جرنیلی سڑک
مصنف کا نام ۔۔ رضا علی عابدی
کتابی ضخامت۔۔ 316 صفحات
ایک منفردکتاب، بہترین رنگین سرورق اور عنوان اس قدر خوبصورت جو کسی بھی
کتاب دوست کی توجہ کھینچنےکے لیے کافی ہے۔سرورق پر ایک طویل شاہراہ اور
گھوڑے پر بیٹھے اِک شاہسوار کی تصویر ہے۔اور حدِ نظر تک راہ، راستہ اور
منزل تک پہنچنے کے لیےسفر، مسافر اور مسافت کاتاثر ابھرتا ہےجو اتنا مضبوط
اور دلکش ہے کہ کسی بھی بک سٹور، کتاب میلے، لائبریری اور آن لائن ریڈر کو
اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔اسکے ساتھ عنوان کو دیکھا جائے تو یہ نسیم حجازی
کے کسی تاریخی ناول کی عکاسی کرتا ہے۔جیسے داستانِ مجاہد، شاہین اور آخری
چٹان وغیرہ( کتاب کے پرانے بلیک اینڈ وائٹ ایڈیشن کے سرورق پر۔۔ صحرا، قلعہ
اور اسکے پیچھے پہاڑیوں کا منظر ہے۔وہ ٹائیٹل سرورق بھی خوب تھا جیسے مسافر
آگے بڑھتے بڑھتے رک کر ان ریگزاروں کو دیکھنے لگا ہو)
شیر شاہ سوری کی جرنیلی سڑک ۔۔اب اپنی پہچان آپ بن چکی ہے۔سرورق پہ سفرنامہ
لکھا ہے لیکن پیش لفظ میں مصنف نے لکھا ہے کہ کبھی کبھی اس پہ تاریخ کی
داستانوں کا گماں ہو گا۔۔لیکن یہ بات کتاب پڑھ کر قاری خود طے کرتا ہے۔اوّل
تو وہ انتساب میں لکھے اس شعر کی روشنی میں آگے بڑھتا ہے اور پہلے باب تک
پہنچتا ہے۔
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہیں !
یہ دوسری کتابوں سے ایک اور طرح سے بھی مختلف ہے۔ کیونکہ یہ بی بی سی لندن
کی اردو سروس کے ایک سلسلے وار پروگرام پہ مبنی دستاویز ہے۔کتاب سنگِ میل
پبلشر نے شائع کی ہے۔اس لیے بہترین کتابوں میں جگہ پا چکی ہے۔ پہلا باب۔۔
کتاب اک خراج۔۔ پیش لفظ کی صورت کوزے میں دریا بند کرنے اور خود بزبانی
مصنف ریویو دینے کے لیے کافی ہے،
: وادی پشاور سے سرزمین بنگالہ تک پندرہ سو میل لمبی یہ باضابطہ سڑک ساڑھے
چار سو سال پہلے ہندوستان کے افغان بادشاہ شیرشاہ سوری نے بنائی تھی۔بعد
میں اسے انگریز حکمرانوں نے وہ شکل دی جس میں یہ آج موجود ہے۔ایک ایسی
راہگزر جو ہماری سرزمینوں کی شہ رگ بن گئی۔ جس میں صدیوں بعد آج بھی زندگی
رواں دواں ہے۔کیسے کیسے مسافر، قافلے،کارواں اور لشکر اسی راستے آئےاور یا
تو خود اس رنگ میں رنگ گئے یا اس کا رنگ و روپ بدل ڈالا۔ اب نہ اس پہ
اونٹوں کی گھنٹیاں ہیں نہ انہیں راہ میں شجر سایہ دار درکار ہیں۔ نہ سرائے
، باؤلی اور کُوس مینار، اب نئے دور کے نئے قافلے ہیں۔:
کتاب چونکہ ریڈیو پروگرام کے مسودے پر مبنی ہے اس لیے اس کی تحریر گفتگو کی
زبان میں ہے۔ پشاور سے کلکتے تک جن بیسیوں بوڑھوں، جوانوں، عورتوں اور بچوں
سے بات چیت کی گئی ان کا علاقائی لب و لہجہ اور روزمرہ با ت چیت کا انداز
کتاب میں جوں کا توں موجود ہے جو اسکی چاشنی بڑھاتا ہے۔قاری اگر تسلسل سے
پڑھے گا تو جیسے جیسے آگے بڑھے گا، لب و لہجہ، انداز بیاں میں آنے والی
بتدریج تبدیلی سے محظوظ ہو گا۔کتابی فہرست میں درج باب اتنے دلکش اور دلچسپ
ہیں کہ فورا دل چاہتا ہے کہ اسی باب کو کھول کر پڑھا جائےجیسے،
پھولوں سے پتھروں تک۔۔ لڑی میں پروئے ہوئے منظر۔۔رہتاس تنہا کھڑا ہے۔۔ ہم
نے دیواریں پڑھیں۔۔پھلاں ورگیاں دیّاں۔۔ گجرات ۔۔ایک گاؤں ، ایک
شہر۔۔کاریگر، کمہار اور رام پیاری۔۔اردو اور اذانیں۔۔اب دلّی دور
نہیں۔۔اداس عمارتیں۔۔ آگرے کا دھندا۔۔ اونچا نگر، نیچا نگر۔۔بنارس کا کیا
کہنا۔۔جہاں نورجہاں رہتی تھی۔۔کل کیا ہو گا؟ وغیرہ وغیرہ
مصنف کا اندازِ بیاں اتنا موثر اور دلکش ہے کہ کتاب پڑھنے کے بعد بھی قاری
اس کے حصار میں رہتا ہے ۔ اکبر کا کنواں، رام پیاری، پھلاں ورگیاں دیاّں،
لاہور، لاہور تھا ، قلعہ روہتاس اور اس جیسی بے شمار یادداشتیں ذہن کے کسی
کونے میں محفوظ ہو جاتی ہیں۔ قاری مصنف کے ساتھ ساتھ انھی مناظر اور
احساسات کو لے کر چلتا ہے۔۔ لوگوں سے بات چیت، گفتگو، تاریخی عوامل کی کھوج
، بات کو پرت در پرت کھولنا یقینا مصنف کا کمال ہے۔کتاب بار بار پڑھے جانے
کے قابل ہے۔ سفر نامہ پڑھنے والوں کے لیے انمول اور تاریخی کتابیں پڑھنے کے
شائقین کے لیے یہ کسی خوبصورت تحفے سے کم نہیں۔ایسی کتاب گھر کی لائبریری
کی ضرور زینت بننی چاہیئے ۔ دوستوں کو تحفے میں دی جانی چاہیئے،۔ یہ کتاب
ہی نہیں ایک تاریخی ورثہ ہے، سرمایہ ہےجسے محفوظ کر لینا چاہیئے۔
کتاب سے ایک اقتباس،
گجرات کا پرانا نام اودے نگری تھا، یعنی ہریالی کا شہر۔
گجرات میں اکبر کی تین نشانیاں مجھے زبانی یاد تھیں،
حصار و باؤلی و کہنہ حمام
حصار یعنی قلعہ، جس کے پتھر اتنی صفائی اور مضبوطی سے چنے گئے ہیں کہ اب تک
ایسے صحیح سالم رکھے ہیں، معلوم ہوتا ہے مزدور ابھی ابھی اجرت لے کر اور
سلام کر کے گئے ہیں۔قلعے تک جانے کے لیے چڑھائی ہے اور چڑھائی کے دونوں
جانب دکانیں اور مکان ہیں۔اتفاق سے باؤلی اور کہنہ حمام راستے میں مل
گئے۔باؤلی یعنی کنواں جو کبھی یوں رہا ہو گا کہ لوگ اس تک آسانی سے پہنچ
سکیں مگر اب وہ مکانوں کے دالان میں آ گیا ہےاور مکان بھی پردہ نشینوں کے۔۔
!لہذا ہمیں پرانی قسم کے میخوں والے چوبی دروازے کی بھاری بھر کم زنجیر
ہلانی پڑی۔ اندر سے خواتین نے پوچھا کہ کون ہے؟ تو جوابا یہ عجیب و غریب
فرمائش کرنی پڑی،
: آپ آڑ میں ہو جائیے۔ ہم اکبر کا کنواں دیکھنے آئے ہیں۔:
خواتین چلمن کے پیچھے ہو گئیں۔ ہم صاف ستھرے، بلندی پر بنے ہوئے ہوادار
کمروں کی دہلیزوں سے گزر کر کنویں تک جا پہنچے۔کنویں پر ایک بہت پرانی
عبارت کسی خوش خط پینٹر نے اردو اور گورمکھی میں لکھی تھی،
: براہ کرم کنویں کے اندر کوڑا کرکٹ نہ پھینکیں۔:
ہم نے جلدی سے کنویں میں جھانک کر دیکھا۔ اندر کوڑا کرکٹ بھرا ہوا تھا۔
باؤلی سے ملا ہوا، اوپر چڑھتی ہوئی بازار نما سڑک کے کنارے اکبر کا
بنایاہوا حمام بھی تھا۔یہاں غسل خانوں کے فرش کے نیچے آگ جلائی جاتی تھی
اور لوگ بھاپ میں غسل کرتے تھے۔ ترکی کا یہ رواج ہندوستان میں قائم نہ رہ
سکا لیکن گجرات کے اس حمام میں آج بھی فرش کے نیچے آگ جلائی جاتی ہے اور
لوگ اپنے ہی پسینے اور بھاپ میں نہاتے ہیں۔:
۔۔۔۔۔۔
|