اعتکاف کی شرائط اور ضروری مسائل

رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اہل اسلام مرد مساجد اور خواتین گھروں میں اہتمام سے اعتکاف کرتی ہیں مگر شرعی مسائل کا علم نہ ہونے کے سبب بعض اوقات الجھن کا شکار ہوجاتے ہیں اور اب یہ عمومی کیفیت بنتی جارہی ہے کہ پوچھنا نہیں اگرچہ غلط ہوجائے ۔حالانکہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ مختصر سے چند مسائل ہوتے ہیں جنہیں سمجھ لیا جائے تو بہت آسانی سے یہ مبارک عمل انتہائی خوبصورتی سے سر انجا م دیا جاسکتا ہے ۔اسی نکتہ نظر سے علماء دین شرح متین کے مرتب کردہ اعتکاف کے فضائل اور مسائل درج کیے جارہے ہیں ۔تاکہ اس سعادت کو حاصل کرنے کے خواہشمنداستفادہ کرکے اپنے اعتکاف کو اور قیمتی بنائیں اوردلجمعی سے اپنے اوقات کو عبادات میں گزارسکیں ۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم رمضان کے اخیر عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی، پھر اس کے بعد آپ کی ازواج مطہراتؓ نے اعتکاف کا معمول جاری رکھااسی طرح حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے معتکف کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ گناہوں سے بچا رہتا ہے اور اس کو ان تمام اچھے کاموں کا جووہ اعتکاف کی وجہ سے نہیں کرسکتا ایسے ہی بدلہ دیا جائے گا جیسا کہ نیکی کرنے والے کو دیا جاتا ہے۔

اعتکاف کی تعریف اور اس کی شرائط: اعتکا ف کہتے ہیں عبادت کی نیت سے مسجد میں ٹھہرنے کو، صحت اعتکاف کیلئے درج ذیل شرائط کا وجود ضروری ہے:
(۱) مسلمان ہونا، کافر کا اعتکاف نہیں۔
(۲) عاقل ہونا، مجنون کا اعتکاف نہیں۔ بالغ ہونا شرط نہیں اس لئے نابالغ سمجھدار بچہ بھی اعتکاف کی نیت سے بیٹھ سکتاہے۔
(۳) جنابت سے پاک ہونا،نا پاک شخص کا مسجد میں داخلہ ممنوع ہے۔
(۴) اعتکاف کی نیت کرنا، بلانیت مسجد میں بیٹھنے سے اعتکاف نہ ہوگا۔
(۵) جس جگہ اعتکاف بیٹھے وہ جگہ شرعی مسجد ہو۔
(۶) سنت اور واجب اعتکاف میں روزہ سے ہونا ۔

مسجد کی حد: مسجد سے مراد خاص وہ حصہ زمین ہے جو نماز کے لیے تیار کیا گیا ہو،یعنی اندر کاکمرہ،برآمدہ اور صحن۔ باقی جو حصہ اس سے خارج ہو وہ مسجد کے حکم میں نہیں، خواہ ضروریات مسجدہی کے لئے وقف ہو، جیسے امام کا حجرہ مسجدسے ملحق مدرسہ، جنازہ گاہ، وضو خانہ، غسل خانہ، استنجا خانے۔ یہ تمام جگہیں مسجد سے خارج ہیں اگر معتکف نے بلا ضرورت ان میں قدم رکھا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔

مسجد سے نکلنے کی حد: مسجد سے باہر نکلنے کا حکم تب لگے گا جب دونوں پاؤں مسجد سے باہر ہوں اور دیکھنے والے یہی سمجھیں یہ مسجد سے باہر ہے،لہذا صرف سر باہر نکالنے سے اعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔

مسجد کی چھت یازینہ پر چڑھنا: مسجد کی چھت کا بھی وہی حکم ہے جو مسجد کا، اسی طرح مسجد کئی منزلہ ہوتو اوپر نیچے کی تمام منزلوں کا ایک ہی حکم ہے، معتکف سب میں آ جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ آنے جانے کا زینہ حدود مسجد کے اندر ہو۔

حدود مسجد سے لاپروائی: اس مسئلہ میں بہت سے معتکف کوتاہی کا شکار ہوکر اپنا اعتکاف تو ڑ بیٹھتے ہیں، اس لئے معتکف کو چاہیے کہ اعتکاف میں بیٹھنے سے پہلے خطیب و امام یا متولی مسجد سے پوچھ کر مسجد کی حدود پوری طرح معلوم کرلے۔

اعتکاف کی قسمیں: اعتکاف کی تین قسمیں ہیں:
(۱) واجب:۔ جس کی منت مانی جائے، خواہ منت کسی شرط پر موقوف ہو، مثلاً میر ا فلاں کام ہوگیا تو اتنے دن کا اعتکاف کروں گا۔ یامنت کسی شرط کے بغیر ہو مثلاً اﷲ تعالیٰ کے لئے اتنے دنوں کا اعتکاف میرے ذمہ ہے،منت کا اعتکاف اس صورت میں واجب ہوتا ہے کہ زبان سے الفاظ اداء کرکے اپنے ذمہ واجب کرے۔ صرف دل میں نیت کرنے سے منت نہیں ہوتی۔
(۲) مسنون: رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے۔
(۳) مستحب: ان دوقسموں کے سوا جو اعتکاف کیا جائے وہ مستحب ہے۔

اعتکاف ہر محلہ میں سنت کفایہ ہے: رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف شہر کے ہر محلہ کے حق میں سنت علی الکفایہ ہے۔ یعنی ہر محلہ کی مسجد میں ایک آدمی اعتکاف بیٹھنے ورنہ پورا محلہ تارک سنت ہوگا۔
اعتکاف کس مسجد میں افضل ہے:اعتکا ف کے لئے سب سے افضل جگہ مسجد حرام ہے، اس کے بعد مسجد نبوی پھر مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) پھر بڑی مسجد جس میں نمازی زیادہ آتے ہوں، بشرطیکہ اس میں پانچوں وقت جماعت ہوتی ہو ورنہ اپنے محلہ کی مسجد افضل ہے۔

مسنون اعتکاف کس وقت سے شروع ہوتاہے:
مسنون اعتکاف میں بیٹھنے کے لئے ضروری ہے کہ 20رمضان کو غروب آفتاب سے پہلے مسجد میں داخل ہوجائے اور اعتکاف کی نیت بھی غروب سے پہلے کرلے، خواہ مسجد میں داخل ہوتے ہوئے کرے یا داخل ہونے کے بعد کرے۔ اگر غروب کے بعد مسجد میں داخل ہوا، یا مسجد میں پہلے سے موجود تھا مگر نیت غروب کے بعد کی تو یہ اعتکاف مسنون نہ ہوگا، مستحب ہوجائے گا، اس لئے کہ پورے عشرہ اخیرہ کا اعتکاف نہ ہوا۔
معتکف کے لئے مستحب امور: اعتکاف میں بیٹھنے والے کے لئے درج ذیل کام مستحب ہیں:
(۱) لایعنی باتوں سے اپنے کو بچائے، ز بان سے صرف کلمہ خیر نکالے۔
(۲) قرآن مجید کی کثرت سے تلاوت (اکابرین کا معمول دن اور رات میں قرآن مجید کو پڑھ کر مکمل کرنا رہا ہے )اسی طرح تجوید کے ساتھ سیکھنا ،ترجمہ اور جتنا ممکن ہو یاد کرلینا بہتر عمل ہے ۔
(۳) حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ، حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے پاکیزہ حالات اور سلف صالحین کے واقعات و ملفوظات کا مطالعہ کرے۔
(۴) اسی اثناء میں مسائل وینیہ (اہل علم حضرات یا مستند کتب کی مددسے) سیکھنے پر خصوصی توجہ دے۔
(۵) علاوہ ازیں نفل نمازوں (تحیۃ الوضوء، تحیۃ المسجد، اشراق، چاشت، اوّابین او رتہجد) کی حتی الامکان پابندی رکھے۔
(۴) تمام اذکارِمسنونہ پابندی سے پڑھے۔
(۷) درود شریف،کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت کرے۔
(۸) شب قدر کی پانچوں راتوں میں ممکن ہوتو رات بھر بیدار رہے اور انہیں مختلف قسم کی عبادات سے بسرکرے،نوافل اور ذکرو تلاوت کے علاوہ دعاء کثرت سے کرے۔
(۹) جہا ں اپنے لئے دعا کرے وہا ں اپنے والدین، اعزہ واحباب، ملک وملت بلکہ پوری امت کے حق میں دعا کرے۔
(۰۱)شب قدر کی راتوں میں یہ دعا بھی اہتمام و توجہ سے کرے:
’’اے اﷲ! بے شک آپ معاف کرنے والے ہیں، معافی کو پسند کرتے ہیں، پس مجھے بھی معاف کردیجئے۔‘‘
تنبیہ: ان امور کی بجا آوری بقدر استطاعت کی جائے،اتنازیادہ غلو نہ کیا جائے جس سے دوسروں کو اعتکاف سے توحش ہوجائز نہیں۔٭
معتکف کے لئے جائز و ناجائز امور

درج ذیل کام صرف معتکف کے لئے مباح (جائز) ہیں:
کھانا پینا وغیرہ:
مسجد میں کھانا پینا، لیٹنا اور آرام کرنا۔
لباس تبدیل کرنا اور تیل لگا نا: لباس تبدیل کرنا اور تیل لگانا جائز ہے۔مگر تیل لگانے میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ مسجد کی چٹائی، دری یا مسجد کی اور کوئی چیز آلودہ نہ ہو، نہ بال مسجد میں گر نے پائیں، کوئی چادر وغیرہ بچھالیں، پھر اسے مسجد سے باہر مناسب جگہ جھڑوادیں یاکسی تھیلی وغیرہ میں رکھیں،بعد میں مناسب جگہ ڈالوادیں۔
جگہ تبدیل کرنا: جگہ تبدیل کرنا، یعنی مسجد میں ایک جگہ اعتکاف بیٹھنے کے بعد اٹھ کر دوسری جگہ بیٹھ جانا،نفل اعتکاف بیٹھنے والے کیلئے بھی یہ کام بلا کراہت مسجد میں جائز ہیں۔

مسجدمیں معتکف کا خرید وفرخت کرنا:
اپنی بیوی یا بچوں کی ضرورت سے مسجد میں کسی چیز کی خرید و فروخت کرنا جائز ہے، مگر سودا سلف مسجد میں رکھنا جائز نہیں، ہاں اگر ایسی ہلکی پھلکی چیز ہو جو مسجد میں جگہ نہ گھیرے تو اسے لانے کی گنجائش ہے۔ اور جو چیز اپنی یا اہل وعیال کی ضرورت کی نہ ہو یا بنیت تجارت اس کی خرید و فروخت کی جائے تو یہ خرید وفروخت ناجائز ہے،گوکہ صرف زبانی ہی کیوں نہ ہو۔

مباح باتیں کرنا:
بقدرِ ضرورت مباح باتیں کرنا درست ہے۔
بالکل خاموش رہنا بھی جائز ہے جبکہ اسے ثواب وقربت نہ سمجھے۔ البتہ بات چیت کی محفل جما کر اس کیلئے بیٹھک کرنا بہرحال مکروہ تحریمی ہے۔گفتگو کرنے میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ کسی دوسرے معتکف یا نمازی کی راحت و عبادت میں خلل نہ آئے، ورنہ یہ گفتگو ناجائز ہوگی۔

معتکف کا مسجد میں سرو غیرہ دھونا
سر مسجد سے باہر نکال کر اور داڑھی وغیرہ دھونا بھی جائز ہے، خواہ خود دھوئے یا کسی سے دھلوائے، اسی طرح مستعمل پانی کے لئے کوئی بڑا برتن رکھ کر ہاتھ منہ یا سر مسجد میں دھونا چاہے بلکہ وضو بھی کرنا چاہے تو مضایقہ نہیں۔ بشرطیکہ پانی مسجد میں گرنے نہ پائے۔

معتکف کے لئے نسوار،سگریٹ کا استعمال:
حقہ اور سگریٹ مسجد میں بیٹھ کر پینا جائز نہیں، اور معتکف کے لئے مسجد سے باہر جانا بھی جائز نہیں۔ اگر معتکف ان چیزوں کا عادی ہے تو اسے مدت اعتکاف میں ان چیزوں کوترک کردینا چاہیے۔

اگر کسی کوشدید تقاضا ہوتو وہ کسی ضرورت کے موقع پر مسجد سے نکلے تو راستہ میں سگریٹ، بیڑی، نسوار استعمال کرلے،مگر اس کے بعد فوراً منہ سے بدبو زائل کردے۔

معتکف کا بضرورت محرم عورت سے ملنا:
کوئی ضروری کام درپیش ہوتو بیوی یا کوئی محرم خاتون(ماں، بیٹی،بہن، بھتیجی وغیرہ) مسجد میں آکر معتکف سے مل سکتی ہے،لیکن ضروری ہے کہ ایسے وقت آئے جب مسجد میں عام لوگ نہ ہوں اور با پردہ آئے، نیز اس موقع پر کسی دوسرے شخص کی نظر پڑ جائے تو اس کے سامنے فوری وضاحت کردے کہ یہ میری بیوی ہے یا محرم خاتون ہے، تاکہ اس کے لئے بدگمانی کا موقع نہ رہے۔

معتکف کا مسجد میں ٹہلنا:
معتکف کا بضرورت مسجد میں ٹہلنا جائز ہے۔

معتکف کامسجد میں مریض کاعلاج کرنا:
مسجد میں مریض کا حال سن کریا معائینہ کرکے اسے بلا معاوضہ دوائیا ں دینا علاج بتانا اور نسخہ لکھ دینا جائز ہے۔

معتکف کا مسجد میں حجامت بنوانا:
اپنی حجامت خود بنانا جائز ہے او رحجام سے بنانے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر بدون عوض کرتاہے تو مسجد کے اندر جائز ہے اور اگر بالعوض کرتاہے تو معتکف مسجد کے اندر ہے مگر حجام مسجد سے باہر بیٹھ کر حجامت بنائے۔ مسجد کے اندر اجرت سے کام کرنا جائز نہیں۔

معتکف کا مسجد میں کپڑے دھونا یاسینا:
معتکف کے لئے مسجد میں بوقت ضرورت اپنے کپڑے دھونا اور سینا جائز ہے مگر یہ احتیاط ضروری ہے کہ پانی مسجد میں گرنے نہ پائے، واضح رہے کہ کپڑے دھونے کے لئے مسجد سے باہر نکلنا جائز نہیں۔

اعتکاف میں پردے لٹکا نا:
اعتکاف میں پردے لٹکانا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ثابت ہے، معتکف کو چاہیے کہ دل جمعی ویکسوئی کے لئے پردے لٹکادے اور اس خلوت خانے میں دعا، وعبادت کا مشغلہ رکھے اور نمازوں کے اوقات میں اگر ضروری ہو تو پردے اٹھالئے جائیں۔

Hafeez Usmani
About the Author: Hafeez Usmani Read More Articles by Hafeez Usmani: 57 Articles with 40464 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.