آمریت اگر جمہوریت سے زیادہ مضبوط ہے تو اس کے پیچھے
آمروں کی محنت اور قابلیت سے کہیں زیادہ اتفاقات کا ہاتھ ہے۔کچھ امور
اتفاقا آمریت کو مضبوط کرنے کا سبب بن گئے۔آمریت آئی تو جھجکتی اورشرمندہ
شرمند ہ سی ۔مگرجا بچا ایسے دھڑوں سے واسطہ پڑا جنہوں نے آمر کی حوصلہ
افزائی کی۔اس کے درد بانٹے اور اسے مذید ہلا شیر ی دی۔آمریت کو ملنے والی
اس سپورٹ کی بنیادی وجہ آمریت کا طرز کارہے ۔جو تمام آمروں میں یکسا ں
رہا۔آتن کی تنسیخ یا کم ازم کم معطلی پر کسی آمر نے سمجھوتہ نہیں کیا۔اس کے
بعد عدلیہ اس کا اگلا نشانہ ہوتی تھی۔عدلیہ کو ہر دور میں ایل ایف او یا اس
سے ملتے جلتے نام کے تحت کنٹرول کیا گیا۔اس کے بعد سیاسی جماعتوں کا خانہ
خراب کیا گیا۔ہر اس جماعت کو جو سر اٹھا سکتی تھی اس قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکار
کردیا گیا کہ اس کی وحدت ہی خطرے میں پڑ گئی۔مرکزی قیاد ت میدان میں تو رہی
مگر یوں کہ اس کے احکامات سننے والے ندارد۔ پارٹی کسی کی اور اس کے اراکین
کہیں سے آنے والے اشاروں پر چل رہے ہیں۔ذرا تصور کریں جب نہ آئن ہو۔نہ
عدلیہ آزاد ہو۔نہ سیاسی جماعتیں فعال ہوں ۔ایسے میں ملک میں کہاں نظم ونسق
بچے گا ۔ایک جنگل سا ماحول بنا ہوتاہے۔جہاں ہر طاقتور کسی نہ کسی کمزور کی
گردن ناپ رہا ہوتاہے۔جو دھڑے آمر کو ویلکم کرتے ہیں۔اسے مستحکم کرنے میں
مدد دیتے ہیں۔اور اس کے دوام کی خواہش رکھتے ہیں۔انہیں جنگل کا یہ ماحول
بڑا پسند ہے ۔ان کے مفادات اسی طرح کے ماحول میں پھلتے پھلتے ہیں۔
آمریت کے مستقل حمایتیوں میں سے اگر مذہبی دھڑوں کو الگ کردیا جائے تو شاید
کچھ نہ بچے۔اگر چہ بڑے بڑے بزنس ٹائکوں ۔جاگیر دار اور بیوروکریٹس آمریت
میں آسانیاں پاتے ہیں۔مگر آمریت کو جو مد د مذہبی دھڑوں سے ملتی ہے ۔و ہ بے
مثال ہے۔مذہب کے نام پر لوگوں کو اشتعال میں لانے کا طریقہ ہمارے ہاں
نیانہیں بھٹو کے خلاف نو ستارے اور نوازشریف کے خلاف قادری مارچ اس کی
دلیلیں ہیں۔آمریت کا یہ آسرا ہمیشہ کارآمدرہا ہے ۔بھٹواور نوازشریف اس لیے
عتاب میں آئے کہ انہوں نے کٹھ پتلی بننے سے انکار کیا۔ ضرورت سے زیادہ طاقت
پالینے کے جرم وار ثابت ہوئے۔مذہبی دھڑے دونوں کے خلاف پوری قوت سے میدان
میں آئے۔پہلے پہل جماعت اسلامی اس کھیل میں قدرے لاتعلق رہی مگر اب جب کہ
نوازشریف معتوب قرا ر پاچکے اب یہ جماعت بھی کھل کر سامنے آگئی۔ان دنوں خاں
صاحب کے ایک ساتھی قادری صاحب جاتے ہیں تو جناب سراج الحق ان کی مدد کو آن
پہنچتے ہیں۔ان حضرت کا اعلان ہے کہ اگلے الیکشن میں مسلم لیگ ن کے سو اہر
جماعت سے الائینس بنا جاسکتاہے۔جانے اس قدر تلخی کا سبب کیاہے۔ یہ جماعت
گزشتہ قریبا تمام ادوا ر میں نواز شریف کی پارٹی سے اتحاد بنائے رہی ۔ضیاء
دور سے لیکر بارہ اکتوبر کے مارشل لاء تک جماعت اسلامی او رمسلم لیگ ن کے
تعلقات بہتر رہے ۔نوا زشریف کو قبول کرنے کا سبب یہی تھا۔کہ جماعت اسلامی
کی قیادت انہیں چھوٹی برائی قرار دیتی تھی۔بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت
کے دوران بدنظمی اور لوٹ مار کی و ہ داستانیں رقم ہوئیں کہ الحفیط الامان
ان دنوں نواز شریف وزیر اعلی پنجاب تھے۔تب پنجاب کی طرف سے کھل کر پی پی
حکومت کی مخالفت کی گئی۔نواز شریف پہلے بڑے لیڈر تھے جو اینٹی پی پی قوت کے
طو رپر سامنے آئے ۔جائز اور ناجائز ہر طریقہ اپنانے پر وہ متنازعہ تو ہوئے
مگر انہیں پی پی کا ایک توڑ تسلیم کرلیا گیا۔جماعت اسلامی نے نواز شریف کی
اسی پیش قدمی پر قبول کیا۔انہیں چھوٹی برائی قرار دے کر اس کے ساتھ اتحاد
بنایا جو برسوں کسی نہ کسی نام سے چلتارہا۔جماعت اسلامی نے دوسری جماعتوں
سے اتحاد بنائے مگر بے زاری جھلکتی رہی ۔سب سے آخری اتحاد اس نے ایم ایم اے
کی شکل میں دیگر مذہبی جماعتوں کے ساتھ مل کر بنایا تھا۔جو ایک تلخ تجربہ
ثابت ہوا۔جماعت اسلامی کو بھی دوسری جماعتوں کی طرح گلہ تھاکہ امیر جمعیت
علماء اسلام دوسروں کا کندھا استعمال کرکے اپنے مفادات پار ہے ہیں۔اس وقت
تو حد ہوگئی جب سرحد اسمبلی توڑنے کے معاملے پر مولانا نے اپنی تمام اتحادی
جماعتوں کو بلڈوز کردیا۔جماعت اسلامی تب سے ایم ایم اے کا نام سن کر بدکتی
ہے۔مولانا صاحب نے بعد میں بیشتر بار ایم ایم اے کے احیاء کی بات کی مگر
جماعت اسلامی نے کورا جواب دے دیا۔
جماعت اسلامی اب عمران خاں کے ساتھ ہے۔اپنے ایک لمبی مدت کے اتحادی کے خلاف
میدان میں اتری ہوئی ہے۔کبھی وہ نواز شریف کو چھوٹی برائی سمجھا کرتی
تھی۔اب وہ اسے سب بڑی برائی قراردے رہی ہے۔اس کا کہنا ہے کہ اگلے الیکشن
میں سوائے مسلم لیگ ن کے کسی بھی جماعت سے اتحاد ہوسکتاہے۔جانے اب نوازشریف
میں ایسی کون سی خرابی پیدا ہوچکی کہ جماعت کی نظر میں وہ سب سے بڑی برائی
بن چکے۔حالانکہ نواز شریف کا موجودہ دور حکومت بڑی بڑی کامیابیاں سمیٹے
ہوئے ہے۔لوڈشیڈنگ ۔دہشت گردی ۔سمیت کئی مسائل کو بڑی حد تک حل کیا جاچکا
ہے۔امید کی جارہی ہے کہ سی پیک کی تکمیل کے بعد لوگ بے روزگاری ۔لوڈشیڈنگ
کو بھول جائیں گے۔اتنا پیسہ آئے گاکہ بدحالی او ر محرومیاں ڈھونڈے نہ ملیں
گی۔مگر جماعت اسلامی ہے کہ اس کی نظر میں نواز شریف ناقابل برداشت ہورہے
ہیں۔دراصل نواز شریف نے جو موقف اور راستہ ان دنوں اختیار کیا ہے۔وہ جماعت
اسلامی کو ان سے دور کررہا ہے۔جماعت اسلامی نے ادارو ں او رگروہوں سے متعلق
ترجیحات قائم کررکھی ہیں۔نواز شریف کو جماعت اسلامی کی حالیہ مخالفت کا
سامنا ان ترجیحات کے سبب ہورہا ہے۔اس جماعت مسلم لیگ ن کو ہمیشہ سپورٹ
کیا۔کیوں کہ وہ اینٹی پی پی سیاست کرتی تھی۔اس بار نوا زشریف جن قوتوں سے
نبردآزما ہیں۔جماعت اسلامی کی ترجیحات میں ان کی مخالفت کسی طور بھی نہیں
لکھی۔وہ ان ترجیحات کے خلاف کسی طور نہیں کھڑی ہوسکتی ۔اس نے عمران خاں کا
ساتھ دینے کا فیصلہ آسانی میں نہیں کیا۔تحریک انصاف سے اس کے نظریاتی
اختلافات رہے ہیں۔یہ وہی عمرا ن خاں ہیں جن کی لادینی اور مغربیت پسندی کا
جماعت اسلامی واویلہ کرتی رہی ہے ۔پنجاب یونی ورسٹی میں اس قسم کا ناراضگی
کا اظہار بخوبی کیا گیا۔اس دن عمران خاں کو ادھ موا ء وہاں سے نکالا گیا۔اب
اگر جماعت اسلامی کا جھکاؤ۔نوازشریف کی بجائے عمران خاں کی طرف ہوگیاہے تو
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اپنی ترجیحات کے لیے جماعت اسلامی اپنے دشمن کو
دوست اور دوست کو دشمن بنا لینے میں عار نہیں سمجھتی۔آمریت کو کچھ مددگار
ایسے حاصل ہیں جن پر و ہ آنکھیں بند کرکے بھروسا کرسکتی ہے۔جماعت اسلامی کا
حتمی فیصلہ ہے کہ و ہ یہ بھروساکسی طور ٹوٹنے نہ دے گی۔ |