فرحان حنیف : امیدو امکان کا شاعر

فرحان حنیف ہمارے درمیان ایک ایسے ہی شاعر ہیں جنہوں نےاپنی محنت ، کلام کی بلوغت اور فکری رفعت کے سبب خود کو ا س صف میں شامل کرلیا ہے جن کےمتعلق وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ شاعری کا بھرم قائم رکھیں گے ۔’ہینگر پر ٹنگی نظمیں ‘ان کا اولین مجموعہ انتخاب ہے جو بہت تاخیر سے شائع ہوا ہے اور اس تاخیر کا سبب وہی مالی وسائل کی عدم فراہمی ہے جو بہت سے اہل قلم و صاحبان فکر کیلئے مسئلہ بنا ہوا ہے ، اس کے برعکس وسائل و ذرائع کے اغوائیوں کی ایک بڑی تعداد دیدہ زیب مگر خالی از فکرو نظر کتابیں دھڑا دھڑ شائع کرنے پر مستعد ہے ۔

تعارف و تبصرہ : وصیل خان
نام کتاب : ہینگر میں ٹنگی نظمیں
شاعر : فرحان حنیف وارثی ( موبائل : 9320169397)
زیر اہتمام : عرشیہ پبلی کیشنز
قیمت : 200/-روپئے ، صفحات : 160
ملنے کے پتے : کتاب دار ممبئی ( موبائل : 022-23411854)مکتبہ جامعہ لمٹیڈ
،اردو بازار جامع مسجد دہلی۶۔راعی بکڈپوالہ آباد ( 09889742811)
ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ۔ہدیٰ ڈسٹری بیوٹرس ،حیدرآباد ۔عثمانیہ بکڈپو کولکاتہ
قاسمی کتب خانہ ،جموں توی ،کشمیر ۔
جذبات و احساسات کی تخلیق اور اس کے ترسیلی عمل کی صلاحیت قدرت نے ہر انسان کے دل میں بقدر استطاعت رکھ دی ہے اور ہر شخص اپنے اپنے دائرہ ٔکار میں رہ کر ان افکار و خیالات کی ترسیل کرتا ہے ۔اس تعلق سے غوروفکر اور تدبر کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔اشیاءکے حقائق کی تفہیم کیلئے فکری گہرائی اور جوش عمل دونوں کی ضرورت ہوتی ہے ،ان کے بغیر کسی انسان کیلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ حقائق پر پڑے ان دبیز پردوںکو چاک کرسکے اور حقائق و معرفت کی اس دنیا میں پہنچ جائے جہاں کچھ بھی مستور نہیں رہ جاتا ۔یہ صفت جہاں اللہ نے بڑے بڑے صاحبان فہم و ذکاء کو ودیعت کی ہے وہیں شعراءبھی اس نعمت سے سرفراز کئے گئے ہیں لیکن تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ فی زمانہ شعراء کی جو کھیپ تیار ہورہی ہے ،اس کی ایک کثیر تعداد ان خصوصیات سے یکسر خالی نظر آتی ہے جن کی شاعری محض کچھ تک بندیوں تک محدود ہوتی ہے وہ بھی انتہائی کمزوراورمدقوق سطح کی ،لیکن خوش کن پہلو یہ بھی ہے کہ خال خال ہی سہی مضبوط و توانا شاعری بھی منظر عام ہوتی رہتی ہے جس نے شاعری اورفن شعر گوئی کا بڑی حد تک بھرم قائم رکھا ہے ۔

فرحان حنیف ہمارے درمیان ایک ایسے ہی شاعر ہیں جنہوں نےاپنی محنت ، کلام کی بلوغت اور فکری رفعت کے سبب خود کو ا س صف میں شامل کرلیا ہے جن کےمتعلق وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ شاعری کا بھرم قائم رکھیں گے ۔’ہینگر پر ٹنگی نظمیں ‘ان کا اولین مجموعہ انتخاب ہے جو بہت تاخیر سے شائع ہوا ہے اور اس تاخیر کا سبب وہی مالی وسائل کی عدم فراہمی ہے جو بہت سے اہل قلم و صاحبان فکر کیلئے مسئلہ بنا ہوا ہے ، اس کے برعکس وسائل و ذرائع کے اغوائیوں کی ایک بڑی تعداد دیدہ زیب مگر خالی از فکرو نظر کتابیں دھڑا دھڑ شائع کرنے پر مستعد ہے ۔فرحان غزل بھی کہتے ہیں اور نظم بھی لیکن نظموں سے ان کی انسیت زیادہ ہے ۔ان کی نظمیں نہ صرف معنویت سے بھرپور ہوتی ہیں بلکہ ان کا فکری عمق اس بات کو مبرہن کرتا ہے کہ وہ سوچتے زیادہ ہیں اور اس سے بھی زیادہ تیز ان کی قوت مشاہدہ ہے اور ان دونوں کی آمیزش سے جو نظم وجود میں آتی ہے وہ قاری کے اندرون فکری تموج اور انقلابی کیفیت کا سبب بنتی ہے ۔ان کی نظموں کا مطالعہ اکثر غالب کے اس مصرعے ’ میں نے یہ جانا کہ شاید یہ بھی میرے دل میں ہے ‘ کا آموختہ کرادیتا ہےاور میری دانست میں یہ صفت شاعری کیلئے ہی نہیں کسی بھی فن کی مقبولیت کی بڑی روشن دلیل ہے ۔وہ سماج میں رونما ہونے والے انتہائی چھوٹے چھوٹے واقعات جسے عام طور پر لوگ نظر انداز کردیتے ہیں وہیںسے کام کی باتیں اٹھالیتے ہیں اور پھر بڑی فنکاری سے نظموں کا موضوع بنالیتے ہیں ۔
ان کی نظموں سے متاثر ہوکر عذرا عباس لکھتی ہیں ’’ان کی نظموں کا اتارچڑھاؤاور ان میں جو کیفیت ملتی ہے و ہ اس آدمی کی نہیں جس کے بارے میں میر نے کہا ہے ، سرسری تم جہان سے گزرے ۔یہ میں دعوے سے کہہ سکتی ہوں ۔فرحان اپنے بچپن سے زندگی کو جس طرح دیکھ رہے ہوںگے ان کے لئے ہر جا جہان دیگر ہوگا ، ورنہ یہ نظمیں ان کو چھوکر گزرتی بھی نہیں ، بہت ملائم لہجے میں زندگی کے ناگوار نکتے کو بیان کرنا اور ہرہر جگہ وہ اس پڑھنے والے سے قریب ہوجاتے ہیں جو کم و بیش ان کی طرح زندگی کو شاید جھیلتا اور اگر جھیلتا نہیں تو دیکھتا ضرور ہوگا ۔‘‘

زخموں سے رسنے والی رطوبت اور زخموں کے مہکتے پھول تو سبھی دیکھ لیتے ہیں لیکن اس سے اٹھنے والی ٹیس دکھائی نہیں دیتی ، اس کا اندازہ اسی کو ہوسکتا ہے جو بذات خود اس دردمیں مبتلا ہویا پھر وہ صاحب بصیرت انسان جو دیدہ بینا کے ساتھ دل بینا بھی رکھتا ہو ۔فرحان کی نظموں میں اس قسم کے ذاتی تجربات کا عنصر شامل ہےجس کا مشاہدہ بخوبی کیا جاسکتا ہے ۔ وہ زخم و کرب بھی جھیلے ہوئے ہیں اور بصیرت مندی کے بھی قریب ہیں ۔’ہینگر میں ٹنگی ان کی ایک ایک نظم یہی ثبوت فراہم کررہی ہے ۔انہوں نے کتاب کے دیباچے میں لکھا ہے کہ ’’قارئین میری نظمیں شوق و ذوق سے پڑھیں اور احتیاط کے ساتھ اسی ہینگرمیں آویزاں کردیں‘‘ بشرط مطالعہ، آپ اسے ہینگر سے اتاریں تو سہی ۔

داعش‘ عالم اسلام کے سینے میں ایک خنجر
داعش کے تعلق سے اخبارات میںایک طویل عرصے سے تسلسل کے ساتھ خبریں آرہی ہیں ۔ان کی سفاکیت درندگی اور حیوانیت کی داستانوں سے ہر کو ئی واقف ہے ان کا انداز فکر ، طرز حیات اور کردار سب کی نگاہوں کے سامنے ہے ۔انسانی خون کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت ہی نہیں ہے ۔قتل و غارت گری ان کا شوق ہے وہ اسے محض ایک تفریح کے طور استعمال کرتے ہیں لیکن حیرت اس وقت ہوتی ہے جب وہ اسے اسلامی اقدام قرار دیتے ہیں ۔ زیر تذکرہ کتاب اسی موضوع پر تحریر کی گئی ہے جس کی ترتیب و ترجمانی مولانا مقیم فیضی نے کی ہے جس کے ذریعے انہوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اسلامی احکام اور اس کے مقاصدکیا ہیں ۔ان تمام پیغامات کو موصوف نے قرآن وحدیث اور سلف صالحین کے اقوال کے ذریعے مبرہن کیا ہے ۔تاریخ بتاتی ہے کہ دو ر اسلامی میں تمام جنگیں دفاع میں لڑی گئیں ،دور اول کے مسلمانوں نے کبھی کسی پر جنگ مسلط نہیں کی ،ان کا نشانہ توصرف اور صرف اعلائے کلمہ ٔ حق اور دعوت توحید تھا ،ساری جنگیں ناگزیر صورت میں لڑی گئیں ،اس وقت بھی سرور کائناتؐ کی یہ خاص ہدایت ہوا کرتی تھی کہ بچوں ، بوڑھوں اور خواتین سے جنگ نہ کی جائے ، فصلیں اور باغات ویران نہ کئے جائیں ، جانوروں پر ظلم نہ کیا جاے بس جو تم سے لڑنے آئے اسی سے جنگ کرواور اگر لوگ حق کو تسلیم کرلیں تو جنگ سے گریز کرو ۔کتاب میں مختلف عنوانات اور دلائل سے اسلام کی حقانیت ،مقاصد اور موقف تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں اور یہ ثابت کیا گیا ہے کہ موجودہ دور میں داعش اور اس جیسی کچھ اور تنظیمیں اصل میں دجالی فتنوں کا آغاز ہیں جنہیں سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس کی تفہیم کیلئے ضروری ہے کہ ہم قرآن اور احادیث رسول ؐ کا مطالعہ بے آمیز ذہن سے کریں ۔اس کے برعکس جانے والاتمام راستہ شیطنت کی سرحد سے ملتا ہے ۔علامہ اقبال نے اس شعر کے ذریعے یہی بات کہی ہے ۔
بہ مصطفی ٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر بہ او نہ رسیدی تمام بو لہبی است
لیکن موجودہ صورتحال جن حالات کی غمازی کرتی ہے اور آج لوگوں کے ذہنوں میں جو سوچ ابھر رہی ہے وہ اسلام کے بالکل برخلاف ہے جس کی وضاحت اس شعر کے ذریعے بخوبی کی گئی ہے ۔
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغ مصطفوی جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بو لہبی
۱۳۶؍صفحات پر مشتمل اس کتاب کے حصول کیلئے دفتر صوبائی جمعیت اہل حدیث کرلا ،ممبئی سے ان نمبروں کے ذریعے رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔226526/225071/022-26520077
سہ ماہی تخلیق و تحقیق ( مئو ناتھ بھنجن )

عدیلہ پبلی کیشنز مئوناتھ بھنجن کے زیراہتمام یہ جرید ہ ابھی حال ہی میں مئی تا جون کی اولین اشاعت کے ساتھ منظر عام پر آیا ہے جس کے نگراں ڈاکٹرایم نسیم اعظمی اور مدیر عدلیہ نسیم اور ظہیر حسن ظہیر ہیں ۔مشمولات اور معیار کے اعتبار سے کافی جاذب اور معلومات افزاہے ۔اپنی اولین اشاعت سے ہی شمالی ہند سے شائع ہونے والے گنتی کے رسائل میں اسے ایک امتیاز حاصل ہوگیا ہے۔ملک کے اہم قلمکاروں کے ادبی ،تحقیقی ، تنقیدی ، معاشرتی اور معلوماتی مضامین ،فکر انگیز افسانوں،منتخب نظموں اور غزلوں کے ذریعے متنوع بنانے کی نہایت سلیقہ مندی سے جو کوشش کی گئی ہے، خدا کرے وہ اختصاص باقی رہ جائے ۔نقد و نظر کے عنوان سے پروفیسر ظفر احمد صدیقی کا مولوی مجیب اللہ ندوی اور خواجہ میر درد پر مضمون کافی تحقیق و تلاش کا مظہر ہے ۔پروفیسر صغیر افراہیم نے ہندوپاک کے تحقیقی مقالوں کا ایک تقابلی مطالعہ بڑے منفرد انداز میں کیا ہے ۔عادل منصوری کی غزل گوئی کا محاکمہ کرتےہوئے ڈاکٹر ایم نسیم اعظمی نے عادلانہ رویہ اپنایا ہےاوران کی فکری جہات کی کچھ نئی پرتیں کھولی ہیں ۔اسی طرح سے ہندوستان کی طبی درسگاہیں ، سیتا ہرن اور مقال جیسے مضامین بھی توجہ مبذول کرتے ہیں ۔غزلوں اور نظموں کے انتخاب میں بھی سلیقہ مندی اور معیار کو پیش نظر رکھا گیا ہے ۔لیکن نثری صفحات کے برعکس نظموںاور غزلوںکے دائرے کی وسعت کھلتی ہے ۔شمالی ہند میں اردو کی ناگفتہ بہ صورتحال کے تدارک اور زبان کی ترویج و اشاعت کیلئے کام نہیں مہم کی ضرورت ہے ،اس کے پیش نظر مضامین اور کالمس شروع کئے جائیں تو بہتر ہے۔ مجموعی طور پر یہ رسالہ اپنی پہلی اشاعت سے ہی محبوبیت کی منزل کے قریب ہے اس کیفیت کوقائم رکھنا ضروری ہے ۔ایوان ادب میں ہم سبھی اس کا خیرمقدم کرتے ہیں ۔ مدیران سے رابطے کے نمبرات نوٹ کرلیں ۔ 08736992810/9795384952
 

vaseel khan
About the Author: vaseel khan Read More Articles by vaseel khan: 126 Articles with 94491 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.