پہلے عشرے میں عبادت،دوسرے میں افطار پارٹیاں اور تیسرے میں عید کی تیاریاں:ہمارا ماہِ رمضان

افسوس !مسلم سوسائٹی سے مستحقین ،یتیموں ،بیواؤں اور غریبوں کی امداد کا جذبہ مردہ ہوچکا ہے

اُمت محمدیہ پر ماہ رمضان میں روزے فرض کیے گئے ہے۔روزہ کی فرضیت کا مقصد محض بھوک وپیاس نہیں بلکہ شجر تقویٰ کی آبیاری ہے۔روزے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ بندے ایک ماہ کی اختیاری بھوک کے ذریعے غریبوں،مفلسوں اور تنگدستوں کی دائمی اضطراری بھوک کا احساس کر سکیں۔ صدقات، خیرات اور زکوٰۃ کی ادائیگی کی ذریعے مستحقین کوخود کفیل لوگوں کے زمرے میں شامل کرسکیں۔بحمدہ تعالیٰ!نورونکہت والامہینہ ہمارے درمیان موجود ہے۔مگر افسوس اس بات کا ہے کہ اب اس کی آمد اور موجودگی کے باوجود ہم میں خاطر خواہ انقلاب نظر نہیں آتا ۔ روزوں کی فرضیت کا مقصد فوت ہوتا جارہاہے۔مستحقین ،یتیموں ،بیواؤں اور غریبوں کی امداد کا جذبہ بھی مردہ ہوچکا ہے۔اسلاف کرام ماہِ رمضان کی آمد پر خود کو تیار کرتے بندگی کے لیے اور ہم بازاروں میں سحروافطار میں لذیذپکوان میں لگنے والی اشیاؤں کی خریدوفروخت میں مصروف ہوتے ہیں۔نماز فجر کے بعد تلاوت قرآن کے اہتمام کی بجائے ٹینس اور کرکٹ کھیلنے کا مشغلہ پروان چڑھ رہاہے۔نوجوانوں کا صبح اور رات میں موٹر سائیکلوں پردھوم مستی کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔کسی کو ٹریفک میں کسی گاڑی سے دھکالگ جائے تو وہ غصے میں لال پیلاہوکر ایسے گھورتا ہے جیسے ابھی کچاچباجائے گاجب کہ روزہ نام ہے صبرکا۔ماہِ رمضان کے پہلے ہفتے میں ہر کوئی خوب جوش وخروش کے ساتھ عبادت میں مشغول نظرآتا ہے مگر جیسے جیسے دن گزرتے جاتے ہیں یہ جذبہ بھی سرد ہوجاتا ہے اور پھر شروع ہوتا ہے دوسرے عشرے میں افطار پارٹیوں کا زور ۔ہونا تو یہ چاہیے کہ مدارس کے طلبا،یتیموں اور مسکین وناداروں کے لیے روزہ افطاری کا سامان کیاجاتا مگر ہم اپنے دوستوں کے ساتھ دعوتِ افطار کا اہتمام کرتے ہیں،پھل فروٹوں کی بھرمار کے ساتھ بریانی،چکن فرائے اور دیگر خوانِ نعمت کا انتظام ہوتاہے۔اس کا کچھ حصہ تو کھایاجاتا ہے مگر اکثر محفلوں میں کھانا وافر مقدار میں بچ جاتا ہے اور اسے پھینک دیاجاتاہے۔جب کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہاسے فرمایاکہ اے عائشہ!روٹی کی عزت کرو،جس قوم سے یہ روٹھ کر گئی ہے دوبارہ واپس نہیں آئی ۔

دوسرے عشرے میں افطار پارٹیوں کی مصروفیات سے فراغت کے بعد شروع ہوتا ہے عید کی تیاریوں کا سلسلہ۔ پہلے ہی سے عید کی تیاریاں مکمل کر لینے والابھی دوستوں کے ساتھ بازاروں میں بھیڑکرنااور راہ گیروں کو تکلیف دینااپنا فرض منصبی تصورکرتا ہے۔بازاروں کی رونق اور خریدوفروخت کی ریل پیل دیکھ کر احساس ہی نہیں ہوتا کہ شہر مندی اور معاشی بحران کا شکار ہے۔مارکیٹ میں مردوخواتین کا ایک ایسا جمگھٹاہوتا ہے جو عید کی تیاریاں تومکمل کرلیتاہے مگر اﷲ کے پسندیدہ مذہب کی تعلیمات کی دھجیاں بکھیر کررکھ دیتا ہے۔اس مہینے میں چوک، چوراہوں اور اہم راستوں پرچھوٹی بڑی دکانوں کی لمبی قطاریں نظرآتی ہیں۔سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیااَتی کرمن پردوسروں کو تکلیف دے کر کاروبار کرنے کی اسلام اجازت دیتا ہے؟اور پھرپچیس روزے سے شروع ہوجاتی ہے عید پر سیروتفریح کی پلاننگ۔پُرفضامقامات کا انتخاب کرنااورٹراویلس ایجنسیوں میں گاڑیاں بُک کروانا وغیرہ۔ اٹھائیس روزے کے بعد سب کی نگاہیں ٹِک جاتی ہیں آسمان پر۔گویاکہ دو تین دن چاند کے دیدار پرنکل جاتے ہیں۔ہلالِ عید نظر آنے کے بعد تمام تر آرائش وزیبائش کے ساتھ دورکعت نماز عید اداکیے اور رخصت ہوگئے اپنے بنائے ہوئے سفر کے شیڈول پر۔چارچھ ایکسیڈنٹ ہوئے، مرحوموں کے اوصاف پر اخبارات میں دو چار تعزیتی مضامین شائع ہوئے اور پھر روزمرہ کی روِش پر گامزن ہوگئے۔کیاروزوں کی فرضیت کایہی مقصد ہے ؟

یہ ایسے تلخ حقائق ہیں جن سے انحراف ناممکن ہے۔ہزاروں روپیہ قوم مسلم عید کے دن سنیما گھروں میں لُٹادیتی ہے۔سو روپے کی قیمت اس بیٹے کے دل سے پوچھیے جس کی نظروں کے سامنے باپ کی لاش ہے اور کفن خریدنے کے لیے سو روپے کی کمی ہے۔اس بیٹے کے دل پراس وقت کیاگذرے گی جب وہ کفن کے لیے غیروں کے سامنے ہاتھ پھیلائے گا؟آج بھی شہر مالیگاؤں میں ایسے خاندان موجود ہیں جن کے بچے جمعہ کے دن والدین سے بریانی کی خواہش کرتے ہیں اور ماں باپ بچوں کے ہاتھوں میں سوکھی روٹیاں تھماتے ہیں۔آج بھی ایسے گھر موجود ہیں جہاں بچے کہتے ہیں:امی!سب لوگوں نے تراویح پڑھ لی اور ہم نے ابھی تک روزہ بھی نہیں کھولا۔
وہ بچے جن کو بیوہ ماں سُلا دیتی ہے فاقے سے
کسے معلوم ان بچوں کی کیسی عید ہوتی ہے

سحروافطار کی تیاری،دعوتِ افطار کااہتمام،عید کی خریدی اور عید پر تفریح طبع کے نام پر ہم ہزاروں روپے خرچ کردیتے ہیں۔ ہمیں تواَب یتیم بچوں کی یتیمی،بیواؤں کی مجبوری ، غریبوں کی امداداور مستحقین کی ضرورت کا بھی خیال نہیں رہتا۔ہم مست ہیں اپنی فیملی میں۔ہم نے بچپن میں دیکھاتھا کہ نماز عصر کے بعدکھانااور فروٹس پڑوسیوں میں تقسیم کیے جاتے تھے مگر افسوس! آج ہم اتنے مفاد پرست اور خود غرض ہوگئے ہیں کہ بریانی بن کر ختم بھی ہوجاتی ہے اور پڑوسیوں کو خبر تک نہیں ہوتی۔جب کہ مفہوم حدیث ہے کہ نیاپکوان بناؤتو پانی بڑھا لیا کرو تاکہ لقمہ تمھارے پیٹ میں پہنچنے سے پہلے پڑوسیوں کے گھر تک پہنچ جائے۔شریعت اسلامیہ تو غریبوں کے حقوق یہاں تک بیان کرتی ہے کہ اگر تم کسی وجہ سے پڑوسیوں میں پھل تقسیم نہیں کر سکتے تو ان پھلوں کے چھلکوں کو ایسی جگہ نہ ڈالو جہاں غریب بچوں کی نظرپڑے اور وہ ان پھلوں کا مطالبہ کریں۔کاش کہ خرافات میں پیسہ خرچ کرنے کی بجائے یتیموں کی کفالت کی جاتی ؟ بیواؤں ، غریبوں اور مسکینوں کی امداد کی جاتی؟جن لوگوں پر قرض باقی ہے وہ بے جا خریداری اور سیروتفریح کرنے کی بجائے اپنا قرض ادا کریں؟اور ہم سب مل کر اسلامی تعلیمات پر ایسے عمل پیرا ہو جاتے کہ ہر ایک کی زندگی میں اسلامی انقلاب بپاہوتا اور اسلام کی حسین تصویر غیروں کے سامنے پیش ہوتی اور ان کے دل بھی مذہب حق کی طرف راغب ہوتے۔
٭٭٭

Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 731402 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More