اِنسان موت نہیں انسان کی نفرت سے مر تا ہے ،موت سے
توانسان محض ایک دوسرے مرحلے میں منتقل ہوتے ہیں۔کچھ لوگ زندہ ہوتے ہوئے
بھی زندہ نہیں ہوتے ،ان کاوجوددھرتی پرایک بھاری بوجھ کی طرح ہوتا ہے۔دنیا
میں کئی انسان گزرے ہیں جو موت کی آغوش میں چلے جانے کے باوجود نہیں مرے
اوروہ آسودہ خاک ہونے کے باوجود کئی دہائیوں بعدآج بھی زندہ وتابندہ
ہیں۔کیونکہ حضرت ابوانیس صوفی محمد برکت علی ؒ کے قول کی روشنی میں'' زندہ
قبوروالے خودبھی زندہ ہوتے ہیں''۔ حضرت ابوانیس صوفی محمد برکت علی ؒ
خودبھی زندہ وجاویدہیں کیونکہ سمندری روڈ پران کی قبربھی زندہ ہے اورزندہ
ضمیر لوگ ان کے مزارپر ہردم اﷲ تعالیٰ اوراس کے حبیب سرورکونین حضرت
محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کی حمدوثناء بیان کرتے ہیں،وہاں نیاز کے ساتھ ساتھ
نابیناؤں میں بینائی کی نعمت بھی تقسیم ہوتی ہے۔ہمارے قلم قبیلے کاسرمایہ
افتخار، کالم نگار اور ماہرچشم ڈاکٹرجاویدملک بھی وہاں جا کر مدھم اوربے
نور آنکھوں کوپوری طرح روشن کرتے ہیں ۔ حضرت ابوانیس صوفی محمد برکت علیؒ
اسلامیت اورروحانیت کے علمبردار تھے ،آج دنیا بھرمیں ہزاروں لوگ ان کے
پیروکار ہیں ۔اﷲ تعالیٰ کے ذکراذکار کاایمان افروزسلسلہ ایسا صدقہ جاریہ ہے
جواِنسان کوسیدھاجنت الفردوس میں لے جائے گا۔بابائے قوم قائداعظم محمدعلی
جناح ؒ ،مصورپاکستان علامہ محمد اقبال ؒ سمیت بانیان پاکستان،شہدائے
پاکستان اورقائدعوام ذوالفقارعلی بھٹو کی قبورزندہ ہیں۔پیپلزپارٹی کے جیالے
آج بھی ''زندہ ہے بھٹو زندہ ہے'' کاجذباتی نعرہ لگاتے ہیں کیونکہ ان کے
بانی چیئرمین کی قبرزندہ ہے جبکہ جنرل ضیاء الحق کے مزارپروہ مناظر دیکھنے
کو نہیں ملتے۔ذوالفقارعلی بھٹو سے پہلے اوربعدمیں کئی وزرائے اعظم آئے
مگرکسی کوزندگی اوروالہانہ محبت والی موت نصیب نہیں ہوئی۔پاکستان اوربانیان
پاکستان سے تعصب رکھنے اورحسدکرنیوالے کہاں کہاں دفن ہیں یہ کوئی نہیں
جانتا ۔جوزندگی میں دوسروں کیلئے آسانیاں پیداکرتے ہیں قدرت کی غیبی مدد سے
موت ان پرمہربان ہوجاتی ہے ۔اِنسان مرجاتے ہیں مگران کامثبت
کرداراَمرہوجاتا ہے ۔جودوسروں کیلئے جیتے ہیں وہ مرکربھی نہیں مرتے ۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام اورپیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقارعلی
بھٹونے اِسلامی ملکوں کے درمیان پل کاکرداراداکیاا ورپھراِس پاداش میں
انہیں تختہ دارپر لٹکادیا گیا،کاش اس وقت بھی برادراسلامی ملک سعودیہ کے
شہنشاہ ذوالفقارعلی بھٹوکی زندگی بچانے کیلئے اپناکوئی کرداراداکرتے توآج
اسلامی برادری کادنیامیں مقام بہت بلندہوتا۔دنیا کی ڈری اورسہمی ہوئی
مقتدرقوتوں نے پاکستان سے ذوالفقارعلی بھٹو کی صورت میں ایک گوہرنایاب چھین
لیا ورنہ جس ذوالفقارعلی بھٹونے پاکستان کوایٹمی طاقت بنایا وہ
یقینامادروطن کو معاشی طاقت بھی بنا تے مگرانہیں میرجعفر اورمیرصادق کی
باقیات سے مہلت نہیں ملی ۔ذوالفقارعلی بھٹوموت کی آغوش میں چلے گئے مگران
کی پیپلزپارٹی آج بھی زندہ ہے ۔ذوالفقارعلی بھٹوکی متنازعہ موت کے بعدکسی
مسلم حکمران کو اسلامی ملکوں کے درمیان پل تعمیر کرنے کی جسارت نہیں ہوئی ۔
ذوالفقارعلی بھٹوکاانجام دیکھنے کے بعد کوئی مسلم حکمران اسلامی بلاک
اوراسلامی بنک کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے آگے نہیں آیا۔
آج اسلامی ملکوں کے پاس اسلامی نظام ،سیاسی استحکام اورنڈرومدبرقیادت کے
سواسب کچھ ہے۔پیچیدہ مسائل پرقابوپانے کیلئے وسائل سے زیادہ اہل قیادت کی
ضرورت پیش آتی ہے۔اِسلام اورپاکستان سے حسدکرنیوالی مقتدرقوتوں نے ایک سازش
کے تحت اِسلامی ملکوں میں نڈر ،مدبر، باضمیر اورباکردارقیادت ابھرنے نہیں
دی۔مقتدرقوتوں نے اپنے مخصوص مفادات کی تکمیل کیلئے سرمایہ داروں کوپروموٹ
کیا کیونکہ سرمایہ داروں کواستعمال بلکہ'' مس یوز'' کرنایعنی اشاروں
پرنچاناانتہائی آسان ہے۔سرمایہ داروں کی جان ان کے زروجواہرمیں ہوتی ہے
اوروہ اپناسرمایہ چھپانے کیلئے مقتدرقوتوں کے محتاج ہیں لہٰذاء آسانی سے
بلیک میل ہوجاتے ہیں ۔آج پاکستان میں عمران خان کااقتدارمیں آنابھی ایک
معجزہ ہوگاکیونکہ وہ مقتدرقوتوں کے ہاتھوں کاکھلونابننے اور استعمال ہونے
کیلئے تیار نہیں۔اقتدار کیلئے امریکہ کی دہلیز پرسجدہ ریزہونیوالے آج پوری
طرح متحداوراگلی باری کیلئے بھی پرامید ہیں ،ان کامقابلہ کرنے اورانہیں
ہرانے کیلئے عمران خان کوایک انتخابی اتحاد بنانے کی ضرورت ہے ۔یہ
سولوفلائیٹ اورہٹ دھرمی کاوقت نہیں ،ماناعمران خان مقبول اورمعقول سیاستدان
ہیں مگر وہ اپنے مدمقابل سیاسی اتحادیوں کوانڈراسٹیمیٹ نہ کریں کیونکہ ان
کے پاس Possessionیعنی اقتدار کی''ملکیت ''ہے۔میاں نوازشریف تیسری
باروزیراعظم منتخب ہوئے ہیں مگروہ پہلی بار ''اِسلامی جمہوری اِتحاد''کے
پلیٹ فارم سے وزیراعظم بنے تھے ۔عمران خان اپنے جذبات اورسیاست کومکس نہ
کریں۔ جس طرح کرکٹ میں ہربلے باز کیلئے مختلف باؤلرکاانتخاب اورفیلڈرزکی
پوزیشن کوتبدیل کیاجاتا ہے اس طرح سیاست میں بھی مدمقابل سیاستدانوں کے
مزاج،ان کی نفسیات اوران کے طریقہ واردات کے مطابق دوررس سیاسی فیصلے
کرناپڑتے ہیں ۔عمران خان ،شیخ رشید،سراج الحق،چودھری برادران
اورڈاکٹرطاہرالقادری کے درمیان انتخابی اتحادیاسیٹ ایڈجسٹمنٹ سے پاکستان
میں امریکہ کے حواریوں کاراستہ روکاجاسکتا ہے۔عوام آئندہ انتخابات میں
چہروں سمیت نظام کی تبدیلی کے خواہاں اوراس کیلئے بہت پرامید ہیں ،ڈرہے
اگراس بار بھی عوام کی امید ٹوٹ گئی توخدانخواستہ بہت کچھ ٹوٹ پھوٹ جائے گا۔
ذولفقارعلی بھٹو کی پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاست کرنیوالے کئی لوگ
قدآوربنے مگرسیاسی وفاداری کی تبدیلی نے انہیں'' بونا'' بنادیا ۔آج
پیپلزپارٹی کے پاس قابل اعتمادقیادت اور موزوں امیدوار نہیں مگراس کاووٹ
بنک برقرار ہے،جیالے بھٹوخاندان کے خون سے بیوفائی نہیں کرسکتے ۔اگرآصف علی
زرادری خودپیچھے رہ کراپنے اوربینظیر بھٹوکے بیٹے بلاول بھٹوزرادری کی
کامیابی کیلئے کام کریں توانتخابات کانتیجہ پیپلزپارٹی کے حق میں نکل سکتا
ہے ،بادشاہ گرہونابادشاہ ہونے سے اہم ہے۔پیپلزپارٹی کی کمانڈ آصف علی
زرداری کے ہاتھوں میں آنے سے اس کی سیاست کودھچکا لگااوراگرآصف علی زرداری
نے بلاول بھٹو زرادری کو فیصلے کرنے کااختیارنہ دیاتوپیپلزپارٹی سندھ تک
محدودہوجائے گی ۔وزیراعظم میاں نوازشریف ان دنوں ہروقت مریم نوازکووزیراعظم
بنانے کی سوچ میں غرق رہتے ہیں،شنید ہے مریم نوازکے مدمقابل پیپلزپارٹی کی
سرگرم رہنما جہاں آراء وٹو میدان میں اتریں گی اوردونوں کے درمیان کانٹے
دارمقابلہ ہوگا ۔پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ اورپیپلزپارٹی کے مرکزی نائب
صدرمیاں منظوراحمدوٹو ا نتہائی زیرک سیاستدان نے ،انہوں نے ماضی میں سیاسی
جوڑ توڑ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) سے تخت لاہور چھین لیا تھا اب دیکھتے ہیں
جہاں آراء وٹو اورمریم نواز کے درمیان انتخابی دنگل میں کامیابی کس کا مقدر
بنتی ہے۔مریم نواز نے اپنے طورپرپاکستان میں کوئی کام نہیں کیا ،ان کی
شناخت میاں نوازشریف کے دم قدم سے ہے جبکہ جہاں آراء وٹوکاقومی سیاست میں
نام ومقام اوراحترام ان کی فلاحی سرگرمیوں کاانعام ہے ۔وہ امیدوارکی حیثیت
سے عام انتخابات میں شریک ہونے کاتجربہ بھی رکھتی ہیں۔جہاں آراء وٹوقلم
قبیلے کاحصہ اوراچھی مقرر بھی ہیں،ان کے کالم میں جہاں مختلف معاشرتی مسائل
کاتذکرہ ہوتا ہے وہاں وہ ان کے سدباب کیلئے ٹھوس تجاویزبھی پیش کرتی ہیں ۔
جہاں آراء وٹو یقینا وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز کے ساتھ مقابلے میں اپ
سیٹ کرسکتی ہیں۔
پچھلے دنوں سعودیہ میں جوکچھ ہوا وہ ایک بڑاسوالیہ نشان ہے۔وہاں امریکہ کے
نومنتخب صدرکی آمدسمیت مقررین نے مجموعی طورپرجس سوچ کااظہارکیا اس پرکوئی
سچامسلمان اطمینان اوراعتماد کااظہارنہیں کرسکتا۔پاکستان سے زیادہ دہشت گرد
وں کی سرکوبی کیلئے کسی ریاست کاکردارہوسکتا ہے اورنہ ہمارے سرفروش فوجی
جوانوں سے زیادہ کسی دوسری فوج کی قربانیاں ہوسکتی ہیں لیکن اس کانفرنس میں
کسی مقررنے پاکستان کی کاوشوں، قربانیوں اورکامرانیوں کونہیں سراہا۔کانفرنس
میں شریک پاکستان کے منتخب وزیراعظم کوخطاب کی اجازت نہ ملنا بھی افسوسناک
امر ہے۔افسوس کانفرنس میں جموں وکشمیر ،فلسطین ،برمااورشام کے مسلمانوں کی
ابتر حالت زارپرکوئی بات نہیں کی گئی ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے خطاب میں بھارت
اوراپنے پارٹ ٹونریندرمودی کے غیرضروری تذکر ے سے موصوف کااسلام اور
پاکستان کے ساتھ تعصب بے نقاب ہوگیا ۔پاکستان کے برادراسلامی اورپڑوسی ملک
ایران بارے امریکہ کے خیالات بلکہ خرافات سے پاکستانیوں کوہرگزاتفاق نہیں
۔پاکستان کسی کی خاطر اپنے برادراسلامی اورپڑوسی ملک ایران سے تعلقات نہیں
بگاڑسکتا۔ پاکستان اورایران دونوں آپس میں بدگمانی یا بداعتمادی کے متحمل
نہیں ہوسکتے۔ بھارت سے فاصلہ جبکہ پاکستان سے برادرانہ اوردوستانہ تعلقات
ایران کیلئے انتہائی مفید ہیں۔مصیبت میں عزیزواقارب سے زیادہ پڑوسی کام آتے
ہیں،پاکستان کیلئے ایران کواپنی سوچ بدلناہوگی ۔بھارت کسی صورت ایران سے
دوستی کاحق ادانہیں کرسکتا۔مسلم حکمران کس سمت جارہے ہیں،یہ تاریک راستہ
انہیں کہا ں لے جائے گا۔مسلم حکمرانوں کااقتدار نہیں اسلامی اقدار اہم ہیں۔
مسلم حکمران اوران کے حواری جان بوجھ کرایک بندگلی کی طرف کیوں بڑھ رہے
ہیں۔مسلم حکمران مل بیٹھیں اور دوسروں کی بجائے اپنے اندرخامیاں تلاش
اورایک دوسرے کومعاف کرکے اپنے دل صاف کریں ورنہ باری باری ہرکسی کی باری
آئے گی۔دولت سمیت دنیا کی کوئی نعمت نہیں جومسلمان ملکوں کومیسر نہ ہو مگر
بدقسمتی سے مسلمانوں کو مدبرونڈر قیادت کاقحط درپیش ہے۔ کسی مسلمان یامسلم
ریاست کواسلامی تعلیمات سے انحراف کرنے کاحق نہیں پہنچتا ۔دوست کودشمن
اوردشمن کودوست سمجھنا محض نادانی نہیں بلکہ بدترین حماقت اورجہالت ہے
۔امریکہ اورسعودی عرب کے درمیان حالیہ معاہد ے اسلام کیلئے زہرقاتل ہیں۔
''عرب'' زرکی ہوس میں'' ارب '' بنتے جارہے ہیں۔سعودی حکمران حاجیوں ،عمرہ
زائرین اورپاکستان سمیت دوسرے ملکوں سے محنت مزدوری کیلئے سعودیہ آنیوالے
مسلمانوں سے پیسہ بٹوریاسمیٹ کرامریکہ کی غرقاب معیشت کوزندہ کرنے کے درپے
ہیں۔امریکہ کی بجائے ایران سے دوستی سعودیہ کے مفاد میں ہے ،اگر سعودیہ
اورایران آپس میں دوستی نہیں کرسکتے تودشمنی کاباب بھی بند کردیں ورنہ
دواسلامی ملکوں کے درمیان دشمنی کی قیمت دنیا بھر کے مسلما نوں کو چکاناپڑے
گی۔ |