ہمت نسواں، مددِ خدا

20ویں صدی تک ہمت مرداں کا بہت چرچا تھا ۔ لوگ کسی کی ہمت بندھاتے ہوئے اسی ضرب المثل کا سہارا لیتے تھے کہ ’’بھائی مایوس نہ ہو، ہمت مرداں، مدد خدا‘‘۔ اب یہ نہیں معلوم کہ مذکورہ صاحب اپنی ہمت مرداں کو مجتمع کرکے اپنے مقصد کامیاب ہوتے تھے یا محض طفل تسلیوں سے ہی اپنی اشک شوئی کرتے تھے لیکن 20ویں صدی ختم ہوتے ہی ہمت نسواں کے فقید المثال مظاہرے سامنے آنے لگے ہیں اورخواتین نے قوت نسواں سے کام لے کر عالمی سماج میں اپنی اہمیت تسلیم کروالی ہے۔ ویسے تو صنف نازک کا ہر دور کی ’’اندرون خانہ‘‘ سیاست میں اہم کردار رہا ہے اور وہ کچن ڈپلومیسی کوکچن میں ہی چھوڑکے مسلمان مملکتوں کے عروج و زوال میں خاصی حد تک دخیل رہی ہیں جبکہ ملکہ قلو پطرہ اور ملکہ جوزیفائن بھی ان سے پیچھے نہیں تھیں، انقلاب فرانس کا موجب بننے والا ملکہ میری اینتوئنت (Marie Antointte) کا جملہ جو انہوں نے اپنی رعایا کے بھوک کے ہاتھوں مرنے پر ادا کیا تھا کہ ’’اگر عوام کو روٹی نہیں مل رہی ہے تو وہ کیک کھائیں‘‘، تاریخ کے اوراق پر ثبت ہوگیا ہے۔ اسی نوع کے جملے کی ادائیگی پاکستان کے سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے آٹا مہنگا ہونے کی شکایات کا نوٹس لیتے ہوئے پُرمزاح انداز میں کی تھی کہ ’’اگرلوگوں کو سستا آٹا نہیں مل رہا ہے تو وہ چکن کھائیں۔‘‘ لیکن پاکستانی عوام صدر محترم کے اس جملے سے محظوظ نہیں ہو سکے ورنہ انقلاب فرانس کی طرز کے انقلاب کے جملہ ثمرات یا مضمرات سے محروم نہ رہتے۔

مختلف ادوار میں دنیا کے امن و سکون کو تہہ و بالا کرنے میں مرد حکمرانوں کی مردانگی کا زیادہ دخل رہا لیکن نازک اندام خواتین بھی ان سے پیچھے نہیں رہیں۔ اقتدارکی قوت حاصل ہونے کے بعد وہ بھی جنگجو شہزادی یا جنگجو ملکہ Warrior Princess or Warrior Queenکے روپ میں آئیں اور اپنے نسوانی قہر و غضب سے ملکوں اور آبادیوں کو تاراج کردیا۔ بنی نوع انسان کے اندر جنم لینے والی امن کی آشا، ان کی غضب ناکیوں کے ہاتھوں نرآسا بن گئی۔ گزشتہ صدی کے ساتویں عشرے میں مسز اندرا گاندھی اور نئی صدی اور نئے ہزارئیے کے آغاز میں کنڈو لیزا رائس نے دنیا کا نہ صرف جغرافیہ بدل دیا بلکہ نئی عالمی تاریخ بھی مرتب کروادی۔ 20ویں صدی کے پانچویں عشرے میں دوسری جنگ عظیم کے دوران محاذ جنگ پر خواتین کی بے لوث خدمات سے متاثر ہوکر اہل مغرب نے انہیں معاشرے میں صنفی اعتبار سے مساویانہ حقوق تفویض کئے اور انہیں مردوں کے ظلم و تشدد سے محفوظ رکھنے کے لئے قانون سازی کی گئی جس کے بعد مغرب کی عورت طاقتور حیثیت اختیار کرتی گئی لیکن دختران مشرق جو دوسری عالمی جنگ کی فیوض وبرکات سے محروم رہی تھیں، بدستورصنفی تنزلی کا شکار رہیں ۔

گزشتہ صدی تک مشرق کے مردوں کی مردانگی ضرب المثل تھی اور شاعر مشرق کو مرد مومن کی نگاہوں میں تقدیریں بدلنے کی قوت نظر آتی تھی۔ اس کے مقابلے میں بنت حوا کو اس کی نازک اندامی اورشوہروں کے ڈھائے جانے والے مظالم سہنے کی وجہ سے اصحاب فکر و دانش نے صنف نازک کا درجہ عطا کیا۔ اقبال کے مرد مومن کی نگاہوں میں تقدیریں بدلنے کی کتنی قدرت تھی یہ تو معلوم نہیں ہوسکا لیکن اس کی نگاہوں کے جاہ و جلال سے اس کی بیویاں ڈری سہمی رہتی تھیں۔ مرد مومن باہر چاہے لوگوں کی جھڑکیاں اور ڈانٹ پھٹکار کھاتا پھرتا، مردانگی کا مظاہرہ کرنے کی صورت میں اپنے سے بڑے سورما سے مار کھا کر گھر واپس آجاتا لیکن گھر میں داخل ہوتے ہی اس کی مردانگی بیدار ہوجاتی اور خلاف مزاج بات پر وہ دختر مشرق پر پہلوانی کے تمام گر آزماتا، اس کی نازک ہڈیوں پر جوڈوکراٹے کے وار کرتا جبکہ اس کے گداز بدن کو باکسنگ پیڈ سمجھ کر اس پر گھونسے بازی کی مشق کرتا۔ دنیا کے پہلے مرد حضرت آدمؑ نے دنیا میں قدم رکھنے کے بعد تمام ارضی خطرات بشمول خوںخوار درندوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے کسی درخت کی ٹہنی توڑ کر لاٹھی کی صورت میں ہتھ یار (ہتھ معنی ہاتھ اور یار بمعنی دوست ، ہاتھ میں رہنے والا دوست) یعنی ہتھیار بنایا تھا جس سے وہ اپنی اور بی بی حوا کی حفاظت کا کام لیتے تھے، ہوسکتا ہے انہوں نے اولاد آدم کوجامہ آدمیت میں رکھنے کے لئے اپنے ایجادکردہ ہتھیارکا لاٹھی چارج کے طور پر بھی استعمال کیا ہو لیکن بنو آدم نے’’آدم کے اس ترکے‘‘ کو اپنی آمریت پر مبنی آدمیت کی رٹ قائم رکھنے کے لئے بنت حوا کی کمر، ٹانگوں اور بازوؤں پر استعمال کیا اور مشرقی عورت جو ماں باپ کی اس نصیحت کو پلّو میں باندھ کر مائیکے سے رخصت ہوتی تھی کہ ’’ بیٹی ڈولی میں بیٹھ کر جارہی ہو، شوہر کی دہلیز سے ڈولے میں لیٹ کر نکلنا‘‘، وہ ان کی نصیحت کے بموجب ڈولے میں لیٹ کر ہی نکلتی تھی ۔

نئی صدی اور نئے ہزارئیے کے طلوع آفتاب کے ساتھ ہی صنف توانا کی حاکمیت کا سورج بھی غروب ہوگیا اور دختران مغرب نے بنت حوا سے بہناپا نبھاتے ہوئے ان میں بھی آزادی نسواں کی تحریک پیدا کی جس کے بعد ملک میں تحفظ حقوق نسواں اور آزادی نسواں کی تنظیمیں وجود میں آتی گئیں۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے قوم کو سیاسی شعور دیا تھا جبکہ جنرل پرویز مشرف نے روشن خیالی کی شمع جلانے کے بعد دختران مشرق میں نسوانی شعور اجاگرکیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ان کے صنفی حقوق کے تحفظ، سماجی، معاشرتی و معاشی مسائل کے حل کے لیے ترقی نسواں کے نام سے وفاقی اور صوبوں کی سطح پر وزارتیں تشکیل دی گئیں۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں ان کی نشستوں میں اضافہ کیاگیا جس کا قلق ہمارے بعض سیاستدانوں کو آج بھی ہے۔ ہماری خواتین نے آج اتنی طاقتور حیثیت اختیار کرلی ہے کہ اولاد آدم کی حاکمیت خطرے میں پڑگئی ہے۔ مرد حضرات جو ایک عشرے قبل تک عورت کو محض پیرکی جوتی سمجھ کر کئی کئی جوتیاں بدلنا اپنا شرعی اور شوہری حق سمجھتے تھے اب نامحرم عورتوں کے سامنے نظریں جھکا کر بیٹھتے ہیں اور استفسار پر جواب دیتے ہیں کہ ’’ شرم وحیا ہم مشرقی مردوں کا زیور ہے‘‘۔ وہ رشتہ دارخواتین سے ملنے سے بھی اجتناب برتتے ہیں اور ان کے شکوہ کرنے پر جواب دیتے ہیں کہ ’’ ہم مرد تو پرائے بس میں ہیں، جیسے ہماری بیویاں چاہتی ہیں، ہم تو ویسے ہی چلتے ہیں‘‘۔ اب تو آباء و اجداد کی وراثت میں ملی ہوئی لاٹھی بھی خواتین کے ہاتھ میں آگئی ہے اور جولائی 2007ء میں جامعہ حفصہ اسلام آباد کی باپردہ طالبات نے اس لاٹھی کی قوت سے نہ صرف آبپارہ پر واقع آنٹی شمیم کا مساج سینٹربندکرادیا بلکہ مسجد امیر حمزہ سمیت سو دیگر شہیدکی جانے والی مساجد کی دوبارہ تعمیر کے لئے بھی آواز بلند کی ۔ خواتین کی اس لٹھ بردار تحریک کو روشن خیال صدر پرویز مشرف نے اپنی حکومت کے خلاف بغاوت تصورکیا اور جامعہ حفصہ اور لال مسجد میں ایس ایس جی فورسز کے ذریعے فاسفورس بم برسا کرسینکڑوں طالبات کو مدرسے کے مہتمم عبدالرشید غازی سمیت جلا کر راکھ کردیا۔

کسی دور میں مردوں کو اپنے قوت بازو پر بہت گھمنڈ تھا لیکن معاشرے میں بااختیارعورت کے وجود میں آنے کے بعد خواتین اب صرف اپنے زور بازو پر بھروسہ کرنے لگی ہیں۔ مرد اپنی خواتین پرگھروں کے اندر تشدد کرتے تھے لیکن مردوں پر بیگماتی تشدد سر عام ہوتا ہے۔ ہم نے صدارتی تمغہ حسن کارگردگی، ستارئہ امتیاز اور تمغہ امتیازکے حامل ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ مصور پرکراچی کے علاقے کلفٹن کی ایک بارونق شاہراہ پران کے بنگلے کےگیٹ پر بیگماتی تشدد ہوتے دیکھا تھا۔ مردوں پر نسوانی مظالم سے ذرائع ابلاغ سمیت تمام ادارے چشم پوشی برتتے ہیںکیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ ہمارا معاشرہ نسوانی فسادات کی زد میںآجائے۔ خواتین پر گھریلو تشدد کی روک تھام کا بل سندھ اسمبلی میں زیر غور ہے، وزیر اعلی سید قائم علی شاہ دو ماہ قبل اس بل کی سمری منظورکرچکے ہیں جبکہ اٹھارویں ترمیم کی رو سے مذکورہ بل پانچوں صوبائی حکومتوں کی منظوری کے بعد صوبوں میں نافذالعمل ہوجائے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پنجاب کے وزیراعلی میاں شہباز شریف نے حفظ ماتقدم کے طور پر صنفی مساوات کو مدنظر رکھ کر خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مردوں کو بھی زچگی کی چھٹیوں اور الاؤنس کا حقدار قراردیا ہے۔ شاید اس اقدام سے ان کا مطمع نظر مردوں کو صنفی اعتبار سے خواتین کی طرح مظلوم صنف قرار دلوانا ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ پنجاب اسمبلی میں مردوں پر’’ بیگماتی تشدد‘‘ کے خاتمے کا بل بھی پیش کردیں جبکہ یہ بھی ممکن ہے کہ مظلوم خاوند، تشدد نسواں کے خلاف ’’تحفظ حقوق مرداں‘‘ اور ’’آزادی مرداں‘‘ جیسی تنظیمیں بنا کر مردوں پر مظالم کے خلاف آواز اٹھائیں لیکن وہ اتنی صنفی ہمت کہاں سے لائیں گے کیونکہ اب ہمت نسواں کا دور ہے اور ’’ہمت نسواں، مدد خدا‘‘۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 208 Articles with 191411 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.