جہان دانش: تخلیقی بلندیوں کی حامل!

زندگی کے آئینہ پر بہت سے عکس ابھرتے ہیں ،خوش کن اندوہناک ،تلخ ،کڑوے ،کسیلے میٹھے ،قلب شکن ،حوصلہ بخش ،فرحت بخش ،رنج و الم سے دوچار کرنے والے ، ہر نوعیت کے حالات و واقعات انسان کا استقبال کرتے ہیں ، اسے دعوت مقابلہ دیتے ہیں ،اس کے حوصلہ کو آزماتے ہیں ، اس کے صبر و ضبط کا امتحان لیتے ہیں ،اس کے ظرف کو پرکھتے ہیں ،اس کی شخصیت کا معیار آنکتے اور جانچتے ہیں ،زندگی کے تلاطم خیز دریا میں ہر شخص آزمائش سے دوچار ہوتا ہے ،وقت کی تیز لہریں ،جہاز کی مانند انسان کے پاؤں اکھاڑ دیتی ہیں ،ایسے عالم میں حوصلہ اور مضبوط ارادہ ہی ناخدا کا فریضہ انجام دیتا ہے اور خواب پتوار بن کر اس جہاز کو غرق نہیں ہونے دیتے ۔ہر لمحہ، ہر گھڑی زندگی اسی طرح گذرتی ہے ،جیسے جہاز سمندر کی تلاطم خیز لہروں کے درمیان سے گذرتا ہے، جب انسان سستی ، کاہلی اور کم ہمتی کا شکار ہوتا ہے تو یہ جہاز غرق ہوجاتا ہے ، دریا کی گہرائی اسے اپنے سینہ میں جذب کرلیتی ہے اور وہ ہمیشہ کے لئے دنیا کی نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے اور جو منزل مقصود کو پہنچتا ہے ،وہ تاریخ کا حصہ بنتا ہے ،آنے والی نسلوں اور قوموں کے لئے نمونہ ہوتا ہے ،اس کے نقش قدم کامیابی کا زینہ ہوتے ہیں ، انسانی قدروں کی حفاظت کے علمبردار ہوتے ہیں ، تاریخ اسے فخر کے ساتھ اپنے سینہ پر رقم کرلیتی ہے ،یہی زندگی کی کہانی ہے، جس کو پروین شاکر نے اس انداز میں پیش کیا ہے :
ایک مشت خاکی اور وہ بھی ہوا کی زد میں ہے
زندگی کی بے بسی کا استعارہ دیکھنا

زندگی کا انسانیت کے اس مقام پر فائز ہونا اور ان اعلی منازل پر پہنچنا آسان نہیں ہے ،راہ کی مشکلات سفر کی صعوبتیں ،راستوں کی گرد، انسان کے دامن کو گرد آلود اس کی صورت کو بدنما ،اس کے بالوں کو پراگندہ کردیتی ہے ، اس حال میں ہر شخص زینت محفل بننے کی جرأت نہیں کرپاتا ، زندگی ایسے مراحل سے گذرتی ہے اور ایسے تجربات و مشاہدات سے آنکھیں چار کرتی ہے ،جن کو عالم آشکارہ کرنا عزم و حوصلہ کا امتحان ہوتا ہے ،عام طور پر ان داستانوں اور قصوں کو زندگی اپنے سینہ میں دفن کرنا باعث افتخار جانتی ہے، ان کا افشاء ، اسے اپنی ناسپاسی اور بے عزتی کا احساس دلاتا ہے ،اسی لئے اپنی زندگی کے واقعات و حادثات کو سپرد قرطاس کرنا ،کسی معرکہ کو سر کرنے کم نہیں ہے ،ہر شخص اتنی جرأت اور جسارت کرنے کی ہمت نہیں کرتا اور پھر اسے اس خوبصورت پیرائے میں ڈھال کر پیش کرنا کہ ہرشخص اس سے سبق حاصل کرے ،اس میں اپنی زندگی کا چہرہ دیکھے ،اسے اپنے لئے نمونہ عمل سمجھے ،کٹھن راہوں سے گذرنے کا نسخہ سیکھے، انسانیت اور انسانوں سے پیار کرنا سیکھے ،جرم کے خلاف شمشیر بے نیام بننا سیکھے ،وہ زندگی گذارنے کے لئے درس ثابت ہو ،اسے پڑھ کر امیدیں جگیں ، مایوسی پر فناطاری ہو جائے ،یہ وہ کمالات ہیں ،جو ہر شخص کے حصہ میں نہیں آتے ،چنندہ افراد ہی ان خوبیوں کے حامل ہوتے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لئے کچھ پیغامات رقم کرجاتے ہیں ۔

احسان دانش بھی انہی خصوصیات کے حامل ہیں ،تمام عمر مزدوری و مجبوری کے درمیان ہے ،مگر انا کے دامن پر کوئی داغ نہیں ہے ،غربت و افلاس کمرتوڑنے والا مگر مایوسی قریب سے بھی نہیں گذری ،لوگوں کا نذر انداز کرنا اور ان کا صلاحیتوں کو پیش کرتے رہنا اور اپنے فن کو تسلیم کرانا قابل دید اور لائق عمل ہے ،شکوہ شکایت نہیں کرتے مگر احساس ضرور کرتے ہیں ،انسانیت کی بے عزتی غریب کی بے وقعتی انہیں کھائے جاتی ہے ،خود کی بھوک سے نہیں مزدوروں کمزوروں کی بھوک سے نڈھال ہوتے ہیں ،یہ احسان دانش کی وہ خوبیاں جو انہیں عظیم انسان بناتی ہیں۔
مضمون: کیا عشق ہے؟ جب ہو جائے گا، تب بات سمجھ میں آئے گی

جہان دانش کا مطالعہ ان کی شخصیت سے وابستہ خوبیوں سے پردہ اٹھاتا ہے ،ان کی ہمت اور عزم و استقلال کی کہانی بیان کرتا ہے ،ساتھ ہی کتاب کا اسلوب اور طرز نگارش واقعات کی ترتیب، مکالموں کا انداز ان کے حافظہ اور قلم کی پختگی کے دلائل پیش کرتا ہے ،جس انداز سے انہوں نے اپنے بچپن کے واقعات کو پیش کیا ہے ،گھر کا حال ٹوٹی چھت، ٹپکتا پانی ،کتابوں کے برتن فروخت کرنا ،علاج کے لئے ماں کا ان کی آنکھ میں اپنا خون ڈالنا ،پھر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی مزدوری کرنا، سرمایہ داروں کے ظلم و ستم جھیلنا ،چیچک حالت میں ناگ پھنی کاٹنا ،بارش میں چونا اندر پھینکنا، ترک وطن کرنا اور اس کے علاوہ زندگی کی سختیاں بیان کرنا ۔مطالعہ سے آنکھیں پر نم ہوئیں اور قلب ان کی قلمی پختگی اور نثری جولانیوں کا قائل ہوگیا ،حقائق کو انہوں نے جس ادبی چاشنی میں لپیٹ کر پیش کیا ہے ،وہ ادب سے وابستہ افراد کے لئے دولت بیش بہا سے کم نہیں ہے ،جب کسی منظر کا نقشہ کھینچتے ہیں ،نگاہیں پھٹی رہ جاتی ہیں ،اور ذہن حیرت و استعجاب کے عمیق دریا میں غرق ہوجاتا ہے، درد و غم کے ساتھ تشبیہات و تمثیلات اور استعارات و کنایات کی ایک خوبصورت دنیا بھی جہان دانش میں موجود ہے ،جو ادب کے ہر طالب علم کو متاثر کرتی ہے اور تکلیف و مصائب سے بھری اس زندگی پر مایوسی کا پردہ نہیں پڑنے دیتی ہے۔ مثال ملاحظہ کیجئے: اپنے دوست کے بھائی کا سارنگی بجانا، انہوں نے کس خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔

ان کی تخلیقی قابلیت کا اندازہ لگائیے، ’’جب وہ سارنگی کے تاروں پر گز کھینچتا اور پنچم کے تاروں پر انگلیوں کو لرزش دیتا تو ایسا معلوم ہوتا جیسے اس کی انگلیاں تاروں میں بندھی ہوئی ہیں اور رمضانی کے خیالات و جذبات کی ایماء پر چل رہی ہیں ،میرے دل میں گدگدیاں سی تیرنے لگتیں اور بعض اوقات تو ایسا معلوم ہوتا جیسے سارنگی کی آوازیں برفیلی ہوکر میرے شریانوں میں بہ رہی ہوں ‘‘ سارنگی بجانے والے کی کیفیت اور اپنے قلب پر پیدا ہونے والے تاثر کو انہوں نے الفاظ کا جو خوبصورت پیکر عطا کیا ہے اور تشبیہات سے کیفیت کو جس طرح اوضح کیا ہے ،وہ میرے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے ،منظر نگاری ،فطرت نگاری ،تشبیہات و تمثیلات الفاظ کی رنگا رنگی کتاب کی وہ خوبیاں ہیں ،جو اس کے معیار و وقار کو بلند تر کرتی ہیں اور اسے شاہکار ہونے کا شرف بخشتی ہیں ،احسان دانش کا یہ عظیم کارنامہ ہے کہ جس منظر کو انہوں نے بیان کیا ہے ،اتنے خوبصورت اور شاندار الفاظ کا جسم اسے عطا کیا ہے کہ دیدہ کو شنیدہ سے کہیں بڑھ کر بنادیا ہے ،اور گمان یہ ہوتا ہے کہ ہم اس منظر کو اپنی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں ،جب انہیں غربت اور بے روزگاری نے ایسے دوراہے پر لاکھڑا کیا ،کہ انہیں اپنی انا مسلی اور کچلی ہوئی محسوس ہوئی اور فحاشی کرنے والی عورتوں کے خطوط لکھنے کے لئے انہیں بھیج دیا گیا ،اس قبیح فعل کو انہیں بطور روزگار دیا گیا ،تو وہ صبح اپنی تمام تر رعنائیوں زیبائشوں خوبیوں اور خوبصورتی کے ساتھ احسان دانش کو کیسی محسوس ہوئی۔

ملاحظہ کیجئے منظر نگاری اور تشبیہات و تمثیلات کا جادو اپنے قلب پر چلتا ہوا محسوس کیجئے ’’اس وقت باغیچہ میں پھولوں کی کیاریاں تعزیت کی جامیں معلوم ہورہی تھیں ،پودوں اور درختوں کے نیچے دھوپ میں پھنسا ہوا سایہ دھواں سا دے رہا تھا، صبح کے کھلے ہوئے پھول شاخوں پر موسمی سرطان نظر آرہے تھے ،مکانوں کی اونچی اونچی اٹاریوں پر پھیلی ہوئی دھوپ کفن کی طرح سفید بھک ہوگئی تھی ’’ایک خوبصورت منظر دلگیر نظارہ نگاہوں کو روشنی بخشنے والا منظر ،غلط جگہ اور غلط مقام پر ہونے کی وجہ سے کتنا بدنما اور بدصورت ہوجاتا ہے ،ان سطروں سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ،جہاں یہ جہان دانش کے اسلوب نگارش کو نمایاں کرتی ہیں ،وہیں احسان دانش کی انا ان کے مزاج اور خودداری کو بھی واضح کرتی ہیں ، ایک ایسا شخص جو بھوک سے نڈھال تو ہوتا ہے ،تپتے سورج اور جلانے والی مسموم ہوا میں پھاؤڑے کا رفیق تو ہوتا ہے ،رہٹ کو کھینچ کر بیلوں کا کام تو انجام دیتا ہے ،مگر گندی ناجائز اور غلط طریقہ سے حاصل کی ہوء غذا سے پیٹ کی آگ نہیں بجھاتا ،بہرحال یہ سطریں بتارہی ہیں ،ہر شخص اپنے مشاہدہ کے معیار اس منظر اور کیفیت کو پرکھ سکتا ہے اور اس کے صحیح ہونے کا اندازہ لگا سکتا ہے اور جان سکتا ہے ۔
مضمون: باغ سخن کا گل تازہ

منظر کی خوبصورتی بھی قلبی کیفیت پر منحصر ہے ،جس حقیقت کو احسان دانش اپنے تخلیقی انداز میں ان سطروں میں پیش کردیا ،انکی تخلیقی پختگی کا اندازہ اس سے ہوتا ہے ،خریداروں کے بڑھے ہوئے ہاتھوں کو پکی ہوء کھیتی سے تشبیہ دیتے ہیں ،دھوکہ باز کی فاتحانہ مسکراہٹ کو گندی نالی میں سیپ کے بکھرے ہوئے بٹنوں کو تشبیہ دیتے ہیں ، زندگی کو شکاری کی گرفت سے بھاگی ہوئی نیل گائے سے تشبیہ دیتے ہیں ،چاند کو حسینہ کے چہرے سے تشبیہ دیتے ہیں ،صفحات پلٹتے جائیے اور تخلیقی قوتوں کا اندازہ کرتے جائیے ،تشبیہات و تمثیلات کی سینکڑوں مثالیں ،خاص طور پر شمعی کے ساتھ ہوئی ملاقاتیں ،اس کے ساتھ گذارا ہوا وقت گفتگو کے حصہ ،ایسا محسوس ہوتا ہے ،جیسے کوئی ناول پڑھ رہے ہیں ،یا کسی بے رنگ زندگی کو رنگین کردیا گیا ہے ،کس خوبصورت انداز میں ان تمام واقعات کی منظر کشی کی گئی ہے اور جو احسان اور شمعی کی بانہوں کے درمیان ابھری ہوئی الفاظ کی داستان ہے ،اسے احسان دانش کا کمال اور زندہ دلی سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے ، ان خوبیوں کا تلذذ مطالعہ کی دولت میں پوشیدہ ہے ،ایک مختصر مثال ملاحظہ کیجئے ،اس وقت شمعی کے چہرے پر ایسی نکھری ہوئی سی روشنی لرزی جیسے دم توڑتے چراغ کو اکسا دیا جائے ،اس نے اپنے اسی دیرینہ انداز میں گفتگو شروع کردی ،اس کے لہجہ میں ایسی کھنک تھی جیسے کوئی ستارے کے ٹوٹے ہوئے تاروں کو رہ رہ کر مضراب سے چھیڑ رہا ہو‘‘۔

ایک عرصہ جداء کے بعد شمعی سے ملاقات اور اس کی حالت کو یہ سطریں بخوبی بیان کرتی ہے ،اور احسان دانش کی قوت قلم کی ترجمان ہیں ، کتاب کا مطالعہ اس کے تخلیقی معیار کو عیاں کرتا ہے ،اس کی خوبیاں نمایاں کرتا ہے ،اس کے لیے بلند مقام کا دعوی کرتا ہے ،اگر چہ کہیں کہیں حقائق تخلیق کی زد میں آجاتے ہیں اور قلب پر مبالغہ کا احساس ہوتا ہے ،لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ احسان دانش نے تاریخ بنیادوں پر کتاب نہیں لکھی ہے بلکہ اپنی زندگی کا منظر نامہ پیش کیا ہے ،جس میں وہ پوری طرح کامیاب ان کا تخلیقی معیار بھی اعلی ہے ،اور ان کا مقصد بھی بلند تر ہے ،جو جہان
دانش کی اہمیت و افادیت کا مظہر ہے۔
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔

Rahat Ali Siddiqui
About the Author: Rahat Ali Siddiqui Read More Articles by Rahat Ali Siddiqui: 82 Articles with 85751 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.