خیبرپختونخوا حکومت کا آخری بجٹ

صوبائی حکومت برائے خیبرپختونخوا کی جانب سے نئے مالی سال 2017-18کیلئے 603ارب روپے مالیت کا بجٹ پیش کیاگیاہے حجم کے لحاظ سے یہ صوبے کی تاریخ کاسب سے بڑابجٹ ہے دنیاکے ترقی یافتہ ممالک میں بجٹ عوامی مفادکیلئے پیش کیاجاتاہے عوامی ضروریات اورخواہشات کومدنظررکھ کرزیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ ہمارے ہاں کی روایت اس سے مختلف ہے یہاں بجٹ سے کچھ دن قبل یہ گردان شروع ہوجاتی ہے کہ بجٹ میں کوئی نیاٹیکس نہیں لگایاجائیگا،ٹیکس فری ہوگا، عوام دوست ہوگا اوراس مرتبہ ریلیف کے تمام سابقہ ریکارڈزٹوٹ جائینگے مگرجب بجٹ سامنے آتاہے تو سب سے پہلے ٹیکس نہ لگانے کادعویٰ ٹھس ہوجاتاہے جب نت نئے ٹیکسوں کی بھرمارہوتوبجٹ عوام دوست کیسے ہوسکتاہے اور اس سے عوام کو ریلیف کیونکر مل سکتاہے ؟یہی کچھ اس مرتبہ کی صوبائی بجٹ کے ساتھ بھی دیکھنے میں آیانیاٹیکس نہ لگانے کے دعوے اس وقت ہواہوگئے جب صوبے کے غریب ترین طبقے یعنی درزیوں پر بھی پروفیشنل ٹیکس لگایاگیا دس ہزارسے زائد ماہانہ کمانے والوں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لایاگیاکمال کی بات یہ ہے کہ مزدورکی کم ازکم اجرت پندرہ ہزار جبکہ ٹیکس نیٹ دس ہزارمقررکی گئی ہے یعنی کوئی مزدور(جس کیلئے حکومت کی جانب سے پندرہ ہزارکی مزدوری مقررکی گئی ہے) بھی ٹیکس سے بچ نہیں پائیگاحالیہ بجٹ کی ہائی لائیٹ یہی دوچیزیں ہیں باقی تو جوکچھ بھی ہے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے برابرہے ناہی عوام کوکسی قسم کاکوئی ریلیف مہیاکرنے کی کوشش ہوئی ہے اور ناہی بجٹ کودیکھ کرایسالگتاہے کہ یہ بجٹ عوام کیلئے ہے بلکہ یہ بجٹ حکومت چلانے کیلئے ہے اور اس میں یہ تفصیل دی گئی ہے کہ حکومت 603ارب روپے کی رقم کہاں اورکیسے خرچ کریگی ترقیاتی کاموں کیلئے 208ارب جبکہ غیرترقیاتی و جاریہ اخراجات کیلئے 388ارب روپے مختص کئے گئے ہیں سرکاری ملازمین کیلئے 10%اضافے کالالی پاپ دیاگیاہے اگرحکومت کایہ آخری بجٹ نہ ہوتاتوسرکاری ملازمین یقیناًاس اضافے سے بھی محروم رہتے ’’26598نئی آسامیاں تخلیق کی جائیں گی‘‘ جہاں بجٹ تقریرمیں وزیرخزانہ کوکہناپڑاکہ سرکاری ملازمین خزانے پربوجھ ہیں وہاں چھبیس ہزارکی نئی آسامیاں ’’تخلیق ‘‘ کرکے کس کوفائدہ پہنچانے کے ارادے ہیں یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ مذکورہ اسامیاں چاروں حکومتی اتحادی آپس میں تقسیم کرکے آخری سال کویادگاربنانے کی کوشش کی جائیگی ایک اور نعرہ بھی دیاگیاہے کہ صوبہ میں غریب عوام کیلئے خپل کورکے نام سے سستے مکانات کی تعمیرکی جائیگی یہ تعمیرکون کریگا،کیسے کی جائیگی ،اس کیلئے غربت کی کیاشرح مقررکی گئی ہے اور اس سکیم سے کون فائدہ اٹھاسکتاہے اسکی کوئی تفصیل بجٹ میں نہیں بتائی گئی شنیدہے کہ یہ بھی انصاف صحت کارڈ کی طرح’’ اندھابانٹے ریوڑیاں مڑمڑ کے اپنوں کودے ‘‘والی بات ہوگی 1233میگاواٹ بجلی پیداکرنے کیلئے مختلف مقامات پرمنصوبے شروع کئے جائیں گے پہلے سے اعلان کردہ 350ڈیمزکا کوئی ذکرنہیں جبکہ حالیہ بجٹ میں بیس نئے ڈیمزبنانے کااعلان کیاگیاہے ان کے بارے میں بھی وضاحت سے کچھ نہیں کہاگیابلکہ یہ بھی ساڑھے تین سوڈیمزکی طرح ایک نعرہ ہی ہے جس پربعدمیں خاموشی اختیارکرنے کے چانسزبہت زیادہ ہیں سابقہ حکومت کے آخری دوچارمہینوں میں 2400میگاواٹ کے بجلی منصوبوں کاافتتاح بھی ہوچکاتھااوربعض کیلئے رقم بھی رکھی گئی تھی مگرموجودہ حکومت نے ان میں سے صرف ایک یعنی مٹلتان پاورپراجیکٹ کادوبارہ افتتاح کرکے بقیہ منصوبوں پرچپ سادھ لی ہے بجلی کے نئے منصوبوں کے حوالے سے صوبائی حکومت کے پاس ناہی کوئی وژن ہے اورناہی صلاحیت ورنہ ہائیڈل پاورسے مالامال صوبے میں کوئلے اورگیس سے بجلی بنانے کی بات نہ کی جاتی سرکاری سکولوں اوربنیادی مراکزصحت کوشمسی توانائی پرمنتقل کیاجائیگایہ منصوبہ بھی صوبے کے وسائل کاضیاع ہی ہے اربوں روپے خرچ کرکے جن سکولوں یامراکزصحت کوبجلی اوردیگرآلات فراہم کئے گئے ہیں اب وہی سب کچھ بیکارہوجائیگااورشمسی توانائی پرنئے سرے سے سرمایہ کاری کی جائیگی جیسے اس صوبے میں دولت کی فراوانی ہے ایک منصوبہ آج لگتاہے کل اسے اکھاڑکرپھینکاجاتاہے اربوں روپے ضائع ہوجاتے ہیں مگرکسی کے کان پرجوں تک نہیں رینگتی صوبے میں بلین ٹری کاتیسرامرحلہ شروع کیاجائیگاجسمیں 15کروڑسے زائدپودے لگائے جائیں گے بلین ٹری کامنصوبہ پہلے سے تنقیدکی زدمیں ہے ایک تواس کیلئے خریدے گئے پودوں کی قیمت عام مارکیٹ سے کئی سوگنازیادہ ہے دوسرے اس میں بغیرکسی منصوبہ بندی کے پودے لگائے گئے اگرہرعلاقے کے ماحول کومدنظررکھ کرپودے لگائے جاتے میوہ دارپودوں کوترجیح دی جاتی تو بلاشبہ صوبہ کچھ ہی عرصے بعدناصرف سرسبزوشاداب بن جاتابلکہ پھلوں کے حوالے سے خودکفالت کی منزل پاسکتاتھامگربغیرکسی منصوبہ بندی کے ان زرخیزاورشاداب علاقوں میں جہاں سیب آم اوردیگرقیمتی پھلوں کے درخت لگائے جاسکتے تھے وہاں بھی لاچی اور سفیدہ کے پودے لگائے گئے جس کی لکڑی کاکوئی خاص مصرف نہیں اوریہ صوبے کی سب سے سستی لکڑی شمارکی جاتی ہے،صوبہ بھرکی تحصیلوں اورٹاؤنزکی سطح پرماڈل تھانوں کی تعمیرکی جائیگی جبکہ انسداددہشت گردی کیلئے ریجنل ہیڈکوارٹرزقائم کئے جائیں گے،حالانکہ یہ سب اب تک ہوجاناچاہئے تھاوفاق سے صوبے کودہشت گردی کی مدمیں جورقم مل رہی ہے اس رقم کوبلین ٹری میں جھونکنے سے بہترہوتااس سے اب تک تمام تحصیلوں اور ٹاؤنزمیں ماڈل تھانے اور انسداددہشت گردی کے مراکزقائم کئے جاچکے ہوتے مگرآخری بجٹ میں دہشت گردی کی جانب توجہ دیگئی ہے حالانکہ دہشت گردی سے لوگ گزشتہ سترہ سالوں سے مرتے آرہے ہیں مٹ جائیگی مخلوق خدا تو انصاف کروگے ،آئندہ مالی سال کے دوران صوبائی حکومت کومرکزکی جانب سے قابل تقسیم پول سے 326ارب روپے ملیں گے جبکہ براہ راست منتقلیوں کی مدمیں 24ارب وصول ہونگے ،دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے صوبہ کو39ارب 17کروڑ،بجلی کے خالص منافع کی سالانہ مدمیں 20ارب78کروڑجبکہ بقایاجات کی مدمیں 15ارب وصول ہونگے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں صوبائی حکومت کو10ارب روپے کاخسارہ درپیش ہے تاہم اسے ظاہرنہ کرنے کیلئے مذکورہ دس ارب روپے اندرونی طورپرقرضہ لیاجائیگاصوبائی حکومت کوآئندہ مالی سال کے دوران 82ارب روپے غیرملکی وسائل سے ملیں گے جبکہ ضلعی حکومتوں کوترقیاتی کاموں کیلئے 28ارب روپے فراہم کئے جائیں گے صوبائی حکومت کوآئندہ مالی سال کے دوران تیل اورگیس کی رائیلٹی کی مدمیں 24ارب68کروڑروپے حاصل ہونگے جبکہ صوبائی حکومت کی اپنے طورپر45ارب21کروڑکی آمدنی ٹیکسوں اوردیگرمدات سے ہوگی تعلیم کیلئے 127ارب روپے(115ارب ابتدائی وثانوی تعلیم ،12ارب اعلیٰ تعلیم)،صحت کیلئے 49ارب 27کروڑ،سماجی بہبودوترقی نسواں کیلئے ایک ارب 85کروڑ،پولیس کیلئے 39ارب73کروڑ،آبپاشی کیلئے3ارب76کروڑ،فنی تعلیم اورافرادی تربیت کیلئے2ارب25کروڑ،کھیل ثقافت وسیاحت کیلئے72کروڑ،زراعت4ارب35کروڑ،ماحولیات وجنگلات کیلئے2ارب37کروڑ،سڑکوں شاہراہوں اورپلوں کی مرمت کیلئے 8ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ہاں وزیراعلیٰ کے صوابدیدی فنڈکیلئے 15ارب کی تجویزہے خیبرپختونخواحکومت کاآخری بجٹ انقلابی نہیں ایک روایتی بجٹ ہے جس سے صوبے میں کوئی مثبت تبدیلی خارج ازامکان ہے ۔
 

Wisal Khan
About the Author: Wisal Khan Read More Articles by Wisal Khan: 80 Articles with 51879 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.