پاکستا ن میں جمہوریت بھی ہو تو فیصلے شخصیات کی خواہش کے
تابع ہوتے ہیں حکمران ہوتے تو منتخب ہیں لیکن یہ انتخاب مستند کتنا ہوتا ہے
اس کی سند کوئی نہیں دیتا سوائے منتخب شدہ حکمرانوں کے۔ یہ حکمران ملک کو
عوام کی ضروریات کے مطابق نہیں بلکہ اپنی ضروریات اور خواہشات کے مطابق
چلاتے ہیں ہر حکومت پچھلی حکومت کے فیصلوں کو غلط قرار دے کر انہیں بدلنے
کی کوشش کرتی ہے یعنی اہم سسٹم نہیں پارٹی نظریات اور ان کے لیڈر ہو جاتے
ہیں ۔ پاکستان میں کچھ ادارے ایسے بنائے گئے جو 1973 کے آئین کے مطابق براہ
راست کیبنٹ ڈویژن کے ما تحت کام کرتے ہیں اور کسی وزارت کو جوابدہ نہیں
ہوتے ان اداروں کو ریگولیٹری اداروں کا نام دیا گیا جو عوام کی خدمت کے لیے
کام کریں گے اور مختلف معاملات کو منظم طریقے سے چلائیں گے یہ عوام کے حقوق
کا بالخصوص اور معاشرے کے حق کا بالعموم تحفظ کریں گے ۔ملک میں ایسے اٹھارہ
ادارے کام کر رہے ہیں جو مختلف میدانوں میں عوام کی خدمت کے لیے مختص ہیں
یہ اور بات ہے کہ اکثر اوقات یہ حکومتوں کے زیر اثر آجاتے ہیں اور اپنے
فرائض اُس طرح ادا نہیں کر پاتے جیسے کہ آئین کی رو سے انہیں کر نا چاہیے ۔
حکومتی مداخلت دراصل ان اداروں کی خدمات کسی نہ کسی طرح اپنی طرف موڑنے کی
کوشش ہوتی ہے۔ دسمبر 2016 میں موجودہ حکومت نے ان میں سے چند اداروں کو
متعلقہ وزارتوں کے تحت کرنے کی کوشش کی اگر چہ پوری کامیابی تو نہ ہوئی
تاہم ان کے انتظامی امور کو اِن وزارتوں کو سونپ دیا گیا۔ اِس فیصلے کو
لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹس میں چیلنج بھی کیا گیا، سول سوسائٹی کی
طرف سے دی گئی اس درخواست پر لاہور ہائی کورٹ نے حکومت کے فیصلے کو معطل
قرار دیا اور دلیل دی کہ وزیراعظم نے یہ فیصلہ مشترکہ مفادات کونسل کی
منظوری کے بغیر کیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی اسی دلیل پر مارچ 2017
میں ایسا ہی فیصلہ دیا یعنی حکومتی فیصلہ معطل قرار دیا گیا لیکن حکومت نے
6 جون 2017 کو پانچ ریگولیٹری اداروں کو ایک نوٹیفیکیشن کے تحت متعلقہ
وزارتوں کو دینے کا اعلان کیا جس پر پھر وہی اعتراضات آئے۔ جیسا کہ میں نے
پہلے کہا کہ یہ ریگولیٹری ادارے آزاد ادارے ہیں جو حکومتی وزارتوں پر چیک
رکھتے ہیں اور عام آدمی کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں لیکن جب ان اداروں کو
وزارتوں کے ماتحت کر دیا جائے گا تو یہ وزارتیں اس خوف کے بغیر کام کریں گی
یعنی یہ ڈر خوف نہیں ہوگا کہ کوئی انہیں چیک کر سکتا ہے اگر چہ اب بھی
ہمارے وزیر مشیر اس طرح کے خوف اور ڈر سے بہت حد تک آزاد ہیں اور اپنی مرضی
سے اور اپنی مرضی کے کام کرتے ہیں لیکن تھوڑا بہت احتساب کا ڈر جو اگر
موجود ہے وہ بھی جاتا رہے گا اور محسوس ہوتا ہے کہ یہی حکومت چاہتی ہے کہ
اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ رہے اورخاص کر اس وقت جب عام انتخابات میں
چند ماہ ہی رہ گئے ہیں۔ اِن اداروں میں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری
اتھارٹی ، پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی ، آئل اینڈ گیس ریگولیٹری
اتھارٹی ، فریکونیسی ایلوکیشن بورڈ اور پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی
شامل ہیں ۔ اب اگر ا س فہرست پر نظر ڈالی جائے تو یہ حکومت کی انتخابی
ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں اور کون جانے اِن کے بعد دیگر اداروں کی بھی
باری آجائے اور ہوتے ہوتے بات سٹیٹ بینک تک نہ پہنچ جائے جو سب سے اہم
ریگولیٹری ادارہ ہے ۔حکومت کو عام آدمی کی حالت کی بہتری کی طرف توجہ دینی
چاہیے نہ کہ اس قسم کی اُکھاڑ پچھاڑ پر عوام کا وقت اور ذرائع ضائع کیے
جائیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ حکومت عوام کو سہولیات دینے میں تو نا کام ہے ہی
ضروریات بھی پوری کرنے سے قاصر ہے بلکہ اس کی کوشش ہی نہیں کی جا رہی اس کی
ساری توجہ سیاسی جوڑتوڑپر ہے۔ اس وقت وہ پانامہ کے مسئلے میں الجھی ہوئی ہے،
کبھی کسی اور معاملے میں مصروف ہوتی ہے اور واحد پہلو جو نظر انداز رہتا ہے
وہ عوام کی فلاح و بہبود ہے ۔حکومت اگر کچھ ترقیاتی منصوبے بناتی بھی ہے
اور انہیں بروئے عمل لاتی بھی ہے تو اس کا رویہ صرف یہ ہوتا ہے جیسے عوام
کے اوپراحسان کیا گیا ہے اور اب ان کا ووٹ حکومت کا حق ہے اور اگر وہ یہ
ووٹ نہ دیں تو ان کے علاقے اور وہ ترقی سے محروم ہی رہیں۔ اگر چند ادارے اس
نیک نیتی سے بنادیے گئے ہیں کہ یہ عوام کو ضروریات و سہولیات بغیر رکاوٹ
پہنچاتے رہیں تو ان محکموں کو بھی وزارتوں کے ماتحت کر کے ان کے طریقہ کا ر
کو بھی اتنے واسطے ڈال کر لمبا کیا جائے کہ عوام کے ہاتھ کچھ نہ اُسکے اور
وزارتوں کی غلام گردشوں میں ہی گم ہو کر رہ جائے یہ کہاں کا انصاف ہے ۔حکومت
نے عدالت کے صاف اور کھلے فیصلے کے بعد اگر ان اداروں کی حیثیت کو تبدیل
کرنے کی کوشش کی ہے تو اس کے ارادوں کے بارے کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ
ان کو سیاست کی نظر کر کے وہ کون سے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ان اداروں
میں حساس نوعیت کے ادارے بھی شامل ہیں جو جتنے کم واسطوں سے کام کرے
سکیورٹی نکتہء نظر سے اتنا اچھا ہے لیکن پی ٹی اے اور فریکوینسی الوکیشن
بورڈ جیسے حساس مواصلاتی اداروں کو بھی اگر سیاسی بنا دیا جائے تو ان کے
کام کی رفتار بھی متاثر ہوگئی اورمداخلت کار کی وجہ سے معیار اور رازداری
بھی۔ حکومت کو سوچ لینا چاہیے کہ کل وہ بھی اپوزیشن میں ہو سکتی ہے اور اُس
وقت اُسے بھی ان اداروں کی اس حیثیت پر ضرور اعتراض ہو گا۔ میں یہ نہیں
کہتی کہ ان اداروں کی کارکردگی اتنی اعلیٰ ہے کہ ان پر انگلی نہیں اٹھائی
جا سکتی لیکن انہیں جس وجہ سے وزارتوں کو دیا جا رہا ہے اس کی پشت پر وجہ
ان کی کار کر دگی نہیں اگر ایسا ہے بھی تو ضرورت اُن کی کار کردگی کو بہتر
بنانے کی ہے نہ کہ ایک اچھے مقصد سے قائم کئے گئے ان اداروں کو یوں سبوثاژ
کر دینا اور انہیں اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنا۔حکومت
نے اپنے اس اقدام سے ان کوبہتر کرنے کی بجائے انہیں مفلوج کرنے کا پورا
بندوبست کر لیا ہے اور اب یہ کافی حد تک حکومتی اہلکاروں کی دسترس میں
آجائیں گے۔
حکومت نے یہ فیصلہ کر کے نہ صرف عام آدمی کے مفادات کو نظر انداز کیا ہے
بلکہ عدالتی فیصلے کے خلاف عمل کر کے توہین عدالت بھی کی ہے اگر چہ ہماری
حکومتیں عدالتوں کا احترام صرف تب کرتی ہیں جب وہ حکومت میں نہیں ہوتیں اور
موجودہ حکومت کی تاریخ تو عدلیہ کے بارے میں ویسے ہی خوشگوار نہیں
لہٰذااُسے کم از کم اپنی شہرت میں اضافہ نہیں کرنا چاہیے اور عدالتی فیصلے
کے احترام اور عام آدمی کے مفاد میں اپنا فیصلہ واپس لے لینا چاہیے وہ ان
اداروں کو آزادانہ طور پر اپنا کام کرنے دے اور انہیں اپنی کارکردگی بطور
ریگو لیٹری اداروں کے بہتر بنانے میں مدددے نہ کہ اِنہیں تباہی کی طرف لے
جا کرانہیں نیست و نابود کر دے۔
|