لوگوں کی اکثریت حالات کی رو میں بہہ جاتی ہے اور مختلف
انداز میں سوچنے کی کوشش نہیں کی جاتی ۔ خاص طور پر یورپ سے درآمدہ فکر کو
تو گویا الہامی درجہ دے دیا جاتا ہے ۔ اس کی ایک مثال "جمہوری نظامِ حکومت
"ہے ۔ جسے اسلامی ممالک میں بھی نہ صرف ایک مثالی طرز حکومت کا درجہ حاصل
ہے بلکہ اس نظام کوعین اسلامی فکر کا نچوڑقرار دیا جاتا ہے ۔ عام طور پر
لوگ اس نظام کے خلاف سوچنا بھی گناہ کبیرہ خیال کرتے ہیں ۔ گو اسلاف میں
جمہوریت کے خلاف بعض آوازیں بلند ہوتی رہی ہیں جس طرح کہ اقبالؒ نے کہا تھا
کہ ؎
جمہوریت وہ طرز ِحکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گِنا کرتے ہیں ، تولا نہیں کرتے
پھر جمہوریت کے مقابلے میں خلافت کا تذکرہ بھی ملتا ہے لیکن موجودہ عالمی
تناظر میں خلافت کے خدو خال کیا ہو سکتے ہیں اس بار ے میں کوئی پختہ اور
قابلِ عمل فکر امتِ مُسلمہ کے اجتماعی وجود سے ابھر کر سامنے نہیں آئی ۔
موجودہ دور تک پہنچتے پہنچتے جمہوریت کے مقابلے میں یہ تمام آوازیں دب کر
رہ گئیں ہیں اوراب اُمتِ مُسلمہ اِسی کاروان گم کردہ راہ میں شامل ہو چکی
ہے اور سب جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپ رہے ہیں۔ حال ہی میں انفرادی طور پر
دنیا کے کئ گوشوں سے مسلمانوں کے علاوہ بھی ایسی آوازیں سننے کو ملتی رہی
ہیں جیسے کہ: " انسانی معاشرے کی موجود ہ خرابیوں کا حل اسلامی تعلیمات کے
نفاذ میں ہے" ، " دہشت گردی جو کہ عصرِ حاضر کا ایک ناسور بن چکی ہے اس کا
حل صرف اسلامی تعلیمات کے نفاذ میں ہے ، "اسلام میں فرد اور معاشرہ دونوں
کے حقوق کا ایک توازن کے ساتھ خیال رکھا گیا ہے" وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن جب تک
ایسا کوئی انتظامی ڈھانچہ وضع نہیں ہو جاتا جہاں اسلامی تعلیمات کا نفاذ
ممکن ہو ان خیالات کی حقانیت کو نہیں پرکھا جا سکتا اور نہ دنیا کے سامنے
بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ بقول اقبال کارِ کلیمی ( خدائی نظام
) کے لیے عصائے موسیٰ ( اقتدار کی طاقت) ناگزیر ہے ۔آج جب جمہوریت کے
مقابلے میں اسلا م کی بات کی جاتی ہے تو اس کی کامیابی یا ناکامی کا عملی
نمونہ طلب کیا جاتا ہےلوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ یہ نظام حکومت کس اسلامی ملک
میں نافذ العمل ہے تو ہمارے پاس بتانے اور دکھانے کو کوئی چیز نہیں ہوتی۔
قیام پاکستان کے پسِ منظر میں یہی فکر کارفرما تھی کہ ایک ایسا خطہء زمین
حاصل کیا جائے جسے " اسلام بطور ضابطہء حیات " کی تجربہ گاہ کی حیثیت حاصل
ہو ، اور اس تجربہ گاہ سے کامیابی کی سند لے کر اسلامی تعلیمات دنیا کے لیے
مثال بن کر اُبھریں ۔ لیکن ہم جو کہ روشنی کے علمبردار تھے خود اندھیروں
میں گم ہو کر رہ گئے۔ جنہیں دنیا کی امامت کا فریضہ ادا کرناتھا وہ اقوامِ
عالم میں مقتدی بن کر اپنا مقام کھو چکے ہیں ۔
اگر اب عالم انسانیت پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو جمہوریت کے کھنڈر ہر طرف
بکھرے نظر آتے ہیں ۔ جنگ عظیم اول اور دوم کے بعد لیبیا ، عراق ، شام ،
فلسطین اسکی بہترین مثالیں ہیں تہذیبوں کی یہ کشمکش اسی جمہوری فکر کا
نتیجہ ہے ۔ہر طرف جنگل کا قانون رائج ہے اور جینے کا حق صرف اسے حاصل ہے جو
اپنی طاقت کو لوہا منوا لے ۔ انسانیت کی نسلوں اور قومیتوں میں تقسیم اسی
فکر کا ثمر ہے جس کی وجہ سے مختلف عصبیتیں وجود میں آئیں اور انسانیت باہمی
نفرتوں اور آویزشوں کی آماجگاہ بن کررہ گئ ہے ۔
جمہوریت کیا ہے ؟ عام انتخابات کے نتیجے میں اقتدار میں آنے والی حکومت ،
جسے لوگوں کا حقیقی نمائندہ وجود تصور کیا جاتا ہے ۔ حزب اقتداراکثریتی
پارٹی اور حزب اختلاف اقلیتی پارٹی پر مبنی انتظامی ڈھانچہ ، جو کہ ایک خاص
مدت کے لیے اپنے منشور کے مطابق حکومتی انتظام چلاتا ہے ۔ اس نظام کاظاہر
بڑا پُر کشش اور خوبصورت ہے لیکن اس کی بنیادی فکر میں (Built-in)کچھ ایسی
خرابیاں موجود ہیں جن سےاستحصال کے دروازے کُھلتے ہیں اور جنکے تلخ ثمرات
نے انسانیت کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے مثلاً
1. اکثریت کو حق حاصل ہے کہ وہ اقلیت پر حکومت کرے اور جس طرح چاہے قانون
سازی کرے یہاں تک کہ اکثریت چاہے تو الہامی تعلیمات کو رد کر کے اس کے
مقابلے میں بھی قانون سازی کر سکتی ہے۔
2. حق و باطل کا کوئی معیار نہیں سوائے اس کے کہ اکثریت کو حق اور اقلیت کو
مردود تصور کیا جاتا ہے۔
3. عالم اور جاہل کی رائے کو یکساں اہمیت حاصل ہے اگر جاہل اکثریت میں ہوں
تو وہ اپنے سب سے بڑے جاہل کو اپنا لیڈر بناسکتے ہیں۔
4. جمہوریت میں خدا کا کوئی تصور نہیں ، طاقت اور اقتدار اعلیٰ کاسرچشمہ
عوام تصور کیے جاتے ہیں۔
5. جمہوریت میں ہر طبقے کا نمائندہ ہوتا ہے جس سے علاقائی ، نسلی اور لسانی
عصبیتیں پروان چڑھتی ہیں اور نسلِ انسانی طبقات اور گروہوں میں تقسیم ہو کر
باہمی کشمشہ کا شکار ہو جاتی ہے۔
جمہوریت پسند لوگ جمہوریت کو فطری نظام قرار دیتے ہوئے اس کا دفاع اس دلیل
سے کرتے ہیں کہ کسی جغرافیائی حد کے اندر جب اجتماعی نظم قائم ہو گا تو اس
کے اندر رہنے والے لوگوں کاحق ہے کہ اُن کا تعلق جس مذہب یا فکر سے ہو گا
وہ ویسے ہی لوگوں کا انتخاب کر لیں گے ۔ بظاہر یہ دلیل بہت مؤثر اور مضبوط
ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت میں نیکی کی نسبت بُرائی سے زیادہ
قریب ہے، وہ برائی اور پستی کی طرف تو دوڑ دوڑ کر جاتا ہے لیکن نیکی اور
بلندی کی طر ف جاتے ہوئے اسے اپنی فطرت کے خلاف کام کرنا پڑتا ہے ۔اسی لیے
لوگوں کی اکثریت عوام کالانعام ( جانوروں کی طرح ) کی ہوتی ہے اوراسی لیے
کسی بھی معاشرے میں نیک اور صالح لوگ ہمیشہ اقلیت میں ہوتے ہیں اور چونکہ
جمہوریت میں اکثریت کی اہمیت ہوتی ہے اور اکثریت ہی کی حکومت قائم ہوتی ہے
لہذا اس جمہوری نظام کو ڈسپلن کیے بغیر محض اسی فطری بہاؤ پر چھوڑ دیا جائے
تو انسانیت پر خدائی نظام کے بجائے شر کے نظام کی حکومت قائم ہو جائے گی
۔اسلام، انسان کی بنیادی فطرت اور اس کے قدرتی وظائف کو کرش (Crush)نہیں
کرتا بلکہ ان کی تنظیم (Discipline)اور اصلاح کرتا ہے تا کہ اُن میں شر کا
جو عنصر ہے وہ نکل جائے اور خیر کے عمل کو آگے بڑھایا جائے۔جس طرح کہ نر و
مادہ کا ملاپ ایک فطری عمل ہے لیکن اس کو محض فطری بہاؤ پر نہیں چھوڑ دیا
گیا بلکہ اس عمل کو نکاح سے ڈسپلن کیا گیا ہے تاکہ اس فطری عمل کے جو فوائد
ہیں وہ بھی حاصل ہو جائیں اور اس عمل کو محض فطری بہاؤ پر چھوڑ دینے کے جو
نقصانات ہیں ان سے بھی بچا جا سکے۔اسی طرح نظام حکومت کے جمہوری طریقے کو
بھی ڈسپلن کیا گیا تا کہ انسانیت اِس کے نقصانات سے بچ سکے اور اس کے حقیقی
ثمرات سے بھی مستفید ہو سکے اور دنیا پر خیرکا نظام راج کرے ۔
میں جمہوریت کے مقابلے میں جو فکر پیش کرنے جا رہا ہوں اس کے بارے میں مجھے
یہ دعوٰی نہیں کہ یہ ایک بالکل نیا آئیڈیا ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ اس فکر کو
نئے تقاضوں کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کی ہے اور پھر یہ تحریراس سمت میں
ایک دعوتِ فکر بھی ہے اُن لوگوں کے لیے جو اسلام کو انسانیت کے لیے " مکمل
ضابطہء حیات" سمجھتے ہیں اور اپنے دل میں انسانیت کا درد رکھتے ہیں اور
چاہتے ہیں کہ انسانیت تک سچائی کا یہ حقیقی پیغام پہنچے۔
آپ اسے اسلامی طرز فکر پر مبنی طریقِ انتخاب بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ اس کے
بنیادی نظریاتی اصول قران و حدیث سے اخد کیے گئے ہیں :
1. سب انسان برابر ہیں ، انسان کو انسان پر حکومت کرنے اور قانون سازی کرنے
کا کوئی اختیار نہیں ۔ اقتدار اعلٰی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو حاصل ہے ۔
معاشرے کے منتخب نمائندے اقتدار کے امین ہوتے ہیں جن کا کام احکام الہی کا
نفاذ کرنا ہے۔
2. قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے، اسلامی نقطہء نظر کے مطابق عہدے کا
کوئی تصور نہیں بلکہ اس کے مقابلے میں ذمہ داری کاتصور ہے
3. عالم اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے اور نہ انکی رائے کو ایک جیسی اہمیت
دی جا سکتی ہے۔
4. کوئی فرد انتخابات میں اپنے آپ کو بطور اُمیدوار پیش کر سکتا ہے اور نہ
اپنے یا کسی دوسرے کے حق میں رائے سازی کر سکتا ہے ۔
5. اسلام میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کا کوئی تصور نہیں ، حمایت یا
مخالفت کا معیار کسی بات کا حق پر ہونا یا نہ ہونا ہے۔
ان پانچ بنیادی ستونوں پر اسلامی طریق ِانتخاب کی عمارت کھڑی کی جا سکتی ہے
یہ طریق انتخاب تین مراحل پر مشتمل ہو گا جس کے خد و خال کی تفصیل کچھ اس
طرح ہوگی :
پہلا مرحلہ :
اس مرحلے میں گاؤں یا وارڈ کی سطح پر تمام بالغ مرد و زن اپنا حق رائے دہی
استعمال کرسکیں گے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگ کس اُمیدوار کے حق میں
ووٹ دیں گے جبکہ الیکشن میں کوئی شخص بطور اُمیدوار کھڑا ہی نہیں ہے۔ یہاں
سے اِس طریق ِ انتخاب کا راستہ مروجہ جمہوریت سے مختلف ہو جاتا ہے۔ مروجہ
جمہوری طریق ِ انتخاب کے برعکس ووٹرکے پاس کھلی آپشن ہوگی کہ اپنے حلقہٰ
انتخاب میں جس شخص کو اقتدار کی امانت سپرد کرنے کا اہل سمجھتا ہے اس کا
نام تجویز کردے۔ اس فکر کے پیچھے یہ فلاسفی ہے کہ اگر کسی انسان کو مکمل
اختیار (Open Option)دیا جائے تو وہ ہمیشہ بُری چیز کے مقابلے میں بہترین
چیز کا انتخاب کرتا ہے کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے کہ ہر انسان اچھا کا م ہی
کرنا چاہتا ہے اس لیے کہ نیکی سے رغبت اور بُرائی سے نفرت اس کی فطرت میں
رکھ دی گئی ہے۔ جمہوری نظام کے برعکس ووٹر اس بات پر مجبور نہیں ہو گا کہ
وہ دو بُرائیوں میں کم تر درجے کی بُرائی کا انتخاب کرے یا کنارہ کشی
اختیار کرے ۔ اس طرح اس بات کا قوی امکان ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں
بہترین قیادت سامنے آئے گی۔ لیکن اس بات کا امکان ہے کہ پہلے مرحلے میں ایک
تہائی یا اس سے بھی زیادہ لوگ منتخب ہو جائیں بہر حال دوسرے مرحلے میں اس
کی اصلاح ہو جائے گی ۔گزشتہ الیکشن میں ایک تجویز یہ بھی سامنے آئی تھی کہ
Vote for Noneکی آپشن بھی بیلٹ پیپر میں رکھی جائے اس سے بھی اُمیدواران پر
عدم اعتماد کا اظہار ضرور ہو جائے گا لیکن کوئی امیدوار منتخب نہیں ہو پائے
گا۔
دوسرا مرحلہ:
دوسرے مرحلے میں وہ لوگ ووٹ دینے کےاہل ہونگے جو پہلے مرحلے سے منتخب ہو کر
آئیں گے ان چُنیدہ لوگوں کی اہلیت و صلاحیت بنیادی سطح کے لوگوں کی نسبت
یقیناً بہتر ہوگی لہذا اس بات کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ یہ لوگ پہلے مرحلے
کی نسبت مزید بہتر فیصلہ کر سکیں گے اس طرح پہلے مرحلے کی رائے سازی میں
انفرادی سطح پر جو خامیاں رہ گئیں ہونگی انکی اصلاح بھی ہو جائے گی ۔اس
مرحلے میں منتخب ہونے والے افراد کی تعداد مزیدفلٹر ہو کر پہلے مرحلے میں
منتخب ہونے والی تعداد کا تہائی یا کم وبیش ہو سکتی ہے ۔ دوسرے مرحلے کے
نتیجے میں منتخب ہونے والے لوگ یقیناً بہترین لوگ ہونگے ۔ وارڈ یا گاؤں کی
سطح پر جو کابینہ یا مجلس شوریٰ بنائے جائے گی وہ انہیں لوگوں پر مشتمل ہو
گی ۔ضرورت کے مطابق ارکانِ کابینہ کی تعدادمقرر کی جا سکتی ہے۔
تیسرا مرحلہ:
تیسرے مرحلے میں کابینہ کے سربراہ کا انتخاب کیا جائے گا اور یہ انتخاب وہی
لوگ اپنے اندر سے کریں گے جو دوسرے مرحلے سے منتخب ہو کر آئیں گے اس کا
طریقہٰ کار بھی وہی ہو گا جو کہ پہلے دو مراحل میں بیان ہو چکا ہے یعنی
کوئی شخص بطور اُمیدوار سامنے نہیں آئے گا اور نہ کسی شخص کو اپنے یا کسی
دوسرے شخص کے حق یا مخالفت میں رائے سازی( Canvassing) کا اختیار ہو گا۔
اگر کسی نے خفیہ طور اپنے یا کسی دوسرے شخص کے حق میں رائے سازی کی کوشش کی
تو اسے نا اہل تصور کیا جائے گا ۔ سربراہ کے طور پر سب سے زیادہ ووٹ لینے
والی تین شخصیات کا چناؤ کیا جائے گا اور پھر ان سب کو اسلام کیےمہیا کردہ
معیار پر پرکھا جائے گا ، ان میں جو شخص بہترین ثابت ہو گا وہ امیر بنا دیا
جائے گا باقی دو درجہ بدرجہ اس کے نائب بنا دیے جائیں گے۔چناؤ کے اس سارے
عمل کی انجام دہی کے لیے عدلیہ اور محکمہ تعلیم کے افسران کو خصوصی تربیت
اور اختیارات دیے جا سکتے ہیں۔ سربراہ کے لیے قرآن و حدیث کی روکے مطابق جو
معیار مقرر ہے وہ مندرجہ ذیل ہے :
1. وہ تعلیم ، تقویٰ اور کردار کے لحاظ سے بہتر ہو ۔ ( سورہ بقرہ ، آیت نمر
۔ 247) اور (سورہ حجرات آیت نمبر-13)
2. اُس کی شخصیت پُر کشش ہو ۔ ( سورہ بقرہ ، آیت نمر ۔ 247)
3. اُسےگفتگو اور فن تقریر میں ملکہ حاصل ہو ۔ ( آپﷺ جس شخص کو امیر مقرر
کرتے مجلس میں اسے کھڑا کر کے اسے شعر سنانے کو کہتے )
ہر سطح پر کابینہ کے ہر رکن کا درجہ مقرر کیا جائے گا جو کہ حاصل کردہ ووٹس
(Votes) کی بنا پر ہو گا ۔کسی رُکن کی فوتیدگی یا ریٹائرمنٹ کی صورت میں اس
سے نچلے درجے کا رُکن خود بخود اس کی جگہ لے لے گا( ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد
عام ملازمین کی طرح ساتھ سال ہی ہو گی)۔ اگر کسی وجہ سے کابینہ کے ارکان کی
تعداد نصف سے کم ہو جائے تو صرف اِسی صورت میں اور صرف اُسی دائرہ کار
(Constituency)میں نئے سرے سے انتخاب کیا جائے گا ورنہ منتخب کابینہ کے لیے
کوئی مدت /میعادمقرر نہ ہو گی۔امیر کی فوتیدگی یا ریٹائرمنٹ کی صورت میں اس
کا نائب اسکی جگہ لے لے گا اور اگر تینوں دستیاب نہ رہیں تو حسب دستور نئے
سرے سے امیر کا انتخاب کیا جائے گا۔
بنیادی طریقہ کار واضح ہونے اور وارڈ /گاؤں کی سطح پر انتخابات کے بعد دس
گاؤں پر مشتمل ایک یونین کونسل بنائی جائے گی حسب سابق ہر گاؤں یا وارڈ کا
امیر اس کابینہ کا رُکن ہوگا ۔یونین کونسل کی سطح پر بھی امیر کا انتخاب
اُسی طریقہ کار کے مطابق کیا جائے گا۔ پھر یونین کونسلز کے سربراہان تحصیل
کی سطح پر بننے والی کابینہ کے ارکان بھی ہونگے اور تحصیل کی سطح پر سربراہ
/ امیر کا انتخاب اسی طریقہٰ کار کے مطابق کیا جائے گا۔ اسی طرح تحصیل کی
سطح پر منتخب ہونے والے امیر ضلعی سطح کی کابینہ کے ارکان بھی ہونگے اور وہ
ضلع کی سطح پر اسی طریق انتخاب کے مطابق امیر مقرر کیا جائے گا اور یہ
سلسلہء انتخاب انہی بنیادی اصولوں کے مطابق صوبے اور پھر ملکی سطح سے بڑھتا
ہوا تمام اُمت مسلمہ تک پھیل جائے گا اس طرح نہ صرف مُلکی سطح کے ہر دائرہ
کار (Constituency)میں بہترین اور اہل لوگوں کا چناؤ ہو سکے گا بلکہ بین
الاقوامی سطح پر بھی اُمت کے بہترین افرادکو قیادت کی ذمہ داری سونپی جا
سکے گی ۔
ہو سکتا ہے پیش کرددہ اِس فکر میں بہت سی خامیاں ہوں لیکن نشاۃ الثانیہ کے
جدتِ فکر ناگزیر ہےجب ایک بار شروعات (Initiative) کے لیے پہلا قدم اُٹھا
لیا جاتا ہے تو نہ صرف در وا زے کُھلتے چلے جاتے ہیں بلکہ عملی نفاذ کے
دوران جو مشکلات سامنے آتی ہیں اُن کا حل بھی نکلتا چلا جاتا ہے ۔ اس وقت
اُمت بنیادی سے لے کر اعلیٰ سطح تک قحط الرجال کا شکار ہے ۔بے عملی،
غلامانہ سوچ اور اہل قیادت کا فقدان ہماری شناخت بن چکی ہے ۔ یہ بات طے ہے
کہ جب تک ہر سطح پر اہل، مخلص اور فعال قیادت میسر نہ ہو گی مستبقل میں
کامیابی کا سفر محال ہو گا۔اسی ذریعے سے مثالی قیادت سامنے لائی جا سکتی ہے
اور یہی وہ صورت ہو سکتی ہے جس سے جمہوریت کی خامیوں سے چھٹکارا حاصل کیا
جا سکتا ہےاور اسی طریقے سے اسلامی تعلیمات کو انسانیت کی نجات کا واحد
ذریعہ ثابت کر کے ان تعلیمات کو جمہوریت کے متبادل کے طور پر دنیا کے سامنے
پیش کیا جا سکتا ہے اور شاید اسی راستے پر چل کر اسلامی دولتِ مشترکہ کے
خدو خال صورت پذیر ہوں اور خلافت اسلامیہ کی بحالی کےخواب کی تعبیر بھی مل
سکے ۔ |