی تو وہ ایران نواز اوباما کو بھی ایسا دانہ ڈال کر خرید سکتے تھے لیکن اوباما جب امریکہ کے دورے پر آئے تو شاہ سلمان نے اس کا ایئر پورٹ پر جا کر استقبال کرنا بھی ضروری نہ سمجھا،اس کی بجائے انہوں نے ریاض کے اپنے ایک گورنر کو ہی اوباما کے استقبال کے لئے کافی سمجھا، ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم اسلام کے خلاف چلائی لیکن سعودیہ نے ایسے اسلام مخالف کو اس قدر مجبور کیا کہ وہ اپنی ساری مہم بھول بھال کر سعودی شاہ سے نہ صرف ہاتھ ملانے پر مجبور ہوا بلکہ اسے 54مسلم ممالک کے سربراہوں کے ساتھ بیٹھنے اور ان سے بھی ہاتھ ملانے پڑے۔کیا اس قدر طاقت دنیا کے کسی اور ملک کے پاس ہے۔اب یہ نہ کوئی کہے کہ سعودی عرب اگر اتنی بڑی سپر طاقت ہے تو وہ اپنے اور مسلم امہ کے مسائل خود کیوں نہیں حل کر لیتا،تو پہلی بات تو یہ ہے کہ سعودی عرب کو ہم نے ہر لحاظ سے سپر طاقت نہیں کہا بلکہ کچھ لحاظ سے کہا ہے اور ویسے بھی ہر سپر طاقت کے پاس اکیلے اتنا اختیار نہیں ہوتا کہ وہ اپنے سارے مسائل خود حل کر سکے۔اسے بھی بہرحال دنیا کے ملکوں کا کچھ نہ کچھ دست نگر ہونا پڑتا ہے،البتہ دنیا نے سعودیہ کی یہ طاقت اب دیکھی ہے کہ نہ صرف تقریبا تمام اسلامی ممالک سعودیہ کے ایک اشارے پر جان چھڑکنے کے لئے تیار ہیں بلکہ امریکہ جیسی کافر سپر طاقت بھی اس کے آگے جھکنے پر مجبور ہے۔

قارئین کرام! اصل بات تو بات سے بات نکلتے ہوئے بطور جملہ معترضہ آگے نکل گئی،ہم پھر اپنے اصل موضوع پر آتے ہیں کہ ایک طرف پوری دنیا خاص طور پر مسلم دنیا سعودیہ کی غیر مشروط عزت کرتی ہے ، دوسری طرف سعودیہ کے جس ملک پر سب سے زیادہ احسانات ہیں،اسی ملک میں سب سے زیادہ سعودیہ کے ساتھ چیں بچیں کی کیفیت ہے، ہم ہی جب کسی سے پوری طرح تعاون کے لئے تیار نہیں تو پھر کوئی آپ کی خواہش کے مطابق آپ کو فل پروٹوکول کیسے دے گا اور ایسی توقع پھر رکھی ہی کیوں جائے،اس کے باوجود حقیقت میں دیکھا جائے تو پھر بھی ہمیں اتنا کم پروٹوکول بھی نہیں ملا جتنا کہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے،اب یہ تو نہیں ہو سکتا تھا کہ ہمارے وزیراعظم صاحب کو ٹرمپ اور شاہ سلمان کیساتھ ہی کرسی دے دی جاتی ۔ سفارتی آداب سے ناواقف لوگوں کو پتہ ہونا چاہئے کہ مختلف سربراہان مملکت اکٹھے ہوں تو انھیں ان کے ملک کے نام کے حروف تہجی ((alphabetic کے حساب سے بٹھایا جاتا ہے ،اس لحاظ سے پاکستان کو Pکے حساب سے کرسی ملی۔تقریر بھی اسی حساب سے ہونا تھی۔اب تقریر کا حق اگر نواز شریف کو نہیں ملا تو یہ حق وقت کی کمی کی وجہ سے دوسرے 30 مسلم سربراہوں کو بھی نہ مل سکا کیونکہ کانفرنس خلاف توقع کافی لیٹ شروع ہوئی ،اس کی سعودی حکومت نے اب باقاعدہ معذرت بھی کر لی ہے لیکن جنہوں نے سعودیہ کے خلاف صرف پروپیگنڈہ کرنا ہے ، انہیں حقائق سے کیا غرض-حقیقت یہ ہے ،ہمارا جتنا حق بنتا تھا،ہمیں اس سے زیادہ نوازا گیا،اور اگر ہم دوسری طرف بھی حقائق کی بات کریں تو شاید طبع نازک پہ گراں گزرے،ہماری پتہ نہیں کیوں یہ عادت سی بن گئی ہے یا میڈیا میں ایک مخصوص ایران نواز لابی کے زیر اثر اور کچھ نے بغض معاویہؓ کے تحت ہماری یہ عادت بنا دی ہے کہ ایران ہماری چاہے جتنی مرضی توہین کرے اور ہمارے مفادات کے خلاف جتنا چاہے کام کرے،ہماری زبانیں اس معاملے میں چپ اور گنگ ہی رہتی ہیں لیکن سعودی عرب ہماری شان میں تھوڑی سی بھی کوئی کمی کر دے تو ہمارا سارا میڈیا اور مخصوص مذہبی وسیکولرسیاستدان فوراً سعودی عرب کے خلاف طوفان اٹھا دیتے ہیں، سعودی عرب اربوں ڈالر کی ہماری فیاضانہ امداد کرے،وہ تب بھی معتوب اور اگروہ ہمارے وزیراعظم کو ان کے ادھورے تعاون کے باوجود سارے پروٹوکول دے کر صرف تقریر نہ کرا سکے ، تب بھی وہ معتوب۔
حد چاہئے سزا میں عقوبت کے واسطے

دوسری طرف ایران کابھی کردار دیکھناچاہیے جس کو اسلامی بھائی سمجھتے ہوئے پاکستان نے خفیہ ایٹمی مدد دی،اسی ایران نے تھوڑا سا مشکل وقت آنے پر یہ راز دنیا کو منکشف کر دیا کہ اسے یہ تعاون پاکستان سے ملا ہے،ایران نے اپنی اس غداری کے ذریعے امریکہ کو پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگانے کا موقع دیا۔وہ امریکہ جو بظاہر ایران کا دشمن نمبر ایک تھا،اسے ہمارے اس'' برادر اسلامی دوست''نے ہی ہمارے اوپر چڑھا دیا، اسی وجہ سے ہمارے قومی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی عزت بھی خاک میں مل گئی اور انھیں کئی سال نظربندی کی قید ومشقت سے گزرنا پڑا،کیسا حیرت کا مقام ہے کہ اگر یہی ایران پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدے کرے ،وہ کلبھوشن جیسے بھارتی ایجنٹ کو اپنی سرزمین سے اپنے پاسپورٹ پر پاکستان داخل ہونے اور بلوچستان و سندھ میں علیحدگی اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں سہولت کار بنے ، یہاں تک کہ ایران پاکستان پر حملوں کی کھلی دھمکیاں دے، ایران کی پاکستان کے خلاف اتنی کھلی اور ننگی جارحیت پر بھی ہمارے اس طبقے کی زبانیں مکمل خاموش اور گنگ رہتی ہیں اور اگر بولیں تو پھر بھی ایران کے حق میں کہ یہ اسلامی اتحاد کا حصہ بننے کی وجہ سے ایران ہمارے خلاف ہوا ہے،اس لئے یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس میں قصور ایران کا نہیں، ہمارا ہی ہے لیکن سعودی عرب نے جوں ہی ہمیں تھوڑی سی کم لفٹ کرا دی تو اس کو فورا ہمارے خلاف جنگ کی ایرانی دھمکی سے بھی بڑا ایشو بنا دیا گیا،یہاں کسی نے نہیں کہا کہ سعودیہ نے جو تھوڑی سی کم لفٹ کرائی تو اس میں بھی قصور سعودیہ کا نہیں،ہمارا ہے کیونکہ ہم اپنے بے لوث دوست کے ساتھ اس کے کڑے وقت میں جس طرح غیر جانبدار بن گئے،یہ تو اس کا بہت ہی کم نتیجہ تھا۔

آئیے آج ہم لگے ہاتھوں بتاتے چلیں کہ خود ایران ہمارے اعلی ترین سرکاری وفد کے ساتھ ایران میں کیا سلوک کرتا ہے اور کس قدر ہمیں لفٹ کراتا ہے،اس کی گواہی ملک کے معروف کالم نگار محترم جناب جاوید چودھری کے ایک کالم سے لیتے ہیں،گزشتہ سال جب وزیراعظم نوازشریف اور آرمی چیف راحیل شریف اپنے میڈیا پرسنز کے ساتھ سعودی عرب اور ایران کے مصالحتی دورے پر گئے تو ان کے وفد کے ساتھ دونوں ملکوں میں کیسا سلوک ہوا،یہ موازنہ انہی کے قلم سے پڑھئے اور سر دھنئے،وہ لکھتے ہیں ۔
ریاض ہماری پہلی منزل تھی،سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے پاکستانی وفد کے لئے لنچ کا اہتمام کر رکھا تھا،ہم شاہی محل میں پہنچے تو شاہ سلمان نے اپنی پوری کابینہ ، شاہی خاندان کے اہم افراد اور مسلح افواج کے اعلی عہدیداروں کے ساتھ پاکستانی مہمانوں کا استقبال کیا،لنچ کے دوران بھی سعودی عرب کے تمام اعلی عہدیدار ،گورنرز اور وزراء موجود تھے۔''

قارئین کرام!اب دیکھئے آگے ایران میں پاکستانی وفد کے ساتھ کیسا سلوک ہوا، جناب جاوید چودھری کی زبانی ہی ملاحظہ کیجئے،وہ لکھتے ہیں:
''ہم نے نفسیاتی اور سماجی سطح پر جتنا والہانہ پن سعودی عرب میں دیکھا ،اتنا ہمیں ایران میں نظر نہیں آیا،سعودی عرب نے پاکستانی قیادت کے اعزاز میں شاہی عصرانے کا اہتمام کیا اور اس میں ملک کے تمام اہم لوگوں کو مدعو کیا تھا،سعودی افواج کے سربراہ بھی لنچ پر موجود تھے،وفد کے تمام ارکان کو محل میں بھی لے جایا گیا،ہم لوگ میٹنگ کے دوران محل کے مختلف کونوں میں بیٹھے رھے اور محل کا عملہ ہماری خدمت کرتا رہا،سعودی حکومت نے ہمیں شاہی ہوٹل میں بھی ٹھہرایا جبکہ اس کے مقابلے میں ایران کا رویہ سخت تھا،ایئر پورٹ پر پروٹوکول کی گاڑیاں بھی کم تھیں،ہمیں ملاقات سے پہلے شہر میں ایک ایسے ہوٹل میں لے جایا گیا جس کا پورچ بہت چھوٹا تھا،چنانچہ وزیراعظم کے سوا وفد کے تمام ارکان سڑک پر گاڑیوں سے اترے اور پیدل چل کر لابی تک گئے،ان میں آرمی چیف بھی شامل تھے،ایرانی حکومت اگر چاہتی تو اس سے بہتر انتظام کر سکتی تھی،یہ وفد کو سٹیٹ گیسٹ ہاؤس بھی لے جا سکتی تھی، سٹیٹ گیسٹ ہاؤس صدارتی محل کے قریب بھی تھا اور یہ وفد کے لئے باعث عزت بھی ہوتا،پاکستانی وفد نے آدھ گھنٹہ نائب صدر اسحاق جہانگیری سے ملاقات کی اور ایک گھنٹہ صدر حسن روحانی کے ساتھ ملاقات ہوئی،ملاقات کی صرف چھ لوگوں کو اجازت دی گئی،باقی وفد صدارتی محل کے باہر فٹ پاتھ پر کھڑا رہا، اس دوران ایران کی خفیہ ایجنسی کے اہلکار دنیا ٹی وی کے اینکر پرسن وجاہت سعید خان کا کیمرہ بھی چھین کر لے گئے،یہ کیمرہ بعد ازاں طارق فاطمی اور ایرانی وزیر خادجہ کی باہمی کوشش سے واپس ملا لیکن اس سے میموری کارڈ غائب تھا،یہ سلوک دنیا کے کسی ملک میں صدر یا وزیراعظم کے وفد میں شامل سینئر صحافیوں کے ساتھ نہیں ہوتا،ہم چونکہ چند گھنٹوں کے وقفے سے ریاض سے تہران پہنچے تھے چنانچہ ہمیں اس رویئے سے زیادہ تکلیف ہوئی،ہم لوگوں نے سعودی عرب کو زیادہ مہمان نواز ، حلیم اور گرم جوش پایا جبکہ اس کے مقابلے میں ایرانیوں کا رویہ سخت ، سرد اور غیر سفارتی تھا،ایران کے سیکورٹی اہلکاروں نے بھی ہمیں دوست کی طرح "ٹریٹ" نہیں کیا"
(زیرو پوائنٹ ، یہ ملاقات بھی ضروری ہے،از قلم: جاوید چودھری،روزنامہ ایکسپریس 21جنوری 2016)

قارئین کرام!اب آپ نے ملاحظہ کیا ، کون ہمیں دوست اور بھائی سے بھی بڑھ کرچاہتا ہے اور کون ہمارے ساتھ دشمن کی طرح سلوک کرتا ہے۔ایران نے ہمارے میڈیا کے سینئر صحافیوں کے ساتھ کیا اچھا سلوک کرنا تھا،انہیں تو فٹ پاتھ پر کھڑا کر دیا،ان کے کیمرے بھی چھین لئے ،آرمی چیف کو بھی صحافیوں جتنا پروٹوکول دیا گیا اور انہیں بھی پیدل چلنے پر مجبور کیا گیا،دوسری طرف سعودیہ میں صحافیوں سمیت تمام مہمانوں کو شاہی محل میں ٹھہرایا گیا اور ساری سعودی قیادت نے سب کے ساتھ مل کر لنچ کیا۔اب قارئین دونوں طرف کا فرق خود ملاحظہ کر لیں، اور یہ نہیں کہ ہم یہ بات کسی فرقہ وارانہ تعصب کے تحت کر رہے ہیں بلکہ اس بدسلوکی کا اعتراف اور مذمت تو ایک شیعہ کالم نگار بھی کرنے پر مجبور ہو گیا جو اس دورے میں شامل تھا،،اس کا نام اور کالم اب ہمارے سامنے نہیں لیکن اس کا خلاصہ بتاتے ہیں،اس نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ اگرچہ میرا تعلق شیعہ مکتب فکر سے ہے لیکن ہمیں ملکی معاملات کو اپنے کسی ہم مسلک ملک کی عینک سے نہیں دیکھنا چاہئے،کوئی بھی ملک اپنے ملکی مفاد کو پہلے دیکھتا ہے اور اس سلسلے میں دوسرے ملک کے ہم مسلک افراد کے مفاد یا حقوق اور عزت وغیرہ کو بعد میں رکھتا ہے،اس نے لکھا ، ہم بے شک ایران کے ہم مسلک ہیں لیکن جو عزت ہماری اپنے ملک پاکستان میں ہے،ویسی ہمیں کہیں بھی نہیں مل سکتی،اس کی مثال اس نے اسی دورہ ایران کی دی اور بتایا کہ وفد میں ایران کے جو ہم مسلک تھے ،ایران نے انہیں بھی کوئی خاص عزت نہ دی چنانچہ اس نے اپنے ہم مسلک بھائیوں سے گزارش کی کہ ہمیں اس سے سبق حاصل کرتے ہوئے ہر جگہ صرف اور صرف اپنے ملک کے مفاد کو ہر چیز پر ترجیح دینی چاہئے۔

قارئین کرام! اب آخری ایک دو باتیں کہ ٹرمپ کی بیوی میلانیا سے شاہ سلمان نے ہاتھ کیوں ملایا اور ٹرمپ کے ساتھ تلواریں اٹھا کر رقص کیوں کیا گیا۔پہلی بات تو یہ ہے کہ شاہ سلمان 80،90 سال کے بوڑھے بزرگ ہیں اور دادا پردادا کی عمر کے ہیں،ان کے لئے میلانیا تو ایسے ہے جیسے کسی بچے سے ہاتھ ملا لیا 'اگرچہ ہمارے نزدیک شریعت میں اس کی بھی اجازت نہیں،پیرانہ سالی کے باوجود ان کے لیے بہرحال احتیاط لازمی تھی لیکن بات وہی ہے کہ سعودی قیادت کوئی بھی کام کرے تو ایران نواز لابی اسے فورا آڑے ہاتھوں لیتی ہے اور اگر وہی کام بلکہ اس سے زیادہ ایرانی قیادت کرے تو کوئی اسے موضوع ہی نہیں بناتا،ایسے لوگوں کے دماغ کی میموری سے یہ بات تو کسی حرف غلط کی طرح ڈیلیٹ ہو گئی ہو گی تو ہم پھر یہ میموری ری کال کیئے دیتے ہیں،جی ہاں یہ 2007ء کا واقعہ ہے جب یہ خبر با تصویر آئی کہ ایران کے صدر "عزت مآب" محترم جناب احمدی نژاد نے ایک ایرانی خاتون کے ہاتھ چوم لئے( BBC NEWS 3may 2007)، مغرب میں تو یہ خبر بہت چلی ،پاکستان میں بھی تھوڑی سی چلی لیکن ایران نواز میڈیا نے اسے حسب سابق دبا دیا اور اس پر ویسا ردعمل نہ دیا جیسے سعودی شاہ سلمان کا میلانیا کا صرف ہاتھ ملانے پر طوفان کھڑا کر دیا،ویسے آپ نیٹ پر جائیں تو آپ کو مزید یہ دیکھ کر حیرانی ہوگی کہ ایرانی علماء اور ائمہ کسی نوجوان لڑکے سے لے کر اپنے ہم عمر تک کو ہونٹوں سے ہونٹ لگا کر ملتے ہیں،اب اسے کیا کہیں گے،قارئین خود سوچ لیں،اس لئے کہ
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی

سعودیہ کی مخالفت برائے مخالفت پر ادھار کھائے لوگوں نے ایک اور نام نہاد اعتراض بھی بڑا جڑ دیا کہ جناب دیکھیں ،ٹرمپ کے ساتھ سب عربیوں اور شاہ سلمان نے ڈانس کیا ، اب اکثر لوگوں نے یہ بات بغض کے تحت پھیلائی اور بعض نے صرف دیکھا دیکھی،حالانکہ یہ وڈیو ہم نے خود دیکھی،اس میں کوئی مروجہ ڈانس والی بات نظر نہیں آئی،سب لوگ تلواریں لہرا رھے تھے اور ساتھ کچھ جنگی رجز پڑھ رھے تھے اور وہ بھی شریعت میں ممنوعہ موسیقی کے آلات پر نہیں بلکہ صرف دف پر جس کی شریعت میں اجازت ہے،یہ عربوں کی ایک پرانی ثقافت ہے اور بس،اب اس جوش سے تلواریں لہرانے کے دوران جسم تھوڑا سا جو اٹھ جاتا ہے یا جھوم جاتا ہے ،اسے رقص یا ڈانس کہنا ایک بہت بڑا مذاق ہے، اسے زیادہ سے زیادہ ایک جنگی مظاہرہ کہا جا سکتا ہے ۔ہمارے ہاں کوئی جوش سے نعرے لگائے تو اس کا بھی جسم کافی جھوم جاتا ہے،تلواریں لہرانے والوں کا تو اتنا بھی جسم نہیں جھوما تو اسے مروجہ ڈانس کہنا بدترین تعصب اور جہالت کے سوا کچھ نہیں۔شاہ سلمان ٹرمپ کو مغربی یا عربی موسیقی سے بھی لطف اندوز کر سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا کوئی خلاف شریعت کام نہیں کیا۔مہمان کو کچھ نہ کچھ محذوذ کرنا ضروری ہوتا ہے لیکن سعودیہ نے پوری احتیاط کی کہ صرف اپنی اور اسلامی ثقافت کا ہی ہر جگہ مظاہرہ کیا جائے،ٹرمپ کو جب صدارتی محل لایا گیا تو اسے گھو ڑوں کے دستے کے جلو میں لایا گیا،غرض ہر جگہ عربوں کی جنگی ثقافت کا ہی مظاہرہ پیش ہوا ،رقص و ڈانس کا کہیں شائبہ بھی نہ تھا۔

نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جب تبوک سے وقت کی سپر پاور رومیوں کو پسپا کر کے فاتحانہ مدینہ تشریف لائے تھے تو چھوٹی بچیوں نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں تعریفی اشعار گا کر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا استقبال کیا تھا(الصادق الامین از ڈاکٹر لقمان سلفی) اور اس پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کوئی اعتراض نہ کیا، ایک بار اسی طرح جب حبشی اپناکھیل اور جنگی مظاہرہ پیش کر رہے تھے تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کو اپنے حجرے میں سے انھیں یہ مظاہرہ دکھایا تو ٹرمپ کے سامنے جو مظاہرہ ہوا ،وہ تو صرف مردوں اور بڑی عمر کے لوگوں کا تھا،اس پر بھی اعتراض بغض معاویہ رضی اﷲ عنہ کے سوا کچھ نہیں۔

اﷲ کا فرمان ہے:’’کسی قوم(چاہے کافر ہی کیوں نہ ہو)کی دشمنی تمہیں بے انصافی اور زیادتی پر مجبور نہ کر دے‘‘(المائدہ:8)

باقی رہا کہ سعودی عرب ٹرمپ سے مل کر ابنی ملکی یا ملی غیرت کا کوئی سودا کر رہا ہے تو اس بارے بھی ہمارے یہ معترض'' مہربان''خاطر جمع رکھیں ،ایسا سودا نہ پہلے کبھی سعودی حکمرانوں نے کیا ہے نہ آئندہ کبھی ان شاء اﷲ کریں گے۔9/11کے مبینہ حملہ آوروں اور سہولت کاروں میں سعودیہ کے ہی زیادہ لوگ شامل تھے لیکن سعودیہ نے ہمارے حکمرانوں کے برعکس انھیں کبھی امریکہ کے حوالے نہ کیا بلکہ سعودیہ میں ہی ان پر مقدمات چلائے ۔اسی طرح سعودیہ پر امریکہ کبھی کوئی ڈرون حملہ کرنے کی جرأت بھی نہیں کر سکا۔شاہ سلمان کی دینی محبت و غیرت کا تو یہ عالم ہے کہ ٹرمپ کے پیش رو امریکی صدر اوباما جب سعودیہ آئے تو جوں ہی اذان ہوئی تو شاہ سلمان نے کسی پروٹوکول کی پروا نہ کرتے ہوئے اور وقت کی سپر پاور کے صدر کی حیثیت کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے اوباما اور اس کی اہلیہ کو راستے میں ہی چھوڑ چھاڑکر نماز کے لئے روانہ ہو گئے،اور اس بار شاہ سلمان نے ٹرمپ اور میلانیا کو قہوہ بھی ہمیشہ دائیں ہاتھ سے پینے کی خصوصی ہدایت کی جس پر انہوں نے عمل بھی کیا ۔کیا آج کوئی بھی مسلم حکمران ایسا عظیم جرأت مندانہ اسلامی کردار پیش کر سکتا ہے،اس لئے سعودیوں کو دینی و ملی غیرت کا درس دینے وا لے مطمئن رہیں،وہ اس معاملے میں ہم سے بہت آگے ہیں ،نہ انہوں نے ماضی میں اسلامی اصولوں پر کوئی سمجھوتہ کیا ہے نہ آئندہ کریں گے۔ان شاء اﷲ
بس ہم اپنی اصلاح کریں اور اپنے گریبان میں جھانکیں تو زیادہ بہتر ہے۔

Munzir Habib
About the Author: Munzir Habib Read More Articles by Munzir Habib: 193 Articles with 135101 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.