ریاست لیبیا ایک شمالی افریقی عرب ملک ہے،لیبیا کے مشرق
میں مصر، مغرب میں تیونس اور الجزائر، جنوب میں سوڈان، چاڈ اور نیجر اس کے
پڑوسی ہیں۔ لیبیا کی آبادی ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ ہے، 97 فیصد باشندےمسلمان
ہیں اورسرکاری زبان عربی ہے۔1969 تک لیبیا میں بادشہات تھی۔ 75 سال قبل
1942 میں معمر قذافی لیبیا کے ایک صحرائی علاقے میں پیدا ہوئے اور اوائل
جوانی میں وہ عرب قوم پرستی کے پیروکار اور مصری رہنما جمال عبدالناصر کے
شیدائی بن گئے تھے۔ 1956 کے نہر سوئز کے بحران کے دوران مغرب اور اسرائیل
کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں بھی وہ پیش پیش رہے تھے۔ لیبیا میں بادشاہت
کے خلاف وہ ہمیشہ سے تھے، 1969 میں برطانیہ سے فوجی تربیت حاصل کرکے لوٹے
تو کچھ عرصے بعد ہی انہوں نے بن غازی شہر کو مرکز بناکر بادشاہ ’ملک ادریس‘
کے خلاف فوجی بغاوت کردی اور خود لیبیا کے رہنما بن گئے۔معمر قذافی کے بارے
میں اگر یہ کہا جائے کہ وہ ایک ایسے انسان تھے جو ہمیشہ متحرک رہتے تھے تو
غلط نہ ہوگا۔ستر کی دہائی میں معمر قذافی عرب قوم پرستی کے علمبردارتھے اور
انہوں نے لیبیا کو اس وقت کے مصری، شامی اور اردنی رہنماؤں کے ساتھ کئی
معاہدوں میں بھی منسلک کیا۔ ساتھ ساتھ انہوں نے براعظم افریقہ میں بھی اپنا
اثرو رسوخ بڑھانے کی کوشش کی۔ لیکن وہ عرب دنیا کو اپنی قیادت میں متحد
کرنے کی کوشش میں ناکام رہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی ساری توجہ براعظم
افریقہ پر مرکوز کردی اور افریقی ملکوں کے لیے ایک ریاست ہائے متحدہ کا
خیال بھی پیش کیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے افریقی ملکوں کی ثقافت سے ملتے
جلتے لباس بھی پہننا شروع کیے۔
معمر قذافی دنیا بھر میں مختلف حریت پسند تنظیموں کے بھی مددگار رہے جن میں
تنظیم آزادی فلسطین،آئرش ریپبلکن آرمی اور افریقہ کے کئی گروپ شامل ہیں۔
امریکہ اور برطانیہ نے دسمبر 1988 میں اسکاٹ لینڈ کے شہر لاکربی کے نزدیک
پین امریکن کے مسافر بردار جہاز کی تباہی کا ذمہ دار معمر قذافی کو قرار
دیتے ہوئے لیبیا پر اقوام متحدہ کے ذریعے پابندیاں عائد کرا دیں تھیں۔
منفرد طریقے اپنانے کے لیے مشہور معمر قذافی اکثر ٹیلی ویژن پر خیموں میں
مقیم دکھائی دیتے جہاں وہ غیرملکی رہنماؤں کا استقبال بھی کرتے جبکہ کہا
جاتا ہے کہ ان کے ذاتی محافظوں میں خواتین کی اکثریت تھی۔عرب قیادت کے
حوالے سے معمر قذافی کے اکثر دیگر عرب رہنماؤں سے اختلافات بھی رہے ہیں۔
چند برس قبل قاہرہ میں عرب لیگ کے سربراہ اجلاس کے دوران ان کے اورسعودی
بادشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا تھا۔
لیبیا میں معمر قذافی کے پورے دور اقتدار میں خفیہ اداروں کی بنیاد پر
استوار ایک نہایت سخت گیر نظام رہا۔ اسی نظام کے اندر انہوں نے پہلے
سوشلزم، سرمایہ داری اور اسلام کے کچھ پہلوؤں کو ملاکر اپنی سبز کتاب پر
مبنی سیاسی نظریات پیش کیے تھے، پاکستان میں انکے مخالف ان کی کتاب کو
تربوز سے تشبہی دیتے ہیں جو اوپر سے ہرا اور اندر سے لال ہوتاہے۔معمر قذافی
کی جانشینی کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے سیف الاسلام قذافی کو
تیار کر رہے تھے۔
فروری 2011 میں لیبیا کے شہر بن غازی میں انسانی حقوق کے ایک کارکن کی موت
کے ساتھ معمر قذافی کے خلاف بغاوت شروع ہوئی یا کروائی گئی۔ امریکہ،
برطانیہ ، فرانس اور کچھ عرب ممالک نے اس بغاوت کا پورا پورا ساتھ دیا۔ اس
بغاوت کا اختتام 20 اکتوبر 2011 کو معمر قذافی کی موت کے ساتھ ہوا۔ الجزیہ
ٹیلی ویژن پر دکھائی جانے والی فوٹیج میں معمر قذافی کو سرت کی گلیوں میں
گھسیٹے ہو ئے دکھایا گیا ہے۔ اس فوٹیج سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ جب معمر
قذافی کو گلیوں میں گھسیٹا جا رہا تھا اس وقت وہ زندہ تھے یا ہلاک ہو چکے
تھے۔اپریل 2016 میں سابق امریکی صدر براک اوباما نے یہ اعتراف کیا کہ لیبیا
میں معمر قدافی کو معزول کرنے اور ان کو قتل کرنے کے بعد لیبیا افراتفری کا
شکار ہوگیا اور متحارب دھڑوں کے درمیان خانہ جنگی شروع ہوگئی اور دو متوازی
پارلیمان اور حکومتیں قائم کرلی گئیں۔ اس صورت حال میں دہشتگردتنظیم دولت
اسلامیہ (داعش) کے جنگجوؤں کو لیبیا میں قدم جمانے میں مدد ملی اور لیبیا
یورپ آنے والے شامی مہاجرین کے لیے آسان گزرگاہ بن گیا۔ جولائی 2015 میں
لیبیا کی ایک عدالت نے معمر قذافی کے ایک بیٹے سیف الاسلام قذافی کو جنگی
جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں سزائے موت سنائی ہے۔ سیف قذافی کو یہ سزا
2011 میں لیبیا میں انقلاب کے دوران کیے جانے والے اقدامات کی وجہ سے دی
گئی تھی۔ 2011سے اب تک لیبیا کے حالات بدترین افراتفری کا شکار ہیں۔
بیس دسمبر 1971 کو ذوالفقار علی بھٹو جب پاکستان کے صدر بنے تو انہوں عرب
ممالک کا ایک ہنگامی دورہ کیا، اس دورہ میں وہ لیبیا بھی گئے جہاں معمر
قذافی نے ایک دوست ملک کے سربراہ کی حیثیت سے ان کو خوش آمدید کہا، بھٹو
صاحب کے اس دورہ کے بعد پاکستانی لیبر بھی لیبیا جاکر کام کرتی رہی۔ 24
فروری 1974 کولاہور میں دوسری اسلامی سربراہ کا نفرنس ہوئی،کانفرنس میں
لیبیا کے صدر معمر قذافی نے بھی شرکت کی، کانفرنس ختم ہونے کے بعد لاہور
اسٹیڈیم میں معمر قذافی نے ایک جلسہ عام میں پاکستان کے نیوکلیائی ہتھیاروں
کے حق میں خطاب کیا۔ اسی تاریخی جلسہ عام میں پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار
علی بھٹو نے عوام کی بھرپور حمایت اور تالیوں کی گونج میں لاہور اسٹیڈیم کا
نام بدل کر ’’قذافی اسٹیڈیم‘‘ رکھا تھا جو آج بھی ہے۔ لیبیا نے پاکستان کی
کافی معاشی امداد بھی کی تاہم 4 اپریل 1979 کو سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی
بھٹو کو پھانسی دیے جانے کے بعد پاک لیبیا تعلقات سرد مہری کا شکار ہو گئے
۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے مئی 2009 کے اوائل میں لیبیا کا دورہ کیا
اورمعمر قذافی کو پاکستان آنے کی دعوت بھی دی تھی ۔ پاکستان اور لیبیا کے
درمیان تعلقات میں حالات اورضروریات کے مطابق اتار چڑھاوٴآتے رہے ہیں
۔مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان اور لیبیا کے تعلقات اچھے رہے ہیں ا
ور اسی سبب معمر قذافی کئی عشروں تک پاکستانی میڈیا اور عوام کی توجہ کا
مرکز بنے رہے۔معمر قذافی کی موت پر عام پاکستانیوں نے افسوس کا اظہار کیا
اور انہیں شہید قرار دیا۔ان کا کہنا ہے کہ معمرقذافی کی موت کا سبب بننے
والے حالات امریکہ کے پیدا کردہ تھے ۔ جبکہ ایک محدود طبقہ کا خیال تھا کہ
معمرقذافی کی موت لیبیا میں ”ایک نئی اور چمکتی صبح جمہوریت“ کا آغاز ہے،
لیکن افسوس معمر قذافی کے قتل کے چھ سال گزرنے کے بعد بھی لیبیا اندھیرے
میں ڈوبا ہوا ہے۔
لیبیا کی پارلیمنٹ کی جانب سے عام معافی کے اعلان کے بعد لیبیا کے سابق
صدرمقتول معمر قذافی کے بیٹےسیف الاسلام قذافی کو پانچ سال بعد رہا کردیا
گیا ہے۔ فی الوقت کوئی بھی یہ پیش گوئی نہیں کرسکتا کہ سیف الاسلام قذافی
جیل سے رہائی کے بعدکیا قدم اٹھائے گاکیا وہ سیاسی منظر نامے میں واپسی کا
خواہش مند ہوگا یا پھر وہ حتمی طور پر دور جاکر روپوشی اپنا لے گا۔اگر
لیبیا کے سیاسی رجحانات کا جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ معمر قذافی کا
یہ بیٹا ابھی تک لیبیا کے لوگوں کے درمیان مقبولیت رکھتا ہے۔ بالخصوص اس کے
باپ کے ہمنوا قبائل میں جو ایک عرصے سے اس کی قیادت میں سیاسی جماعت بنانے
کے لیے اس کی واپسی انتظار کررہے تھے۔ لیبیا کے کئی شہروں میں سیف قذافی کی
حمایت اور معمر قذافی کے دور کی بحالی کے لیے مظاہرے بھی کیے گئے ہیں۔
معمر قذافی کے حامی المقارحہ قبیلے کے ایک رہنما عبدالمنعم اولاد محمد نے
کہا کہ عدالت کے حکم پر سیف قذافی کو رہا کیا گیا ہے مگر انہیں مکمل سیاسی
آزادیوں کی فراہمی کے بعد ہی ان کے لیے ملک میں جمہوری نظام کو چلانے کی
صلاحیت پیدا ہوگی۔معمر قذافی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ’معمر قذافی کے خلاف
بغاوت، ان کے قتل کے بعد ملک چھ سال سے بدترین افراتفری کا شکار ہے۔ قذافی
کے قتل کے بعد لیبیا عملا ٹکڑوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ اس لیے لیبیا کے عوام
ایک نئے دور کےمنتظرہیں۔ عوام موجودہ ناکام حکومت کا متبادل تلاش کررہے ہیں
اور بلا شبہ سیف قذافی سے بڑھ کر کوئی متبادل لیڈر نہیں‘۔ پاکستان کے عوام
پر امید ہیں کہ دوست ملک لیبیا کے عوام جلدہی لیبیا کے سابق مرد آہن مقتول
معمر قذافی کے بیٹے سیف الاسلام قذافی کی قیادت میں لیبیا کو بدامنی اور
افراتفری کی صورت حال سے نکال کر ایک پرامن جمہوری ملک بنانے میں کامیاب
ہونگے۔
|