سست وکالت

نظام انصاف اندھا ہونے سے متعلق باشعور اور بے شعور طبقے کے تصور ات بالکل متضادہے۔ترازو سامنے رکھے آنکھوں پر پٹی چڑھی تصویر کو دونوں طبقے الگ الگ زاویے سے دیکھتے ہیں۔اسی کے سبب یہ تضاد پیدا ہوا۔آنکھوں پر چڑھی پٹی کومثبت طور پر دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ منصف کو سائل کی شخصیت ۔رعب ۔شکل ۔اور عہدہ سے متاثر نہ ہونے کے لیے یہ پٹی چڑھا ئی جاتی ہے۔تاکہ منصف صرف فریقین کی باتیں سن کر کسی فیصلے پر آسانی سے پہنچ پائے۔اسے زاہد یا بکر کسی کی شخصیت و مرتبہ سچ اور حق سے دور نہ کردے ۔ اس پٹی کو منفی رنگ میں لینے والوں کا موقف ہے کہ یہ پٹی قصدا غلط کاریوں کا عذربن رہی ہے۔اگر یہ پٹی نہ ہو تو شاید منصب کو و ہ پہلوبھی نظر آجائیں۔جو یہ پٹی اوجھل کردیتی ہے۔یہ طبقہ اس بات پر نالاں ہے کہ انہوں نے ایسے لوگوں کو مجرم قرار دیتے ہوئے دیکھ اجن کی تمام تر بے گناہی کے وہ خود شاہد تھے۔اس طبقے نے ایسے لوگوں کی باعزت بریت بھی دیکھی جو ان کی آنکھوں کے سامنے جرم کے مرتکب تھے۔اپنی توقع کے برعکس انصاف ملنے کے سبب یہ طبقہ انصاف کے اندھے ہونے پر یقین رکھتاہے۔ ان کے نزدیک یہ پٹی انصاف کی فراہمی میں ایک رکاوٹ کا کردار ادا کررہی ہے۔

حسین نواز کی تصویر لیک ہونے سے متعلق پیٹیشن پر فیصلہ سنادیاگیاہے۔جے آئی ٹی اور شریف فیملی کے درمیاں پچھلے دنوں شدید اختلافات پیدا ہوچکے ہیں۔جے آئی ٹی نے حکومتی اداروں پر عدالت سے تعاو ن نہ کرنے اور سرکاری ریکارڈ میں ردوبدل کا سنگین الزام لگایا۔دوسری طرف شریف فیملی نے جے آئی ٹی کے شریف فیملی کے مخالفین کے ہاتھوں میں کھیلنے کے الزامات لگائے۔سب سے سنگین الزام وزیر اعظم ہاؤس کے فون ٹیپ کیے جانے سے متعلق تھا۔حسین نوازکی پٹیشن تصویر لیک اور ویڈیو ریکارڈنگ سے متعلق تھی۔جس میں یہ موقف اختیار کیا گیاکہ تصویر لیک ہونے کے سبب شریف فیملی کی تضحیک کا موقع فراہم کیا گیا۔اس تصویرکی ناصرف تضحیک آمیز تشریح کی گئی ۔بلکہ اس کی لیک کی ذمہ داری بھی حکومت پر ڈالی گئی۔حسین نواز کا مطالبہ تھا۔کہ ایک تو تصویر لیک کے تمام تر ذمہ داران کو سامنے لایا جائے۔دوجے ویڈیو ریکارڈنگ بند کرکے مستقبل میں اس طرح کی کسی قسم کی دل آزاری کو ختم کردیا جائے۔سپریم کورٹ نے یہ پٹیشن مستر د کرتے ہوئے حسین نواز کے خدشات کو بے بنیاد قر ار دے دیا۔سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ چونکہ تصور لیک کے ذمہ دار کے خلاف کاروائی کی جاچکی ہے۔اس لیے اس پر کمیشن بنانے کی ضرورت نہیں ۔ویڈیو ریکارڈنگ سے متعلق بھی اس فیصلے میں کہا گیاکہ حسین نواز کے خدشات درست نہیں ریکارڈنگ ثبوت نہیں یہ بیانات کی درستگی کے لیے ہے۔عدالت نے جے آئی ٹی کی طرف سے جمع کروائی جانے والی تصویر لیک سے متعلق رپور ٹ کو عام کرنے کی اجازت دے دی۔اٹارنی جنرل کا کہناتھاکہ رپورٹ پبلک کرنے پر اعتراض نہیں ۔مگر اس رپورٹ میں کسی کا نا م نہیں سوال یہ ہے کہ ذمہ دار کا نام کیوں خفیہ رکھا جارہاہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے سے لیگی حلقوں میں مایوس بڑھی ہے۔خیال تھا۔کہ اس تصویر لیک کے ذمہ دار کا چہر ہ سامنے آئے گا۔اور پھر اس کے خلاف ہونے والی کاروائی کا پتہ چلے گا۔امکان تھاکہ ایسا کچھ فیصلہ آنے کے سبب تصویر لیک سے متعلق تمام تر منفی پراپیگنڈہ زائل ہوجائے گا۔اور قوم کے سامنے سچ آجائے گا۔ایسا کچھ نہیں ہوپایا۔دوسری طرف مخالفین کے لیے یہ فیصلہ ایک شہ کی مانند ہے۔ وہ جھجک رہے تھے۔کہ عدالت جانے کیا فیصلہ سنانے جارہی ہے ۔تصویر لیک کا ذمہ دار یقیناًکوئی ایک شخص نہ ہوتا۔اسے اس کام کے لیے کسی طرف سے ہدایات موصول ہوئی ہونگی۔پھر یہ تصویرضروری نہیں ایک کلپ ہی ہو۔ممکن ہے یہ کئی تصویریں ہوں یا کچھ وقت کی ریکارڈنگ ۔اس ریکارڈنگ کو مخصوص جگہ پہنچانا ا ور اسے میڈیا میں پھیلانا کسی ایک شخص کا کام نہیں ہوسکتا۔ذمہ داران یقیناخوفزدہ ہونگے۔اس فیصلے کے بعد ان کا ڈر اتر گیا۔اب شاید اس طرح کی تصاویر دھڑلے سے چھپوائی جائیں۔عدلیہ کے بعض فیصلے اس پر ایک بوجھ بن جاتے ہیں۔یہ بوجھ عدلیہ کے مخالفین کوایک لمبے عرصے تک بحث مباحثے کی ترغیب دیتارہتاہے۔مخالفین اس طرح کے فیصلوں کو عدلیہ پر نشتر زنی کے طور پر استعمال کرتے رہتے ہیں۔اس فیصلے پر لیگی حلقوں کو زیادہ صدمہ اسی وجہ سے پہنچا کہ عدلیہ نے نہ ہی ذمہ دار کا نام واضح کیا اور نہ ہی اس کے خلاف کاروائی کی تفصیل بتائی۔اب اگر اس فیصلے سے سائل کی تشفی ہوجانا تصور کرلیا جائے تو نامناسب ہے۔ لیگی قیادت کے لیے یہ فیصلہ ایک ایسے وقت سامنے آیا جب وہ سیاسی میدان میں مشکلات کی شکار ہے۔چومکھی لڑائی لڑتے لیگی قیادت کے پاس اس طرح کے فیصلوں کی گنجائش نہیں ۔اس کی پوزیشن مذید کمزور ہوئی ہے۔اسے اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔دیکھنا ہوگاکہ وہ کیا کوتاہیاں ہوئیں۔کہ سپریم کورٹ ان کا مدعا سمجھنے میں ناکام ہوئی۔کیوں اس کیس میں مخالفین کی فتح ہوئی۔وہ تصویر جس کو لے گر دو ہفتوں تک شریف فیملی کی تضحیک کی جاتی رہی ۔لیگی وکلاٗ اس تصویرلیک کے مضمرات عدالت کو کیوں نہیں سمجھاپائے۔اس وقت ایک گھمسان کا رن پڑا ہواہے۔لیگی وکلا کیوں ناکام رہے۔سازشی ٹولے کے لیے یہ فیصلہ بغلیں بجانے کا سبب بن رہاہے۔نواز شریف کی سیاست سے کچھ لوگوں کی چور بازاری کو خطرہ ہے۔کچھ کی بالادستی پر سوالیہ نشان لگ چکا اور کچھ طفیلیوں کا مستقبل ڈانواں ڈول ہے۔نواز شریف کو چومکھی لڑائی کا سامنا ہے۔ابھی عدالت میں کئی معاملات چل رہے ہیں جو اس سے بھی زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔کیا لیگی قیادت اپنی سٹریٹجی میں کچھ بہتری لائے گی۔کہ سست وکالت کے سبب جھوٹوں کو فتح یاب ہونے کا موقع دے گی۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 124715 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.