دہشت گردی کیخلاف جنگ کے نام پر
جاری صلیبی جنگ اوباما دور میں پاکستان پر اور زیادہ چڑھی چلی آ رہی ہے۔
اول تو ہماری قیادت نے اس کمبل سے پیچھا چھڑانے کی ادنیٰ ترین کوشش بھی
نہیں کی، لیکن اب تو تمام تر خوش گمانیوں کو روندتی ہوئی نئی اوباما پالیسی
پاکستان ہی کو میدان جنگ بنانے پر تلی بیٹھی ہے۔ ڈیڑھ ارب کا تکا ہمارے منہ
میں دیکر رہی سہی کسر قومی سلامتی (اگر کہیں ہے تو) کا سودا کیا جا رہا ہے
اور چونکہ پرواز میں پہلے ہی کوتاہی اتنی ہے کہ… اڑنے سے بیشتر ہی میرا رنگ
زرد تھا۔ لہٰذا طائر لاہوتی نے تو تقریر پوری ہونے سے پہلے ٹپکتی رال کے
ساتھ خیر مقدم فرما دیا اس پالیسی کا۔ ڈرون حملے نہ صرف جاری رہیں گے بلکہ
امریکی فوج پاکستان کے اندر کاروائی کرنے کا عزم بھی ظاہر کر رہی ہے اور یہ
واضح ہے کہ ہائی ویلیو ٹارگٹ عین وہی ہے جو عراق میں عام تباہی کے ہتھیار
تھے۔
عراق برباد کر کے کمال درجہ بے نیازی سے جنگل کے بادشاہ نے اطلاعات کے غلط
ہونے کا اعلان فرما دیا۔ اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اسرائیل محفوظ ہوگیا اور اب
یہ عازم بہ پاکستان ہوگئے۔ میر اپنی سادگی میں اوباما سے آسمانی توقعات
لگائے بیٹھے تھے حالانکہ پالیسی اوباما کی نہیں ہے‘ وہ مسکین کیا اور اسکی
اوقات کیا ! صہیونی یہودی، صہیونی عیسائی اصل آرکیٹکٹ ہیں اس پالیسی کے۔
ہم ہی ہوش سنبھال کر آنکھیں حقائق سے چار کرنے پر رضامند نہیں ہیں۔
اس وقت حالات میں ڈرامائی تبدیلی یا پاکستان کیلئے کسی خوشخبری کی توقع
رکھنا ایسا ہے جیسے رات کے گیارہ بجے کوئی یہ کہے کہ بس ذرا ٹھہرو‘ آدھے
گھنٹے میں سورج نکل آئیگا۔ کیا ستم ہے کہ امریکہ یورپ و دیگر تمام مغربی
دنیا پوری یکسوئی سے آرمیگڈون… ملحمۃ الکبریٰ کی تیاری کر لے۔ بائیبل ہاتھ
میں لیکر مسیح کاذب… مسیح الدجال کی آمد کی راہیں ہموار کرنے کیلئے قدم بہ
قدم پورے مذہبی جوش و جذبہ کے ساتھ تیاری کرے اور وہ امت جس کیلئے سورۃ
الکہف فتنۂ دجال کیلئے تریاق بنا کر نازل کی گئی۔ باب الفتن کی احادیث نے
آنیوالے وقت کی نشاندہی کر دی۔ وہ قوم سیکولرازم کے ہیضے میں مبتلا بنیاد
پرست عیسائی یہودی یلغار کے آگے اپنی زمامِ کار بے خدا حکمرانوں کے ہاتھ
میں دئیے قوم کی قسمت این آر او کے تھپیڑوں کے حوالے کئے ہوئے ہے۔ ہمیں
روشن خیالی کا درس دینے والے‘ خود آنے والی بڑی تباہی (جو انکے ہاں
آرمیگڈون کے نام سے معروف ہے) سے نجات کیلئے اس عقیدے کی ترویج پر کروڑوں
ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔ مسیحی پادری، امریکی صدور‘ برطانوی بلیئر جیسے وزرائے
اعظم (جو ٹرم ختم ہونے پر اپنی بنیاد پرستی کا اقرار کرتے ہیں) مسیح
(الدجال) کی آمد، مسجد اقصیٰ ‘ گنبد صخریٰ مسمار کر کے (خاکم بدھن) ہیکل
کی تعمیر کے خواب آنکھوں میں لئے اپنی گلوبل پالیسی ترتیب دے رہے ہیں۔
اسکے شواہد مغربی اخبار و رسائل، میڈیا‘ انکے معاشرے میں یوں موجود ہیں کہ
الگ حوالوں کی بھی ضرورت نہیں۔ قبل از انتخابات ہیلری کلنٹن کی نہایت
جذباتی (Passiouate) تقریر ہو حلقہ ہائے یہود کے روبرو یا بُش کی کٹر
مذہبیت‘ یا عراق، افغانستان میں صلیبی فوجوں کی معرکوں پر نکلنے سے پہلے
مذہبی رسومات میں شرکت‘ پادری کی دعائیں سمیٹ کر صلیب کیلئے صف آراء ہونے
کا مذہبی جذبہ۔ یہ سب ان کی عیاری اور ہماری نادانی ہی کے مظاہر ہیں۔
ہمیں سورۃ کہف‘ اصحابِ غار کی طرف توجہ کرنی ہے۔ ہم نے تویہ سوچنے کی زحمت
بھی نہ اٹھائی کہ زمان و مکان کے خالق و مالک نے معرکہ خیر و شر کے عروج پر
جب وہ جانتا تھا کہ دنیا ہائی رائٹرز سکائی سکریپرز کی دنیا ہوگی ایسے میں
فتنۂ دجال سے نمٹنے کیلئے سورۃ کہف کا تریاق کیوں فراہم کیا جو نمونہ عمل
کے طور پر غار والے اصحابِ ایمان کو پیش کر دے؟ اسلام کی کہانی میں غاروں
کی اہمیت۔ غار حرا، غار ثور، سروں کی قیمت‘ چھپنا‘ چھپانا‘ ایمان کی حفاظت
کیلئے اصحابِ کہف کی طرح پہاڑوں کے غاروں میں پناہ جُو ہونا ۔۔؟ ہمیں
بھنگڑا بازی سے فرصت ہو تو یہ نہایت توجہ طلب‘ سنجیدہ معرکہ ہائے خیر و شر
کے سنگ میل پڑھ سکیں۔ فتنۂ دجال کی علامات پوری ہونے کو ہیں۔ سٹیج سج چکی‘
خروج باقی ہے لیکن ہماری تیاری کیا ہے؟ اس شر سے نمٹنے کو امام مہدی کی
قیادت اور بعدازاں حضرت عیسیٰ کے نزول کی بشارتیں موجود ہیں۔ لیکن ہماری
گھگھیائی ہوئی سیکولرازم اس بات کی اجازت ہی نہیں دیتی کہ ہم اسے زیر گفتگو
بھی لا سکیں۔ اسلام کو مسجد کی چار دیواری میں مقید کر کے جو ٹامک ٹوئیاں
ہم مار رہے ہیں۔ یہ سب اسی کا شاخسانہ ہے۔ تاآنکہ اس وقت دینی جماعتیں بھی
اس حوالے سے منقار زیر پر ہیں۔
ہر دور میں مصروف حدیث دہرائی گئی جو امت مسلمہ پر کفر کے ٹوٹ پڑنے کی
کیفیت کو بیان کرتی ہے۔ ہم نے جب سے شعور کی آنکھ کھولی ہے اس حدیث کا
حوالہ ہر جگہ پایا‘ جہاد افغانستان اول سے لے کر بوسنیا، چیچنیا، فلسطین،
کشمیر سب جگہ‘ لیکن جس طرح وہ حدیث آج ہم پر لاگو ہو رہی ہے کبھی نہ یوں
فٹ بیٹھی تھی کہ واقعتاً دنیا (40 کافر ملک) ہم پر ٹوٹ پڑی ہے جیسے بھوکے
دسترخوان پر اور یوں دعوت دے دیکر ایک دوسرے کو بُلا رہے ہیں کہ جاپان جیسا
مہمان نوازی میں دوہرا ہو کر رکوع کرنیوالا مسکین طبعیت ملک میں ہمارے تکے
بوٹی کرنے کی مہم میں شامل ہے۔ اور ہم…؟ لشکرِ دجال کا حصہ بنے مسلمانوں کا
شکار خود کر رہے ہیں۔ تمام مسلم ممالک کے حکمران (کم و بیش امریکہ، مغرب کے
کٹھ پتلی، مفادات کے اسیر، مطلق العنان، آبادیوں اور وسائل کو یرغمال
بنائے ہوئے دنیائے کفر کی چاکری کر رہے ہیں۔ حالت زار عرب ممالک کی تنظیم
اور اوآئی سی کی سطح پر عیاں ہے۔ ہمیں ہوش کے ناخن لینا ہونگے۔)
ذرا مناواں کے حادثے کی جڑ بنیاد پر بھی حقیقت پسندانہ نگاہ دوڑائیے۔ پورا
دن قوم ٹی وی سے جڑی اسکی چشم دید گواہ رہی۔ تمام چینلز پر بار بار یہ سب
دکھایا گیا۔ لاشیں‘ دھماکے‘ فائرنگ سب کے دل ہولاتی رہی۔ سارا دن 22
ہلاکتوں کی پٹی چلتی رہی۔ سب اس فکر میں شریک رہے۔
دوسری جانب یہی منظر ڈرون حملے کا تھا جس میں 22 شہادتوں کا ہی تذکرہ تھا۔
فرق صرف یہ تھا کہ یہ لاہور تھا اور وہ وزیرستان‘ وہاں نشانہ بننے والوں کی
اڑتی اڑتی خبر آئی اور سماعتوں کو زیادہ تکلیف دئیے بغیر گزر گئی۔ 8 گھنٹے
کجا، آدھ گھنٹے کی بھی کوریج نہ تھی۔ لاشیں وہاں بھی تھیں دھماکہ ہولناک
تھا کیونکہ وہ میزائل حملہ تھا لیکن ہمارے کان محفوظ رہے۔ لاشیں تو تھیں
اور تھے بھی مسلمان۔ لیکن وہ کوئی اور تھے۔ انکی بیویاں بچے نہ تھے؟ انکی
گلوگیر آنسو بہاتی مائیں باپ نہ تھے؟ ہونگے لیکن ہم انہیں کیا جانیں۔
ہمارے اطمینان کو یہی کافی تھا کہ خبر یہ تھی کہ ان میں چند ایک عرب تھے۔
شاید حضرت حنابؓ‘ حضرت مصعب بن عمیرؓ یا کسی اور صحابی کی نسل سے ہوں۔ لیکن
بہرحال وہ پاکستانی نہ تھے باقی تو پاکستانی تھے؟ لیکن وہ قبائلی تھے! اور
یہی داستان قبائل کے چپے چپے پر دہرائی گئی، ہزاروں گھر اجاڑے‘ بستیاں تباہ
کیں‘ ایسے بے شمار 22‘ 22 کے گروہ درگروہ نوجوان لاشے‘ بچے، سفید داڑھیوں
والے دربدر رُلتے بوڑھے‘ خوار و زار باپردہ مومنات غافلات۔
میڈیا نے لگاتار پورا پورا دن ہمیں وہ سب کچھ نہیں دکھایا۔ ہلکی سی جھلک
دکھا کر چھوڑ دیا۔ یہ عین وہی پالیسی ہے جو 9/11 سے شروع ہوئی۔ نیویارک کے
تین ہزار پوری دنیا کے اعصاب رگ و ریشے میں میڈیا نے اتارے۔ دن رات ایک کر
دیا انکی تشہیر میں لیکن بغداد، فلوجہ، تکریت کی بربادی؟ افغانستان کی
تباہی؟ چند لمحوں کی کوریج ! نیویارکر کا خون زیادہ قیمتی ہے‘ لاہور میں
بہنے والا خون زیادہ لال ہے لہٰذا دہشت گرد صرف وہ ہے جو نیویارک لندن کو
نشانہ بنائے ‘ لاہور اسلام آباد کو میلی آنکھ سے دیکھے۔ قبائل کو تباہی
سے دوچار کرنیوالے کون ہیں؟ کوئی اصطلاح؟ معصوم قبائلیوں کا گناہ یہ ہے کہ
انہوں نے پاکستان سے اپنا ناطہ جوڑا تھا‘ کشمیر کیلئے اپنا خون دیا تھا۔
کیا وہ حصہ پاکستان نہیں ہے؟
پاکستان کی سالمیت وہاں حملوں سے داؤ پر نہیں لگتی کیا؟ جس سر کی قیمت
امریکہ نے لگا دی اسے ہم نے بدرجہ اولیٰ دہشت گرد قرار دیدیا! اب جناب ذرا
آگے کی فکر کیجئے۔ بہلا پھسلا کر امریکہ باضابطہ حملے کی تیاری میں ہے۔
ہوائی اڈے پہلے ہی انہیں دے رکھے ہیں۔ سی آئی اے کا جال پہلے ہی بچھا ہوا
ہے۔ قیادتوں کا اصل امتحان اس کمبل سے پیچھا چھڑانے اور اس جنگ سے نکل کر
آنیوالے معرکوں کی تیاری میں ہے۔ زندگی صرف ایک بار ملی ہے۔ یہی اسے اللہ
کے ہاں کیش کروانے کا بھی معرکہ ہے یہ رائیگاں نہ جائے۔
ہمیں ضرورت ہے ایسے دشمن کو پہچاننے کی‘ صفوں میں اتحاد پیدا کر کے اس
کیخلاف صف آراء ہونے کی‘ سیکولرازم کو خیرباد کہہ کر ملحمۃ الکبریٰ کی
تیاری کی۔ کیا پاکستان نے دجال کے لشکری فراہم کرنے ہیں یا اس مملکت خداداد
پاکستان سے امام مہدی کیلئے قلعہ فراہم کرنا ہو گا؟ مسجد اقصیٰ کی بنیادیں
ہلائی جا چکی ہیں۔ نیچے سے زمین کھود کھود کر کھوکھلا کیا جا چکا ہے۔
تیاریوں کے تیور کچھ اور ہی ہیں۔ اوباما کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھنے
کی بجائے اب اللہ کی طرف مغفرت طلب نظروں سے دیکھنے وقت ہے۔ اب بھی مہلت
ہے۔ فیصلوں میں دیر نہ کیجئے۔ |