عوامی لیڈرجمشید دستی سے ملاقات کی روداد

کچھ عرصہ قبل میں اپنے آبائی شہر ’’کوٹ ادو ‘‘جانے کی تیاریوں میں مصروف تھا توملاقات کے لئے آنے والے کراچی کے ایک دوست نے کہا کہ یار جمشید دستی بھی تمہارے علاقہ کا ہے آج کل اس کے خوب چرچے ہیں۔ جارہے ہو ان سے توملاقات کروگے ؟۔موصوف جمشیددستی کے سحرمیں مبتلا تھے۔یار کیا آدمی ہے ۔ایک طرف سیاسی جماعتیں اورایک طرف یہ اکیلاآدمی۔ بھئی بندا حقیقی عوامی لیڈرہے۔پونے گھنٹے پرمحیط ملاقات میں آدھا گھنٹہ موصوف نے جمشیددستی کی مدح سرائی پر صَرف کیا۔اور مجھ سے وعدہ بھی لیا کہ جارہے ہو تو یار دستی صاحب سے ضرورمل کر آنا۔ہم نے بھی وعدہ وفا کرنے کا عہد کرلیا۔جس کے بعد جمشیددستی کے کوآرڈینیٹر عمران غوری سے رابطہ کرکے ان سے دستی صاحب سے ملاقات کیلئے وقت لیا۔ خیرہم کوٹ ادو پہنچے اور اگلے دن کزن کے ہمراہ جمشیددستی سے ملنے جھنگ موڑپر واقع ان کے( ڈیرہ/گھر)پر جاپہنچے۔ عجب منظر تھا موصوف شدیدگرمی میں آستینیں چڑھائے لوگوں کے جمگھٹے میں عام سی کرسی پر براجمان تھے ۔ہم جیسے ہی صحن میں داخل ہوئے تو دستی صاحب کھڑے ہوئے گلے لگایا اوربیٹھنے کا اشارہ کیا۔مجھے گمان ہوا کہ انکے کوآرڈینیٹرعمران غوری نے انہیں ہماری آمدسے مطلع کردیا ہے اسی لئے آؤ بھگت کررہے ہیں مگر یہ تاثر اس وقت غلط ثابت ہوا جب انہیں ہر آنے والے سے اسی اندازمیں بغلگیرہوتے اور گرمجوشی سے ملتے دیکھا۔یہ صورتحال میرے انتہائی عجیب اورحیران کن تھی کیونکہ جنوبی پنجاب اور بالخصوص ضلع مظفرگڑھ میں کسی عام آدمی کی رکن قومی وصوبائی اسمبلی سے ملاقات کوئی آسان بات نہیں تھی یہ ایک انتہائی مشکل اورمحنت طلب کام تھا اور بغلگیری تو سمجھ لیں کوہ ہمالیہ سَرکرنے کے مترادف تھا۔کیونکہ جنوبی پنجاب میں گودّے، وڈیرے،سردار،ملک جیسے سیاسی لیڈران اپنے حلقے کے لوگوں کو دستیاب نہیں ہوتے۔ان کے عالیشان محلے شہرسے دورواقع ہیں اب ایک غریب ووٹرصبح سویرے پبلک ٹرانسپورٹ یا پھر کسی دوسرے ذرائع سے تگ ودوکرکے آخرکارجب ان کے دولت خانے پر سلام پیش کرنے کی غرض سے پہنچنے میں کامیاب ہو بھی جائے توپتاچلتا ہے کہ’’ صاحب ابھی سورہے ہیں‘‘ انتظارپر بیٹھے عوام کوصاحب توکیاان کے نوکر بھی منہ لگانے کوتیارنہیں دکھائی دیتے۔بس پھرکیا اچانک دوسرے کونے سے لگژری گاڑیاں مٹی اڑاتی اورفراٹے مارتی ہوئیں یہ جا اوروہ جا۔دریافت کرنے پرپتاچلتا ہے کہ صاحب کولاہورجاناتھا اورچلے گئے۔آسیں اورامیدیں بندھ کرمیلوں کا سفرطے کرکے آنے والے سینکڑوں لوگ مایوسی کے تصویربنے رہتے ہیں۔

مگر جمشیددستی نے کھلی کچہری جمائی ہوئی تھی۔اور اپنے ووٹران کو بھرپوراندازمیں ویلکم کرنے کے ساتھ ساتھ بغلگیرہورہے تھے۔یہ سب دیکھ کر مجھے سمجھ آیا کہ اس بندے کی کامیابی کی اصل وجہ یہی ہے کہ یہ لوگوں کے درمیان موجود ہے۔یہاں آنے والوں کے کام ہوں یا نہ ہوں مگردوردرازسے آئے غریب اورمسائل سے دوچارلوگوں کوان کا’’نمائندہ‘‘صرف مل لے اوراس کوتسلی دیدے بس اس کیلئے تو اتنا ہی’’بہت‘‘ہے،مگر یہاں تودستی صاحب لوگوں سے فرداً فرداً ان کے مسائل دریافت کرنے اوران کو حل کرنے میں مشغول تھے۔

اسی دوران ایک ضعیف خاتون ہاتھ میں لاٹھی تھامے آن پہنچی۔دستی کے سرپر شفقت سے ہاتھ پھیرااوربتایا کہ میرے بیٹے کوگذشتہ رات پولیس والے اٹھاکے لے گئے ہیں گھرمیں میرے علاوہ ایک بیٹی ہے میں نے پولیس والوں سے بہت پوچھا کہ آخرمیرے بیٹے کا قصورکیا ہے مگرانہوں نے کچھ نہیں بتایا۔میرا بیٹافروٹ کی ریڑھی لگاتا ہے۔اس پر میری اوراسکی چھوٹی بہن کی ذمہ داری ہے وہ کماتا اور ہم کھاتے ہیں ۔اب تو ہم بھوکے مرجائیں گے۔ ضعیف خاتون کے سرائیکی میں بولے لفظ سیدھے دل میں اترگئے ’’میڈاپترغریب دی کوئی نئیں سنڈدا، اﷲ توں بعدغریباں داتو ہی آسراں ہءں‘‘۔دستی نے اماں کو تسلیاں دی اورموبائل نکالا۔مگراچانک سے اماں پھربول پڑیں’’میڈاپترفون نئیں ،توں میڑے نال جل‘‘۔غریب عورت کی بے بسی پرہر شخص افسردہ تھا۔بس اماں کی خواہش پرجمشیددستی حاضرین سے مخاطب ہوئے ’’مارکامیں اماں دا کم کرکے واپس آنداپیاں‘‘۔ یہ کہ کردستی اماں کولیکراپنی گاڑی میں تھانہ مظفرگڑھ سٹی کی جانب روانہ ہوگئے تقریباًنصف گھنٹے تک واپس آئے اور پھرسے لوگوں کے مسائل سننے اورانہیں حل کرنے میں جُت گئے۔

ایک گھنٹے کے بعدانہیں کچھ فراغت ملی تو وہ ہمیں اندرکمرے میں لے گئے چائے اور سادہ سے بسکٹ پیش کئے گئے۔مخاطب ہوئے میرے لائق کوئی حکم ۔ہم نے ان کی عوامی طرزسیاست پر گفتگوشروع کردی کہ آپ کی تودھوم کراچی تک ہے۔پھردریافت کیا کہ جناب کادولت خانہ کہاں ہے تو بولے غریب آدمی ہوں صبح سے رات تک لوگوں سے ملتارہتاہوں اور جب نیندآتی ہے تو یہیں سو جاتاہوں ۔میں کوئی گودّا نہیں ہوں نہ ہی کوئی بنگلہ /کوٹھی کا مالک ہوں۔عوام کا آدمی ہوں اور عوام کے درمیان عوامی اندازمیں رہتاہوں۔

دستی صاحب نے کھانے کابے حداصرارکیا مگر ہمیںیہاں سے ڈیرہ غازیخان جاناتھا اسی لئے ان سے اجازت لے کرروانہ ہوگئے۔وہ دن ہے اور آج کا دن ہے مصروفیات اور غم روزگار نے فرصت ہی نہیں دی کہ اپنے آبائی شہرکا دوبارہ رخ کرسکوں اور اس بہانے دستی صاحب سے ملنے کابھی موقع نصیب ہو۔

جمشیددستی کے عوامی طرزسیاست کے کئی قصے زبان زدعام ہیں جس کے سبب دستی نے تن تنہاضلع مظفرگڑھ کے کھر،ہنجرا،قریشی،دستی،گوپانگ،بخاری ،سیال جیسے سیاسی خاندانوں ودیگرسیاسی حریفوں کواپنی اپنی منفرد طرز سیاست سے مات دی اور 2008 سے مسلسل الیکشن جیت کررکن قومی اسمبلی منتخب ہورہے ہیں۔دستی نے ان سیاسی خاندانوں کے بعد صوبے کے ’’بڑوں‘‘ کوبھی نہیں بخشا یہاں تک کے پارلیمنٹ لاجزمیں ہونے والی رنگین کہانیوں سے پردہ اٹھایا۔ خبریں تھیں کہ جمشیددستی پیپلزپارٹی،مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف میں شامل ہورہے ہیں مگرمیرا خیال تھا کہ یہ ’’بندہ‘‘ان جماعتوں میں ’’فٹ‘‘نہیں ہوپائے گا اور ایسا ہی ہوا۔اس کی وجہ شایداس کی بے باکی ، اکھڑپن،موقف پر ڈٹ جانا،ٹھیٹ دیسی اور عوامی طرززندگی ہے کیونکہ آسائش پسنداورشاہانہ زندگیوں کے عادی سیاسی گودوں اوروڈیروں میں عام سے شلوارقیض اورمعمولی سی چپل پہنے والے کا تو کوئی ’’میل‘‘ہی نہیں ہے۔اس بات کااندازہ دستی کوبھی بخوبی ہوگیااوراسی لئے کسی جماعت میں شمولیت کرنے کے بجائے انہوں نے ’’عوامی راج پارٹی‘‘کے نام سے سیاسی جماعت کی بنیادرکھ دی۔مختلف مواقعوں پرجمشیددستی کے سخت مگرحقائق پر مبنی بیانات میڈیا پر دکھائی دیتے رہے۔حزب اقتدار ہویا حزب اختلاف دستی کے نشترسے کوئی نہیں بچا۔یقیناً حکمران جماعت ہویااپوزیشن اس بات پرتوشاید سب یک زباں تھے کہ اس ’’بندے‘‘کا کوئی ناکوئی بندوبست تو ضرورکیا جائے وگرنہ یہ ہمیں واپس اپنے حلقوں تک جانے کا بھی نہیں چھوڑے گا۔

جھنگ موڑویگن اسٹینڈ سے ممبرضلع کونسل اورپھر رکن قومی اسمبلی بننے والے جمشیددستی پر1993سے 2016تک دودرجن سے زائد مقدمات ہیں۔کچھ کیسزمیں سنگین نوعیت کے بھی دفعات شامل ہیں مگربااثرسیاسی وڈیروں اور جاگیرداروں کی ایماء پرقائم مقدمات بھی جمشیددستی کے طرزسیاست کو نہ بدل سکے۔گذشتہ دنوں انہیں ہنر کو زبردستی کھولنے کے الزام میں گرفتارکرلیا گیا۔

حالیہ گرفتاری سے یہی ظاہرہوتا ہے کہ آئندہ الیکشن کیلئے جاری سیاسی صف بندیوں کے دروان تمام جماعتیں متفق ہوگئیں ہیں کہ ’’دستی کوسائیڈ لائن‘‘کیا جائے۔اسی لئے سیاست کے ایوانوں سے جمشیددستی کے حق میں لب کشائی نہیں ہوپارہی ہے۔مگریہاں یہ بات بھی درست ہے کہ جمشیددستی ناں تو کوئی فرشتہ ہے اور نہ ہی ولی کامل ہے ۔غلطیاں ہر شخص کرتا ہے کیونکہ بنی نوح انسان خطاکا پتلا ہے اور یقیناًدستی سے بھی کئی غلطیاں اور کوتاہیاں ہوئی ہوں گی مگراس بات میں بھی کوئی دوسری رائے نہیں کہ جمشیددستی غریب،بے بس،مسائل زدہ اورضرورت مندعام لوگوں کا’’حقیقی لیڈر‘‘ہے۔

Kamran Chouhan
About the Author: Kamran Chouhan Read More Articles by Kamran Chouhan: 5 Articles with 3633 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.