بسم اﷲ الرحمن الرحیم
تحریر: حبیب اﷲ قمر
پاکستان نے سعودی عرب اور قطر کے درمیان اختلافات ختم کرانے کیلئے عملی
کوششوں کا آغاز کر دیا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل قمر
جاوید باجوہ نے سعودی عرب کا ایک روزہ دورہ کیا ہے جسے ثالثی مشن کا نام
بھی دیا جارہا ہے۔ خلیجی ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر کئے
گئے اس دورہ میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور وزیر خزانہ اسحق ڈار بھی ان کے
ہمراہ تھے۔ سعودی عرب روانگی سے قبل وزیر اعظم نواز شریف نے عرب ملکوں میں
تعینات پاکستانی سفیروں کی کانفرنس سے بھی خطاب کیا جس میں سعودی عرب، کویت،
یواے ای اور قطر میں تعینات سفیر اسلام آباد پہنچے۔ اجلاس میں وزارت خارجہ
کے حکام اورسفیروں نے خلیجی ملکوں میں جاری بحران پر بریفنگ دی جبکہ وزیر
اعظم نواز شریف نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان برادر اسلامی ملکوں کے
درمیان تناؤ ختم کرنے کیلئے مخلصانہ کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ دورہ سعودی
عرب کے دوران وزیر اعظم نواز شریف نے خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن
عبدالعزیزودیگر اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں اور واپس اسلام آباد پہنچ گئے
ہیں۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات،بحرین اور مصر کی جانب سے سفارتی بائیکاٹ کے
بعدبعض ملک قطر کو ایک انتہائی مظلوم ریاست کے طور پر پیش کرنے کی کوششیں
کر رہے ہیں اور یہ ثابت کرنے پر زور لگایا جارہا ہے کہ غزہ کی طرح قطرکا
محاصرہ کر لیا گیا ہے اور شاید آنے والے دنوں میں یہاں لوگوں کو کھانے
کیلئے کچھ نہیں ملے گا جبکہ درحقیقت ایسی کوئی بات نہیں ہے۔قطری بائیکاٹ کے
سیاسی مسئلہ کو محاصرے کا نام دیکر انسانی حقوق کا معاملہ بنا کر پیش کرنا
کسی طور درست نہیں ہے۔ یہ پروپیگنڈا محض عرب اور بین الاقوامی رائے عامہ پر
اثر انداز ہونے کیلئے کیا جارہا ہے۔ قطر کی فضائی حدود کھلی ہیں۔ مذکورہ
چار ملکوں کے ساتھ ملنے والی سرحدوں کے علاوہ اس کی آبی حدود سے بھی
آمدورفت جاری ہے۔ اس کے پاس بڑا فضائی بیڑا ہے اور وافر مالی وسائل موجود
ہیں۔ وہ یورپ اور آسٹریلیا کی مارکیٹوں سے اپنے لئے اشیائے ضروریہ روزانہ
کی بنیاد پر درآمد اور دوحہ منتقل کر سکتا ہے۔جب تک قطری طیارے اور بحری
جہاز دنیا کے مختلف ملکوں کا سفر اور ان سے تجارت کر سکتے ہیں‘ اسے محاصرہ
نہیں کہا جاسکتا۔ہاں اگر عراق کی طرح قطر کے تمام راستے اور راہداریاں بند
کر دی جاتیں تو پھر اسے ناکہ بندی کہا جاسکتا تھا۔سعودی عرب اور دیگر تین
ملکوں نے تو صرف ابھی قطری حکام کو اپنی راہداریوں کو استعمال کرنے سے روکا
ہے اور یہ بھی صرف اس لئے کیا گیا ہے تاکہ قطری حکام کو احساس دلایا جاسکے
کہ دوسرے ملکوں میں بغاوت کے بیج بونے اور دہشت گردی میں ملوث گروہوں کی
سرپرستی کرنے سے بہرحال انہیں بھی مشکلات کا سامناکرنا پڑ سکتا ہے۔ حقائق
سے لاعلم بعض لوگوں کی طرف سے یہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ امریکی صدر
ٹرمپ کی آمد کے بعد قطر کا محاصرہ کر لیا گیا ہے اور یہ سب کچھ امریکہ کے
کہنے پر کیا جارہا ہے لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔ قطرسے متعلق یہ بھی
کہاجارہا ہے کہ وہ خطہ میں آزاد خارجہ پالیسی پر گامزن تھا اور امریکہ کو
چونکہ یہ بات پسند نہیں تھی اس لئے اس کا بائیکاٹ کروادیا گیا ہے‘ یہ بات
انتہائی مضحکہ خیز ہے۔میں پوچھتا ہوں کہ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ قطر کے
نام سے یہ خلیجی ریاست امریکہ کے سب سے بڑے جنگی اڈے کی حیثیت رکھتی
ہے؟۔کیا یہاں سینکڑوں لڑاکا طیارے، بیس ہزار سے زائد امریکی فوجی اور جدید
ترین اسلحہ کے ڈھیرموجود نہیں ہیں؟ ۔کیا اسی خطہ سے مسلمان ملکوں میں قتل و
غارت گری کی آگ بھڑکانے والی داعش کومدد فراہم نہیں کی جاتی رہی؟۔کیا قطری
حکام کی جانب سے حزب اﷲ جیسے گروہوں کی بھرپور مالی امدادنہیں کی گئی اور
کیا یمن میں ان حوثی باغیوں سے تعاون نہیں کیا گیا جو حرمین شریفین پر
حملوں کی نہ صرف کھلی دھمکیاں دیتے رہے بلکہ عملی طور پر بھی ایسی مذموم
سازشوں میں مصروف ہیں؟۔یہی تو وہ بنیاد تھی جس کی وجہ سے یمن میں جاری
’’بحالی امید آپریشن‘‘ کیلئے عرب اتحادکے پلیٹ فارم سے کئے جانے والے
آپریشن کا حصہ بنائے گئے دوحہ کو اس میں سے نکال دیا گیاتھا۔قطر کا بائیکاٹ
کرنے والے چاروں ملکوں کی جانب سے دہشت گردی میں ملوث جن شخصیات کو بلیک
لسٹ قرار دیا گیا ہے ان میں سے اکثرقطر میں مقیم ہیں اور سرکاری سطح پر
یہاں ان کی سرپرستی کی جاتی رہی اور اب تک کی جارہی ہے۔ قطری حکام کی طرف
سے ہی مصر میں دہشت گردی میں ملوث افراد کی مکمل پشت پناہی کی جاتی رہی حتیٰ
کہ سعودی عرب کیخلاف بھی جن گروہوں نے عسکری کاروائیوں کی منصوبہ بندیاں
اور دہشت گردی کی کاروائیاں کیں ان کی سرپرستی کا الزام بھی قطر پر ہی
لگایا جاتا رہا ہے۔ ایسے حالات میں یہ امر بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ سعودی
عرب اور دیگر تین ملکوں کی طرف سے یہ کاروائی اچانک نہیں کی گئی‘ اس کا ایک
طویل پس منظر ہے جسے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ معروف غیر ملکی صحافی رابرٹ
فسک نے ’’دی انڈیپنڈنٹ‘‘ میں شائع ہونے والے اپنے ایک تازہ مضمون میں لکھا
ہے کہ جب ایک مرتبہ میں نے قطری امیر کے والد شیخ حماد سے پوچھا کہ وہ
امریکیوں کو قطر سے نکال باہر کیوں نہیں کرتے تو ان کا جواب تھا کہ اگر میں
نے ایسا کیا تو عرب مجھ پر چڑھ دوڑیں گے۔ رابرٹ فسک کا کہنا تھا کہ اب بیٹے
کا معاملہ بھی باپ والا ہے اور قطری امیر شیخ تمیم کو اس بات کی امید ہے کہ
قطر میں موجود امریکہ کی بہت بڑی ایئر بیس سعودی افواج کے قطر میں داخل
ہونے کی راہ میں رکاوٹ ہو گی۔ رابرٹ فسک کی ان باتوں سے صاف واضح ہوتا ہے
کہ قطر نے معدنی وسائل سے بھرپور اس خطہ کو امریکی اڈہ اوراس کی کالونی بنا
رکھا ہے۔ امریکیوں کی یہاں موجودگی کے باوجود طالبان کا دفتر اس کی مرضی کے
بغیر نہیں کھولا جاسکتا۔ وہ ایک طرف سعودی عرب کی سرپرستی میں اکتالیس ملکی
اتحاد میں بھی شمولیت اختیار کرتا ہے اور دوسری جانب ایران سے بھی اس کے
مثالی تعلقات ہیں کہ وہ مکمل طور پر اس کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔ ماضی میں
ایسا ہوتا آیا ہے کہ الریاض، تیونس، قاہرہ اور دیگر اسلامی ملکوں کے
دارالحکومتوں کی جانب سے خونریزی کا شکار ہونے کے باوجود مصلحت پسندی کے
تحت قطری حکام سے بہت زیادہ سخت رویہ اختیار نہیں کیا لیکن اب جبکہ سعودی
عرب کی زیر قیادت اکتالیس ملکی اتحاد معرض وجود میں آچکا ہے اور مسلمان
ملکوں کے اجتماعی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلوں کی کوششیں کی جارہی
ہیں تو ایسے حالات میں امریکہ کی گو د میں بیٹھے قطری حکام کی ڈبل گیم کو
زیادہ دیر تک برداشت نہیں کیا جاسکتا۔سعودی عرب، مصر ، بحرین اور متحدہ عرب
امارات کی طرف سے کیا جانے والا بائیکاٹ وہاں نظام کی تبدیلی نہیں بلکہ
دوحہ کودہشت گرد گروہوں کو امداد فراہم کرنے والی پالیسیاں تبدیل کرنے
کیلئے دباؤ بڑھانا ہے۔عرب ریاستوں کا اتحاد کامیاب بنانے کیلئے بھی یہ
اصلاح ضروری ہے۔ سنگین علاقائی ضروریات کے پیش نظر‘ یہ ناخوشگوار مگر
ناگزیر اقدامات کرنا سعودی عرب اور دیگر ملکوں نے ضروری سمجھااور پھر ان پر
عمل درآمد کا فیصلہ کیا گیا۔حال ہی میں کئے گئے ان فیصلوں کے واضح اثرات
آنے والے دنوں میں دکھائی دیں گے اور بہت سی ایسی باتیں بھی منظر عام پر
آئیں گی جو ابھی تک سکرین پردکھائی نہیں دے رہیں۔بہرحال افسوسناک امر یہ ہے
کہ چار ملکوں کی جانب سے قطری بائیکاٹ کے سیاسی فیصلہ کے بعد پاکستان میں
بعض جماعتوں نے بے وقت کی راگنی پھر سے چھیڑ دی ہے کہ پاکستان کو اسلامی
فوجی اتحاد میں شامل نہیں ہونا چاہیے تھا اور یہ کہ اسلامی اتحاد ٹوٹ پھوٹ
کا شکار ہو رہا ہے‘ اب جنرل راحیل شریف کو واپس بلا لینا چاہیے۔مجھے حیرت
ہوتی ہے کہ محض سیاسی مفادات کے حصول کیلئے کیسی بچگانہ اور فہم و شعور سے
عاری باتیں کی جارہی ہیں۔ پہلے بھی یمن کے مسئلہ پر پارلیمنٹ میں سعودی عرب
کیخلاف بھانت بھانت کی بولیاں بولی گئیں اور ہم نے اپنے محسن ملکوں کو
ناراض کیا اب ایک مرتبہ پھر وہی عمل دوبارہ دہرایا جارہا ہے۔ ضرورت اس امر
کی ہے کہ ملکی و قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی فضول حرکتوں سے
اجتناب کیا جائے۔وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے
دورہ سعودی عرب کے دوران خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے
ملاقات کی ہے اورآنے والے دنوں میں وہ قطر اور متحدہ عرب امارات کے دورہ کا
بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کا وزیر اعظم نواز شریف کے
ہمراہ سعودی عرب جانا اس امر کی دلیل ہے کہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت
مصالحت کے ذریعہ اس بحران کے حل کا ارادہ رکھتی ہے اور اس کیلئے مخلصانہ
کوششیں کر رہی ہے۔ مبصرین کی جانب سے اسے خوش آئنداقدام قرار دیا جارہا ہے‘
وطن عزیز پاکستان کو سب مسلمان ملکوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کیلئے کوششیں
جاری رکھنی چاہئیں ۔ پاکستان اور دیگر اسلامی ملکوں کو مل کر اسلامی اتحاد
کو مضبوط بنانا چاہیے اور قطر پر بھی زور دینا چاہیے کہ وہ اسلامی ملکوں کے
اتحاد کا حصہ بنے۔خطہ کی صورتحال تبدیل اور نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ اب
مسلمان ملکوں میں عسکریت پسندی میں ملوث گروہوں کی سرپرستی کو برداشت نہیں
کیا جائے گا۔ اس لئے قطری حکام کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ موجودہ
حالات میں امریکیوں کی خوشنودی کیلئے مسلمان ملکوں کو باہم تقسیم کرنے کی
سازشوں کا آلہ کار بننا دانشمندی قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ |