دوستوں کے ہمراہ کچھ دن سیر وتفریح کے لیے شمالی علاقہ
جات کو نکلا ہوا ہوں مری میں ایک دن گذار کر ایوبیہ پہنچے تو قدرت کے حسین
نظارے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ایک دن وہاں گذار کر ہم ناران
پہنچے تواور پھر وہاں سے گلگت اب ہنزہ جارہے ہیں راستے میں گذرنے والا ایک
ایک پل ناقابل فراموش ہے قدرت نے پاکستان کو اتنا حسین اور خوبصورت بنا
رکھا ہے کہ دنیا میں ایسے مقام شائد ہی کسی اور ملک کو نصیب ہوں انہی حسین
نظاروں میں گم تھے کہ فیس بک پر ایک تصویر پر نظر پڑی جہاں وزیر اعلی پنجاب
میاں شہباز شریف ایک جگہ تلاشی دے رہے ہیں شائد یہ کسی رمضان بازار میں
داخلے کا راستہ تھا جہاں پر خادم اعلی اندر جانے سے قبل تلاشی دے رہے ہیں
دوستوں نے تصویر دیکھی تو بے اختیار سب نے ایک ہی لفظ بولا ڈرامہ ۔یہ تصویر
واقعی ایک ڈرامہ تھی کیونکہ جہاں تلاشی دینا ہے وہاں پر تلاشی دی نہیں
جارہی اور جہاں پر ایسی کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی وہاں پر تلاشی کا ڈرامہ
کرلیا جاتا ہے پنجاب کی عوام بلخصوص لاہور میں بسنے والوں کو اچھی طرح یاد
ہوگا کہ جب مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تو پنجاب میں مسلم لیگ ن کی
حکومت تھی گرمیوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف وزیراعلی نے مینار پاکستان
میں اپنی پوری کابینہ کے ساتھ احتجاجی کیمپ لگا لیا تھا اور ہاتھ والے
پنکھے سے ہوا کا ڈرامہ بھی کیا تھا آج مرکز سمیت پنجاب میں مسلم لیگ ن کی
حکومت کو چار سال مکمل ہوچکے ہیں مگر بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم نہ ہوسکی میں
اس وقت سرد علاقوں میں ہوں جہاں سوائے لائٹ کے علاوہ اور کسی جگہ بجلی کا
استعمال نہیں ہے مگر یہاں بھی بجلی نہیں آتی ناران میں ایک دن گذارا مگر
بجلی نہیں آئی یہی حال پورے ملک کا اور پنجاب کے ایسے علاقے جہاں اس وقت
گرمی اپنے پورے زور وشور سے ہے اور عوام بھی روزے سے ہیں اور بجلی نہیں آتی
وہاں پر حکمران صرف ڈرامے بازیاں کررہے ہوں تو ایسے میں عوام کا پارہ بھی
چڑھے گا ایسے میں رمضان بازار کے باہر تلاشی دینا بھی ایک طرح کا ڈرامہ ہی
ہے کیونکہ پانامہ کے حوالہ سے حکمران خاندان تلاشی دینے سے ہچکچا رہا ہے
ایس موقعہ پر اعتزاز احسن کا بیان بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ جے آئی ٹی
کی تمام کاروائی اوپن ہونی چاہیے چار اور پانچ گھنٹے بٹھا کر ایسی کونسی
تفتیش کی جارہی ہے جسکی گتھی سلجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی ایسے میں
طاہرالقادری کا بیان بھی سامنے آگیا کہ یہ سب ایک ڈرامہ ہے اگر ملک میں
یونہی ڈرامے ہونے ہیں تو پھر عوام کی بات کون سنے گا انہیں مشکلات سے کون
نکالے گا اور جو مسائل دن بدن بڑھتے جارہے ہیں انہیں ختم کون کریگا پیپلز
پارٹی کی حکومت کو بھی ہم آزما چکے ہیں میاں نواز شریف بھی تقریبا24سال
حکومت کرنے کا ریکارڈ بنا چکے ہیں مگر آج بھی ملک میں غربت عوام کی ہڈیوں
میں سمائی ہوئی ہے نسل در نسل غلام اور محکوم قوم کو ان حکمرانوں نے مزید
غلامی کی دلد ل میں دھکیل رکھا ہے ان برسراقتدار طبقے کے تمام رشتہ دار اور
دوست لوٹ مار کی بہتی گنگا میں نہا نہا کر تھک چکے ہیں مگر پھر بھی لوٹ مار
کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہاملک میں غربت اس حد
تک پہنچ چکی ہے کہ مائیں اپنے بچوں سمیت خودکشیاں کررہی ہیں بے روزگاری اس
حد تک بڑھ چکی ہے ایم اے پاس افراد خاکروب کی نوکری کرنے پر مجبور ہیں
سرکاری ہسپتالوں میں ایک بیڈ پر تین مریض لیٹ کراپنا علاج کروارہے ہوتے ہیں
ہمارے ریگستانوں میں پینے کا پانی نہیں وہاں ایک جگہ اکٹھا ہونے والا پانی
جانور اور انسان مل کرپیتے ہیں سندھ کے سرکاری ہسپتالوں میں درختوں کے ساتھ
باندھ کر ڈرپ لگائی جاتی ہے اور پورے ملک کی افسر شاہی عوام کو روندنے میں
مصروف ہے ایک طرف مظلوم اور بے سہارا عوام ہے تو دوسری طرف طاقتور حکمران
طبقہ ہے یہ طاقتور طبقہ چند مخصوص لوگوں پر مشتمل ہے جنہوں نے 20کروڑ آبادی
کے ملک کو آگے لگارکھا ہے صرف وعدوں کے زور پر حکمرانی کرنے والوں نے
بیرونی بینکوں میں پیسہ جمع کررکھا ہے اور ایسے میں تلاشی دیتے ہوئے تصویر
اتروانا عوام کے ساتھ محض ایک مذاق ہے ۔قیام پاکستان سے لیکر آج تک عوام
اور ملک کو مشکلات میں دھکیلنے والے ہی برسراقتدار ہیں جنہوں نے ملک کا
سوچا نہ قوم کا یہی وجہ ہے کہ آج تک ہم ایک قوم نہیں بن سکے کیونکہ
حکمرانوں کو معلوم ہے کہ جس دن یہ منتشر لوگ ایک قوم بن گئے اس دن ان کا
جینا مشکل ہوجائیگا اور مرنا اس سے بھی مشکل بن جائیگا اس لیے حکمرانوں کو
چاہیے کہ اب بھی وقت ہے ڈرامہ بازی کی بجائے ملک اور قوم کے لیے کچھ
کرجائیں ورنہ تاریخ بہت ظالم ہے وہ کسی کو معاف نہیں کرتی ۔ |