نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ اور مستقبل ہوتے ہیں۔
اسی لئے دنیا بھر میں نوجوانوں کی کردار سازی اور صلاحیتوں کو بڑھانے کے
لئے خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ ایک صحت مند نوجوان اپنے خاندان، ملک و قوم کے
لئے مثبت اور تعمیری کام سرانجام دیتا ہے۔ مگر یہی نوجوان اگر بیمار اور
لاغر وجود کا حامل ہوتو صرف بیکار نہیں بلکہ نقصان کا باعث بھی بنتا ہے۔عصر
حاضر میں نوجوانوں کی صحت کے لیے ایک بڑا خطرہ تمباکونوشی کی صورت میں
سامنے آیا ہے۔ عالمی صحت کو لاحق خطرات میں تمباکو نوشی کی وباء سب سے تباہ
کن ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ ساٹھ لاکھ
افراد تمباکو نوشی سے ہونے والی بیماریوں میں مبتلا ہوکر مرجاتے ہیں جن میں
سے چھ لاکھ سے زیادہ افراد خود تمباکونوشی نہیں کرتے بلکہ تمباکونوشی کے
ماحول میں موجود ہونے کے سبب اس کے دھوئیں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ دنیا بھر
میں ایک ارب سے زائد لوگ تمباکونوشی کرتے ہیں جن میں سے اسی فیصد لوگ ترقی
پذیر ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ پاکستان، بھارت، فلپائن، تھائی لینڈ اور
کمبوڈیا میں تمباکو نوش لوگوں کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس اضافے کا
بڑا سبب ان ممالک کا نوجوان طبقہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں جاپان اور چائنہ
کے ساٹھ فیصد مرد حضرات سگریٹ نوشی کی عادت میں مبتلا ہیں۔ سگریٹ نوش آبادی
میں بارہ فیصد خواتین شامل ہیں جبکہ روزانہ ایک لاکھ بچے سگریٹ نوشی شروع
کردیتے ہیں۔ وطن عزیز میں تمباکو نوشی کے حوالے سے اعداد و شمار بے حد
پریشان کن ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق 19 فیصد بالغ افراد تمباکو نوشی کا
شکار ہیں۔ان بالغ افراد میں بڑی تعداد طلبا و طالبات کی ہے۔ ایک سروے کے
مطابق روزانہ کی بنیاد پر 1000 سے 1200 طلبا سگریٹ نوشی کا آغاز کرتے ہیں۔
تمباکونوشی کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کی بہت سی وجوہات ہیں۔ایک بڑی وجہ میڈیا
پر پر کشش اشتہارات کا چلنا ہے۔ ہمارے نوجوان جب میڈیا پر انتہائی متاثر کن
اور پر ترغیب اشتہارات دیکھتے ہیں اور تو سگریٹ نوشی کو بطور فیشن اختیار
کرتے ہیں۔ راقم السطور بھی زمانہ طالب علمی گزار چکا ہے۔ اس دوران عموما
طلبا تمباکونوشی کا آغاز سگریٹ سے کرتے ہیں جو کہ مارکیٹ میں عام میسر ہے۔
سگریٹ سیآغاز ہوتا ہے اور شیشہ سے ہوتے ہوئے بڑی سرعت کے ساتھ منشیات تک کا
سفر طے کر لیا جاتا ہے۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان کے بڑے تعلیمی
اداروں کے 53 فیصد طلبا و طالبات تمباکونوشی کرتے ہیں۔یہ رپورٹ سینیٹ میں
پیش کی گئی تھی اور اس میں اسلام آباد کے تعلیمی اداروں کا تذکرہ تھا مگر
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں میں کم و بیش یہی صورتحال ہے۔
چنانچہ اپنے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے لازم ہے کہ تمباکونوشی کے نہ صرف
اشتہارات پر مکمل پابندی عائد کرنا ضروری ہے بلکہ تمباکو کی مصنوعات پر بھی
پابندی عائد کرنا ضروری ہے۔ حکومت بجا طور یہ بات کہہ سکتی ہے کہ تمباکو کی
مد میں سالانہ 75 بلین روپے کا ریونیو حاصل ہوتا ہے۔ مگر یہ بات بھی یاد
رہے کہ پاکستان میں ہر سال 100 بلین روپے سے زائد تمباکونوشی کے نتیجے میں
پیدا ہونے والی بیماریوں کے علاج پر خرچ ہوتا ہے۔ اس لیے یہ سراسر گھاٹے کا
سودا ہے۔
تمباکو نوشی صرف سگریٹ کی صورت میں نہیں ہوتی ہے بلکہ پائپ، سگار، حقہ،
شیشہ اور تمباکو کو کھانے والا استعمال جیسا کہ پان، چھالیہ، گٹکا وغیرہ
اور تمباکو سونگھنا جیسی تمام عادات خطرناک ہوتی ہیں۔ تمباکو میں موجود
نکوٹین دماغ میں موجود کیمیکل مثلاً ڈوپامائن اور اینڈروفائن کی سطح
بڑھادیتا ہے جس کی وجہ سینشہ کی عادت پڑ جاتی ہے۔ یہ کیمیکل خوشی یا مستی
کی حسیات کو بیدار کردیتے ہیں جس سے جسم کو تمباکو مصنوعات کی طلب ہونا
شروع ہوجاتی ہے۔ ان عادات کو ترک کرنا کسی بھی فرد کے لئے بہت مشکل ہوجاتا
ہے کیونکہ جسم میں نکوٹین کی کمی سے طبیعت میں پریشانی، اضطراب، بے چینی،
ڈپریشن کے ساتھ ذہنی توجہ کا فقدان ہوجاتا ہے۔ تمباکونوشی بہت آہستگی کے
ساتھ جسم کے مختلف اعضاء کو نقصان پہنچانا شروع کردیتی ہے اور ایک فرد کو
کئی سالوں تک اپنے اندر ہونے والے نقصانات واضح نہیں ہوپاتے اور جب یہ
نقصانات واضح ہونا شروع ہوتے ہیں تب تک جسم تمباکو کے نشے کا مکمل طور پر
عادی ہوچکا ہوتا ہے اور اس سے جان چھڑانا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔
اس بڑھتے ہوئے عفریت کو قابو کرنے کے لیے دنیا بھر میں سنجیدگی کے ساتھ
کوشش جاری ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب دنیا بھر میں کسی بھی عوامی مقام پر سگریٹ
نوشی پر پابندی ہے۔پاکستان میں بھی اگرچہ اس حوالے سے قوانین موجود ہیں کہ
عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی ہے۔ اسی طرح پبلک ٹرانسپورٹ میں
پابندی عائد ہے کہ کوئی فرد تمباکو نوشی نہیں کرسکتامگران قوانین کا اطلاق
نا ہونے کے برابر ہے۔یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 1998 سے تاحال
پاکستان میں تمباکونوشی میں 30 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ حکومت پاکستان
نے کچھ عرصہ قبل سگریٹ کے پیکٹ پر تصویری انتباہ جاری کرنے کے احکامات جاری
کیے تھے جن کے نتائج خاطر خواہ برآمد ہوئے ہیں۔ مگر مارکیٹ میں ایسی سگریٹ
کی بھرمار ہے کہ جو اس تصویری انتباہ سے خالی ہیں۔ یہ سمگلنگ کے ذریعے
پاکستان میں آنے والی سگریٹ ہے اور ہمارے نوجوان طلبا تمباکونوشی کا آغاز
بھی ایسی سگریٹوں سے ہی کرتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں سالانہ ایک لاکھ
افراد تمباکو نوشی کی وجہ سے جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ جبکہ دہشت گردی جس
کے خلاف ہم گزشتہ ایک دہائی سے مصروف عمل ہیں، اس میں بھی ہمارے شہداء کی
مجموعی تعداد تقریبا 50 ہزار ہے۔
سگریٹ نوشی ہی سے متصل منشیات کا استعمال ہے۔ محتاط ذرائع کے مطابق پاکستان
میں 9 ملین سے زائد افراد منشیات کا شکار ہیں اور اس تعداد میں 40 ہزار
سالانہ کے اعتبار سے اضافہ ہورہا ہے۔جنوبی ایشیا میں منشیات کے حوالے سے
پاکستان پہلے نمبر پر ہے جبکہ دنیا بھر میں پاکستان منشیات استعمال کرنے
والے چار بڑے ممالک میں شامل ہے۔ مذکرہ بالا تمام اعداد و شمار بجا طور پر
انتہائی خطرناک صورتحال کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس صورتحال کو قابو میں
کرنیکے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہمارے طلبا و طالبات اس ملک کا
قیمتی سرمایہ ہیں۔ انہیں تمباکو نوشی اور منشیات جیسے عفریت سے بچانے کے
لیے جنگی بنیادوں پر فیصلوں کی ضرورت ہے۔
وطن عزیز میں طلبا تنظیموں اور گروہوں کو بھی اس حوالے سے کردار ادا کرنے
کی ضرورت ہے۔ ملک بھر میں طلبا کو اس حوالیسے آگہی فراہم کرنے کے لیے
ورکشاپس کا انعقاد ہونا چاہیے۔ان ورکشاپس میں طلبا کو تمباکو نوشی کے
نقصانات سے آگاہ کیا جائے اور انہیں اس حوالے سے مکمل آگہی فراہم کی جائے۔
|