ترک صدر طیب اردگان اور بڑی طاقتیں

دوسری جنگ عظیم کے بعد بے شمار اسلامی ممالک آزاد تو ہو گے لیکن وہ خود ایک قوت بننے کے بجائے دائیں بائیں کی سیاست کی قیادت کرنے والے دو بڑوں امریکہ اور سابق سوویت یونین کے حاشیہ بردار بنکر امت مسلمہ کا ناقابل تلافی نقصان کر چکے ہیں۔ سات سو سال دنیا کے ایک بڑے حصے پر حکومت کرنے والی سلطنت عثمانیہ کوجب مغربی اتحادیوں نے تباہ و برباد کیا تو ترکوں نے کمال پاشا اتا ترک کی قیادت میں چار سال کے اندر اندر ترکی کو آزاد کرا لیا مگر اس نے اسلام سے مکمل ناطہ توڑ دیا۔ پچاس سال تک ترکی سیاسی اور اقتصادی طور پر عدم استحکام کا شکار رہا۔ نوے کی دہائی کے اواخر میں ترکی کے حالات بہتر ہونے شروع ہوئے۔ رجب طیب اردگان کی بر سر اقتدار جسٹس اینڈ ڈ ویلمنٹ پارٹی جب اپنا موجودہ دورانیہ پورا کرے گی تو اسے اقتدار میں آئے بیس سال پورے ہو جائیں گے۔ پہلے باراں سال تک جسٹس پارٹی کی قیادت میں ترکی مسلسل ترقی کرتا رہالیکن دو ہزار تیرہ میں امریکہ نے جب عراق اور لیبیا سے فارغ ہو کر شام کر رخ کیا تو اپنے پڑوسیوں کے ساتھ صفر کنفلکٹ پالیسی کا پرچار کرنے والا ترکی سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ پانچ ملین شامی مہاجرین ترکی میں داخل ہو گے۔ شام کے ساتھ ساتھ اسکے پشتبان روس اور ترکی کے سفارتی تعلقات بھی خراب ہوئے۔ یہاں تک کہ ترکی نے روس کا ایک طیارہ مار گرایا اور شام کے شہر حلب میں جب سنی اکثریتی عقیدے سے تعلق رکھنے والے لوگوں قتل عام ہوا تو ترکی میں روسی سفیر کو ترک سیکورٹی افسر نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس موقع پر روسی صدر نے کوئی انتقامی کاروائی کرنے کے بجائے صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے ترکی کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی پالیسی جاری رکھی۔ اب ترک صدر طیب اردگان کے ساتھ تین مئی کی ایک میٹنگ کے نتیجے میں روسی صدر نے ترکی کے خلاف ٹریڈ اینڈ ٹریول پر عائد پابندیاں بھی ختم کیں۔ ترکی کے بزنس اور سروس پاسپورٹ ہولڈرز کے لیے روسی ویزہ ختم کر دیا اور دوستی کو مزید مضبوط بنانے کا اعلان کیا ۔

ترکی کی جغرافیائی پوزیشن اسے مغرب و مشرق کے ساتھ ایک جیسے تعلقات پر مجبور کرتی ہے لیکن سیاسی نظریات و مفادات اکثر آڑے آ جاتے ہیں۔ مشرق وسطعی کے تنازعہ میں امریکہ ایک طرف ترکی کو اتحادی قرار دیتا رہا دوسری طرف شام ۔ ترکی اور عراق کے اندر ترک مخالف کردوں کی حمایت کرتا رہا ۔ یہ مغربی طاقیتیں ہی تھیں جنہوں نے عربوں کو یہ لالچ دے کر اپنے ساتھ ملایا کہ ترکوں سے اقتدار لے کر انکے حوالے کیا جائے گا مگر سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مشرق وسطعی کا ایسا نقشہ کھینچا کہ کردوں کوشام۔ ایران۔ عراق اور ترکی میں تقسیم کر کے انکی قوت کم کر دی۔ ایک دور میں مغرب کردوں کی عسکری اور جنگجویانہ صلاحیت کی وجہ سے انکے سخت خلاف تھا جسکی وجہ سے اس نے کردوں کو مختلف ممالک میں تقسیم کر دیا مگر آج وہی مغرب کردوں کو مشرق وسطعی میں اپنے مقاصد کی خاطر استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ترک صدر طیب اردگان نے اپنے حالیہ دور امریکہ کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو واضع طور پر کہہ دیا کہ وہ ایک طرف شام کے اندر کردوں کو مسلح اور دوسری طرف ترکی سے حمایت کی توقع نہیں رکھ سکتے کیونکہ امریکہ کی طرف سے جو اسلحہ کردوں کو شام میں مل رہا ہے اسکا کچھ حصہ شامی کرد ترک کردوں کو دے رہے ہیں جو ترکی کے بے گنا لوگوں کے قتل عام کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ ترک صدر نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر کو دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہیں یا مخالف۔ اس وقت امریکہ سے اتنا بڑا اور واضع سوال کرنے کی اور کوئی مسلمان لیڈر جرات نہیں رکتھا۔ ترک صدر نے امریکہ کی قیادت میں ریاض سعودی عرب میں ہونے والے اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی کیونکہ وہ امریکہ کی بالادستی کو قبول نہیں کر رہے اور امریکہ اور امریکہ نواز یہ پروپگنڈہ کر رہے ہیں کہ ترک صدر خلافت بحال کرنے کی کوشش کرتے ہوئے خود کو سنتیسواں سلطان بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں اور ترکی ہی کی مدد سے مصر میں چند دن تک ایک اسلامی حکومت بنی تھی جسے جمہوریت اور انسانی آزادیوں کے بڑے دعویدار امریکہ نے ایک فوجی ڈکٹیٹر کے زریعے ختم کروا دیا۔ ترک صدر نے امریکی صدر کو یہ بھی کہا کہ ایک طرف امریکہ دنیا میں دہشت گردی کی مخالفت کا دعوی کرتا ہے دوسری طرف اس نے دہشت گردی کے زریعے جمہوری طور پر ترکی کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کرنے والے بے شمار لوگوں کو پناہ دے رکھی ہے۔ یہی بات ترک صدر نے یورپی یونین کے ممبران ممالک کو بیلجہم پہنچنے پر کئی۔ انہوں نے یورپی یونین اور یورپی کونسل کے صدور کے علاوہ فرانس کے نومنتخب صدر ایمینول مارکن کے ساتھ بھی ملاقات کی۔ یورپ پر واضع کیا گیا کہ ترکی سے تعاون صرف مانگا نہ جائے بلکہ دیا بھی جائے انہوں نے ترکی کی جغرافیائی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے امریکہ اور روس دونوں کو ترکی کے ساتھ چلنے کا مشورہ دیا جس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ اور روس دونوں کو ترکی کی ضرورت ہے اور ترکی بڑی قوتوں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردگان خلافت بحال کر کے سنتیسواں سلطان بن سکیں گے یا نہیں یہ سب کچھ سیاسی حالت پر منحصر ہے لیکن یہ بات واضع ہے کہ اگر مسلمان ممالک متحد ہو کر اپنا جائزہ سیاسی مقام بحال نہیں کریں گے تو مسلمان آنے والی کئی صدیوں تک زلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔ سعودی عرب کی موجودہ پالیسی مسلمانوں کو مزید تقیم کرنے کا سبب بنے گی جبکہ ترکی مسلمانوں کو متحد کرنے کی جو کوشش کر رہا ہے اسکی ہر غیرتمند مسلمان ملک کو حمایت کرنی چائیے۔ سعودی عرب میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں جسکا سب سے زیادہ شکار پاکستانی مزدور ہو رہے ہیں۔ نبی کریم کا فرمان ہے کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اسکو مزدوری دینی چائیے لیکن سعودی عرب کے کفیل پاکستانیوں سے کام کروا کر ملک بدر کروا دیتے ہیں چند ہفتے قبل تھوراڑ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک مزدور نے تنخواہ اور وطن واپسی کا اجازت نامہ نہ ملنے کی وجہ سے تنگ آ کر خود کشی کر لی مگر پاکستان اور آزاد کشمیر کی حکومتوں کو اس نام نہاد مسلمان ملک کے خلاف زبان کھولنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ سعودی عرب جیسے ظالم ملک کی قیادت میں مسلمانوں کو متحد کرنے کے بجائے ترکی کا ساتھ دینا چائیے جو بے شک ابھی ایک آئیڈیل اسلامی جمہوری ریاست نہیں ہے لیکن وہ اس راستے پر چل رہا ہے البتہ ترکی کو بھی ایک متبادل قوت بننے کے لیے اپنے عدالتی نظام کو مزید بہتر کرنے اور اظہار حق کی آزادی پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

Quayyum Raja
About the Author: Quayyum Raja Read More Articles by Quayyum Raja: 55 Articles with 41181 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.