اللہ رب العزت اہل ایمان کو یاددلاتا ہے ’’یاد کرو وہ وقت
جبکہ تم تھوڑے تھے،زمین میں تم کو بے زور سمجھا جاتا تھا،تم ڈرتے رہتے تھے
کہ کہیں لوگ تمہیں مٹا نہ دیں۔ پھر اللہ نے تم کو جائے پناہ مہیا کر دی،
اپنی مدد سے تمہارے ہاتھ مضبُوط کیے اور تمہیں اچھا رزق پہنچایا، تا کہ تم
شکر گزار بنو‘‘۔ اب سردار ان مکہ کی پارلیمان دارالندوہ کا قرآنی منظر
ملاحظہ فرمائیں ’’ وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جبکہ کافر آپ کےخلاف
تدبیریں سوچ رہے تھےکہآپکو قید کر دیں یا قتل کر ڈالیں یا جلا وطن کر
دیں۔وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے
بہتر چال چلنے والا ہے‘‘۔ اس وقت کسی کے وہم گمان بھی یہ بات نہیں تھی کہ
ہجرت کے بعد دوسال کے اندر کیا ہونے والا ہے؟
آئیے میدان بدر میں چلیں ۔ نبی کریم ؐ اپنے ۳۱۳ جانبازوں کے ساتھ دست بہ
دعا ہیں ’’اے اﷲ! تو نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے، وہ پورا فرما، اے اﷲ....
اگر آج یہ مٹھی بھر نفوس ہلاک ہوگئے تو پھر قیامت تک تمام روئے زمین پر
تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا“۔ اس کے مقابلے مشرکین کے لشکر جرار
کا سردار ابوجہل دعا کررہا ہے ’’اے اللہ ! ہم میں سے جو فریق قرابت کو
زیادہ کاٹنے والا اور غلط حرکتیں زیادہ کرنے والا ہے اسے توآج توڑ دے۔اے
اللہ ! ہم میں سے جو فریق تیرے نزدیک زیادہ محبوب اور زیادہ پسندیدہ ہے آج
اس کی مدد فرما‘‘۔ اب دعا کا جواب دیکھیں ’’ ’’اگر تم فیصلہ چاہتے تھے تو
لو، فیصلہ تمہارے سامنے آ گیا۔ اب باز آ جاؤ تو تمہارے ہی لیے بہتر ہے،
ورنہ پھر پلٹ کر اسی حماقت کا اعادہ کرو گے تو ہم بھی اسی سزا کا اعادہ
کریں گے اورتمہاری جمعیت، خواہ وہ کتنی ہی زیادہ ہو، تمہارے کچھ کام نہ آ
سکے گی اللہ مومنوں کے ساتھ ہے‘‘۔
۱۷ رمضان۲ھ کو غزوہ ٔ بدر میں دو نوعمرجوانوں نے ابوجہل کو قتل کردیا۔ اس
کے ساتھ ۷۰ سرداران قریش مارے گئے ۔ ان کی لاشوں کو ایک کنویں میں ڈال دیا
گیا۔ واپسی سے قبل آپﷺ کنویں کی باڑ پر کھڑے ہوگئے۔ پھر انہیں ان کا اور ان
کے باپ کا نام لے لے کر پکارا۔اے فلاں بن فلاں اور اے فلاں بن فلاں ! کاش
کہ تم نے اللہ اور اس کے رسول ﷺاطاعت کی ہوتی؟ کیونکہ ہم سے ہمارے رب نے جو
وعدہ کیا تھا اسے ہم نے برحق پایا تو کیا تم سے تمہارے رب نے جو وعدہ کیا
تھا اسے تم نے برحق پایا ؟یہ دیکھ کرحضرت عمرؓ نے عرض کیا : یا رسول اللہؐ!
آپ ایسے جسموں سے کیاباتیں کررہے ہیں جن میں رُوح ہی نہیں ؟ نبیﷺ نے فرمایا:
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ؐ کی جان ہے! میں جو کچھ کہہ رہا ہوں
اسے تم لوگ ان سے زیادہ نہیں سن رہے ہو۔ ایک اور روایت میں ہے کہ تم لوگ ان
سے زیادہ سننے والے نہیں لیکن یہ لوگ جواب نہیں دے سکتے‘‘۔
کفار مکہ اس انجام بد سے اس لیے دوچار ہوئے کہ انہوں نےرب کائنات کی اس
تنبیہسے روگردانی کی تھی ’’اور یہ لوگ اس بات پر بھی تلے رہے ہیں کہ تمہارے
قدم اِس سر زمین سے اکھاڑ دیں اور تمہیں یہاں سے نکال باہر کریں لیکن اگر
یہ ایسا کریں گے تو تمہارے بعد یہ خود یہاں کچھ زیادہ دیر نہ ٹھیر سکیں
گے۔یہ ہمارا مستقل طریق کار ہے جو اُن سب رسولوں کے معاملے میں ہم نے برتا
ہے جہیںی تم سے پہلے ہم نے بھیجا تھا، اور ہمارے طریق کار میں تم کوئی تغیر
نہ پاؤ گے‘‘ ۔ آج بھی اہل ایمان اگر اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے
اٹھیں تو یہ معجزہ رونما ہوسکتا ہے؎
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں عنبر سے قطار اندر قطار اب بھی
غزوہ ٔ بدر کی شکست کو بھلا دینا مشرکین مکہ کے لیے ناممکن تھا اس لیے اگلے
سال انہوں نے بڑے لشکر کے ساتھ انتقام لینے کا فیصلہ کیا ۔ احد کے میدان
میں مسلمانوں سے مقابلہ ہوا جس میں ابتداء میں کفارکوشکست ہوئی مگر بعد میں
وہ فتح میں بدل گئی۔ اس جنگ سے لوٹتے ہوئے انہوں نے آئندہ سال بدر کے
میدان میں ملنے کا چیلنج کیا جسے محمد ؐ نے قبول کیا۔ اگلے سال نبی کریمؐ
اپنے لشکر کے ساتھ بدر کے میدان میں تشریف لے گئے لیکن وہ درمیان سے لوٹ
گئے اور گویا جنگ کے بغیر شکست تسلیم کرلی ۔ اب ان لوگوں کو یقین ہوگیا تھا
کہ وہ تنہا مسلمانوں کوشکست نہیں دے سکتے اس لئے ۵ ھ میں سارے قبائل نے مل
کر چڑھائی کرنے کا فیصلہ کیا اس لئے وہ جنگ احزاب کہلائی ۔ نبی کریم ؐنے
منفرد انداز میں خندق کھود کر اپنا دفاع کیا اور اللہ تعالیٰ نے دورانِ
محاصرہ ایک ایسی زبردست آندھی بھیجی کے زبردست فوجی تیاری کے باوجوددشمنانِ
اسلام کوبے نیل و مرام لوٹنا پڑا۔
اس کے بعدوالے سال میں مسلمانوں نے عمرہ کے لیے نکلنے کا اقدام کیا اور
بالآخر یہ قصد صلح حدیبیہ پر منتج ہوئی ۔معاہدہ ٔ صلح لکھوا کر فارغ ہونے
کے بعد آپؐ نے فرمایا: اٹھو ! اور اپنے اپنے جانور قربان کردو ، لیکن کوئی
ٹس سے مس نہ ہوا ۔ پھر نبی کریم ؐ نے اپنا جانور ذبح کرکے سرمنڈوا لیا۔ یہ
دیکھ کر صحابہ نے بھی اپنے اپنے جانور ذبح کرکےباہم ایک دوسرے کا سر
مونڈدیا۔صلح حدیبیہ کی دو شرائط سے ایسا محسوس ہوتا تھا گویا آپؐ نے قریش
کے دباؤ میں صلح کی ہے جس کے باعث اہل ایمان حُزن وغم کا شکار تھے چنانچہ
حضرت عمر بن خطابؓ نے نبی کریم ؐ سےعرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! کیا ہم
لوگ حق پر اور وہ لوگ باطل پر نہیں ہیں ؟ آپؐ نے فرمایا : کیوں نہیں ؟
انہوں نے کہا : کیاہمارے مقتولین جنتی اور ان کے مقتولین جہنمی نہیں ہیں ؟
آپؐنے فرمایا : کیوں نہیں۔ انہوں نے کہا: تو پھر کیوں ہم اپنے دین کے بارے
میں دباؤ قبول کریں ؟ اور ایسی حالت میں پلٹیں کہ ابھی اللہ نے ہمارے اور
ان کے درمیان فیصلہ نہیں کیا ہے ؟ آپؐ نے فرمایا : خطاب کے بیٹے ! میں اللہ
کا رسول ہو ں اور اس کی نافرمانی نہیں کرسکتا۔ وہ میری مدد کرے گا۔ اور
مجھے ہرگز ضائع نہ کرے گا ۔
اس موقع پر سورہ فتح کی پہلی آیت نازل ہوئی ’’ بیشک ہم نے آپ کو کھلی ہوئی
فتح عطا کی ہے‘‘۔ ان حالات میں اس آیت کے اسرارو رموز کی رسائی ناممکن تھی
مگر بعد میں پیش آنے والے واقعات اس کی حقانیت کے شاہد و مفسربن گئے ۔ بنو
بکر اور بنو خزاعہ کے درمیان قدیم عداوتتھی ۔صلح حدیبیہ کے تحت بنو خُزاعہ
نےرسول اللہؐ سے عہد وپیما ن باندھ لیااور بنو بکر قریش کے ساتھ ہوگئے۔ بنو
بکر نے بنو خزاعہ سے پرانا بدلہ چکا نے کی غرض سے رات کی تاریکی میں ان پر
حملہ کردیاجس میں کئی لوگ مارے گئے ۔ قریش نےبدعہدی کرکے بنوخزاعہ کی پشت
پناہی کی اور انہیں کھدیڑ کر حرم تک لے آئے۔ حرم کعبہ میں بنو بکر نےفریاد
کی کہ : اے نوفل ، اب تو ہم حرم میں داخل ہوگئے۔ تمہارا الٰہ ! ... تمہارا
الٰہ ! ... اس کے جواب میں نوفل نے رعونت سے جواب دیا : بنو بکر !آج کوئی
الٰہ نہیں۔ اپنا بدلہ چکا لو۔ میری عمر کی قسم ! تم لوگ حرم میں چوری کرتے
ہو تو کیا حرم میں اپنا بدلہ نہیں لے سکتے۔اس سانحہ کے بعد عمرو بن سالم
خزاعی نے دربار رسالتماب میں حاضر ہو کر اس طرح دہائی دی :
’’اے پروردگار ! میں محمدﷺ سے ان کے عہد اور ان کے والد کے قدیم عہدکی
دہائی دے رہا ہوں۔ ہم نے تابعداری اختیار کی اور کبھی دست کش نہ ہوئے۔ اللہ
آپ کو ہدایت دے۔ آپ پُر زور مدد کیجیے اور اللہ کے بندوں کو پکاریئے ، وہ
مدد کو آئیں گے۔ آپ ایک ایسے لشکر ِ جرار کے اندر تشریف لائیں گے جو جھاگ
بھرے سمندر کی طرح تلاطم خیز ہوگا۔ یقینا قریش نے آپ کے عہد کی خلاف ورزی
کی ہے اور آپ کا پُختہ پیمان توڑدیا ہے۔ انہوں نے رات میں حملہ کیا اور
ہمیں رکوع وسجود کی حالت میں قتل کیا‘‘۔قریش کی اپنی بدعہدی کا خوف لاحق
ہوا تو ابوسفیان صلح صفائی کے لیے مدینہ آیا لیکن نامراد لوٹا قریش نے
دریافت کیا تو بولا :
میں محمد ؐ کے پاس گیا۔ بات کی تو واللہ! انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر
ابو قحافہ کے بیٹے کے پاس گیا تواس کے اندر کوئی بھلائی نہیں پائی۔ اس کے
بعد عمر بن خطابؓ کے پاس گیا تو اسے سب سے کٹر دشمن پایا۔ پھر علیؓ کے پاس
گیا تو اسے سب سے نرم پایا۔ اس نے مجھے ایک رائے دی اور میں نے اس پر عمل
بھی کیا۔ لیکن پتہ نہیں وہ کارآمد بھی ہے یا نہیں ؟ لوگوں نے پوچھا : وہ
کیا رائے تھی؟ ابو سفیان نے کہا: وہ رائے یہ تھی کہ میں لوگوں کے درمیان
امان کا اعلان کردوں۔ اور میں نے ایسا ہی کیا۔قریش نے کہا : تو کیا محمد نے
اسے نافذ قرار دیا۔ ابو سفیان نے کہا : نہیں۔ لوگوں نے کہا : تیری تباہی
ہو۔ اس شخص (علی) نے تیرے ساتھ محض کھلواڑ کیا۔ ابو سفیان نے کہا : اللہ کی
قسم! اس کے علاوہ کوئی صورت نہ بن سکی۔
۱۰رمضان ۸ ھ کو رسول ؐنے دس ہزار صحابہ کے ساتھ مکے کا رخ کیا۔مکہ کے قریب
مراء الظہران میں آپؐ نےدریافت کیا:اے ا بو سفیان! تم پر افسوس ، کیا اب
بھی تمہارے لیے وقت نہیں آیا کہ تم یہ جان سکو کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ
نہیں ؟ ابو سفیان نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ، آپ کتنے بردبار ، کتنے
کریم اور کتنے خویش پرورہیں۔ میں اچھی طرح سمجھ چکاہوں کہ اگر اللہ کے ساتھ
کوئی اور بھی الٰہ ہوتا تو اب تک میرے کچھ کام آیا ہوتا۔
آپؐ نے فرمایا : ابو سفیان تم پر افسوس ! کیا تمہارے لیے اب بھی وقت نہیں
آیا کہ تم یہ جان سکو کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ ابو سفیان نے کہا : میرے
ماں باپ آپ پر فدا۔ آپ کس قدر حلیم ، کس قدر کریم اور کس قدر صلہ رحمی کرنے
والے ہیں۔ اس بات کے متعلق تو اب بھی دل میں کچھ نہ کچھ کھٹک ہے۔ اس پر
حضرت عباسؓ نے کہا: ارے ! گردن مارے جانے کی نوبت آنے سے قبل اسلام قبول
کرلو !اور اقرار کر لو کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیںاور محمدؐ اللہ
کے رسول ہیں۔ اس پر ابو سفیان نے اسلام قبول کرلیا اور حق کی شہادت دی۔ابو
سفیان جب مکہ کے ایک ٹیلے کے او پر سے مسلمانوں کے لشکر جرار میں شامل
مختلف قبیلوں کا مشاہدہ کرچکا تو کہنے لگا: بھلا ان سے کون لڑ سکتا ہے ؟ اس
کے بعد حضرت عباسؓ سے مخاطب ہوکر گویا ہوا ! تمہارے بھتیجے کی بادشاہت تو
واللہ بڑی زبردست ہوگئی۔ حضرت عباسؓ نے کہا : ابو سفیان ! یہ نبوت ہے۔ ابو
سفیان نے جواب دیا: ہاں ! اب تو یہی کہاجائے گا۔
اس موقع پر انصار میں سے حضرت سعد بن عبادؓنے اعلان کیا ''آج خونریزی کادن
ہے۔ آج حرمت حلال کرلی جائے گی اللہ نے آج قریش کی ذلت مقدر کردی ہے۔ یہ
سن کر رسول اکرم ؐ نے فرمایا : نہیں بلکہ آج کعبہ کی تعظیم کا دن ہے۔ آج کے
دن اللہ قریش کو عزت بخشے گا۔ اورحضرت سعدؓسےپرچم لےکران کے صاحبزادے قیسؓ
کے حوالے کردیا۔ اس کے بعد ابو سفیان نے مکہ میں اعلان کیا : قریش کے لوگو!
یہ محمدؐ ہیں۔ تمہارے پاس اتنا لشکر لے کر آئے ہیں کہ مقابلے کی تا ب نہیں
، لہٰذا جو ابو سفیان کے گھر گھس جائے اسے امان ہے۔ لوگوں نے کہا :اللہ
تجھے مارے ، تیرا گھر ہمارے کتنے آدمیوں کے کام آسکتا ہے ؟ ابو سفیان نے
کہا : اور جو اپنا دروازہ اندر سے بند کرلے اسے بھی امان ہے۔ اور جو مسجد
حرام میں داخل ہوجائے اسے بھی امان ہے۔ یہ سن کر لوگ اپنے اپنے گھروں اور
مسجد حرام کی طرف بھاگے۔
انصار ومہاجرین کےساتھ نبی کریم ؐ مسجد حرام کے اندر آئے حجرِ اسود کو چوما
اور بیت اللہ کا طواف کیااور ایک کمان سے بیت اللہ کے گرد اور اس کی چھت
پرموجود۳۶۰ بُتوں ڈھا کر اعلان کردیا:’’حق آگیا اور باطل چلاگیا، باطل جانے
والی چیز ہے‘‘۔ خانہ کعبہ سے رسول اللہؐ نےقریش کومخاطب کرکے فرمایا:اللہ
کے سواکوئی معبود نہیں، وہ تنہا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس نے اپنا
وعدہ سچ کردکھایا۔ اپنے بندے کی مدد کی اور تنہا سارے جتھوں کو شکست دی۔
سنو ! بیت اللہ کی کلیدبرداری اور حاجیوں کو پانی پلانے کے علاوہ سارا
اعزاز یاکمال یا خون میرے ان دونوں قدموں کے نیچے ہے۔ اے قریش کے لوگو!
اللہ نے تم سے جاہلیت کی نخوت اور باپ دادا پر فخر کا خاتمہ کردیا۔ سارے
لوگ آدم سے ہیں اور آدم مٹی سے۔ اس کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی:''اے لوگو!
ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں
میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ تم میں اللہ کے نزدیک سب سے
باعزت وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو۔ بیشک اللہ جاننے والا اور خبر رکھنے
والا ہے۔''
آج کو ئی سرزنش نہیں:اس کے بعد آپؐ نے فرمایا : قریش کے لوگو! تمہارا کیا
خیال ہے۔ میں تمہارے ساتھ کیسا سلوک کرنے والا ہوں ؟ انہوں نے کہا : اچھا۔
آپ کریم بھائی ہیں۔ اور کریم بھائی کے صاحبزادے ہیں۔ آپؐنے فرمایا : تو میں
تم سے وہی بات کہہ رہا ہوں جو یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی کہ آج تم
پر کوئیسرزنش نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔یہ حسن اتفاق ہے کہ ۱۷ رمضان ۲ھ کو
غزوۂ بدر کے ساتھ شروع ہونے والی مہم ۲۰ رمضان ۸ ھ کو اختتام پر پہنچی اور
عالم ِ انسانیت کو ہر قسم کی غلامی سے نجات دلا کر عظیم ترین آزاد ی
شرفیاب کر گئی ۔ فکر و عمل کا وہ عظیم انقلاب برپا ہوگیا جس کی بابت علامہ
اقبال فرماتے ہیں؎
اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب پادشاہوں کی نہیں‘ اللہ کی ہے یہ
زمیں!
(اس تحریرکے واقعاتِ سیرت الرحیق المختوم سے مستعار ہے)
|