زر اور ڈر
(Muhammad Nasir Iqbal Khan, Lahore)
زر،زوراورڈر سے شخصی اقتدارکودوام ملتا ہے مگر مورخ
بتاتے ہیں دنیا بھر میں آج تک کوئی زمینی بادشاہ زوال سے محفوظ نہیں
رہا،چند ایک کے سواکسی کوایوان اقتدار سے آبرامندانہ رخصتی نصیب نہیں
ہوئی۔کئی شہنشاہوں اورحکمرانوں کے'' جانے'' پراُن کے'' آنے'' سے بڑا جشن
منایا گیا۔فرعون سمیت کئی حکمران کروڑوں برس بعدبھی ہزیمت اور نفرت کی
علامت بنے ہوئے ہیں۔ملعون یزیدکانام آج بھی نفرت سے پکاراجاتا ہے ۔اﷲ تعالیٰ
کے شیر حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا تھا، ''دولت اورطاقت ملنے پراِنسان
بدلتا نہیں بلکہ بے نقاب ہوجاتا ہے''۔اِقتدار کی باگ ڈور ملنے پر زیادہ تر
حکمران بے لگام ہوجاتے ہیں ، اپنے محلات میں محصورحکمران طبقہ ان کومحفوظ
قلعہ سمجھتاہے جبکہ ان کے محلات ریت کے گھروندوں سے زیادہ کمزورہوتے ہیں
اورمضطرب ومشتعل عوام کاسیلاب ارباب اقتدار سمیت ان کے محلات کواپنے ساتھ
بہالے جاتا ہے۔بدقسمتی سے مہم جوحکمران اپنے پیشرو ہم منصب کے انجام سے کچھ
نہیں سیکھتے۔ہوسکتا ہے ماضی میں کبھی پاکستان میں ''ووٹ'' سے تبدیلی آئی
ہومگر میں نے تواپنے ہوش میں سرمایہ داراشرافیہ کو''نوٹ''سے اقتدارملتے
جبکہ بے بس عوام کواپنے ہاتھ ملتے اورخون کے آنسوروتے دیکھا ہے۔ووٹرکو
محتسب کہنااورحکومت کوآئینی مدت پوری کرنے پرزوردینا بھونڈا مذاق ہے،اگرمرض
کاشروع میں علم ہوجائے تو مرض کے مزید پیچیدہ ہونے کاانتظار نہیں بلکہ اس
بروقت آپریشن کرتے ہیں ۔ہمارے ہاں سرمایہ دارانہ جمہوریت کبھی جمہور کوراس
نہیں آئی ۔پاکستان میں تجارت سے زیادہ سیاست منفعت بخش شعبہ ہے اوراس میدان
میں مٹھی بھر سرمایہ داروں کی اجارہ داری ہے کیونکہ آج ہمارے ملک میں دولت
اورطاقت کے بغیر کوئی انتخابی سیاست کاتصور بھی نہیں کرسکتا۔
راقم نے اپنے ہوش میں پاکستان اورجمہوریت کوایک ساتھ نہیں دیکھا ،جس وقت
سیاست اورصحافت میں دلچسپی شروع ہوئی اس وقت پاکستان میں ضیائی
آمریت،فسطائیت اورضیائی منافقت کاسورج سوانیزے پرتھا،اگر17اگست 1988ء کو
پاکستانیوں کی نجات کیلئے قدرت مداخلت نہ کرتی توشاید ضیاء الحق آج بھی
مسنداقتدارپربراجمان ہوتااورمیاں نوازشریف اپنے محسن ضیاء الحق کی صحبت
اورمحبت سے مستفیدہورہے ہوتے ۔ضیائی آمریت سے نجات کے بعد پاکستان میں
جوبھی حکمران آیا اس نے شخصی حکومت قائم کی اورمیرے نزدیک شخصی حکومت آمریت
کی ایک بدترین صورت ہے۔اہل علم ودانش کاکہنا ہے پاکستان میں متعدد سماجی
برائیوں سمیت بدعنوانی کی نحوست بھی ضیائی آمریت کے سیاہ دورمیں آئی۔ضیائی
آمریت کی سیاسی نرسری میں جس جس نے پرورش پائی وہ آج ملک وقوم کیلئے بوجھ
بنے ہوئے ہیں۔بدقسمتی سے ضیاء الحق کی موت کے بعدبھی پاکستان میں اس کامشن
جاری ہے کیونکہ میاں نوازشریف نے اپنے محسن ومرشد ضیاء الحق کی قبرکوگواہ
بناکراس کامشن جاری رکھنے کاعہدکیا تھا۔جس طرح ضیاء الحق نے اپنے مخصوص
ہتھکنڈوں سے پاکستانیوں میں نفا ق کابیج بویا تھاآج اس آمر کے سیاسی وارث
بھی وفاق گریزسیاست اورآئینی اداروں کے ساتھ تصادم کررہے ہیں۔
ماضی گواہ ہے پاکستان میں شخصی اقتدار کوطول دینے کے ارادے سے ضمیر کی
بولیاں لگائی جاتی رہیں اورسیاسی وفاداریاں تبدیل کرانے کیلئے مختلف منفی
ہتھکنڈوں کااستعمال کیا گیا۔ہارس ٹریڈنگ کی آڑ میں جہاں منتخب ارکان اسمبلی
اوران کے پیاروں کو اغواء کیا جاتا رہا ہے ۔زر اورزور سے دوسروں کامینڈیٹ
چوری کیا گیا جبکہ ڈرکاہتھیار میڈیاسمیت اقتدار دشمن قوتوں کو دبانے
اورجھکانے کیلئے استعمال ہوتا رہااوربدستورہورہا ہے ۔ زر،زوراورڈر کے بل پر
ماضی میں کیا کچھ کیاجاتارہا ہے ،اس حوالے سے ہماری قومی تاریخ کے کئی
اوراق ہولناک اورشرمناک واقعات سے بھرے پڑے ہیں۔میں جمہوریت اورآمریت میں
کوئی خاص فرق نہیں سمجھتا کیونکہ آمرانہ نظام وردی نہیں بلکہ انسان کے
رویوں کانام ہے۔پاکستان کے عوام کوصرف باوردی آمروں سے واسطہ نہیں پڑا بلکہ
وہ ووٹ سے سول آمروں کومنتخب اورپھران کی آمریت کاسامنا بھی کرتے رہے
ہیں۔منتخب حکمرانوں نے مطلق العنان بننے کیلئے آئین کوموم کی ناک بنایا ۔جوبھی
اقتدارمیں آیااس نے بدعنوانی ،بدزبانی اوربدانتظامی میں اپنے پیشروکوبہت
پیچھے چھوڑدیا۔قیام پاکستان سے اب تک کسی فوجی یاسول آمر سمیت کسی بدعنوان
کااحتساب نہیں ہو اکیونکہ سبھی توچور ہیں اورایک چوردوسرے چورکااحتساب نہیں
کرسکتا ۔
نہال ہاشمی کی ہرزہ سرائی سے ایک بارپھر حکمران اشرافیہ کامائنڈ سیٹ
آشکارہوگیا،حکمران اپنااقتدار اوراپنے بچے بچانے کیلئے وفاداروں بلکہ شاہ
سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کااستعمال اوران کااستحصال کرتے ہیں۔نہال ہاشمی
کی حالیہ جسارت یاحماقت پرحکمران جماعت کی نام نہادانضباطی کاروائی محض آئی
واش ہے ۔نہال ہاشمی نے جو''جملے ''عدلیہ اورجے آئی ٹی ارکان پر''حملے ''کیلئے
استعمال کئے وہ ان کے اپنے نہیں تھے ،ان کی Body Language کودیکھتے ہوئے یہ
حقیقت سمجھنا آسان ہوجاتا ہے ۔ ''بدنام ہوں گے توکیا نام نہ ہوگا''کے مصداق
نہال ہاشمی اپنے کئے پرشرمندہ ہونے کی بجائے اداریوں ،تجزیوں اورٹاک
شوزکاموضوع بننے پر خوشی سے نہال ہورہے ہیں۔عدالت عظمیٰ میں پیش ہوتے وقت
نہال ہاشمی کاہاتھوں کی انگلیوں سے وکٹری کانشان بناناشرمناک جبکہ میڈیا
کایہ منظرنشر کرناافسوسناک تھا ۔ہمیں ہرسطح پرہیرواورولن میں فرق ملحوظ
خاطررکھناہوگا۔ قومی ضمیر کو صحتمند معاشرے کی تعمیر کیلئے تدبیر کرتے ہوئے
مجرمانہ سوچ کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی ۔نہال ہاشمی کااستعفیٰ دینااوراب راہ
فراراختیارکرنا اس کہانی میں ایک نیا موڑ ہے ۔نہال ہاشمی کوکسی نے سمجھا
دیا ہے کہ دوران ٹرائل سینیٹر کی حیثیت سے جہاں انہیں ایوان کی کاروائی میں
شریک ہونے سمیت کئی حقوق حاصل رہیں گے وہاں انہیں سرکاری مراعات بھی ملتی
رہیں گی یایہ بھی ہوسکتا ہے موصوف نے استعمال کرنیوالے آقاؤں کی طوطاچشمی
سے مایوس اورمتنفرہو کریوٹرن لیا ہو ۔نہال ہاشمی کی ہرزہ سرائی اور حسین
نوازکی تصویر لیک ہونے کے ڈانڈے جے آئی ٹی سے جاملتے ہیں۔حکومت اورحکمران
خاندان جے آئی ٹی کوانڈرپریشر کرنے اورمتنازعہ بنانے کے درپے ہے ۔وفاقی
وصوبائی وزراء مسلسل پوائنٹ سکورنگ کررہے ہیں۔
میں برادرم نوشادحمیدسمیت حکمران جماعت کے بیسیوں کارکنان سے واقف ہوں جو
پرویزی آمریت کے سیاہ دورمیں ناکردہ گناہوں کی پاداش میں ہتھکڑیوں سمیت کسی
نہ کسی عدالت میں پیش ہوتے رہے اوریہ کاروائی نجی ٹی وی نشر جبکہ قومی
اخبارات شامل اشاعت کرتے تھے۔2004ء میں راقم کوبھی تین ایم پی اوکے تحت
چادروچاردیواری کاتقدس پامال کرتے ہوئے گرفتارکیا گیا،عدالتی بیلف کے ڈر سے
بیس گھنٹے مجاہدٹاؤن پولیس چوکی میں چارپائی کے ساتھ ہتھکڑی لگاکرباندھ
دیاگیا پھرہوم سیکرٹری پنجاب کی طرف سے تین ماہ کی نظربندی کا آرڈر آنے
پرمجھے ہتھکڑیاں لگاکرماڈل ٹاؤن عدالت میں پیش کیا گیاجہاں سے کوٹ لکھپت
جیل منتقل کردیا گیا،صوبائی وزیرتعلیم رانامشہود ،میاں راشد اورراقم ایک
کوٹھڑی میں تھے ،وہاں سے دودن بعدرات گئے ہم تینوں سمیت متعددسیاسی اسیران
کو ہتھکڑیاں لگاکرپولیس بس میں جانوروں کی طرح ٹھونس کرسنٹرل جیل ملتان
منتقل کردیا گیا جہاں بعدمیں لاہورسے انعام اﷲ خان نیازی کو بھی منتقل کیا
گیا لیکن رانامشہوداحمدخاں کوایم پی اے اورقانون دان ہونے کے سبب ہتھکڑی
نہیں لگائی گئی تھی ۔2008ء میں شریف خاندان پھر سے تخت لاہورپربراجمان
ہوگیا مگرآج تک انہوں نے کسی سیاسی اسیر سے چادروچاردیواری کاتقدس پامال
ہونے، ہتھکڑیاں لگائے جانے اور عدالت میں رسواہونے پراظہارہمدردی
یااظہارافسوس نہیں کیالیکن حسین نوازجوٹھنڈے دفتر کی آرام دہ کرسی
پربراجمان ہے اس کی تصویر لیک ہو ئی یاخودلیک کی توآسمان سرپراٹھالیا
ہے۔کیا ہم مجھ اوربرادرم نوشادحمید سمیت دوسرے اسیران اپنے اپنے ماں باپ کے
حسین نواز نہیں تھے ۔حکمران جماعت کی طرف سے حسین نواز کی جس تصویرپرطوفان
برپا کیا جارہا ہے اس میں کچھ خاص نہیں ۔اس طرح کی تصویر توکسی بھی
پرائیویٹ مقام پر بنائی جاسکتی ہے جس طرح میاں نوازشریف کی سلاخوں کے پیچھے
سے آسمان کوگھورتے ہوئے ایک مختصرویڈو اس وقت نشر کی گئی تھی جس وقت وہ
جلاوطنی کے دوران جدہ سے لندن منتقل ہوئے تھے ،میاں نوازشریف کی متنازعہ
ویڈیونشر کرکے عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی اوریہ تاثردیاگیا
کہ یہ ویڈیو اس وقت بنائی گئی جس وقت وہ فوج کی تحویل میں تھے ۔جوکوئی پاک
فوج کے ڈسپلن اورپروفیشنل ازم کوسمجھتا ہے اسے بخوبی علم ہے کہ فوج کی
تحویل میں کسی شخص کی ویڈیوتیار یا لیک نہیں ہوسکتی ۔ باوثوق ذرائع کے
مطابق وہ متنازعہ ویڈیومبینہ طورپرلندن میں تیار کی گئی تھی ۔تعجب ہے حسین
نوازکی جوتصویر منظرعام پرآئی اس وہ الٹافائدہ اٹھارہے ہیں توجے آئی ٹی کو
یہ تصویرلیک کرنے کی کیا ضرورت پڑی تھی۔ڈان لیک کونان ایشو بتانے والے فوٹو
لیک کوقومی ایشوبنانے کے درپے ہیں۔صوبائی وزیر رانامشہود احمدخاں کی ایک
متنازعہ ویڈیومنظرعام پرآئی تھی جس میں مبینہ طورپرانہیں رشوت وصول کرتے
ہوئے صاف صاف دیکھا گیا مگرحکمران جماعت نے اس ویڈیو کوجعلی قراردے کرمسترد
کردیامگر اب حسین نوازکی مشکوک اورمتنازعہ تصویر پرجوڈیشل کمشن بنانے
کامطالبہ کیا جارہا ہے ۔ڈان لیک کے معاملے میں بھی حکمران جماعت کارویہ
ہرکسی نے دیکھا ہے ۔ڈان لیک کے ڈران سین پرحکمران جماعت کے ہاں جشن منایا
گیا ۔حسین نوازکی تصویر نان ایشوہے ،روزانہ ہزاروں ملزم پاکستانیوں کی
تصاویرمیڈیا نشر کرتا ہے ۔حسین نوازبھی دوسرے ملزمان کی طرح ایک عام ملزم
ہے،اس کی تصویر کوبھی دوسرے ملزمان کی تصویروں کی طرح لیاجائے۔میاں
نوازشریف نے اپنے دونوں بیٹوں حسن اورحسین کیلئے جو اعلیٰ ترین نام منتخب
کئے کاش ان کیلئے کام کاانتخاب کرتے وقت بھی حضرت امام حسن ؑ اورحضرت امام
حسین ؑ کے افکارو کردارکو مشعل راہ بنایا جاتا۔اگرراقم شہزادہ کونین حضرت
امام حسن ؑ اورشہزادہ کونین حضرت امام حسین ؑ کے عہدمیں پیداہوا ہوتا توان
کی خدمت اقدس میں بیحدت عقیدت کے ساتھ ایک شعرنذرکرتا :
مجھے اچھا نہیں لگتا کوئی بھی ہم نام تیرا کوئی تجھ ساہوتوپھرنام بھی تجھ
سا رکھے
|
|