صف دوستاں کو خبر ہو کہ ہماری آزمائش ہنوز جاری ہے

رچرڈ ہالبروک پاکستانی سیاست دانوں پر چڑھ دوڑے۔ فرغونی تکبر کی یہ انتہا ہے۔ 35 ارب ڈالر کے نقصان کے مداوے کیلئے پاکستان کو سسکا سسکا کر اسکے ایمان، غیرت اور خونِ مسلم کا عوضانہ کل ڈیڑھ ارب سالانہ کا وعدۂ فردا۔ اس پر انہیں کوئی اُف بھی نہ کہے؟ ٹریلین ڈالر خرچ کر کے افغانستان، عراق اور اب پاکستان کی بیخ کنی پر مامور یہ ملک ہماری ناراضگی پر غضبناک ہیں! پاکستان امریکہ کی بھڑکائی آگ میں سلگ رہا ہے۔ چہار جانب اسکے گماشتے وطن عزیز کو لہو لہو کر دینے میں ملوث ہیں۔ اسے آپ کوئی نام دے دیں۔ کراچی، لکی مروت یا قبل ازیں کے ہولناک واقعات کی لہر جس نے ہرطرف دہشت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ یہ کرم نوازیاں سی آئی اے، موساد اور ان کی ہمجولی ’’را‘‘ ہی کی ہیں۔ آپ کے مقامی کارندے انہیں کھینچ تان کر طالبان، القاعدہ، لشکر جھنگوی حتیٰ کہ نواختراع لطیفے کے تحت تحریک اسلامی کی خواتین پر فٹ کرنے کیلئے زمین آسمان ایک کردیں۔ بچہ بچہ جانتا ہے یہ سب کیا دھرا کس کا ہے۔ ایک سوراخ سے ہم کتنی بار ڈسے جاسکتے ہیں۔ اب پرانے لیبل کارگر نہیں رہے۔ طالبان، القاعدہ، دہشت گردی یہ اصطلاحیں اب کام نہیں دیں گی۔ آپ ظلم کے پہاڑ توڑ لیں بجلی کے جھٹکے دے دے کر لوگوں سے اقرارِ جرم کروالیں۔ اب چہروں کے نقاب سرک چکے ہیں، کراچی کا سانحہ، ٹارگٹ کلنگ یہ سب وہ ہے جو سی آئی اے کے ہاتھوں لاطینی امریکہ نیز عراق میں آزمایا جا چکا ہے۔ ڈیتھ سکواڈ، ٹارگٹ کلنگ، لاپتہ کر دینے کا phenomenon، 9/11 سے پہلے پاکستان میں جس کا گزر بھی نہ تھا اب معمول بنتا جا رہا ہے۔ یہ سب امریکہ اور اسکے تربیت یافتہ ہاتھوں کا شاخسانہ ہے۔ پاکستان دہشت گردی کی جنگ کی نذر ہوگیا۔ معیشت تباہ کردی گئی۔ بھوک پیاس مسلط گیس بجلی صنعت بند۔ عوام دربدر۔ کچھ فاقوں کی نذر کچھ پکڑ دھکڑ کی کیا اب بھی سرکارِ عالی کو میلی آنکھ سے نہ دیکھا جائے۔؟ ہوش کے ناخن لیجئے قبل اس کے کہ ملک کے ہر کونے سے انقلاب ایران کی بُو آنے لگے۔ افغانستان کے گدھے سے گر کر پاکستانی کمہاروں پر غصہ نہ نکالئے۔ 9/11 کے بعد امریکہ کی سونڈ کو ایک اور داغ اردنی ڈاکٹر نے لگا دیا ہے۔ لہٰذا دن رات ڈرون حملے کرکے بدلہ ہم سے چکایا جا رہا ہے۔ خود مختاری، سالمیت کے یہ اڑتے پرخچے۔ صرف مظلوم پاکستانی ابدان کے ہی چیتھڑے نہیں اڑ رہے امریکی ڈرون دن رات پاکستان کی خود مختاری پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کیا غضب ہے کہ امریکی سینیٹر ہمارے حکمرانوں کے دوغلے پن سے پردہ اٹھا کر یہ کہنا ہے کہ درپردہ خوش اور مطمئن ہونے والے ہمارے سربراہان پبلک کو آسودہ رکھنے کو اینٹی ڈرون بیان دے ڈالتے ہیں۔ یہ دھول کب تک ہماری آنکھوں میں جھونکی جاتی رہے گی؟ اتنی ’’خدمات‘‘ کے عوض ہمارے حصے کیا آرہا ہے؟ پیراہنِ چاک چاک؟ ڈرون حملے؟ لاشوں کے ڈھیر؟ لاپتہ ہونے والوں کی لامنتہا فہرستیں؟ تلاشی کے شرمناک مراحل سے گزارا جانا؟ بار بار دہرائے جانے والے گستاخانہ خاکے؟ اتنی بھاری قیمتیں چکا کر بھی ہم اپنی ایک بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی جو زندہ لاش بن چکی ہے۔ ہمارے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ ہم اسے بھی بازیاب نہ کروا سکے؟ غلامی کی کوئی انتہا بھی تو ہو۔

اسلام جسے ہم امریکہ کے خوف سے پسِ پشت ڈال چکے آپ سے ڈاکٹر عافیہ کیلئے کیا کہتا ہے؟ کوئی عورت مشرق میں گرفتار ہو تو اہل مغرب پر اس کا چھڑانا واجب اور ضروری ہے، (فتاویٰ سراجیہ) سوا ارب کی ہر امت کفر کی تمام تر چاکری کرکے ایک بیٹی بازیاب نہ کرواسکے؟ اپنے نبیؐ کی ناموس کے تحفظ پر قادر نہ ہو؟ ذاتی تجربے سے گزرنے کے بعد میں نے یہ دیکھا کہ جہاں ایمان، غیرت اور اخوت کے دل خوش کن مناظر، مظاہر تھے۔ وہاں یہ بھی پرکھا کہ ہم مشرف بیچارے کو یونہی لعن طعن کرتے رہے۔ یہاں بے شمار لوگوں کے اندر ایک ایک مشرف پہنہاں ہے۔ ایک فون سے بھی پہلے ہتھیار ڈالنے والے’’ سب سے پہلے پاکستان ‘‘کے وزن پر ’’سب سے پہلے میں‘‘۔ ’’میرا گھر‘‘ تھا۔ وھن کو سر کی آنکھوں سے دیکھا۔

مشرف، زرداری، رحمان ملک، اٹھانے والے ادارے، یہ سب روبہ زوال کردار، روایات، اخلاق، ایمان، اسلام کی علامات ہیں۔ ان بیچاروں کو کیوں بُرا بھلا کہنا۔ یہ ہم ہی ہیں۔ ہم ہی میں سے ہیں۔ ہر فرد اپنے گرد فلسفے گھڑ کر محفوظ چار دیواری میں بیٹھا ہے جو کچھ بھی کر رہا ہے۔ حتیٰ کہ تکبیر کی پکار پر مسجد جانے والے ، ہاتھ باندھ کر اللہ کے حضور کھڑا ہونے والا بھی رب کی کبریائی پر ایمان کم کم ہی لاتا ہے۔ رب کی یہ نسبت گھُسن(مُکہ) نزدیک تر پاتا ہے! لہٰذا گھُسن کا خوف اسکی گھگھی بندھا دیتا ہے اور کیفیت یہ بن جاتی ہے کہ ’’لوگوں میں سے کوئی ایسا ہے جو کہتا ہے کہ ہم ایمان لائے اللہ پر۔

مگر جب وہ اللہ کے معاملے میں ستایا گیا تو اس نے لوگوں کی ڈالی ہوئی آزمائش کو اللہ کے عذاب کی طرح سمجھ لیا۔‘‘(العنبکوت۔10) بلاشبہ ہمیں عافیت ہی مانگنا سکھایا گیا ہے اور ہم اللہ سے عافیت ہی کے طلبگار ہیں۔ اس امت کی عافیت کوشی پر ڈاکٹر عافیہ ایمان و استقامت کا رواں تبصرہ ہے۔ جہاد کی فرضیت کو عرصہ بیت چکا لیکن کون مائی کا لال ہے جو ’’دہشت گردی‘‘ کے الاپے جانے والے راگ کی حقیقت کھول کر یہ یاد دلا سکے کہ تمام مسلمان ممالک کو کفر کی چیرہ دستیوں سے آزاد کروانے کیلئے اٹھ کھڑے ہونے کا وقت آچکا۔ عوام الناس رہے ایک طرف، اہل ایمان کا بھی یہ حال ہے کہ ادھار کھائے بیٹھے ہیں کہ کوئی کہہ دے کہ یہ دہشت گردی ہے جہاد نہیں تاکہ ہم سکون سے اپنے عیش کدوں، راحت میلوں، مہندی مایوں، کھیل تماشوں میں ضمیر کی خلش کے بغیر مگن رہ سکیں۔ قرآن میں اللہ کی راہ سے روکنا۔ کافر روکے یا مسلمان، جرائم میں سرفہرست ہے جسکی بنا پر قنوت نازلہ میں کفر پر لعنت کی بددعا دی جاتی ہے۔ اسلام پر چلنا دو بھر کردینا۔ داڑھی، حجاب، قرآن، اسلام مشکل سے مشکل تر کردینا جب اہل کفر و اسلام کا یکساں ہدف بن جائے تو وہ وقت کیا تقاضے ہمراہ لائے گا؟ دہشت گردوں کی ساری تصویریں میڈیا میں سامنے لایئے پاکستان بھر کی نورانی صورتیں، پاکباز چہرے، تمام راکع، خاشع، ساجد آپ کو یکجاں ملیں گے۔ سارے عقوبت خانے ہتھکڑیوں، بیڑیوں میں جکڑے، نمازیوں، حافظوں سے بھرے پڑے ہیں۔ جنہیں بدترین اذیتوں سے گزار کر بدترین الزامات سے لتھڑا جا رہا ہے۔

اسکے باوجود کیا آپ سکون کی نیند سو رہے ہیں؟ تمام مسلم ممالک امریکی نو آبادیاں بن چکے ہیں۔ ان کی حکومتیں ان کے بے دام غلام ہیں (دام بہت تھوڑے لگتے ہیں اسلئے بادام، کہنا زیادتی ہے) لیکن ہم منتظر ہیں نجانے کس دن کے!

تم عمل کیلئے انتظار کرتے ہو اس خوشحالی اور دولت مندی کا جو آدمی کو سرکش کردیتی ہے۔ یا انتظار کرتے ہو اس ناداری و محتاجی کا جو سب کچھ بھلا دیتی ہے یا انتظار کرتے ہو حالت بگاڑ دینے والی بیماری کا یا عقل و حواس کھو دینے والے بڑھاپے کا یا اچانک آنے والی فنا کر دینے والی موت کا، یا تم منتظر ہو دجال کے اور دجال بدترین غائب ہے جس کا انتظار کیا جائے یا تم منتظر ہو قیامت کے، اور قیامت بڑا سخت حادثہ اور بڑا کڑوا گھونٹ ہے(جامع ترمذی و سننِ نسائی)

صف دوستاں کو خبر ہو کہ ہماری آزمائش ہنوز جاری ہے۔ اسلامی جمعیت طالبات کی ہر دلعزیز سابقہ ناظمہ اعلیٰ یاسمین حمید حال قیمہ تحریک اسلامی کے صاحبزادے محمد غوری کو عقوبت خانے میں اسلام دوستی پر پرکھا جا رہا ہے۔ جسکے ترانے سوتوں کو جگاتے اور پہروں رلاتے تھے اور جس کے درس نوجوانوں کی کایا پلٹ دیتے تھے وہ آپ کی دعائوں کا طلبگار ہے! میڈیاٹرائل میں اسے جو کفر کیلئے سراپا قہر تھا اپنوں کی فرد جرم تھمائی گئی ہے۔ یعنی پیریڈلین! تحریک اسلامی کی تین مزید معزز خواتین پر ایک جھوٹا کیس جو ہر طرح بار بار پرکھ کر خارج کردیا گیا تھا ازسر نو دہشت گردی کی شق لگا کر انہیں دھر لینے کا سامان زیر غور ہے۔ یہ زبان حضرت یعقوب علیہ السلام: واللہ المتحان علی ماتصفون۔ جو بات تم بنا رہے ہو اس پر اللہ ہی سے مدد مانگی جاسکتی ہے، اسکے بعد ہم، القاعدہ، قرار پائیں گے دہشت گرد کہلائیں گے۔ جس پر قارئین بھی گواہ ہیں کہ میری تحریری یہی کہتی ہیں! امریکہ مخالف کا نام یہی ہے۔
Khalid Shahzad Farooqi
About the Author: Khalid Shahzad Farooqi Read More Articles by Khalid Shahzad Farooqi: 44 Articles with 49137 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.