اگر اس خطہ ارض کے باسیوں کی فطرت کا عمومی جائزہ لیا
جائے تو ہم اپنی ذات کے سوا کافی تنگ نظر پیدا ہوئے ہیں اور دوسروں کی
تعریف میں اس کی عدم موجودگی میں کچھ بخل سے کام لینا ہمارا وطیرہ ہے مگر
اب رویے تبدیلی کی جانب گامزن ہیں بالخصوص کسی کے منہ پر اس کی تعریف کرنے
کا چلن اپنی جگہ زور پکڑتا جارہا ہے اور بعض لوگ تو اسے باقاعدہ پیشہ کے
طور پر اختیار کرچکے ہیں جو فرض سمجھ کر دوسروں کے ان عیبوں پر بھی پردہ
ڈال دیتے ہیں جو قانونی نظر سے جرائم کی کٹیگری میں آتے ہیں اور اس فریضہ
کی ادائیگی پر انہیں اپنے روحانی پیشواؤں سے بھرپور صلہ بھی ملتا ہے ورنہ
مصروفیت کے اس لامحالہ تیز ترین دور میں کس کے پاس اتنی فرصت ہے کہ وہ اپنی
ذات سے باہر نکلے اور دوسروں کیلئے مغز ماری کرتا رہے ۔جیسے چھوٹے بڑوں سے
سیکھتے ہیں اسی طرح چھوٹے شہروں والے بڑے شہروں کے باسیوں سے سیکھ رہے ہیں
اور سیکھنے سکھانے کے اس مقصد کیلئے اب تو کچھ زیادہ محنت ،مشقت یا خاص
اہتمام کی ضرورت بھی نہیں پڑتی بس اپنے کمرے میں رکھے ٹی وی سیٹ کو آن
کیجئے اور آن ہی آن میں چینلز بدلتے بدلتے مختلف شوز میں آپ کو بلا کے
دانشور حضرات تقریریں جھاڑتے نظر آئیں گے جو اپنی علت اور جبلت کے ہاتھوں
مجبور ہو کر اپنے اپنے آقاؤں کے قصیدوں میں اکثر اپنے آپ کو ہی بھول جاتے
ہیں کہ ان کا اپنا حسب نسب کیا ہے والد گرامی کا نام کیا ہے کس شعبہ ، کس
خاندان سے ان کا تعلق ہے اور ان کی اپنی تاریخ پیدائش کیا ہے سن مہینہ کون
سا تھا حتیٰ کہ بڑوں کی جانب سے بتائی گئی جائے پیدائش تک انہیں یاد نہیں
رہتی مگر اپنے آقاؤں کے قصیدوں میں ان کی قابلیت کی معیار کا اگر جائزہ لیا
جائے تو بلاشبہ وہ اپنے کام کیساتھ اس قدر دیانتداری اور فرض شناسی کا
مظاہرہ کررہے ہوتے ہیں کہ ان کیلئے فوری طور پر ایوارڈز اور گولڈ میڈلز کا
بندوبست نہ کرنا یقینا بڑی حق تلفی ہے۔اس مقدس پیشہ سے وابستہ افراد کا
احترام ہم سب کو اپنے لئے لازم وملزوم کرلینا چاہئے۔یہ لوگ اپنے ڈیزائن
کردہ اس مخصوص پیشہ کو اپنا تے ہوئے اپنا سب کچھ بھلا کرمقصد خاص کے تحت
سیاہ کو سفید اور سفید کو مزید سفید کرنے میں مگن ہوتے ہیں ۔ہمارے ہاں اس
چیز کا ابھی رواج قائم نہیں ہوا ورنہ ہر پروگرام اور ہر کالم کے بعد ایسے
لوگوں کو کمال مہارت کا مظاہرہ کرنے پر فوری طور پر اعزازی ڈاکٹریٹ ڈگریوں
سے نوازہ جائے اور ان پر سرعا م انعام واکرام کی بارش کی جائے۔گو کہ ایسے
ادارے اور یونیورسٹیاں یہاں موجود ہیں جو ایسی ڈگریاں جاری کرنے کی باقاعدہ
رسم ڈال چکی ہیں مگر یہاں سے بھی الٹا انہی لوگوں کو ڈگریاں دینے کی پریکٹس
کی گئی جن کی قصیدہ خوانیوں میں پالشیئے دن رات ایک کررہے ہیں یہاں بھی کیا
خیال ہے کہ ہماری یونیورسٹیوں میں کچھکم قابل لوگ تعینات ہیں ؟ اعزازی
ڈگریوں کی ترسیل کن مقدس ہستیوں کو ہوئی یہ سبھی جانتے ہیں ان ہستیوں کی
قابلیت پررشک آنا یقینا ہمیں خود پر فرض کرلینا چاہیئے ورنہ ہم کسی کا کچھ
اکھاڑ پچھاڑ بھی نہیں سکتے۔ایک عظیم دانشورنے ابھی چند دن پہلے ہی بیان دیا
کہ ان کے قائد پوجا کے لائق تھے اگر وہ کسی اور خطے میں ہوتے تو لوگ انہیں
پوجتے۔اپنی سوچ کے دائرہ کار اور جمہوریت کے سمندر میں رہ کر ان کا یہی
کہنا بنتا ہوگا مگر یہاں کیا ہے کہ کچھ دوسرے شعبوں سے وابستہ شخصیات نے
بھی موسم کے مطابق اپنا مزاج بدل لیا ہے جو لوگوں کو بھی اپنی سوچ کے زاویے
تبدیل کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔ہمارے چند معززلکھاری ہیں
ہمیں ان سے اب واقعتا کچھ سیکھ لینا چاہیئے بے چارے قوم کو اس جمہوریت کے
بچانے کیلئے کردار ادا کرنے کی تلقین کرتے ہوئے ترلوں اور منتوں پر اتر آئے
ہیں انہیں حساب کتاب کی بھی فکر ہے کہ معزز مخلوق سے کتنی بار حساب لیا
جانا ہے؟ایسے صاحب کردار کالم نگار سے کوئی بندہ پوچھے موصو ف کو اتنا حساب
رکھنے کی کیا ضرورت ہے جنہوں نے گاجریں کھائی ہیں انہیں تو فکر ہو! موصوف
کیوں اتنے پتلے ہوئے جاتے ہیں ویسے بھی ان کی اپنی ذات کا پتلا ہونا یقینا
کسی معجزہ سے کم نہیں ہوگا کیونکہ لوگ ان کے حجم بارے بخوبی جانتے ہیں۔
موصوف کو اتنی ہمدردی اگر کسی عام انسان سے ہوتی یا اس معاشرے کی اصلاح کا
کوئی عنصر ان کے پیش نظر ہوتا توشاید ان کی عاقبت سنورنے کا کچھ وسیلہ بھی
بن جاتا مگر یہاں عاقبت نا اندیشی کے چلن میں کسے فکر عاقبت ہے دنیا کا
سنور جانا ہی ان کیلئے کچھ کم نہیں ،خاندانوں کے خاندان موجیں کررہے ہیں
اعلیٰ عہدے انجوائے کررہے ہیں بادشاہ وقت اپنے ان ثناء خوانوں کیلئے
انعامات کی بارشیں کررہے ہیں۔ اپنی دنیا سنوارنے کے چکر میں دوسروں کی
عاقبت تباہ کرنے کے اس دھندے کی پیروی کا اب تو نچلی سطح پر بھی رحجان
بڑھتا ہی چلا جارہا ہے جمہوریت سے وابستہ مقامی خاندانوں سے بھی فیض یاب
ہونے کیلئے پالش کے کام پر توجہ دی جارہی ہے مقتدر شخصیات کے آگے پیچھے
اوپر نیچے ہو کر اپنی اولادوں کے مستقبل خریدے جارہے ہیں عام اور غریب آدمی
جو اس فن سے ناواقف ہے یا اس فن سے عار کھاتا جھجھک محسوس کرتا ہے اس کا
سسٹم میں ذرہ برابربھی حصہ نہیں معیار اور قابلیت کے پیمانے بدل گئے ہیں جس
کے منہ میں دنیاوی بادشاہوں کیلئے قصیدے نہیں اسے ایسے دور کیا جارہا ہے
جیسے وہ کسی اور سیارے کی مخلوق ہو۔احتساب وساب کی باتیں محض باتیں ہیں
جنہیں اخروی احتساب کی فکر نہیں رہتی انہیں کوئی احتساب کچھ نہیں کہہ سکتا
اور ویسے بھی یہاں سب کچھ چلتا ہے نہیں چلایا جارہا ہے۔شعبہ صحافت جس کی
تقدیس کے دنیا گن گاتی رہی ہے وہ بھی اس گندے تالاب میں آکود اہے ۔بڑوں کو
دیکھ کر چھوٹوں نے بھی ان کے رنگ اپنا لئے ہیں،ان پڑھ جاہل لوگوں کو اداروں
کی طرف سے کارڈز جاری کرکے لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے کے لائسنس جاری کئے
جارہے ہیں کسی نے اس صحافت سے پالش کا کام لینا شروع کردیا ہے تو کسی نے
بلیک میلنگ کے ذریعے اپنا حصہ ڈالنا شروع کردیا ہے۔ مقامی سطح پر نااہل ،
نالائق ترین لوگوں کی فوج ظفر موج ـ’’ـموج مستیاں کرتی نظر آتی ہے جو ایک
دوسرے کی طے شدہ پلان کے تحت تعریفیں کرتے اور نمود ونمائش کیلئے ایک دوسرے
کو خود ہی بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور میڈلز ڈالنے کے پروگرامز کا انعقاد
کرکے مال بناؤ مہم چلا رہے ہیں جبکہ اک مزیدنئی طرز کی صحافت سوشل میڈیا پر
جنم لے چکی ہیجوٹوٹی پھوٹی ، شکستہ تحریروں کو فوٹو شاپ ، کورل ڈرا جیسے
سافٹ ویئر ز کی مدد سے دلکش بنا کر خود کو اور اپنے جیسے نالائقوں کو بڑھا
چڑھا کر پیش کرتے، لوگوں کو گمراہ کرتیہوئے صحافت کے وقار کو مجروح کررہے
ہیں اس طرز کی صحافت پر کسی بھی قسم کا کوئی قانونی چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے
کی وجہ سے معاشرے میں بے چینی بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔کون روکے گا ؟ کوئی
نہیں کیونکہ کوئی رکنے کیلئے تیار نہیں اور نہ کوئی روکنے والا ہی نظر آتا
ہے۔ اس ماحول میں تو سانس رکنے لگاہے گھٹن محسوس ہوتی ہے۔ آخر فیصلہ یہی ہے
کہ ہم بھی اسی سسٹم کا حصہ بن جائیں اور تنگ نظری اور بخل سے کام لینا چھوڑ
کر قصیدہ خوانی، پالش اور خوشامد سے کام لینا شروع کردیں۔ قارئین کا اس
بارے میں کیا مشورہ ہے، رائے سے ضرور نوازیں شکریہ |