نفسِ ذکیہ - قسط ٢٤

’’یونیورسٹی کے سیکنڈ ائیر میں ایک واقعہ پیش آیا۔ مجھے پتا چلا کہ سلیم جرمنی جا رہا ہے۔ جرمنی کا نام سنتے ہی میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ سلیم کی یونیورسٹی کے ایک گروپ کو ایک انجنیئرنگ پروجکٹ کی نمائش کے لئے جرمنی بھیجا جا رہا تھا۔ اس گروپ میں سلیم کا نام بھی شامل تھا۔ سلیم اورابو اور سب گھر والے بہت خوش تھے۔ سب سلیم کی کامیابی پر فخر کر رہے تھے۔ اگر کوئی شخص اس خوشی سے بیزار تھا تو وہ تھا میں۔۔۔ میرے تو سینے پر سانپ لوٹنے لگے۔ چند ہی دنوں بعد سلیم کی جرمنی کی پرواز تھی۔ اس کا ویزا پاسپورٹ ٹکٹ وغیرہ سب ریڈی ہو چکا تھا ۔ میری ہر رات سلگتے انگاروں پر گزرنے لگی۔ سارا گھر میری بے چارگی کا تماشہ کرتا تھا۔ میرے غلیظ جذبات کسی سے چھپائے نہیں چھپتے تھے۔ میں ہر ہر لمحہ اسی سوچ میں غرق رہتا کہ کس طرح سلیم کے جرمنی کا سفر کینسل ہو۔۔۔ طرح طرح کے سازشیں۔۔۔ اوچھے ہتھکنڈے۔۔۔ مکر و فریب وچالاکیاں میری دماغ میں آتی رہتیں۔ مگر کوئی بھی چال ایسی نہ سوجھتی جو قابلِ عمل ہوتی۔ ‘‘

’’سلیم کے جرمنی جانے میں کوئی دو تین دن رہ گئے تھے۔ ہمارے علاقے کی لائٹ گئی ہوئی تھی۔ رات کے ایک بج رہے ہوں گے۔ میں اوپر چھت پر اپنے اکلوتے کمرے میں گھسا اپنا سر پیٹ رہا تھا۔ باقی تمام گھر والے بھی چھت پر ہی سو رہے تھے تا کہ گرمی سے بچا جاسکے۔ صرف میں ہی اپنے کمرے میں دبکا بیٹھا تھا۔ اچانک مجھے پیاس لگی اور میں اٹھ کر سیڑھیاں اترتا ہہوا نیچے گھر میں داخل ہوا۔ سامنے ہی ایک موم بتی جل رہی تھی۔ میں نے فرج سے پانی کی بوتل نکالی اور ایک گلاس میں پانی انڈیل کر وہیں موم بتی کے آگے رکھے ایک کرسی پر بیٹھ کر پانی پینے لگا ۔ میں موم بتی کے سعلے کو دیکھتا اس میں اپنی انگلیاں آر پار کرتا جانے کیا کیا سوچ رہا تھا۔ پھر یوں ہی میں نے اسی میز کے نیچے بنی دراز کے ہینڈل پر ہا تھ رکھا اور بے اختیار اس دراز کو کھول دیا۔ دراز میں ایک پاسپورٹ اور دوسرے کئی پیپرز رکھے تھے۔ میں نے اچک کر پاسپورٹ اٹھایا اور کھول کر اس میں بنی سلیم کی تصویر دیکھنے لگا۔ میری آنکھوں میں حسد کے شعلے پھڑک اٹھے۔ دل چاہا کہ یک دم پاسپورٹ کو موم بتی کی آگ میں بھسم کر دوں۔ مگر اتنی ہمت بھی مجھ میں نہ تھی۔ پھر جانے کیسے میری ذہن میں ایک منصوبہ بن گیا۔ گھر ویران تھا۔ سب اوپر ہی سو رہے تھے۔ میں دبے پاؤں کچن میں گیا اور وہاں سے چھری اور کھانے پکانے کا تیل اٹھا لایا۔ میں نے کانپتے ہاتھوں سے موم بتی کو کاٹا تا کہ وہ جلدی سے ختم ہو جائے اور ایک پیپر پر کھانے پکانے کا تیل انڈیا کر موم بتی کے نیچے رکھ دیا۔
میں نے تھوڑی سی دراز کھرل کر اس میں سے کچھ پیپروں کی نوک نکال کر اس تیل والے صفحے سے لگا دی۔ بس اب میں فوراََ واپس اوپر بھاگ گیا۔ چھری میں نے کچن میں ہی واپس رکھ دی تھی۔‘‘

’’مجھے بہت سکون ملنے لگا۔ خیالوں ہی خیالوں میں میں اس پوری میز کو سلیم کے پاسپورٹ کے ساتھ آگ میں لت پت دیکھ رہا تھا۔ ‘‘

’’موم بتی ختم ہو گئی۔ آگ کی لو اب صرف دھاگے پر جل رہی تھی جس کا ایندھن کھانے پکانے کا تیل تھا۔ کچھ ہی دیر میں تیل گرم ہو گیا اور کسی فرائینگ پین کی آگ کی طرح دہکنے لگا۔ پھر میز نے آگ پکڑ لی اور پھر باقی صفحات نے اور پھر سلیم کے پاسپورٹ نے۔۔۔‘‘

’’کوئی ایک گھنٹے بعد ابو کو کسی مچھر نے کاٹا تو ان کی نیند ٹوٹی۔ انہیں کچھ بد بو محسوس ہونے لگی۔ وہ اٹھ کر بیٹھے اور توجہ سے بد بو سونگنے لگے۔ میں اپنے کمرے میں آرام سے پڑا شیطانی ہنسی ہنس رہا تھا۔ابو نچلی منزل پر جانے لگے کہ دیکھیں کہ کس چیز کی بدبو ہے۔ ابو نیچے گئے اور اپنے سامنے میز کو جھلستا پایا۔ وہ یہ منظر دیکھ کر ہڑبڑا گئے۔ انہوں نے دوڑ کر کچن سے پانی بھرا اور میز پر انڈیل دیا۔آگ بہت بڑی نہیں تھی۔ تھوڑی سے کوشش سے بجھ گئی۔ مگر کا م تمام کر گئی ۔ ‘‘

’’یہ پہلی بار تھی کہ میں نے کوئی عملی قدم اٹھا کر سلیم کو نقصان پہنچایا تھا۔‘‘ میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ جس کہانی کو میں بے معنی اور بورنگ سا سمجھ رہا تھا وہ کیا کیا موڑ لے رہی تھی مجھے اب پتا چلا۔

’’لائٹ ابھی تک نہیں آئی تھی ۔ ابو جلے سڑے کاغذوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگے کہ کوئی کام کی چیز تو نہیں جل گئی۔۔۔ اور یک دم ان کے ہاتھ میں سلیم کا جلا ہوا پاسپورٹ آ گیا۔ ان کے تو اوسان خطا ہو گئے۔ وہ غصہ سے بپھرے ہوئے دھاڑنے لگے۔ پھر زور زور سے چلاتے ہوئے سب کو جگایا۔ سوائے میرے سارے ہی نیچے کو بھاگے۔ سلیم بھی اور امی بھی اور باقی بہن بھائی بھی۔۔۔ نیچے ہوا ماجرا دیکھ کر سب ہی اپنا سر پیٹنے لگے۔ خاص طور پر سلیم ایک کونے میں بیٹھ کر رونے لگا۔ میں بھی ٹہلتا ہوا نیچے آ گیا کہ ذرا سب کی حالتِ ذار کا مشاہدہ تو کروں ۔ سارے گھر کو اور خاص طور پر سلیم کو پریشان اور روتا ہوا دیکھ کر میرے کلیجے کو ٹھنڈک ملنے لگی۔ پھر صبح تک کسی کو نیند نہیں آئی۔ سب اس واقعے پر افسوس کرتے رہے اور آپس میں تبصرے کرتے اس آگ کے لگنے کی وجہ ٹھونڈنے کی کوشش کرتے رہے۔ یہاں تک کہ صبح ناشتہ کرتے ہوئے میری بہن بھاگی بھاگی آئی اورابو کو وہ چھری دکھائی جس سے میں نے رات کو موم بتی کاٹ کر چھوٹی کی تھی۔ میرے چہرے کی رنگت لال ہو گئی۔ چھری پر موم بتی لگی ہوئی تھی۔ ابو نے غور سے چھری کو دیکھا اور سب کو وہیں ڈائننگ ٹیبل پر جمع کر کے ایک ایک سے پوچھنا شروع کر دیا کو کس نے اس چھری سے موم بتی کاٹی تھی ۔ سب کا جواب نفی میں تھا۔ جب میری باری آئی تو میں نے بھی دھڑکتے دل سے ڈرتے ڈرتے جھوٹ بول دیا ۔ ‘‘

’’ اب تو سب کو یقین ہو گیا کہ معاملہ گڑ بڑ ہے اور رات والی آگ حادثاتی نہیں تھی بلکہ وہ لگائی گئی تھی۔ اگر کوئی مان جاتا کہ رات کو اس نے موم بتی کسی وجہ سے کاٹی تھی تو بات نہ بگڑتی مگر اب ایسا نہ تھا۔۔۔ سب ہی نے انکار کر دیا تھا۔ مگر میرے علاوہ اور کوئی نہیں تھا جس پر کسی کو شک ہوتا۔ لہذا سب ہی اندر ہی اندر جان گئے کہ میں نے ہی سلیم کا پاسپورٹ جلانے کی جرائت کی ہے۔ ہر کوئی مجھ سے پہلے سے بھی بڑھ کر نفرت کرنے لگا۔ سب مجھے اپنا اور اس گھر کا دشمن سمھنے لگے۔ اور میرے لئے بھی وہ سب میرے سب سے بڑے دشمن ہی تھے۔‘‘

’’یونیورسٹی کا دور بھی ختم ہو گیا اور میں اور سلیم دونوں پڑھائی سے فارغ ہو گئے۔ سلیم کو اس کی قابلیت کی وجہ سے فوراََ ہی جاب مل گئی اور میں بے روزگار ہی پڑا رہا۔ میری تمام تر صلاحیتیں صرف اور صرف بے کار اور فضول کاموں میں اور سلیم اور باقی گھر والوں کے خلاف سازشیں کرنے میں صرف ہوتیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک سال اورگزر گیا اور گھر والوں نے سلیم کی منگنی خاندان کی سب سے خوبصورت لڑکی اور سب سے اچھی فیملی میں کروا دی۔ مجھے آتے جاتے سب جملے کستے کہ کوئی کام شام کرو ورنہ یوں ہی اکیلے ساری زندگی گزارنی پڑے گی! کون مجھے رشتہ دے گا! کون مجھ سے شادی کرے گا!‘‘

’’یہ وہ وقت تھا کہ یا تو میں اپنے آپ کو ہی مار ڈالتا یا اس گھر کو ہی آگ لگا دیتا۔ میری نفرت ، دشمنی اور حسد اس قدر بڑھ گیا تھا کہ میں نے سلیم کے قتل کے منصوبے بنانے شروع کردئیے۔اس کے پاس خوبصورتی تھی، جوانی تھی، اچھی ملازمت تھی، گاڑی بھی لے لی تھی اس نے اور ایک خوبصورت منگیتر بھی۔۔۔ اور میرے پاس۔۔۔‘‘ وسیم کچھ رکا اور پھر بولا۔’’میرے پاس کچھ نہیں تھا۔‘‘

’’ایک رات میں اپنے کمرے میں بیٹھا اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا۔ کمرے کی لائٹیں آف تھیں۔ گھپ اندھیرا تھا۔ میں پرانی پرانی باتیں یاد کرتا اور گھر والوں کو گالیاں دیتا۔۔۔ سلیم سے نفرت کا اظہار کرتا۔۔۔ اپنے ماں باپ پر خیالوں ہی خیالوں میں تھوکتا۔۔۔ انہیں گالیاں بکتا۔۔۔ میں سب کو اپنا دشمن اور ظالم سمجھتا اور خود کو مظلوم اور بے بس۔۔۔ پھر میں اللہ کو یاد کر کے اس سے شکوے شکایت کرنے لگا۔ ہاتھ اٹھا اٹھا کر دْھائیاں دینے لگا۔ اپنا سینہ پیٹ پیٹ کر اپنی قسمت اور بد حالی کا ذمہ دار اسے قرار دینے لگا۔ اس سے لڑنے لگا۔ پھر اس کیفیت میں میں ایسا خبطی ہو گیا کہ منہ سے کفریہ باتیں نکلنے لگیں۔۔۔ خرافات اور غلاظتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔میں غصے میں بپھر گیا اور طیش میں آ گیا۔ یہاں تک میں نے کمرے میں رکھا قرآن مجید اٹھایا اور اس کی بے حرمتی شروع کر دی(معاذ اللہ)۔ میں پاگل سا ہو گیا تھا۔ میں نے زور زور سے کمرے کی دیواروں پر مکے مارنے شروع کر دئیے۔ پھراپنا سر کمرے کی دیواروں سے ٹکرانا شروع کر دیا۔ جب درد حد سے آگے بڑھا تو میں وہیں زمین پر ڈھیر ہو کر بے سْدھ ہو گیا۔‘‘

’’ میں وہیں زمین پر بے ہوش پڑا تھا کہ آہستہ سے میرے کمرے کا دروازہ کھلا۔ میں نے ہولے سے اپنی آنکھیں کھولیں۔ میں ایک عجیب نیند اور بیداری کے درمیانی کیفیت میں تھا۔ کمرے کے دروازے پر ایک بوڑھا آدمی کھڑا تھا۔اس نے کالے رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے۔ اس کی لمبی داڑھی تھی اور ایک ہاتھ میں تسبیح تھی۔ سر پر عمامہ باندھا ہوا تھا۔ وہ وہیں دیر تک کھڑا مجھے دیکھتا رہا۔ میرے حالت اتنی غیر تھی کہ مجھ سے اٹھ کر بیٹھا بھی نہیں گیا۔ میں وہیں پڑا اس عمر رسیدہ شخص کو دیکھنے لگا۔ پھر مجھے ایک آواز آئی۔۔۔
’’اٹھو وسیم! میں تمہارے مدد کرنے آیا ہوں۔۔۔ اب وقت آ گیا ہے کہ تم اپنے اوپر کئے گئے ظلم کا بدلا لو۔۔۔‘‘ اس شخص کے منہ سے یہ الفاظ سن کر جیسے میرے مردہ جسم میں جان آ گئی۔ میں بہت کوشش کر کے اٹھا اور وہیں زمین پر دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔‘‘

’’نیچے جاؤ اور اپنے گھر کی پانی کی ٹینکی میں پیشاب کر دو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ شخص جیسے ہوا میں گھل گیا۔ میرے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ میرے کانوں میں اب بھی اس کی آواز گونج رہی تھی۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہوا ہے اور یہ کیسی بات مجھ سے کہی گئی ہے۔مگر میں اس عجیب کام کو انجام نہ دے سکا اور وہیں لیٹ کر پھر سو گیا۔ وہ بوڑھا پھر میرے خواب میں آیا اور مجھے یہی کرنے پر اصرار کرنے لگا۔کہنے لگا کہ ایسا کرنے سے سلیم مصیبتوں اور یشانیوں میں گرفتار ہو جائے گا۔ مجھ پر تو کوئی شیطان سوار تھا۔ اتنے سے کام کے بدلے میرا دل ٹھنڈا ہو جائے۔ مجھے منظور تھا۔ رات کا ٹائم تھا۔ سب سو رہے تھے۔ میں دبے پاؤں نیچے گیا آہستہ سے گھر کے نیچے بنی بڑی سی پانی کی ٹینکی کا ڈھکن اٹھایا اور اس میں پیشاب کر دیا۔ اسی لمحے مجھے اپنے سینے سے ایک نورانی پرندہ نکلتا ہوا نظر آیا۔ وہ چند لمحے میرے سر کے اوپر منڈلایا اور پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے پھڑ پھڑاتاہوا آسمان کی طرف کوچ کر گیا۔ شاید وہ میرا ایمان تھا۔ ‘‘

’’مجھ پر ویسے ہی غنودگی طاری تھی۔ میں دبے پاؤں واپس چھت پر اپنے کمرے میں آیا اور دھڑام سے بستر پر گر کر سو گیا۔‘‘
’’خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ سلیم ہسپتال میں پڑا ہے اور اس کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی ہے۔‘‘
’’دوسرے دن جب میں دوپہر کو اٹھا تو نیچے گھر میں ایک کہرام مچا ہوا تھا۔ خبر تھی کہ سلیم کا ایکسیڈینٹ ہو گیا ہے۔ کوئی شخص اچانک کہیں سے اس کی گاڑی کے سامنے آیا اور پھر اسے بچانے کے چکر میں سلیم کی گاڑی بے قابو ہو گئی اور ایک خطر ناک ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ ‘‘
’’سلیم ہسپتال میں پڑا تھا۔ ہو بہو جو کیفیت سلیم کی میں نے اپنے خواب میں ملاحظہ کی تھی وہی میری آنکھوں کے سامنے تھی۔ اس کی ایک ٹانگ پر فریکچر ہو گیا تھا۔ کوئی تین ماہ تک سلیم اپنی دونوں ٹانگوں پر چل نہ سکا۔ یہ سارا معاملہ دیکھ کر میری خوشی کو کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ اتنی آسانی سے میں سلیم کو نقصان پہنچا سکتا ہوں میں نے یہ تصور بھی نہیں کیا تھا۔ اب تو میں روز رات کو بیٹھ کر اسی بوڑھے شخص کو یاد کرتا رہتا اسی کو پکارتا رہتا۔ میرا سارا گھر وہی پانی پیتا اور اسی میں پکا کھانا کھاتاسوائے میرے۔۔۔ پھر کچھ عرصے میں میں نے بھی فکر کرنی چھوڑ دی اور وہی پانی پینے لگا کہ اب تک تو پانی میں سے پیشاب کا اثر ختم ہو گیا ہو گا۔‘‘

’’پھر ایک دن مجھے پھر خواب میں وہ بوڑھا آیا او کہنے لگا کہ اگر سلیم کا رشتہ ٹوٹتا دیکھنا چاہتے ہو تو پھر سے پانی کی ٹینکی میں پیشاب کر دو اور وہی پانی میں بھی پیتا رہوں ۔۔۔ اس کے علاوہ میں ہر وقت حالتِ جنابت میں رہوں۔ خود ہی اپنے اوپر غسل واجب کروں اور پھر غسل بالکل نہ کروں۔ ہر دم نا پاکی کی حالت میں رہوں۔ اگر ایسا کروں گا تو کچھ ہی عرصے میں سلیم کا رشتہ ٹوٹ جائے گا۔‘‘

’’میں نے ایسا ہی کرنا شروع کر دیا۔ نا جانے کیوں اب مجھے یہ سب کام کرنے میں ایک مزہ سا آنے لگا۔شاید ویسا ہی مزہ جو کسی گناہ گار کو گناہ کرتے ہوئے عارضی طور پر آتا ہے۔ یا وہی مزہ جو کسی نشہ کرنے والے پر نشہ کر کے کچھ دیر کے لئے چڑھتا ہے۔ میرا دل خود بخود غلیظ سے غلیظ تر کام کرنے کا کرتا۔ ایسا لگتا جیسے ہر دم کوئی مجھے اکساتا رہتا ہے۔ مجھے نت نئے شیطانی فعل انجام دینے کا حکم کرتا رہتا ہے۔ خاص طور پر گندے اور بیہودہ کام کرنے کے وسوسے ہر وقت میری سوچ کو اپنی گرفت میں لئے ہوتے تھے۔‘‘

وسیم کی یہ سب باتیں سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ میرے اوسان خطا ہوگئے۔ گھن سی آنے لگی وسیم سے مجھے۔ نفرت ہونے لگی کہ میں کس شخص کے آگے بیٹھ گیا ہوں۔ میری تو سانسیں ہی اکھڑنے لگیں۔ پھر میں نے ڈاکٹر ذیشان کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق گہرے گہرے سانس لے کر بریدنگ ایکسرسائز شروع کر دی اور دل ہی دل میں اللہ کے با بر کت نام کا ورد بھی کرنے لگا۔ میرے یہ حالت دیکھ کر وسیم چپ سا ہو گیا۔ کچھ ہی دیر میں میری طبیعت سنبھل گئی اور وہ پھر شروع سے ہو گیا ۔۔۔ شاید اسے بھی اپنی کہانی لوگوں کو سنا کر تسکین ملتی تھی۔

’’ میری ایک بہن ہے بہت نیک اور پرہیزگار۔۔۔ آج کل کے خراب دور میں بھی تمام نمازوں کی مکمل پابندی کرتی ہے اور اکثر تو تہجد بھی پڑھتی ہی۔ مکمل پردہ اور بے ہودہ کاموں سے مکمل اجتناب اس کا شیوا ہے۔۔۔موبائیل ،فیس بک، فلموں، ڈراموں سے اسے کوئی دلچسپی نہیں۔ مجھے پتا چلا کہ اسے کئی دنوں سے کچھ عجیب عجیب پریشان کر دینے والے خواب آ رہے ہیں۔ جیسے وہ اور سب گھر والے باتھ روم میں بیٹھ کر کھانا کھا رہے ہوں۔ وہ وضو کرنے جاتی ہے مگر جب باہر آتی ہے تو اس کے جسم پر نجاست لگی ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ پہلے تو اسے کچھ سمجھ نہ آیا اور والدہ نے بھی اس کے خوابوں کو نظر انداز کر دیا۔ مگر جب ایک ہی طرح کے خواب روز رات متواتر آنے لگے۔ تو وہ پریشان ہو گئی۔ وہ جانتی تھی کہ ایسا خوابوں کا کوئی مطلب ضرور ہے۔ اللہ تعالی اسے کچھ باور کرانا چاہتا ہے۔ لہذا انہوں نے ایک قابل اعتبار روحانی عالم سے رجوع کیا اور انہیں اپنے خوابوں کے بارے میں بتایا۔ وہ روحانی عالم ڈاکٹر ذیشان تھے۔ انہوں نے خواب سنے اور یک دم کہہ دیا کہ آپ لوگوں کے گھر میں شیطان رہتا ہے اور وہ کوئی بڑا اقدام کر کے آپ سب کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ ‘‘

’’ڈاکٹر ذیشان نے اول فرصت میں ہمارے گھر کا دورہ کرنے کی ٹھان لی۔ میں گھر میں ہی اوپر اپنے کمرے میں گھسا بیٹھاتھا۔ وہ آئے اور خاموشی سے اپنے منہ ہی منہ میں کوئی ذکر کرتے ہوئے گھر میں داخل ہوگئے۔ گھر کا اندرونی دروازہ اور سیڑھیوں پر جانے کا رستہ ساتھ ساتھ ہی تھا۔ میرے والد اور والدہ ان کے ساتھ ہی تھے۔ وہ خاموشی سے چلتے ہوئے آگے آئے اور گھر کے کے اندرونی دروازے میں ایک قدم رکھا پھر اچانک رک گئے ۔ وہ واپس مڑے ۔۔۔ میرے گھر والے ٹکٹکی باندھے انہیں دیکھنے لگے کے گھر کے اندر کیوں نہیں جا رہے۔ انہوں نے شہادت کی انگلی اٹھا کر اوپر کی طرف اشارہ کیا۔ جیسے کہنا چاہ رہے ہوں کہ انہیں اوپر چھت پر جانا ہے۔ گھر والوں نے انہیں سیڑھیاں دکھا دیں۔ انہوں نے آگے بڑھ کر پہلا قدم چھت کی سیڑھیوں پر رکھ دیا۔ چھت بالکل ویران پڑی تھی۔ کوئی بلا ضرورت وہاں آتا جاتا نہ تھا۔ سامنے میرے کمرے کا دروازہ تھا اور میں اندر کمرے میں ہی موجود تھا۔ کمرے کا دروازہ بند تھا۔ وہ چھت پر پہنچ چکے تھے۔ وہ ایک ایک قدم بھرتے دروازے کی طرف آتے اور پھر کچھ دیر رک جاتے اور ذکر اذکار کرنے لگتے۔ پھر دبے پاؤں آگے بڑھتے اور پھر رک کر ذکر کرتے۔ مجھے کچھ پتا نہیں تھا کہ کمر ے کے باہر چھت پر کون ہے اور کیا کر رہا ہے۔ پھر ڈاکٹر ذیشان کمرے کے دروازے کے عین سامنے آ کھڑے ہو ئے اور پھر کچھ پڑھنے لگے۔ آخر کار انہوں نے دروازہ کھول دیا۔
’’خاخاخاخا۔۔۔ خر خر خر۔۔۔‘‘ میرے منہ سے ایسی ہی حیوانوں جیسی آوازیں نکل رہیں تھیں۔
میں نے انہیں گھور کر دیکھا۔ میں بے لباس اپنے کمرے کی زمین پر چونکڑا مارے اپنے جسم پر ایک چھری سے کٹ لگا رہا تھا۔ میری یہ حالت دیکھ کر امی ابو کے تو پیروں تلے زمین نکل گئی اور ڈاکٹر ذیشان بھی ایک جھرجھری لے کر رہ گئے۔ میں نے زور سے وہ چھری اٹھا کر ڈاکٹر ذیشان کو دے ماری۔ چھری انہیں لگی مگر کوئی زخم نہ لگا۔ ڈاکٹر ذیشان نے فوراََ چھری اٹھا کر باہر چھت کے صحن میں پھینک دی۔ پھر انہوں نے ایک بہت گہرا سانس لے کر مجھ پر پھونک دیا اور سارے کمرے میں اونچی آواز سے اذان دینے لگے۔ مجھے یوں لگا جیسے میرے کانوں میں کسی نے کھولتا ہوا تیل انڈیل دیا ہو۔’’خر خر خر خر۔۔۔‘‘ میں کسی جانور کی طرح چوپایا بن کر کمرے میں بے لباس ادھر ادھر ٹکرے مارنے لگا اور منہ سے غیر انسانی آوازیں نکالتا رہا۔ امی سے تو یہ منظر نہ دیکھا گیا وہ باہر ہی چھت چکر کھا کر گر پڑیں۔ ابو بھی تقریباََ اپنے حواس کھو ہی بیٹھے ۔ بس ڈاکٹر ذیشان ہی پہ در پہ اذان دیتے جاتے اور کچھ کچھ پڑھ کر مجھ پر پھونکتے جاتے۔ میں یوں بِدَک رہا تھا جیسے کسی جانور کو کسی تنگ جگہ قید کر دیا گیا ہو اور وہ وہاں سے فرار کے لئے ہر سمت ٹکرے مار تا ہو۔ میں یوں ہی دیر تک کمرے میں بے لباس تڑپتا رہا ۔۔۔ یہاں سے وہاں پھدکتا رہا۔۔۔ پھر کوئی آدھے گھنٹے بعد تھک ہار کر نیچے سرکنے لگا۔۔۔ سسکنے لگا۔ ‘‘
’’کون آتا ہے تمہارے پاس۔۔۔؟؟؟‘‘ ڈاکٹر ذیشان نے کرخت لہجے میں سوال کیا۔
’’ابلیس‘‘ میں نے چیخ کر کہا اور بے ہوش ہو گیا۔ میرے جسم پر جا بجا چاقو کی نوک سے ’’ابلیس ۔۔۔ابلیس‘‘ لکھا ہوا تھا۔

’’ڈاکٹر ذیشان نے میرے گھر والوں کو ہدایت دی کہ مجھے ’’روشن‘‘ میں داخل کرا دیں۔ میرا بہت لمبا علاج ہونا ہے۔ بس پھر میں یہاں آ گیا۔ ڈاکٹر ذیشان نے میرا بہت خیال رکھا۔ مجھ سے میری ساری کہانی سنی۔ میرا روحانی اورنفسیاتی علاج کیا۔ مجھ پر بہت مہر بانیاں کیں۔۔۔‘‘ یہ الفاظ کہہ کر وسیم رونے لگا۔ اچانک مجھے بھی اس سے ہمدردی ہونے لگی۔

’’اب میں بہت خوش ہوں۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ اپنے گھر والوں سے بہت محبت کرتا ہوں۔ انہیں یاد کرتاہوں۔ ڈاکٹر ذیشان نے بالکل میرے سگے بھائی کی طرح مجھے رکھا اور گھر والوں کو بھی ان کی غلطیوں پر خوب ملامت کی۔وہ سب بھی اب بہت شرمندہ ہوتے ہیں اور افسوس کرتے ہیں کہ اگر بچپن میں ہی مجھے سمجھتے اور سمجھداری سے فیصلے کرتے تو آج میری یہ حالت نہ ہوتی۔ میرا اللہ بھی بہت اچھا ہے۔ میں نے کیا کیا کیا ۔۔۔ مگر اس نے مجھے معاف کر دیا۔ اب میں بھی ڈاکٹر ذیشان کی طرح ساری نمازیں پڑھتا ہوں۔ اللہ سے معافی منگتا ہوں۔ اس سے بہت محبت کرتا ہوں۔ اسے بہت یاد کرتا ہوں۔‘‘ وسیم پر رقت طاری ہو گئی۔ وہ زار وقطار رونے لگا۔ ڈاکٹر ذیشان وسیم کی یہ حالت دیکھ کر ہماری طرف آئے اور نیچے بیٹھ کر اسے گلے لگا لیا اور اسے چوما اور بہت پیار کیا۔ ہم سب کے لیے ہی ڈاکٹر ذیشان ایک مسیحا اور فرشتہ تھے۔ مجھ سے بھی نہ رہا گیا ۔ میں بھی وسیم اور ڈاکٹر ذیشان کے گلے لگ گیا اور زار و قطار رونے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔

دلاور اور سیما لاس ویگاس سے گھوم پھر کر واپس آ چکے تھے۔ خوب انجوائے کیا تھا ان دونوں نے۔۔۔ پہلے تین چار دن تو دلاور کا جیٹ لیگ ہی نہیں ختم ہوا۔ رات کو جاگتا رہتا اور دن کو سوتا رہتا۔وہ اب تک امریکی ٹائم کے حساب سے ہی چل رہا تھا۔کل ملا کے بائیس گھنٹے کی تو اس کی فلائٹ ہی تھی۔ جہاز میں بیٹھ بیٹھ کر بھی کمر ٹوٹ گئی تھی۔

ان فضولیات میں دلاور نے پانی کی طرح پیسہ بہا دیا تھا۔ ظاہر ہے وہاں تو ہر چیز کی قیمت ڈالرز میں ہے۔ یعنی سو روپے کے بدلے ایک ڈالر۔۔۔ دلاور نے بنا سوچے سمجھے خوب پیسے اڑائے اور پھر واپس آ کر موڈ بنایا اور اپنے واحد ذریعہء آمدنی یعنی الیکٹرک اسٹور کا چکر لگایا۔

اسٹور کے باہر گاڑی پارک کرتے ہی دلاور ٹھٹھک کر رہ گیا۔ اسٹور پر ایک ویرانی او راندھیرا طاری تھا۔ دلاور نے تیوری چڑھائی اور منہ بناتا ہوا اسٹور کے اندر داخل ہوا۔
اسٹور میں ایک ہی پرانا ملازم بیٹھا مکھیاں مار رہا تھا۔
’’کیا ہوا! کہاں ہیں سب؟؟؟‘‘ دلاور نے حیرانی سے اسی ملازم کو مخاطب کر کے پوچھا۔
’’ارے بابو! اب کیا بتاویں۔۔۔ آپ کو نمبر ملا ملا کے تھک گئے۔‘‘ انہوں نے ہاتھ ہلا ہلا کر کہا۔
’’کہاں ہیں مراد صاحب؟؟؟‘‘ دلاور بڑبڑایا۔ مراد صاحب ہی اسٹور مینیجر تھے۔
’’اماں! وہ تو اپنا کاروبار سنبھال رہے ہیں۔۔۔ دو ماہ سے انہوں نے ا دھر آنا جانا کم کر دیا ہے اور اب دس دن ہو گئے کہے گئے تھے کہ اب نہیں آویں گے۔‘‘ وہ پرانے طرز کی اردو بولتے تھے۔ انہوں نے اپنے انداز میں جواب دیا۔
’’نہیں آئیں گے!!! مگر کیوں؟؟؟‘‘ دلاور کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔
’’ارے بابوا! وہ تو دو تین ماہ سے اپنا ہی الیکٹرک اسٹور سیٹ کرنے میں لگے ہیں۔۔۔آپ کے سارے آڈر وہ اپنی دوکان سے سپلائی کر دیتے ہیں۔ آپ کی قیمت بڑھا کر کسٹمر کو بتلاتے ہیں اور اپنی دوکان سے کم قیمت کی کوٹیشن دیتے ہیں۔ ہمارے سارے کسٹمر ادھر چلے گئے۔‘‘ اس پرانے ملازم نے جو ابو کے دور سے وہاں کام کر رہا تھا بتایا۔
’’تو آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں۔۔۔‘‘ دلاور نے تقریباََ چیخ کر کہا۔
’’ارے ہم کابتاتے۔۔۔ غریب لوگ ہیں۔۔۔ ہم کا اپنی نوکری کی فکر لاگی ہوئی تھی۔ آپ تو ادھر کبھی آتے نہیں ۔۔۔انہی کے ہاتھوں سے ہماری تنخواہ ملتی تھی۔ ہم چھوٹے لوگ کیا بتاتے۔۔۔؟؟؟‘‘ انہوں نے پریشان ہو کر کہا۔
’’چچ! وٹ ڈو یو مین؟؟؟‘‘ دلاور بوکھلاہٹ میں ان ہی پر چیخنے لگا۔
’’ہم تو بس آپ کے آنے کا ہی انتظار کر رہے تھے۔ یہ لیں سٹور کی چابیاں۔۔۔ اب یہ سب آپ ہی سنبھالیں۔۔۔‘‘ انہوں نے فوراََ اپنی جیب سے چابیاں نکال کر دلاور کے ہاتھ میں رکھیں اور بڑبڑاتے ہوئے اسٹور کے باہر جانے لگے۔ جیسے کب سے ان حالات سے بیزار ہو گئے ہوں۔

’’کہاں جا رہے ہیں؟؟؟‘‘ دلاور نے انہیں پکارا۔
’’ارے جا رہے ہیں۔۔۔ اب کیا۔۔۔‘‘ وہ منہ ہی منہ میں کچھ بولتے بنا پلٹے اسٹور سے نکل گئے۔

دلاور بے ساختہ وہیں پڑی ایک کرسی پر بیٹھ ہو گیااور اپنا سر پکڑ لیا۔ اسٹور میں اندھیرا ہو رہا تھا۔ اس نے اٹھ کرلائٹ کا بٹن آن کیا مگر وہ نہ جلی۔ اس نے چڑ چڑا کرسارے بٹن دبا دئیے مگر نہ لائٹ جلی ،نہ پنکھا، نہ اے سی۔۔۔ شاید اسٹور کی بجلی بل وقت پر ادا نہ کرنے کے باعث کٹ چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔

’’جو جتنا بڑا انسان ہوتا ہے اسے اتنی ہی بڑی آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر ذیشان نے اپنا لیکچر دینا شروع کیا۔
’’ ہم میں سے ایسا کوئی بھی نہیں جسے ساری زندگی صرف اور صرف خوشیاں اور راحتیں ہی ملی ہوں۔کبھی کوئی دکھ ، غم ، پریشانی چھو کر بھی نہ گزرا ہو۔۔۔ ایسا کوئی نہیں۔ ہر ایک کے حصے کی اپنی اپنی تکلیف ہے جس سے اسے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ مگر خدا تعالی کا ایک اصول ہے کہ جسے وہ اپنے لئے خاص کر لیتا ہے۔۔۔ جسے اپنے لئے چن لیتا ہے۔۔۔ جس کے ہاتھوں اس نے کوئی بڑا کام لینا ہوتا ہے۔ وہ اسے ایک سخت تربیتی پروگرام سے گزارتا ہے۔ چاہے وہ کوئی بھی ہو۔۔۔‘‘
’’رسولوں ؑ کو ہی لے لیں۔۔۔ حضرت ابراھیم ؑ کو آگ میں جھلانگ لگانی پڑی تب جا کے ’انسانوں کے امام‘ کا رتبہ ملا تھا۔ اپنے پہلوٹے بیٹے کے گلے پر چھری رکھنی پڑی تھی۔۔۔ جو کوئی اسی سال کی عمر میں دن رات مانگی گئی دعاؤں کے بعد پیدا تھا۔اسی بیٹے اور بیوی کو بیابان صحرا میں تن تنہا چھوڑ کر آنا پڑا تھا۔ یہ سب ان کی سزا نہیں تھی۔ یہ ان کی تربیت تھی اور تربیت کے بعد تربیت کا امتحان تھا۔ جس میں وہ کامیاب ہوئے۔‘‘

’’ حضرت یوسف ؑ کی زندگی دیکھ لیں۔ اپنے باپ حضرت یعقوبؑ کے لاڈلے بیٹے تھے۔ مگر اللہ کو جو کام ان سے لینا منظور تھا اس کے لئے انہیں سخت آزمائشوں سے گزارا گیا۔ اپنے سگے بھائیوں نے قتل کا ارادہ کیا۔ مگر ایک اندھے کنویں میں پھینک کر چلے گئے۔ وہاں سے کسی طرح نکلے تو غلام بنا لئے گئے۔ مصر میں جس شخص نے انہیں خریدا اس کی بیوی نے ان سے اپنا ناجائز مطلب حاصل کرنا چاہے۔ چھوٹے الزام میں کئی سال قید خانے میں قید رہے۔ ‘‘

’’آپ تصور کریں۔۔۔ کیا بیت رہی ہو گی ایک چھوٹے بھائی پر جب اس کے دس بھائی سب مل کر اسے پکڑ کر ماریں ، زد و کوب کریں ، اس کے قتل کی کوشش کریں۔۔۔ کیا کیا دُھائیاں دے رہا ہو گا وہ۔۔۔ کیسی کیسی منتیں فریادیں کر رہا ہو گا کہ بھائیوں کو اس پر ترس آ جائے۔ اسے بخش دیں۔اسے چھوڑ دیں۔ مگر نہیں۔۔۔ انہوں نے یوسف ؑ کو کنویں میں پھینک دیا۔ پھر ایک لاڈلے بیٹے سے غلامی کی زندگی۔۔۔ وہاں بھی عزیزِ مصر کی بیوی کا ان کو ہراساں کرنا۔۔۔ پھر جھوٹے الزام میں کئی سال قید و بند صعوبتیں اٹھانا ۔۔۔ کیا یہ سب اتنا آسان ہے!!! ایک لمحے کو تصور کریں۔۔۔‘‘
’’ بے شک آپ سب افراد اپنی اپنی زندگی میں کسی نا کسی سانحے سے گزر کر یہاں آئیں ہیں۔سب کو کوئی نہ کوئی نا قابلِ برداشت صدمہ پہنچا ہے۔ مگر ہو سکتا ہے آپ لوگوں کو بھی اللہ نے اپنے کسی خاص مقصد کے لئے چن لیا ہو۔ کہتے ہیں نا کہ آگ میں تپ کر ہی سونا کندن بنتا ہے۔ بس یہی بات ہے دوستوں۔۔۔ جو کچھ بھی آپ سب پر بیتا ہے ، اب آپ لوگ دوسروں کو ان تکلیفوں سے نجات دیں۔ اپنی آگے کی زندگی اس بڑے مقصد کے لئے وقف کر دیں۔‘‘ ڈاکٹر ذیشان کی ساری باتیں میرے دل کو چھْو رہیں تھیں۔ میں اپنی زندگی میں آنے والی تکالیف کے بارے میں سوچنے لگا۔ جو کچھ میرے ساتھ بچپن میں ہوا تھا وہ اب بھی تو کئی بچوں کے ساتھ ہوتا ہوگا۔ اور صرف یہی ایک دکھ تو نہیں ہے۔ اس معاشرے میں جانے کیا کیا نا انصافیاں ، ظلم و ستم بھرے پڑے ہیں۔ مجھے آصفہ کا قصہ بھی یاد آنے لگا اور وسیم کی روداد بھی۔۔۔

’’ آخر میں میں آپ سب کو ہمارے پیارے رسول محمد ﷺ کی زندگی کے بارے میں بتا تا ہوں۔ میں جانتا ہوں آپ سب لوگ اپنی اپنی زندگیوں میں ایسے وقت سے گزرے ہیں ۔ جب راتوں کو نیند نہیں آتی تھی۔ ڈپریشن ہو۔۔۔ کوئی تکلیف ہو۔۔۔ کوئی غم ہو یا کوئی دکھ ۔۔۔زندگی کے ایسے تلخ موقعوں پر انسان کی نیند اڑ جاتی ہے۔ وہ ساری ساری رات جاگتا سوچتا رہتا ہے۔ کسی غم میں کڑھتا رہتا ہے ۔ کسی ظلم پر آنسو بہاتا رہتا ہے۔۔۔ کسی اپنے کو یاد کر کے روتا رہتا ہے۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ بھی ایک وقت میں ایسے ہی ایک دور سے گزرے۔جب ان پر وحی نازل ہونے کا سلسلہ شروع ہوا ۔۔۔ اور وہ لوگوں میں اپنی نبوت کا اعلان کر چکے تھے۔ اس وقت ایک موقع پر کافروں نے رسولِ خدا سے کوئی سوال کیا۔ مگر اللہ نے ان پر اپنا سلسلہء وحی کچھ عرصے کے لئے معخر کر دیا تھا۔ اللہ جانتا تھا کہ کب اور کتنی وحی نازل کرنی ہے۔ شروعاتی دور میں اچانک پورا قرآن نازل کر دینا ان کے اعصاب پر گراں گزرتا۔ کیونکہ قرآن تو ایسا ہے کہ اگر کسی پہاڑ پر بھی نازل کر دیا جاتا تو وہ خشیتِ الہی سے پھٹ کر ریزہ ریزہ ہو جاتا۔ لہذا اللہ تعالی نے کچھ عرصے وحی مو خر کر دیاور کافر جس سوال کے جواب کے منتظر تھے وہ بھی نہیں ملا۔ ‘‘

’’بس اب کافروں کو موقع مل گیا۔۔۔ انہوں نے تو تالیاں پیٹ دیں۔۔۔ شور مچا دیا کہ سب جھوٹ اور فریب تھا۔ کوئی وحی شحی اس پر نازل نہیں ہوئی۔۔۔محمد کی اپنی من گھڑت باتیں تھیں۔ کوئی جن تھا جو اس کو پٹی پڑھا جاتا تھا۔ اب وہ غائب ہو گیا اور محمد اکیلا رہ گیا وغیرہ وغیرہ۔‘‘ (معاذ اللہ۔ ﷺ)

’’اب آپ اندازہ کریں۔ اس وقت اللہ کے رسول کس قدر تکلیف میں ہوں گے ۔ ایک طرف کافر طنز و طعنوں کے تیر چلا رہے ہیں۔ ان کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں انہیں بار بار جھوٹا کہہ رہے ہیں اور دوسری طرف اللہ ان کی بہتری کی خاطر ابھی وحی میں تا خیر کر رہا ہے۔ آپ سوچیں! کیسے چکی کے دو پاٹوں کے درمیان رسول اللہ ﷺ کی ذات آ گئی تھی۔ وہ اللہ سے فریاد کر تے۔۔۔ روتے دھوتے ۔۔۔گڑ گڑاتے ۔۔۔ راتوں کو جاگتے۔۔۔ معافیاں مانگتے۔۔۔ اللہ سے سوال کرتے کہ کیا واقعی اللہ نے انہیں اکیلا چھوڑ دیا ہے۔ کیا وہ آپﷺ سے ناراض ہو گیا ہے۔ یہاں تک بھی آتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو فنا تک کر ڈالنے کا ارادہ کرتے۔۔۔ یعنی وہی حال جس سے آپ سب گزر کر آئے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر ذیشان نے یہ جملہ بہت زور دے کر ارشاد کیا۔یہ باتیں سن کر میری آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ رسولِ خدا اور اپنا حال ایک سا لگنے لگا۔ ہاں۔۔۔ میں بھی توآنسو بہاتا رہتا تھا۔ اپنے آپ کو مار ڈالنا چاہتا تھا۔میں بھی اپنے آپ کو اکیلا سمجھتا تھا۔ اپنا غم چھپائے رکھتا تھا۔ میں بھی تو رات بھر جاگتا رہتا تھا۔ جب ہر سو اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا تھا۔ یہاں تک کہ آفتاب کی روشنی نمودار ہو جاتی تھی۔موٹے موٹے آنسو میری آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔ مجھے خود پر قابو رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ مگر صرف میں کیا سب ہی کا یہ حال تھا۔ ہر مریض اسی طرح اپنی اپنی کیفیت کو رسولِ خدا سے ملا کر رو رہا تھا۔ سکون پا رہا تھا۔

’’۔۔۔آخر کار اللہ نے سورۃ الضحی نازل فرمائی۔ ‘‘ ڈاکٹر ذیشان پھر بولے۔
’’(اے نبی!مجھے) قسم ہے نورِ آفتاب کی(جب وہ نمودار ہو جائے)۔اور رات کی جب وہ چھا جائے(جن راتوں میں آپ جاگتے رہتے تھے)۔ آپ کے رب نے نہ آپ کو (تنہا) چھوڑا ہے نہ ہی آپ سے ناراض ہوا ہے۔(وہ تو آپ سے بہت محبت کرتا ہے۔آپ اپنی اس حالت پر دکھی نہ ہوں)۔ آپ کے لئے آنے والا (وقت) اس (تکلیف دہ وقت) سے بہت بہت بہتر ہے۔ اور بہت جلد آپ کو آپ کا رب( اتنا کچھ) عطا کرے گا کہ آپ خوش ہو جائیں گے۔(یاد کریں) کیا آپ یتیم نہ تھے ، اس نے آپ کو ٹھکانہ عطا کیا۔( دادا جان اور چچا جان کے شفقت بھرے ہاتھوں میں پرورش کرائی)آپ صحیح اور سیدھی راہ کے متلاشی تھے (اپنے ارد گرد چھائی جہالت سے بیزار تھے۔وحی بھیج کر) آپ کو راہ دکھلا دی۔اور آپ غریب و تنگ دست تھے۔ (چند درہموں کے عوض لوگوں کی بکریاں چرایا کرتے تھے)۔(اللہ نے آپ کو حضرت خدیجہؓ کے ساتھ تجارت میں لگا دیا اور) غنی کر دیا۔(آپ کا رشتہ بھی حضرت خدیجہؓ نے خود مانگا)۔ (لہذا) اب آپ بھی(اے نبی خدا!) کبھی یتیم پر ستم نہ کرنا۔اور جو کوئی کبھی مانگنے والا آ پہنچے تو اسے نہ جھڑکنا۔اور جو جو نعمتیں آپ کے رب نے آپ پر نازل کیں ہیں ان کا پرچار کرنا۔‘‘

اس دن میں نے طے کر لیا کہ میں بھی اب اپنی زندگی صرف اپنے لئے نہیں جیووں گا۔ بلکہ میری زندگی میرے آس پاس موجود خلقت کی خدمت میں صرف ہو گی۔ میں بھی کبھی یتیم کو نہ جھڑکوں گا بلکہ ایسے ضرورت مندوں کی مدد کروں گا۔ کبھی کسی سوالی سے منہ نہ پھیروں گا بلکہ پوری کوشش کر کے اس کی پریشانی کو دور کروں گا اور ہمیشہ ہمیشہ اپنے رب کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کروں گا اور لوگوں کو بتاتا رہوں گا کہ اللہ نے مجھ پر کیسے کیسے احسان کئیے ہیں۔ کیسی کیسی نعمتوں سے نوازا ہے۔ یہ زندگی اللہ کا دیا ہوا انمول تحفہ ہے۔ اسے یوں ہی بے کار اور دنیا داری میں لگا کر ضائع نہیں کروں گا۔بلکہ اس جان کو دین و دنیا کی خدمت میں وقف کروں گا۔ میں بھی ڈاکٹر ذیشان کی طرح کوئی بڑا کام کرو ں گا۔ اپنی ذات سے آگے بڑھ کر کوئی بڑا کام۔ انشا ء اللہ۔
۔۔۔۔۔۔۔

مجدی اپنے آفس پہنچا ۔ اس کی ٹریننگ ختم ہو گئی تھی۔ اس نے اپنے کیبن میں بیٹھ کر وہ ویب سائٹ اوپن کر لی جس پر اس دن اسے اپنا پہلا بلاگ لکھنا تھا۔ بس یہی اس کا کام تھا۔ انٹرنیٹ پر مختلف ویب سائٹس پر اپنے بلاگز لکھنا۔
فیس بک پر بھی ان لوگوں کے کئی پیجز تھے اور ٹیوٹر پر بھی۔۔۔ مجدی کا کام اپنے سینیئرز کی سرپرستی میں ان لوگوں کا پیغام عوام میں پھیلانا تھا اور بس۔۔۔
ویب پیج اوپن ہو گیا۔ اس پر بڑا بڑا لکھا تھا:
’’ہاں میں ملحد ہوں‘‘۔
’’یس آئی ایم این ایتھیسٹ‘‘۔

’’اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے؟؟؟‘‘ یہی اس کے پہلے بلاگ کا ٹائٹل تھا۔
’’میں ایک کرسشن تھا۔ پاکستانی کرسشن۔۔۔ بچپن سے ہی میں بیوقوف بنتا آیا کہ ہم سب کو اللہ نے پیدا کیا ہے۔ وہی ہم سب کا خالق و مالک ہے۔ وہی ہمیں رزق دیتا ہے۔ ہمیں پالتا ہے۔میں اس جھوٹ پر آنکھیں بند کئے یقین کرتا آیا۔ ساری زندگی چرچ میں گھسا نام نہادخدا کی عبادت کرتا رہا۔ اسے پوجتا رہا۔ یہاں تک کہ مجھے عقل آگئی۔‘‘

’’ جب زندگی میں پہلی بار مجھ پر کڑا وقت آیا اور میں نے خود ساختہ خدا سے اپنی ضرورت طلب کی تو بدلے میں مجھے کچھ نہ ملا۔ میں ساری زندگی چرچ کی خدمت کرتا رہا ۔۔۔ منتیں مانتا رہا۔۔۔ غریبوں کی مدد کرتا رہا کہ شاید خدا وند مجھ سے خوش ہو جائے ۔ مجھ پر عنایت کرے۔ مگر وہ میری کیا مدد کرتا الٹا میرے حالات تو بد سے بد تر ہوتے چلے گئے۔ آخر کار مجھے پتا چل ہی گیا کہ یہ حالات کی ادلا بدلی تو فطرت کا ایک اصول ہے جو ہر کسی پر کبھی بھی ظہور پزیر ہوتا رہتا ہے۔ اس کا کسی خدائی طاقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس دن مجھے پتا چلا کہ میں تو ایک خیالی دنیا میں رہتا تھا۔ کوئی خدا ودا نہیں ہے۔ سب کچھ ہمارا اپنا بنایا ہوا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہر چیز کو کوئی نہ کوئی پیدا کرتا ہے۔ ہم سب کو بھی اللہ نے پیدا کیا ہے۔ میں لوگوں کو جہالت سے نکال کر حقیقت سے آشنا کرنا چاہتا ہوں۔ بتاؤ اگر سب کو اللہ نے پیدا کیا ہے تو اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ وہ کہاں سے آ گیا؟؟؟‘‘ (معاذ اللہ)
مجدی نے یہ خرافات لکھ کر ڈرتے ڈرتے اپنی پہلے پوسٹ آن لائن کی۔ وہ جانتا تھا کہ وہ پاکستان میں رہتا ہے اور یہاں کے لوگ بھی دوسرے کئی ممالک کی طرح مذہبی معاملات میں بہت حساس ہیں۔کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ اس کی جان بھی جا سکتی تھی۔ مگر اسی سب کی تو اسے اتنے عرصے سے ٹریننگ دی گئی تھی۔ اسے سمجھایا گیا تھا کہ تمام لوگ جہالت کی زندگی گزار رہے ہیں اور سب لوگوں کو گمراہی سے نکالنا اس کا فرض ہے تا کہ لوگ کھل کر اپنی اپنی زندگی انجوائے کر سکیں۔

اس کے بلاگ کے نیچے کمنٹس کا سیکشن تھا۔
چند ہی منٹوں میں ایک کمینٹ آ گیا۔ کسی نے اسے بے تحاشہ گالیوں سے نواز دیا تھا۔ ماں بہن کی گالیاں اور مغلظات۔۔۔ مگریہ سب سہنے کی تربیت بھی مجدی کو دے دی گئی تھی۔ اس نے کمینٹ پڑھا اور نظر انداز کر دیا۔ کوئی جواب نہ دیا۔ پھر ایک دوسرا کمینٹ ابھر آیا۔
’’ میرے پیارے بھائی! آپ نے یہ کیوں سمجھ لیا ہے کہ ہر چیز کو کسی نہ کسی نے پیدا کیا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر چیز کا کوئی آغاز اور اختتام لازم ہے۔ یہ تو ہم نے اپنے محدود حواس (limited senses (ہونے کے باعث از خود تصور کر رکھا ہے۔ جیسے کسی دور میں ہمیں پتا ہی نہیں تھا کہ الٹراسونک ویوز بھی کوئی چیز ہوتی ہیں اور ہم مانتے ہی نہ تھے کہ وہ ہوتی ہیں۔ اور اب ماننے لگے ہیں۔ اس دنیا میں بھی کئی ایسی چیزیں ہے جن کا کوئی آغاز یا اختتام نہیں۔ بتائیں ایک انڈے کے خول کا آغاز کیا ہے اور اختتامی پوائنٹ کیا ہے؟؟؟
بتائیں ایک کھوکھلی گیند(اسفیریکل بال) کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم ہوتی ہے؟؟؟
یہ تو سائنس سے ثابت ہے کہ مادہ نہ تخلیق کیا جا سکتا ہے اور نہ فنا کیا جا سکتا ہے۔ وہ تو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ ہاں وہ بس اپنی فارم چینج کر سکتا ہے۔ یعنی مادہ سے انرجی میں بدل جائے اور پھر انرجی سے مادہ بن جائے۔۔۔
اور ہمارے نمبر سسٹم ہمیشہ پازیٹو میں بھی چلتے رہتے ہیں اور تیگٹو میں بھی جیسے ۔۔۔-3-2-10123 ۔۔۔‘‘
’’اسی طرح کئی چیزوں کا آغاز تو ہے پر اختتام کوئی نہیں۔ مثلا آواز اور روشنی۔۔۔ یہ دونو ں چیزیں شروع ہوتی ہیں مگر کبھی ختم نہیں ہوتیں بلکہ ہمیشہ بس مدھم سے مدھم تر ہوتی چلی جاتی ہیں۔
اسی طرح خدا تعالی کی ذات کو بھی نہ کسی نے پیدا کیا ہے نہ کوئی اسے فنا کر سکتا ہے۔ نہ اس کا کوئی آغاز ہے نہ کوئی انجام۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔‘‘
’’امید ہے آپ بات سمجھ گئے ہوں گے۔
آپ کا خیر خواہ
ڈاکٹر ذیشان شریف‘‘

ڈاکٹر ذیشان شریف نے ایک نہایت مہذب اور وزنی جواب مجدی کو لکھ بھیجا جسے پڑھ کر مجدی نے منہ بنا لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
 

Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 78382 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More