ایک کتاب جسکا عنواں ’’ احساس کا سفر‘‘ پر جب پڑی ہماری
نظر دل نے کہا دیکھیں آخر ہے کیا اسکے اندر ۔دماغ نے کہا پتہ تو چلے کے کس
کا احساس ہے اور کہاں سفر کر رہا ہے۔اس سوچ و فکر نے ہمیں اس کتاب کا
مطالعہ کرنے کے لئے رضامند کیا۔
ہم نے اسے بغور ورق در ورق پڑھنے کا عمل شروع کیا تو ہمیں یہ احساس ہونے
لگا واقع یہ تخلیق کا رکے احساسات ہی کا کمال ہے کہ وہ اتنے سنجیدہ کلام سے
شائقِ شعر و سخن کو مستفید ہونے کا یہ خوشگوار احساس فراہم کیا۔ ہم سمجھتے
ہیں کہ تخلیق کار نے اپنے دلی جذبات،احساسات،خیالات ،دماغ میں ہل چل مچاتی
ہوئی سوچ و فکر، احتجاج کرتی ہوئی ضمیر کی آواز اور دل ودماغ میں طوفان
اُٹھاتے ہوئے سوچ وفکر کے تانے بانے سمیٹ کر اُنہیں نہایت ہی دیانتداری کے
ساتھ کلام کی شکل میں پیش کرنے کامیاب کوشش کی ہے جو قابلِ تحسین ہے۔
’’احساس کا سفر‘‘ شعری مجموعہ ہے جسکے خالق ظفر رانی پوری ہیں۔ظفر رانی
پوری کا مختصر سا تعارف یہ ہے کہ انکا تعلق ایک ایسے گھرانے سے ہے جو گزشتہ
دیڑھ سو سال سے بھی زیاد عرصہ سے دنیائے ادب کے لئے اپنی خدمات پیش کرتے
چلے آرہے ہیں۔موصوف کا پورا نام علا الدین ظفر ہے قلمی نام ظفر رانی پوری
اور تخلص ظفرؔ رکھتے ہیں۔ بہار کی سرزمیں سے تعلق رکھتے ہیں،سیوان انکا
آبائی مقام ہے جہاں ایک قصبہ رانی پور ہے وہیں پر انکا مستقل ٹھکانا ہے اسی
مناسبت سے اپنے مقام کی پہچان قائم رکھنے کے لئے موصوف نے اپنی پہچان بنالی
ہے۔اسی نام ظفر ؔ رانی پوری سے دنیائے ادب میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔اپنے
منفرد لب و لحجہ سے اپنی ایک منفرد پہچان بنا رکھی ہے۔
’’احساس کا سفر‘‘ کے تخلیق کار کے بارے میں ڈاکٹر محسن جلگانوی حیدرآباد،
ڈاکٹر امر امیری دہلی،جہانگیر انس بہار نے بہت ہی متاثر کن انداز میں اپنے
جذبات، خیلات، احساسات کے ساتھ ساتھ اپنے تعلقات کا بھی تفصیلی ذکر کیا
ہے۔جسکے مطالعہ سے ظفرؔ رانی پوری کی شخصیت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
مجموعہ کلام کے مطالعہ کا لطف دُبالا ہو جاتا ہے۔تذکرہ شعرائے سارن اور نئی
دنیا ہفت روزہ نئی دہلی میں شائع ہوئے ظفرؔرانی پوری سے متعلق تاثرات بھی
پیش کئے گئے ہیں لیکن ایک کمی سی ہم نے محسوس کی وہ یہ کہ تخلیق کار نے خود
سے کچھ اپنے خیالات کا اظہار نہیں کیا نہ ہی مرتبہ شاہین ظفر نے اپنے کوئی
خیالات قارئیں کے لئے پیش کئے، پتہ نہیں اسکے درپردہ کس احساس کا دخل ہے
،خیر یہ تشنگی تو رہی ہے۔ہو سکتا ہے اسے شدت سے محسوس کیا جائیگا۔
چلئے ہم اب آپکو اپنے مطالع کی روداد بتاتے ہیں۔ مجموعہ کا پہلا کلام حمد و
ثنا کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اس کلام کی تخلیق سورہ فاتحہ سے متاثر ہو کر
تخلیق کار کے ذہن میں آئی۔
ساری حمد و ثنا خدا کے نام
بزرگی برتری ہے جس پہ تمام
ذات تیری بڑی رحیم و کریم
اور ہستی ہے تیری سب سے عظیم
یہ اشعار بھی اسی حمد کے ہی ہیں اسکا بھی مفہوم دیکھتے ہوئے چلتے ہیں :
ہرمدد تجھ سے مانگتے ہیں ہم
ہیں گنہ گار، ہو نگاہِ کرم
خیر کا معاملہ خدا کر دے
راہ سیدھی مجھے عطا کردے
حمدو ثنا کے ساتھ ساتھ درود وسلام کی اہمیت اور حضور اکرم ﷺسے اپنی عقیدت
کا خلاصہ کچھ اس طرح سے کرتے ہوئے اپنے خیالات کا یوں اظہار کرتے ہیں:
ہے عرش پر بھی درود و سلام کی خوشبو
کہاں نہیں مرے آقا کے نام کی خوشبو
جو خوش نصیب ہیں ان کو ہی دست رحمت سے
ملے گی حشر میں کوثر کے جام کی خوشبو
چند اشعار تو ایسے ہیں جنکے مطالعہ سے محسوس ہوتا ہے کہ اسطرح کے حالات
ہمارے ساتھ بھی رونماں ہوچکے ہیں نہایت ہی شاعرانہ انداز میں شاعر نے اپنی
روداد یوں بیان کرجاتا ہے جو نظروں سے ہوتے ہوئے قاری کے دل میں سیدھی اتر
جائے :
بکھر ے ہیں کیسے ورق جانتے ہیں ہم
رشتوں کے ٹوٹنے کا قلق جانتے ہیں ہم
پھر اس کے بعد جو بھی ہوا کچھ خبر نہیں
پل بھر حسن رنگ شفق جانتے ہیں ہم
گاؤں سے ہجرت کر کے جب لوگ شہر کو اپنا مسکن بنالیتے ہیں، تو شہر کی
بھاگتی، دوڑتی ،گھما گھمی میں گھری ہوئی زندگی کا نظار ہ کرتے کرتے انسان
کیا محسوس کرتا ہے اور اُسکے کیا جذبات ہوتے ہیں اس چیز کا خلاصہ اپنے
اشعار کے ذریعہ یوں بیان کرتے ہیں موصوف :
خود میں پتھر کی طرح انسان ہو جائے گا کیا
ہر کوئی اب بے حس و بے جان ہوجائے گا کیا
کوئی بھی تو ہو جو پہچانے،کرے میری شناخت
شہر میں اپنے ظفرؔ انجان ہوجائے گا کیا
اسی طرح کا ایک اور شعر بھی دیکھئے:
پتھر کے اس شہر میں کون منائے سوگ
ہم بھی ویسے ہوگئے جیسے ہیں سب لوگ
’’احساس کاسفر ‘‘ کے بہت سارے اشعار کے اندر احساس سے متعلق شاعر کے
احساسات کا ثبوت تقریباً ہر دوسرے شعر میں مل جاتا ہے۔جسے قاری نہ صرف
محسوس کر سکتا ہے بلکہ یہ اشعار قاری کو بہت ہی حسین انداز سے اپنے طرف
راغب کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اسی قبیل کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے:
مری جدائی کا احساس جب بھی ہوتا ہے
وہ منھ چھپا کے اکیلے میں خوب روتا ہے
اتر جائیں جو قلب و روح میں احساس کو چھولیں
یہی اشعارتو شاعر کی فن کاری سے نکلے ہیں
ایک انجانی سی الجھن اک دوانہ پن سا ہے
یہ مرا احساس میری جان کا دشمن سا ہے
بس اسی طرح سے ہر کلام میں کچھ نہ کچھ اپنے جذبات، خیلات،واقعات اور
احساسات کا بیباکانہ اظہار کے ذریعہ بڑی فراغدلی سے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں
۔شاعر ظفرؔ رانی پوری کے اس شعری مجموعہ ’’احساس کا سفر ‘‘ کا 102 صفحات کا
سفر (مطالعہ) مکمل کرنے کے بعدہم نے جو محسوس کیا وہ سب احوال اس تبصرہ کی
شکل میں پیش کردئے ہیں اور احساس سے متعلق ایک شعر بھی پیش کئے دیتے ہیں جو
ــ’’ احساس کا سفر‘‘ کے مطالعہ کے دوران مسلسل ہمارے ذہن میں شدتِ احساس کے
ساتھ سفر کرتا رہاہے، یعنی رہ رہکراپنا احساس دلاتا رہا ہے،اس شعر کے خالق
کا نام تو یاد نہیں رہالیکن شعر کچھ اس طرح کا ہے کہ:
بہت اُمید رکھنا پھر بے آس ہو نا بھی
بشر کو ماردیتاہے بہت حساس ہونا بھی
بحر حال شائقِ شعر و سخن اس مجموعہ سے محظوز ہونے کہ لئے مصنف سے اس نمبر
+91-9533-957-102 پر ربط کر کے 200=/ روپے ادا کرتے ہوئے اسے حاصل کر سکتے
ہیں۔
|