حَبِیبَۂ حَبیبِ خُدا،اُم المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا

نام ولقب اورسال پیدائش: آپؓ کانام’’عائشہ‘‘اورلقب ’’صدیقہ،اُم المؤمنین،حمیرا‘‘ہے سرکاردوعالم ﷺآپؓکو’’بنت الصدیق‘‘سے یادفرماتے تھے۔آپؓ امیرالمؤمنین حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی نورِنظراوردخترنیک اخترہیں۔آپ ؓکی والدۂ ماجدہ کانام ’’اُم رومان ‘‘ہے۔آپؓوالدمکرم کی طرف سے قریشہ تیمیہ اوروالدۂ محترمہ کی طرف سے کنانیہ تھیں آٹھویں پشت میں آپؓ کانسب حضورسرورکائنات فخرموجودات ﷺ کے نسب مبارک سے مل جاتاہے۔آپؓکی والدہ ٔ ماجدہ ’’ام رومان ‘‘کاپہلانکاح عبداﷲ یزدی سے ہواتھااُن کے انتقال کے بعدآپؓ (’یعنی اُم رومان)حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں آئیں اورحضرت ابوبکرصدیق ؓسے اُن کے دوبچے (۱)حضرت عبدالرحمٰنؓ اور(۲)حضرت عائشہؓ پیداہوئے کسی بھی مستندتاریخ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی تاریخ وِلادت کاذکرنہیں ملتا،تاہم امام محمدبن سعد نے اپنے طبقات میں لکھاہے کہ آپؓ کی ولادتِ مبارکہ نبوت کے چوتھے سال کی ابتداء میں مکہ مکرّمہ میں ہوئی۔
آپؓکا بچپن: حضرت عائشہ رضی صدیقہ اﷲ تعالیٰ عنہاکووائل کی بیوی نے دودھ پلایاتھاوائل کے بھائل افلحہ حضرت عائشہ ؓکے رضاعی چچاکے طورپرکبھی کبھی آپؓسے ملنے آیاکرتے تھے اورحضورپاک ﷺ کی اجازت سے آپ ؓ اُن کے سامنے آتی تھیں بخاری شریف میں ہے کہ کبھی کبھی اُن کے رضاعی بھائی بھی ملنے آیاکرتے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہابچپن ہی سے نہایت ذہین وفطین اورعمدہ ذکاوت کی مالک تھیں،لڑکپن میں آپؓکھیل کودکی بہت شوقین تھیں،محلہ کی لڑکیاہروقت ان کے پاس جمع رہتیں وہ اکثران کے ساتھ کھیلاکرتیں تھیں لیکن اِس لڑکپن میں بھی حضورپاک ﷺ کاادب ہرلحاظ سے ملحوظ رہتا۔ایک مرتبہ آپؓگڑیاگڑیاکھیل رہیں تھیں کہ رسول اکرم ،نورمجسم ،سیدعالم ﷺ تشریف لے آئے گڑیوں میں ایک گھوڑابھی تھاجس کے دائیں بائیں دوپَربھی لگے ہوئے تھے آپﷺ نے فرمایاعائشہؓیہ کیاہے ؟توآپؓ نے جواب دیاکہ یہ گھوڑاہے آپ ﷺنے فرمایاکہ گھوڑوں پرتوپَرنہیں ہوتے توحضرت عائشہ ؓنے عرض کیاکیوں؟حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑوں کے توپَرتھے آپﷺ اِس بے ساختہ پن پرمسکردیئے۔(مشکوٰۃ ،باب عشرۃ النساء)
عام طورسے ہرزمانہ کے بچوں کاوہی حال ہوتاہے جوآج کل کے بچوں کاہے کہ سات آٹھ سال تک توانہیں کسی بات کامطلقاً ہوش وشعورنہیں ہوتا۔اورنہ وہ کسی کی بات کی گہرائی تک پہنچنے کی صلاحیت ولیاقت رکھتے ہیں لیکن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہازمانۂ طفولیت کی ایک ایک بات یادرکھتی تھیں اوران کی روایت کرتی تھیں اوراُن سے اَحکام کااستنباط بھی کیاکرتی تھیں،زمانۂ طفولیت کے کھیل کودمیں کوئی آیت مبارکہ اگرکانوں میں پڑجاتی تواُسے بھی بڑی پختگی سے یادرکھتی تھیں۔ہجرت کے وقت آپ ؓ کی عُمرمبارک آٹھ سال کی تھی لیکن اِس کم سِنی اورکم عمری میں ہوش مندی اورقوت حافظہ کایہ حال تھاکہ ہجرت نبوی ﷺ کے تمام واقعات بلکہ تمام جزوی باتیں آپ ؓ کویادتھیں آپؓسے بڑھ کرکسی صحابی نے ہجرت نبوی ﷺکے واقعات کوایسی تفصیل کے ساتھ نقل نہیں کیاہے۔

آپ ؓکانکاح: حضورسرکاردوعالم ﷺ نے سب سے پہلا نکاح حضرت خدیجہ بنت خویلدؓسے فرمایا ُاس وقت آپﷺ کی عُمرمبارک 25؍سال اورحضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکی عُمر40؍سال تھی۔حضرت خدیجہؓ کی قربانیوں اورپریشان کُن حالات میں آپ ﷺ کی خدمت کی سعادت کاجووافرحصہ آپ ؓکے پاس تھااُس کی مثال نہیں ہردکھ اورپریشانی میں حضرت خدیجہ ؓ آپ ﷺ کے لئے غمگسارومونس کاکام دیتی رہیں جب حضرت خدیجہ ؓ کی وفات ہوئی توآپ ﷺ کی طبیعت اطہرپراُن کی جدائی کابہت بڑاصدمہ تھاآپ ﷺپریشان رہتے تھے کہ ایک دن عثمان بن مظعون کی بیوی خولہ بنت حِکم ؓ آپ ﷺ کے پاس آئیں اورعرض کی یارسول اللّٰہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم آپؐ دوسرانکاح فرمالیں۔آپ ؐ نے فرمایاکس سے توخولہ نے کہاکہ بیوہ اورکنواری دونوں لڑکیاں موجودہیں بس آپ ؐ پسندکرلیں اِس پرآپ ؐ نے ارشادفرمایاوہ کون ہیں ؟خولہ نے کہابیوہ توسودہ بنت زُمعہ ہیں اورکنواری( حضرت )ابوبکرکی بیٹی عائشہ ؓ ہیں ارشادہواتم ان کی نسبت گفتگوکرو۔اِنہیں دِنوں حضورپاک ﷺ نے خواب دیکھاکہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کرکوئی چیزآپ ؐکے سامنے پیش کررہاہے آپ ؐنے پوچھاکیاہے جواب دیاآپؐ کی بیوی ہے آپ ؐنے جب اُسے کھول کردیکھاتوحضرت عائشہ ؓہیں۔(صحیح بخاری شریف،مناقب حضرت عائشہؓ)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکاحضوراکرم،نورمجسم، سیدعالم ﷺسے نکاح ارادہ ٔ میشت الٰہی میں مقدرہوچکاتھا۔چنانچہ حضرت عائشہ ؓ کاحضورپاک ﷺ سے نکاح ہوگیااُس وقت آپؓ کی عُمر6؍برس تھی(ازصحیح بخاری)تاہم رخصتی 9؍برس کی عُمرمیں ہوئی،عرب کی گرم آب وہوامیں نَو9؍اوردس10؍سال کے عُمرکی لڑکیاں جوان ہوجاتی تھیں،اتنی کم سنی میں حضرت عائشہ ؓ کاحضورسرورکائنات ﷺ کے کاشانۂ اقدس ﷺآناگہری حکمتوں اوراعلیٰ دینی فوائدسے خالی نہیں بلکہ اِس مبارک نکاح کاایک مقصدومنشانبوت اورخلافت کے درمیان تعلقات کی مضبوطی بھی تھی۔حضرت عطیہؓ حضرت عائشہ ؓ کے نکاح کاواقعہ اس سادگی سے بیان کرتی ہیں کہ عائشہ ؓ لڑکیوں کے ساتھ کھیل رہی تھیں کہ ُان کی نانی آئی اُن کولے گئی اورحضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آکرنکاح پڑھایا۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکہتی ہیں کہ جب میرانکاح ہواتومجھ کوخبرتک نہ ہوئی کہ میرانکاح ہوگیاہے جب میری والدہ ٔ محترمہ نے باہرنکلنے سے روک دیااُس کے بعدمیری والدہ نے مجھے سمجھایا۔(ازطبقات بن سعد،ص40)

آپ ؓکی رخصتی: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہامدینہ منورہ میں سات ماہ گزارے اسی اثنامیں آپ ؓ بیمارپڑگئیں۔بیماری کی شدت کی وجہ سے سرمبارک کے بال گرگئے صحت بحال ہوتے ہی حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضورپاک ﷺ کے پاس آئے اورعرض کیایارسول اﷲ ﷺآپؐ اپنی بیوی کواپنے گھرکیوں نہیں بلالیتے۔آپ ؐنے ارشادفرمایااس وقت میرے پاس مَہراداکرنے کی رقم نہیں ۔حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے درخواست کی میری دولت قبول فرمائیں،چنانچہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے آپ ﷺنے بارہ اوقیہ قرض لے کرحضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکے پاس بھجودیئے۔اس کے بعدمدینہ شریف کی عورتیں دلہن کولینے حضرت ابوبکرصدیقؓ کے گھرآئیں حضرت اُم رومان نے اپنی دخترنیک اخترکوآوازدی۔وہ جھولاجھول رہی تھیں،مقدس ماں نے مُنہ دُھلایابال سنوارے تھوڑی دیرکے بعدحضوراکرم،نورمجسم،نبی محتشم ﷺ بھی تشریف لائے اس وقت آپ ﷺ کی ضیافت دودھ سے کی گئی،حضرت اسماء بنت یزیدجوکہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓکی سہیلی ہیں کہتی ہیں کہ اس وقت میں اس مبارک شادی میں موجودتھی آپﷺ نے تھوڑاسادودھ پی کرباقی دودھ حضرت عائشہ صدیقہؓ کی طرف بڑھایاوہ شرمانے لگیں۔میں نے کہارسول اﷲ ﷺ کاعطیہ واپس نہ کرو،انہوں نے شرماتے شرماتے لے لیااورتھوڑاسادودھ پی لیا۔اس کے بعدآپ ؓ کی رخصتی عمل میں آئی۔یہ شوال المکرم 1 ھ ؁ کاواقعہ ہے۔حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی حضورپاک ﷺ کے ساتھ شادی کے اس واقعہ میں سادگی کایہ تاریخ ساز واقعہ پوری امت کے لئے عظیم اُسوۂ حسنہ ہے،آپ ؓ کی شادی بھی شوال کے مبارک مہینے میں اوررخصتی بھی شوال المکرم کے مہینے میں ہوئی۔

تعلیم وتربیت:حضورپاک ﷺ کی بعثت سے قبل مردوں میں بھی تعلیم وتعلُّم کارواج نہ تھاعورتوں میں کیسے ہوتا۔اسلام کے آغاز کے وقت قریش کے سارے قبیلے میں صرف سترہ(17)آدمی پڑھے لکھے تھے،اُن میں شفاء بنت عبداﷲ ؓصرف ایک عورت تھیں،اسلام کی اشاعت میں انسانوں پردوسرے احسانات کے ساتھ یہ احسان بھی ہواکہ عرب میں لکھنے پڑھنے کاعام رواج ہوگیا۔

حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنی اولاد کی تربیت میں اس قدرسخت تھے کہ اپنے بیٹے حضرت عبدالرحمٰن ؓ کواس جرم پر(کہ انہوں نے مہمانوں کوجلدکھاناکیوں نہیں کھلایا)مارنے کے لئے تیارہوگئے تھے۔(ازصحیح بخاری شریف)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاشادی کے بعدلغزشوں کے باعث اپنے والدمکرم سے بہت زیادہ ڈرتی رہتی تھیں۔کئی موقعوں پرحضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان کوسخت تنبیہ بھی کی ۔ایک دفعہ حضورپاک ﷺ کے سامنے یہ واقعہ پیش آیا توآپ ؐ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کوبچالیا۔(سنن ابوداؤد)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکی تعلیم وتربیت کااصلی زمانہ رخصتی کے بعدشروع ہوتاہے۔آپؓ اسی زمانے میں لکھناپڑھناسیکھا۔قرآن کریم ناظرہ اسی زمانے میں آپؓ نے پڑھا۔احادیث مبارکہ میں ہے کہ آپ ؓ کے لئے ان کاغلام ذکوان قرآن کریم لکھتاتھا۔آپ ؓ نے تاریخ وادب کی تعلیم اپنے والدمکرم سے حاصل کی تھی۔طب کافن وُفودعرب سے سیکھاتھا۔اطبائے عرب جونسخے آقائے دوجہاں صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کوبتاتے آپ ؓ اُن کوبڑی پختگی سے یادفرمالیتی تھیں۔آپؓ کوکسی اورکالج اوریونیورسٹی میں داخلہ کی ضرورت نہ تھی۔آپ ؓ کاگھردنیاکے سب بڑے معلم شریعت سے آراستہ تھا۔یہی درسگاہ اورتعلیم گاہ آپ ؓ کے علم وفضل کاسب سے بڑاذریعہ تھی۔

گھریلوزندگی: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاجس بابرکت ومقدس گھرمیں دُلہن بن کرآئی تھیں وہ کسی عالیشان بلڈنگ یااعلیٰ درجہ کی بلندوبالاعمارت پرمشتمل نہ تھا۔بلکہ مسجدنبوی شریف کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے متعددحُجرے تھے اُن ہی میں ایک مبارک حُجرہ حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ ؓ کامسکن تھا۔یہ حُجرہ مسجدنبوی شریف کے شرقی جانب تھا۔اُس کاایک دروازہ مسجدکے اندرہی سے کُھلتاتھا۔گھریاحُجرہ ٔ مبارکہ کاصحن ہی مسجدنبوی شریف کاصحن تھا۔اُسی حُجرۂ مبارکہ میں حضورنبی اکرم،نورمجسم،سیدعالم،شافع اُمم ،رحمت دوعالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اورحضرت ابوکرصدیق وحضرت عمرفاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہماآرام فرماہیں۔حضورپاک صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اُسی دروازے سے ہوکرمسجدنبوی شریف میں تشریف لے جاتے جب آپ ﷺ مسجدمیں اعتکاف فرماتے تواپنے سرِاقدس کوحُجرے شریف کے اندرکردیتے اورحضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بَالے مبارکہ میں کنگھاکردیتیں۔(ازصحیح بخاری شریف بحوالہ سیدہ عائشہ ،ص41)

حُجرۂ مبارکہ کی وسعت چھ یاسات ہاتھ سے زیادہ نہ تھی ۔دیواریں مٹی کی تھیں چھت کوکھجوروں کی ٹہنیوں سے ڈھانک کراوپرسے کمبل ڈال دیاگیاتھا۔کہ بارش کی زدسے محفوظ رہے۔بلندی اتنی تھی کہ آدمی اگرکھڑاہوتاتوہاتھ چھت کولگ جاتا۔گھرکی کل کائنات ایک چارپائی ،ایک چٹائی ،ایک بستر،ایک تکیہ(جس میں روئی کی جگہ کھجوروں کی چھال بھری ہوئی تھی)آٹااورکھجوریں رکھنے کے لئے دوبرتن تھے۔پانی کے لئے ایک بڑابرتن اورپانی پینے کے لئے ایک پیالہ تھا۔کبھی کبھی راتوں کوچراغ جلانابھی استطاعت سے باہرتھا۔چالیس (40)چالیس(40)راتیں گُزرجاتیں اورگھرمیں چراغ نہیں جلتاتھا۔(ازمسندطیالسی ،ص207)
شوہرنامدارسے اُلفت ومحبت: حضرت عائشہ صدیقہ ،طیبہ،طاہرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکوحضورنبی اکرم،نورمجسم ،سیدعالم ﷺ سے نہ صرف الفت ومحبت تھی بلکہ شغف وعشق بھی انتہائی درجہ کا تھا۔اس محبت کاکوئی اوردعویٰ کرتاتوآپؓ کوملال ہوتاتھا۔چنانچہ تمام ازواج مطہرات میں اس کابڑاخیال تھا۔کبھی راتوں میں آپ ؓ بیدارہوئیں اورآپ ﷺ کواپنے پہلوئے مبارک میں نہ پائیں توبے قرارہوجاتیں۔ایک بارشب کوآنکھ کُھلی توآپﷺ کونہ پایا۔راتوں کے وقت میں حُجرہ شریف میں چراغ نہیں جلتے تھے اس لئے اِدھراُدھرٹٹولنے لگیں۔آخرایک جگہ حضورپاک ﷺ کاقدم مبارک مِلا،دیکھاتوآپ ﷺ سربسجودمناجات الٰہی میں مستغرق ہیں۔ایک مرتبہ اورجب یہی واقعہ پیش آیا۔توشک سے خیال کیاکہ شایدآپﷺ کسی اورازاج مطہرات کے یہاں تشریف لے گئے ہیں۔آپ ؓ اُٹھیں اوراِدھراُدھردیکھنے لگیں لیکن محبوب کاجلوہ نظرنہیں آیا،مگرجب تلاش وجستجو کے بعدآپ ؐپرنظرپڑی تودیکھاکہ آپ ﷺ تسبیح وتہلیل میں مصروف ہیں۔اپنے قصورپرنادم ہوئیں اوربے ساختہ زبان سے نکل گیا’’میرے ماں باپ آپ پرقربان‘میں کس خیال میں ہوں اورآپ ﷺ کس عالم میں مستغرق ہیں‘‘۔
لباس مبارک: زہدوقناعت کی وجہ سے صرف ایک جوڑاپاس رکھتی تھیں ۔اسی کودھودھوکرپہنتی تھیں۔ایک کرتاتھاجس کی قیمت پانچ درہم تھی،یہ اس زمانہ کے لحاظ سے اس قدر بیش قیمت تھاکہ شادی کی تقریبوں میں دُلہن کے لئے عاریتاًمانگاجاتاتھا۔کبھی کبھی آپؓ زعفران رنگ کے کپڑے پہنتی تھیں۔گاہ ِگاہ ِزیوربھی پہن لیتی تھیں۔مبارک گلے میں یمن کابناہواخاص قسم کاسیاہ وسپیدمہروں کاہارتھا۔مبارک انگلیوں میں سونے کی انگوٹھیاں بھی پہنتی تھیں۔

اخلاق وعادات: اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ،طیبہ،طاہرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہانے بچپن سے جوانی تک کازمانہ اس ذات اقدس ﷺ کی صحبت میں بسر کیاجودنیامیں مکارم اخلاق کی تکمل کے لئے آئی تھی اورجس کے روئے جمال کاغازہ’’انک لعلیٰ خلق عظیم‘‘ہے۔اس تربیت گاہ ِروحانی یعنی کاشانۂ نبوت نے آپؓ کوحُسن اخلاق کے اس رتبہ تک پہنچادیاتھاجوانسانیت کی روحانی ترقی کی آخری منزل ہے۔

مقام علم وفضل:علمی حیثیت سے اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ،طیبہ،طاہرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہانہ صرف عام عورتوں پر،نہ صرف اُمَّہات المؤمنین ؓ،نہ صرف خاص خاص صحابیوں پربلکہ چندبزرگوں کوچھوڑکرتمام صحابۂ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم پرفوقیت عام حاصل تھی جامع الترمذی میں (۱)حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓسے روایت ہے کہ:’’ہم صحابیوں کوکوئی ایسی مشکل با ت کبھی پیش نہیں آئی کہ جس کو ہم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے پوچھااوراُن کے پاس اس کے متعلق کچھ معلومات ہم کونہ ملی ہو‘‘۔(۲)عطاابن ابی الرباح کاقول کہ :’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاسب سے زیادہ فقیہ،سب سے زیادہ صاحب علم اورعوام میں سب سے زیادہ اچھی رائے والی تھیں‘‘۔(۳)امام زہری کہتے ہیں کہ ’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاتمام لوگوں میں سب سے زیادہ جاننے والی تھیں،بڑے بڑے صحابہؓ ان سے پوچھاکرتے تھے،اورفرماتے ہیں کہ :اگرتمام مردوں کااوراُمَّہات المؤمنین کاعلم ایک جگہ جمع کیاجاتاتوام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کاعلم ان میں سب سے وسیع ہوتا ‘‘۔(۴)حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓکے صاحبزادے ابوسلمیٰ ؓ کہتے ہیں کہ:’’میں نے رسول اﷲ ﷺ کی سنتوں کاجاننے والا اوررائے میں اگراس کی ضرورت پڑے،ان سے زیادہ فقیہ اورآیتوں کی شان نزول اورفرائض کے مسئلہ کاواقف کارام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاسے بڑھ کرکسی کونہیں دیکھا‘‘۔(۵)عروہ بن زبیرکاقول ہے کہ:’’میں نے قرآن کریم،فرائض،حلال وحرام،فقہ، شاعری ،طب ،عرب کی تاریخ اورنسب کا ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاسے بڑھ کرعالم کسی کونہیں دیکھا‘‘۔ (۶)محمودبن لبیدکابیان ہے کہ:’’ازواج مطہرات بہت سی حدیثیں زبانی یادرکھتی تھیں،لیکن ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓاورحضرت ام سلمہؓ کے برابرنہیں‘‘۔

فقہ وحدیث کے علوم میں ازواج مطہرات کے اندرآپ کادرجہ بہت ہی بلندہے ۔دوہزاردوسودس(2210)آپؓ نے حضورﷺ سے روایت کی ہیں۔آپؓ کی روایت کی ہوئی حدیثوں میں سے ایک سوچوہتر(174)حدیثیں ایسی ہیں جوبخاری ومسلم شریف دونوں کتابوں میں ہیں اورچوّن (54)حدیثیں ایسی ہیں جوصرف بخاری شریف میں ہیں اوراڑسٹھ(68)حدیثیں وہ ہیں جن کوامام مسلم نے اپنی کتاب صحیح مسلم شریف میں تحریر کیاہے۔ان کے علاوہ باقی حدیثیں اَحادیث کی دوسری کتابوں میں مذکورہیں۔

آپ ؓ کی وفات: حضرت امیرمعاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی خلافت کاآخری حصہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓکی زندگی کااخیرزمانہ ہے،اس وقت ان کی عمرسرسٹھ(67)برس کی تھی58؍ہجری میں رمضان المبارک کے مہینہ میں بیمارپڑیں۔چندروزتک علیل رہیں کوئی خیریت پوچھتا،فرماتی اچھی ہوں جولوگ عیادت کوآتے بشارت دیتے ،فرماتیں ائے کاش میں پتھرہوتی ائے کاش میں کسی جنگل کی جڑیں بوٹی ہوتی۔

مرض الموت میں وصیت کی کہ اس حُجرہ میں حضورپاک ﷺ کے ساتھ مجھے دفن نہ کرنا،مجھے دیگرازواج مطہرات کے ساتھ جنت البقیع میں دفن کرنا،اوررات ہی کودفن کردی جاؤں۔صبح کاانتظارنہ کیاجائے۔58؍ہجری اوررمضان المبارک کی 17؍تاریخ مطابق 13؍جون 678؁ء تھی کہ نماز وترکے بعدشب کے وقت آپ ؓوفات پائی۔جنازہ ٔمبارکہ میں اتناہجوم تھاکہ لوگوں کابیان ہے کہ رات کے وقت اِتنا مجمع کبھی نہیں دیکھاگیا۔بعض روایتوں میں ہے کے عورتوں کاازدہام دیکھ کرروزِعیدکے ہجوم کودھوکاہوتاتھا،حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آپؓ کی نمازِجنازہ پڑھائی،قاسم بن محمدابی بکرؓعبداﷲ بن عبدالرحمٰن بن ابی بکرؓعبداﷲ بن عتیقؓعروہ بن زبیرؓ اورعبداﷲ بن زبیرؓ بھتیجوں اوربھانجوں نے قبرشریف میں اُتار ،اورحسب وصیت جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔(اکمال،حاشیہ اکمال،ص612 ؍زرقانی ،ج 3،ص234-235)

محمد صدرِعالم قادری مصباحیؔ
About the Author: محمد صدرِعالم قادری مصباحیؔ Read More Articles by محمد صدرِعالم قادری مصباحیؔ: 87 Articles with 78133 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.