ہالی وڈ، بالی وڈ اور لالی وڈ سمیت دنیا بھر میں اداکاروں
اور اداکاراؤں کو فلمی ستاروں کی حیثیت سے جانا جاتا ہے بلکہ ایکٹر یا
ایکٹریس کی بجائے فلم اسٹار جیسے جگمگاتے لقب کو ان کے ناموںکا جزو اوّل
بنادیا گیا ہے۔ عوام و خواص دونوں کا خیال ہے کہ ستارے انسانی زندگی کے
نشیب و فراز میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ازدواجی بندھنوں کے پیچ و خم کا
ساراکریڈٹ ستاروں کے عروج و زوال کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ستارہ
پرستی کا یہ رجحان صرف زیورِ تعلیم سے عاری، مادّہ پرست لوگوں میں ہی رائج
نہیں بلکہ اس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بڑے گھرانوں کے افراد بھی مبتلا
رہتے ہیں۔ ان ہی لوگوں کے دم سے ماہرین علم فلکیات، ستارہ شناس، نجومی، پیر،
فقیر، عاملین، پنڈت و جوتشیوں کا وجود قائم و دائم اور ان کا روزگار عروج
پر ہے۔ شادی بیاہ کے موقعوں پر ان حضرات کی خدمات حاصل کرکے لڑکی اور لڑکے
کے ستارے ملوائے جاتے ہیں یا مہورت نکالا جاتا ہے۔ دونوں صورتوں میں ان
پیشگوئیوں کو جواز بناکر والدین اپنی اولادوں کی قسمت میں بَر اور دلبَر کے
ملنے یا بچھڑنے کی مُہر ثبت کردیتے ہیں، جس کے نتیجے میں نئے دور کے لیلیٰ
مجنوں، ہیر رانجھا، شیریں فرہاد جیسی محبت کی داستانیں پرنٹ میڈیا کے صفحات
پر وجود میں آتی ہیں۔
ستاروں کی چالیں ہر شعبہ زندگی پر حاوی ہوتی ہیں۔ سیاسی بساط کے کھلاڑیوں
کا انحصار بھی زیادہ تر ستاروں کی چالوں پر ہوتا ہے جو اپنی چالیں زیادہ تر
حکمرانوں یا حزب مخالف کے رہنماؤں کی چالیں دیکھ کر کھیلتے ہیں۔ ماضی میں
شاہانِ وقت بھی اپنے اَچھے بُرے شگون کی معلومات کے لیے نجومیوں اور
جوتشیوںکو باقاعدہ درباری ملازم کی حیثیت سے رکھتے تھے اور ان کی پیشگوئیوں
سے مستفید ہوتے تھے ۔ ان کی پیشگوئیوں کو اپنی منشاء کے مطابق پاکر مذکورہ
اصحاب کو خلعتوں، خطابات، انعامات اور نذرانوں سے نوازا جاتا تھا جبکہ خلاف
مزاج پاکرگردن زدنی گردانا جاتا تھا۔ موجودہ دور میں بھی سیاسی میل ملاپ،
بننے بگڑنے والے سیاسی اتّحاد ان ہی ستاروں کی چالوں کے مرہونِ مِنّت سمجھے
جاتے ہیں۔ 80کے عشرے میں پیر صاحب پگاڑا سیاسی ستارے ملا کر نیم جمہوری
حکومتیں بنوانے کی شہرت کے باوجود ’’بادشاہ گر‘‘ کا لقب تو اختیار نہ کرسکے
لیکن اخبارات کو جاری کردہ ان کی سیاسی پیشگوئیاں آج بھی ملک کا ہر خاص و
عام نہایت ذوق و شوق سے پڑھتا ہے اور پھر کڑھتا ہے کیونکہ ان پیشگوئیوں میں
فوجی بوٹوں کی دھمک اورجھاڑو پھرنے کی گونج زیادہ سنائی دیتی ہے جبکہ پیر
صاحب گزشتہ 20سال سے حکمرانوں کی طرف سے عدم پذیرائی کے بعد علامہ اقبال کا
یہ شعر پڑھنے پر مجبور ہوگئے ہیں ؎
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
ہندوؤں میں اگر آواگون یعنی سات جنموں کا تصوّر ہے تو دوسری طرف ان کا
مذہبی عقیدہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہندو دھرم کا ہر نیک انسان مرنے کے بعد
ستارہ بن کر آسمان پر چمکتا ہے اور آسمان پر موجود کھربوں ستارے ہندو مت
کے ماننے والوں کی نیک روحیں ہیں ، جو چِتا کی آگ سے اٹھ کر آسمان پر
ستاروں کی صورت میں معلّق ہوگئی ہیں جو شاید ان کے لیے عالمِ بَرزخ کا درجہ
رکھتا ہے اب لوگ اِن ہی ستاروں میں اپنی قسمت کا ستارہ تلاش کرتے ہیں جو
بہت سوں کو نہیں مل پاتا اور وہ تھک ہار کریہ فلمی شعر گنگنانے لگتے ہیں ؎
آسماں کتنے ستارے ہیں تری محفل میں
اپنی تقدیر کا ہی کوئی ستارہ نہ ملا
ہمارے ملک میںکوئی بھی شخص کسی شعبے میں ترقی کی منازل طے کرتا ہے یا
کارنامے سر انجام دیتا ہے تو اس کی پذیرائی کرتے ہوئے اسے فوری طور سے
اسٹار یا سُپر اسٹار کا درجہ دے دیا جاتا ہے لیکن جب اس کا ستارہ زوال پذیر
ہوتا ہے تو اسی اسٹار کو بدقسمت ستارہ قرار دیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں کے
سیاسی رہنماؤں کے ستاروں پر پختہ یقین رکھنے کی وجہ شاعر مشرق علامہ اقبال
کا یہ شعر ہے ؎
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
مذکورہ شعر کہا تو انہوں نے نوجوانوں کے بارے میں ہے لیکن بوڑھے سیاستدان
اسے خود پر صادق سمجھتے ہیں۔ وہ اپنی کمندیں عوام کے گھروں پر ڈالتے ہیں
لیکن زیادہ تر سیاسی رہنماؤں کے ستارے عوام کے ستاروں سے نہیں ملتے جس کی
وجہ سے وہ ان کے ووٹوں کے حصول میں ناکام رہتے ہیں اور اقبال کے شعر پر
دیگر انداز میں عمل پیرا ہوتے ہیں اور اپنے ستاروں کو حکومت مخالف لابیز کے
ستاروں سے ملوا کر اقتدار کے آسمانوں پر پہنچنے کے لیے ریشہ دوانیوں اور
سازشوں کی عملیات کرتے ہیں اور اپنی کمندیں ایوانِ اقتدار کی بلند و بالا
دیواروں پر ڈال کر اپنے ستارے کو اقتدار کے آسمان تک لے جانا چاہتے ہیں۔
جب وہ حصول اقتدار میں ناکام ہوجاتے ہیں تو پھر حسرت و یاس سے آسمان پر
چمکتے ہوئے ستاروں کو دیکھتے ہیں اور یہ شعر گنگناتے ہیں ؎
ستارو تم تو سوجاؤ
پریشاں رات ساری ہے
سیاسی رہنما اپنے ستاروں کو اقتدارکے بام تک پہنچانے کے لئے سیاسی پنڈتوں
اور جوتشیوں کی خدمات بھی حاصل کرتے ہیں جو انہیں بتاتا ہے کہ ان کا ستارہ
زُحل اور مریخ کے اثرات کی وجہ سے مائل بہ زوال ہے اور یہ بَداثرات ختم
کرنے کے لئے صدقہ ضروری ہے جو اکثر اوقات سیاسی وفاداری کی قربانی کا ہوتا
ہے۔ وہ سیاسی رہنماجن کے ستارے بلا روک ٹوک عوام کے ستاروں سے ملتے ہیں،
فلک سے چاند ستارے توڑ کر غریب آبادیوں کے ہر تاریک گھر اور جھونپڑے پر
نصب کرنے جیسے سپنے سجھا کر ان کے ووٹوں کی قربانی حاصل کرنے کے بعد اپنے
ستارے کی ہر راہگزر کا رخ اقتدار کے ایوانوں کی طرف موڑنے میں کامیاب
ہوجاتے ہیںتو اپنے ستاروں کو عوام کے ستاروں سے علیحدہ کرلیتے ہیں
اورستاروں کی گردشوں کا شکار عوام اپنے ستاروں کو مریخ اور زحل کے بداثرات
سے نکالنے اور انہیں زہرہ کی ٹھنڈی چھاؤں کی آغوش میں پہنچانے کی آرزو
دل میں لیے، اپنی راہوں کو زندگی کی تاریکیوں سے نکالنے میں ناکامی پر
علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھ کر اجتماعی خودکشیوں پر غور شروع کردیتے ہیں
؎ ڈھونڈھنے والا ستاروں کی رہ گزاروں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاؤں کو گرفتارکیا
زندگی کے شب و تاریک سحر کر نہ سکا |