17ویں صدی میں برطانیہ کے گلوب پلئیرز تھیٹر کے گمنام
اداکار اور بعد ازاں ڈرامہ نگار کی حیثیت سے شہرت پانے والے ولیم شیکسپیئر
نجانے ناموں سے اتنے بیزارکیوں تھے کہ ان کی ذات سے ’’نام میں کیا رکھا
ہے‘‘ جیسا مقولہ منسوب ہوگیا۔ شاید ان کے کسی ڈرامے کے اداکار کو اپنا نام
کردار کی مناسبت سے بہتر نہ لگا ہو اور اس نے اپنے تحفظات کا اظہار مذکورہ
ڈرامہ نگار سےکردیا جس کے جواب میں شیکسپیئر نے یہ تاریخی جملہ ادا کیا ہو
جبکہ بعض دانشوروں کا خیال ہے کہ مذکورہ جملہ شیکسپیئر کے شہرہ آفاق ڈرامے
’’رومیو اینڈ جولیٹ‘‘ کے ایک کردار نے ڈائیلاگ کی صورت میں ادا کیا تھا جو
بعد میں شیکسپیئر کے قول کی حیثیت سے مشہور ہوگیا۔شیکسپئیر کے اس قول سے
قطع نظر، نام بہرحال انسانی شناخت و پہچان کا اہم ذریعہ ہوتا ہے لیکن
تصورکیا جائے کہ جس دور میں آدمی بے نام ہوتا تھا، لوگ ایک دوسرے کو کیسے
مخاطب کرتے تھے ؟ ہوسکتا ہے کہ جسے بلانا یا متوجہ کرنا مقصود ہوتا تو اس
کے لئے سیٹی یا چٹکی بجاتے ہوں ، اشارے کنائیے سے کام لیتے ہوں یا اسے کوئی
چیز پھینک کر مارنے کے بعد مخاطب کرتے ہوں ۔ مشرق میں خواتین آج بھی
شوہروں کو نام سے پکارنا گناہ کبیرہ تصورکرتی ہیں اس لئے وہ شوہروں کو
متوجہ کرنے کیلئے اے جی، سنوجی اور اگر صاحبِ اولاد ہوں تو منّے کے ابّا
جیسے القاب کے استعمال سے شوہر پرست بیوی ہونے کا ثبوت دینے کی کوشش کرتی
ہیں لیکن پُرہجوم مقامات یا بازاروں میں ان کے اس انداز تخاطب پرکئی اے جی
اور منے کے ابا، سنوجی کی نسوانی آواز پر چونک کر منے کو گود سے اتار کر
رک جاتے ہوں گے اور اگر ان کے ساتھ ان کی نصف بہتر ہو تو ان کی شاپنگ مکمل
’’بدتر‘‘ حالت میں مشرف بہ اختتام ہوتی ہوگی اور نہ صرف بازار میدان کارزار
بن جاتا ہوگا بلکہ ان کے نکاح کو بھی ٹوٹ پھوٹ کے خطرات لاحق ہوجاتے ہوں
گے۔ بعض حضرات کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ دورکھڑے اپنے کسی دوست یا شناسا کو
آواز دینے کی بجائے سیٹی بجا کر مخاطب کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بسا
اوقات ان کا یہ انداز تخاطب ان کے لئے وبال جان بن جاتا ہے ۔ پاس سے گزرنے
والی دختران مشرق چاہے ان کا تاریخ اور جغرافیہ ازمنہ وسطیٰ کے ساتھ تعلق
ظاہرکرتا ہو اور حدود اربع شمالاً جنوباً پھیلا ہوا ہو، محض خوش فہمی کا
شکار ہوکر نہ صرف ان کے خرق مبارک کو اپنے چمچماتے سینڈلوں و جوتوں سے
روشناس کراتی ہیں بلکہ ان کی مظلومانہ انداز میں چیخ و پکار سن کر امداد
باہمی و حقوق نسواںکے تحفظ کا عَزم لے کرکئی اصناف توانا بھی اس جوتا باری
میں شامل ہوجاتے ہیں۔
جامئہ آدمیت زیب تن کرنے اور تہذیب و تمدّن کے دور میں داخل ہونے کے بعد
ایک دوسرے کی پہچان کیلئے تسمیاتی دور شروع ہوا اور تعارف و شناخت کیلئے نت
نئے نام رکھے جانے لگے۔ مختلف مذاہب کے نزول کے بعد نام بھی مذہبی رنگ میں
ڈھلتے گئے ورنہ اس سے قبل تو ہابیل قابیل اور یاجوج ماجوج قسم کے نام ہی
منصئہ شہود پر تھے لیکن آج اولادِ آدم کے ہمہ صِفَت اور ہمہ جِہَت نام
سننے کو ملیں گے۔ کرئہ ارض کے رنگ و نسل، مذہب و زبان اور قومیتوں کی بنیاد
پر ملکوں میں بٹنے اور سرحدوں کی لکیریںکھنچنے کے بعد نام بھی اسی مناسبت
سے رکھے جانے لگے۔ ایک ملک میں اگر ڈیوڈ رہتا ہے تو دوسرے ملک میں رہنے
والا داؤد کہلانے لگا۔ الفریڈ، فرید اور ماریا ،مریم بن گئی ۔ چینی نام
اکثر ہمارے سَر کے بالائی حصہ سے گزر جاتے ہیں۔ کراچی کے ایک اسپتال میں
ایک چینی ڈاکٹر جس کا نام تو خدا جانے کیا تھا لیکن ہم نے اپنی آسانی
کیلئے اس کا نام ’’یاہو‘‘ رکھ دیا جس کے بعد اس کے عملے کے افراد بھی
’’یاہو‘‘ کا نعرہ لگانے لگے ۔ کافی عرصے تک ہم امریکی نائب صدر ڈک چینی کو
بھی چینی سمجھتے رہے۔کنیت اور مکمل شجرۂ نسب کا احاطہ کیے ہوئے عربی نام
آج تک ہماری زبان پر نہ چڑھ سکے۔ والدین اپنے نو مولود کا نام رکھتے ہوئے
کئی اہم نکات و عوامل کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ تاریخ پیدائش اور ولادت کے وقت
کی مناسبت سے عاملوں و جوتشیوں سے ستارے کی مطابقت سے نام نکلوائے جاتے ہیں
تاکہ ان کی مذکورہ تخلیق، کائنات میں برج وسیارگان کے سعد اثرات کا فائدہ
اٹھاتے ہوئے اپنے کارناموںکی وجہ سے نامور اور مشہور ہو لیکن یہ ارمان بہت
ہی کم والدین کے پورے ہوتے ہیں ورنہ زیادہ تر نام محض ظاہری شناخت کی علامت
کے طور پر ہی استعمال ہوتے ہیں۔ بعض لوگ اردو لُغت کا سہارا لیکر ناموں کے
معنی تلاش کرکے نام رکھتے ہیں اور ان میں سے بعض کا رکھا ہوا نام بعد میں
معنی خِیز بن جاتا ہے۔ بہت سے مذہبی گھرانوں میں قرآن شریف سے نام نکلوائے
جاتے ہیں ۔ شاید اس کا مقصد کلام الٰہی کی برکات و فیوض سے استفادہ کرنا
ہو۔
بہت سے نام ایسے ہوتے ہیں جو حامل اِسم کی ظاہری صفّات سےکسی بھی طور سے ہم
آہنگ نہیں ہوتے جبکہ کئی نام خوف و دہشت کی علامت بن کر زبانِ زَد عام
ہوجاتے ہیں اور لوگ یہ نام سن کر ہی کانپ اٹھتے ہیں لیکن مذکورہ شخص کے
سامنے آنے پر یہ نام اس کی شخصیت کے برعکس ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً ہمارے ملک
میں شمالی اور جنوبی علاقوں میں ہیبت خان، طوفان خان، دلیرخان، بہادر خان،
سمندر خان اور اسی طرح کے دوسرے نام رکھنے کا رواج ہے لیکن اکثر اوقات ہیبت
خان، دلیر خان اور بہادرخان صاحبان رات میں سفر کے دوران کتّے کے بھونکنے
پر راستہ بدل لیتے ہیں یا ارادئہ سفر ملتوی کردیتے ہیں جبکہ طوفان خان اور
سمندر خان میں تلاطم، طغیانی اور تندی و تیزی نہیں ہوتی بلکہ اکثر اوقات
کاہلی وسستی ان کی شخصیت کاجزوخاص ہوتی ہے۔ ایک صاحب کو سر بلند خان کہا
جاتا ہے لیکن وہ طبعی نقائص کے باعث ہنچ بیک آف نوٹرڈیم (کبڑے عاشق) کا
دیسی چربہ لگتے ہیں۔ ہمارے جاننے والوں میں ایک حسینہ بیگم بھی ہیں لیکن ان
کی صورت دیکھ کر بچے ماؤں کی گود میں چھپنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ہارر
فلموں کے ڈائریکٹر حضرات انہیں اپنی فلم میں نمایاں کردار دینے کے لیے ان
کے گھر کے چکر کاٹتے ہیں۔ بہت سے لوگ اپنے بچوں کے نام عصر حاضر اور دور
ماضی کی نامور شخصیات کے ناموں پر صرف اس امید پر رکھتے ہیںکہ شاید ناموں
کی مناسبت سے ہی ان کے پسران و دختران میں مذکورہ شخصیات جیسی خصوصیات پیدا
ہوجائیں۔
بعض لوگوں کے نام عشق و محبت کی کہانیوں کے ناکام کرداروں کی مماثلت سے
رکھے جاتے ہیں جیسے فرہاد، شیریں، لیلیٰ، قیس وغیرہ لیکن مذکورہ ناموں کی
حامل شخصیات اپنے ناموں کی لاج رکھنے کی خاطر اپنی عشق کی داستان کو ہرصورت
کامیاب بنانے کی کوشش کرتی ہیں اور ازدواجی بندھن میں جڑنے کے بعد ایک ہی
داستان محبت پر اکتفا کرنا ان کی نامیاتی شخصیت کے برخلاف ہوتا ہے۔ بعض
لوگوں میں جمالیاتی و کمالیاتی صفات مفقود ہوتی ہیں اور ان کی تمام حسیات
کا محور صرف روزی اور روٹی ہوتا ہے لیکن نام کا عاشق ہونا بھی ان کے لیے
رنج و اَلم کا باعث بن جاتا ہے۔ اسی قسم کی صورتحال کا سامنا ایسے ہی ایک
عاشق کو کرنا پڑاجو ایک سیدھا سادھا دیہاتی آدمی تھا۔ وہ شہر میں مختلف
جگہوں پر اَردلی کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہوئے زبان میں روایتی اکھڑ
پن کی بجائے لہجے میں شگفتگی پیدا کرنے کیلئے کوشاں رہتا تھا اس لئے اپنا
تعارف ہرکسی سے ’’آپ کا عاشق‘‘ کہہ کر کراتا تھا۔ ایک دفعہ وہ کسی فرم میں
نیا نیا ملازم ہوا۔ دفترکی لابی میں سستانے کی غرض سے کھڑا تھا کہ وہاں سے
کمپنی کے ڈائریکٹر کی خاتون سیکرٹری کا گزر ہوا اور اسے بلاوجہ راہداری میں
کھڑا دیکھ کر اس سے پوچھا کہ ’’اے کون ہو تم‘‘۔ اس غریب نے ان سے مرعوب
ہوتے ہوئے انکسارانہ انداز میں کہا، ’’جی میں آپ کا عاشق ہوں‘‘۔ سیکرٹری
صاحبہ نے اسے عشق کا بے باکانہ اظہار سمجھ کر اپنی شان میں گستاخی پر محمول
کیا اور شورمچا کر سارے دفتر کو اکٹھا کرلیا اور اس غریب کے سَر سے عشق کا
وہ بھوت اتارنے کی اجتماعی کوشش کی گئی جو اس پرکبھی چڑھا ہی نہ تھا۔ اسی
دوران اس کے ڈپارٹمنٹ کا انچارج بھی وہاں آگیا جس نے یہ کہہ کر اس کی
گلوخلاصی کرائی کہ ’’یہ نام کا عاشق ہے، لیکن یہ ہر مردو زن سے پہلی بار کی
ملاقات میں آپ کا عاشق کہہ کر تعارف کراتا ہے ‘‘۔
عرب ممالک میں اگر کنیت، القاب اور خاندانی شجرہ کے ساتھ طول و طویل نام
رکھنے کا رواج ہے تو ہمارے ملک کی اکثریت عام طور سے اپنے نام کے ساتھ
القاب کے علاوہ آخر میں قبیلے، خاندان اور برادری کا نام لگا کر لمبا چوڑا
بنانے کی کوشش کرتی ہے جبکہ خواتین کے ناموں کے آخر میں شوہر یا والد کا
نام لگنا مشرقی معاشرے کا حصہ بن گیا ہے۔ بعض اوقات نام کے آخری الفاظ
دوسروں کے ذہنوں کیلئے بوجھ بن جاتے ہیں۔ مثلاً ہمارے حلقۂ احباب میں
مختلف ذات، برادری، قبیلے، خاندان سے تعلق رکھنے والے لاتعداد لوگ موجود
ہیں ایسے میں کوئی صاحب ہماری عدم موجودگی میں لینڈ لائن فون پر اپنی
آسانی کیلئے اپنے نام کو مختصر کرکے روشناس کراکے کوئی پیغام چھوڑتے ہیں
تو جب تک وہ دوبارہ فون کرکے ہم سے مکمل تعارف کراکے بات نہیں کرلیتے ہم
تمام وقت ان ذات شریف کے بقیہ تعارف کیلئے دماغ سوزی کرتے رہتے ہیں۔ اکثر
خواتین بھی فون پر اپنا نام بتانے کی بجائے مس فلاں یا مسز فلاں کہہ کر
اپنا تعارف کراتی ہیں، اب آپ ان محترمہ کےبقیہ شجرہ نسب کے بارے میں غور و
خوض کرتے رہیں۔ اس طرح ہمارے ملک میں بعض افراد اپنی جائے پیدائش یا موروثی
علاقے کا نام فخریہ انداز میں اپنے نام کے ساتھ لگاتے ہیں جیسے جاپان والا،
نینی تال والا،الہ بادی، چنیوٹی، بنگلوری یا گورداسپوری جبکہ ایک مخصوص
بزنس کمیونٹی کے لوگ اپنے نام کے ساتھ اپنا پیشہ وارانہ نام بھی استعمال
کرتے ہیں جیسے رنگ والا، اسٹیل والا اور پان والا۔گزشتہ صدی میں ہالی ووڈ
کی معروف اداکارہ ایلزبتھ ٹیلر نے ربع صدی تک فلمی دنیا پر حکمرانی کی۔ ہم
اسے اس کے نام کی مناسبت سے پیشہ ور درزی یعنی ٹیلر ماسٹر یا دختر درزی
سمجھتے رہے ۔
خود کو عقل کل سمجھنا انسانی فطرت کی خامیوں کو ظاہر کرتا ہے بعض لوگ اسے
احساس کمتری (Inferiority Complex) قراردیتے ہیںاور بعض اسے احساس برتری
(Superiority Complex)کی علامت بتاتے ہیں لیکن درحقیقت یہ ذہنی اَبتری کی
نشانی ہے۔ ہمارے ایک شناسا بھی اسی نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہیں۔ ان کا
دعویٰ ہے کہ دنیا کی تمام زندہ یا مردہ نامور شخصیات سے ان کے کسی نہ کسی
طورسے مراسم رہے ہیں اور وہ ان کے بارے میں اس طریقے سے معلومات بہم
پہنچاتے ہیں کہ دروغ گوئی اور من گھڑت کا شائبہ تک نہیں ہوتا مثلاً بھارتی
فلمی صنعت پر گزشتہ چھ دھائیوں سے اپنی حکمرانی برقرار رکھنے والے
کپورخاندان کے متعلق انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ پرانی دلّی کے رہنے والے
مولوی عبدالغفور کی اولادوں میں سے ہیں کیونکہ فن کا بین المذاہب رشتہ ہوتا
ہے اسی لئے انہوں نے فنکارانہ زندگی کی ابتداء میں ہندو اکثریت کے جذبات کو
ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنے خاندان کو ’’غفور‘‘ سے ’’کپور خاندان‘‘ میں
مدغم کردیا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے توکرشمہ آج کرشمہ غفور کے نام سے مشہور
ہوتیں۔ اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کے لیے وہ دلیپ کمار، سنتوش کمار،
درپن، مدھو بالا وغیرہ کی مثالیں دیتے ہیں جنہوں نے مسلمان ہوتے ہوئے محض
فن کی خاطر ہندووانہ نام رکھے ہوئےتھے ۔
متوسط اور غریب گھرانوں میں دنیاوی دولت کی عدم موجودگی نعمت خداوندی یعنی
اولاد کی اہمیت کو اس حد تک بڑھادیتی ہے کہ وہاں بیٹے، بیٹیوں کے نام رکھنے
کے علاوہ ایک سے زائد پیار کے نام یعنی عرفیت رکھنے کا بھی رواج ہے اور اصل
نام پیدائشی سرٹیفکٹ یا نادرا کے کمپیوٹر میں محفوظ کروا کر بچوں کو مناّ،
گڈو، ٹونی، پپو، چاند، چندا، گڑیا، منی جیسے پیار بھرے ناموں سے پکارا جاتا
ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ والدین کو اپنی اولاد کا اصل نام خود بھی
یاد نہیں رہتا اور جوانی کے بعد بڑھاپے کی حدود میں پہنچ کر بھی وہ اپنی
عرفیت منا، گڈو ، پپو اور منی کے نام سے ہی پکارے جاتے ہیں۔
ہمارے یہاں لوگوں میں اچھے بھلے نام کو مختصر کرکے پکارنے کا بھی خبط ہے
چاہے اس خواہش میں خوشنما نام بدنما ہی کیوں نہ ہوجائے۔ بعض انگریزی فلموں
کے ناموں کا سلیس اردو میں نہایت دلچسپ ترجمہ کیا گیا ہے اور اس میں اردو
ادب کا اختراعی حسن جھلکتا ہے مثلاً ’’گنز آف نیوارون‘‘ کا ترجمہ
’’نورالدین کی بندوق‘‘ اور ’’سیمسن اینڈ ڈیلائیلہ‘‘ کی اردوتشریح ’’شمس
الدین دلّی والا‘‘ کے طور پر کی گئی۔ حتی کہ شیکسپئیر کا نام بھی اردو قالب
میں ڈھلنے کے بعد شیخ پیر ہوگیا اور جب مذکورہ ڈرامہ نگار نے اپنے نام کا
سلسلہ شیوخ اور پیروں سے جڑتے سنا تو اسے بے انتہا قلق ہوا لیکن دل کی تسلی
کی خاطر اسے دوبارہ اپنا یہ قول دہرانا پڑا کہ ۔ ’’نام میں کیا رکھا ہے‘‘ |