بد ترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہترہے ۔یہ سنہری قول
شاید برسوں کے تجربات وجود میں آیا۔جب آمریت اور جمہوریت کے کئی ادوارجھیلے
گئے۔تو تب جاکر یہ فلسفہ تخلیق میں آیا۔اب سوال یہ ہے کہ دونوں نظام اس حد
تک کیوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔کہ ایک نظام کو بد ترین حالت میں بھی اچھاقرار
دے دیا گیا۔اور دوسرے کو بہترین شکل میں بھی ناقابل قبول تصور کرلیا گیا۔ا
س کی بنیادی وجہ صرف اور صرف ا اختیارات کے سرچشمے کا فرق ہے۔جو دونوں نظام
ہائے حکومت میں متضاد ہے۔آمریت میں کوئی ایک شخص تمام تر سیاہ و سپید کا
مالک ہوتاہے۔او راس کے اختیارات کا کوئی حصے دار نہیں ہوتا۔یہ آمر آئن کی
تنسیخ ۔عدلیہ کی معطلی ۔سیاسی نظام میں اتھل پتھل سمیت تما م معاملات میں
خود کفیل ہوتاہے۔حالانکہ اس کے بے شمارساجھے دار ہوتے ہیں۔مگر ان میں سے
کوئی بھی اس کی فردی حکومت میں مداخلت کرنے کی کوشش نہیں کرسکتا اداارے غیر
فعال رہنے کے سبب کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں دکھائی دیتا جو داد رسی
کرسکے۔یوں ملک میں دو ہی گروہ رہ جاتے ۔آمر کے حمایتی یا اس کے علاوہ۔ آمر
کے حامی ٹولے کے لیے من مانیاں کرنا آسان ہوجاتا ہے ۔ان کی راہ میں کوئی
قانون حائل نہ ہوتا۔نہ کوئی ادارہ۔جب کہ آمر کے مخالفین کے لیے یہ آزاد ملک
کسی علاقہ غیر سے کم نہ ہوتا۔ غلامی کا دور آمر کے دور کے آخری دن تک جاری
رہتاہے۔بڑے بڑے طرم خان جو جمہوری ادوار میں اکڑ کا پھراکرتے تھے۔حکومت کا
منہ چڑایا کرتے تھے ۔مارشل لائی دور میں ان کی درگت کسی لاوارث بکری سے
زیادہ نہ تھی۔زرا سراٹھایاتو یہ جیل میں دھکیل دیے گئے۔کوڑے مقدر ہوئے۔یا
بد ترین چھترول حصے آئی۔ایسا سب کچھ جمہوریت میں اس لیے نہیں ہوتاکیوں کہ
جمہوریت کو کسی بھی طور آئن ۔عدلیہ ۔اور سیاسی نظام کو تہس نہس کرنے کی
قدرت حاصل نہیں رہی۔
نواز شریف کے عدلیہ کے ساتھ تعلقات ہمیشہ دوسری جماعتوں کی نسبت اچھے
رہے۔جو شکوے پیپلز پارٹی کو رہے ہیں۔لیگی قیادت اس طرح کے عدم اطمیان سے
بچی رہی ۔اس فرق کا ایک سبب تو عدلیہ کی طرف سے آنے والے فیصلے ہیں۔جن میں
پی پی کو زیاد ہ تر نقصا ن اٹھان پڑا۔اس کے قائد کو پھانسی کا فیصلہ عدلیہ
نے سنایا۔اس کی قبل ا ز وقت گرائی گی حکومت کو بحال نہیں کیا گیا۔جبکہ لیگی
قیادت کو عدلیہ کی طرف سے ہمیشہ خوش خبری ہی ملی۔جس کا ایک سبب تو مقدمات
کی نوعیت قرار دی جاسکتی ہے۔دوسرے عدلیہ بحالی تحریک میں نواز شریف نے وہ
کردار ادا کیا جسے مدتو ں یادرکھا جائے گا۔اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر وہ
عدلیہ بحالی کے لیے حکومت وقت سے ٹکرائے اور عدلیہ کو بحال کرواکے دم لیا۔
عدلیہ اور نواز شریف کے قدرے خوشگوار تعکقات کوکچھ لوگ بگااڑنے کی کوشش میں
ہیں۔مگر اب تک انہیں کامیابی نہیں مل پائی۔پانامہ کیس اور دھرنا فیز ون کے
دوران یہ گروہ من گھڑت کہانیاں بیان کرکے دونوں کے درمیان بدگمانیاں بڑھاتا
رہا۔جو آج بھی جاری ہے۔پانامہ فیصلے پر عملدرامد کیس کی سماعت کے دوران
سپریم کورٹ نے ابزرویشن دی ہے کہ جے آئی ٹی کی طرف سے حکومتی رہنماؤں پر
لگائے جانے والے الزامات سنگین ہیں۔یوں لگتاہے ۔بعض حکومتی وزرا یک مربوط
تحریک چلارہے ہیں۔دوسری طرف ڈائریکٹر جنرل آئی بی آفتاب سلطان نے جے آئی ٹی
اراکین کے کوائف اکٹھے کرنے کا اعترا ف کیاہے۔تاہم جے آئی ٹی کے اراکین کو
ہراساں کرنے او رسوشل میڈیاکے اکاؤنٹس ہیک کرنے سے متعلق الزام مستر د
کردیا۔سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے جواب میں ان کا کہنا تھاکہ آئی بی
قومی اہمیت کے حامل ہر معاملے اوراعلی عہدے پرتعینات ملازمین کی معلومات
اکٹھی کرتی ہے۔یہ معلومات اکٹھا کرنا آئی بی کا معمول ہے۔
عدلیہ کے اندرموجود افتحار محمد چوہدری والے فلسفے سے کچھ لوگوں کی جان
جاتی ہے۔اس لیے وہ عدلیہ کو بھی مسلسل کسی نہ کسی حیلے سے کمزور کرنے کی
کوشش کرتے رہتے ہیں۔یہ سازشی لوگ پہلے آرمی چیف کو تھرڈا یمپائرقرار دے کر
حکومت کو ڈراوے دیا کرتے تھے۔ا ب ان کا رخ عدلیہ کی طرف ہوگیاہے۔اب جانے
انہیں آرمی کی طرف سے سپورٹ نہیں ملی یا پھر یہ ان کی سٹریٹجی کا ہی ایک
حصہ ہے۔وہ عدلیہ کو مسلسل ڈسکس کررہے ہیں۔اس کی ساکھ خراب کرنے کے لیے وہ
بار بار عدلیہ کی طرف سے حکومت کو ہٹائے جانے کا پراپیگنڈا کررہے ہیں۔کبھی
چھوٹی عیدکے بعد عدالت کی طرف سے نواز شریف کو نااہل کردینے کا فیصلہ سنائے
جانے کاشور مچایا جارہاہے۔کبھی بقرعیدکو ن لیگ کی قربانی کردیے جانے کا ذکر
ہورہاہے۔عدلیہ کو اس وقت جے آئی ٹی کے پیش کردہ تحفظات پر تشویش تو ہے۔مگر
یہ بات نان ایشوز کی نذر نہیں ہونی چاہیے۔ جس طرح کا شور شرابہ یہ فسادی
ٹولہ کررہاہے۔عدلیہ کی طرف سے مناسب تنبیہ ضروری ہوگئی ہے۔جب تھرڈ ایمپائر
کاڈراوہ دے کر مسلسل حکومت کو فوجی مداخلت کے ڈراوے دیے جاتے رہے تھے۔تو تب
فوج کی طرف سے خاموشی نے اس ٹولے کو مذید ہلا شیر ی بخشی۔جس کا نتیجہ قو م
اور ریاست کو ایک طویل دھرنا بھگتنے کی شکل میں نکلا۔اب عدلیہ کا نام لیکر
یہ فسادی ٹولہ جو مکروہ کھیل کھیل رہاہے۔عدلیہ کی طرف سے لمبی خاموشی کے
سبب اس کا نتیجہ بھی کسی گھمیبر صورتحال کو جنم دے سکتاہے۔جانے کچھ لوگ قوم
کو کیوں مارشل لا کی تاریکیوں میں دھکیلنے کے درپے ہیں۔انہیں تو شاید اس
خدمت کا معقول صلہ مل جائے گا۔مگر ریاست کی جو درگت بنے گی۔اس کا کون ذمہ
دارہوگا۔قوم کو گمراہ کرکے روشنیوں سے اندھیروں کی طرف لے جانے والے اس وقت
عدلیہ کے کندھے پر رکھ کربندوق چلانا چاہ رہے ہیں۔ |