جواں سال بیٹے کی گولیوں سے چھلنی اور گولہ باری سے چور
لاش سامنے پڑی ہے اور ماں کا ایک ہاتھ لاش پر ہے تو دوسرا فضا میں بلند ہے
اور وہ پرجوش انداز میں شہید کے جسد خاکی کے ارد گرد جمع لوگوں سے بھارت سے
آزادی اور پاکستان سے الحاق کے نعرے لگوا رہی ہے ۔وہ ماں جس نے زندگی کے
کتنے پل کتنی گھڑیاں گن گن اور شب و روز کی لاتعداد سختیاں کاٹ کر بیٹا
پالا پوسا اور جوان کیا تھا آج وہی ماں اس بات پر نازاں و فرحاں ہے کہ جیسے
اس نے بیٹے کی شہادت سے وہ منزل پا لی ہو جس کے لئے اس نے بیٹا جواں کیا
تھا ۔ماں اس قدر پرجوش ہے کہ اسے غم کا احساس تک نہیں اور لشکر طیبہ کے
مرکزی کمانڈر شہید جنید احمد متو کی لاش ہے جو پلوامہ کے قصبہ کھڈونی کا
رہنے والا تھا۔یہاں آج جمعہ 16 جون کے روز اس کے جنازے میں اتنا بڑا ہجوم
امنڈ آیا تھا کہ بے شمار لوگ ایسے جنازے کو ترسیں کہ ایسا سفر آخرت اسے بھی
نصیب ہو۔ہجوم اتنا کہ کئی بار جنازہ ادا کرنا پڑا اور ہر بار تازہ نئے آئے
لوگ ہی جنازہ میں شریک ہو رہے تھے۔ جسے ضلع اسلام آباد کے علاقہ آرونی میں
بھارتی فوج نے کئی گھنٹے مار کھانے اور کئی لاشیں اٹھانے کے بعد گولہ باری
کر کے شہید کر ڈالا تھا۔آرونی کا علاقہ اس دن گولیوں کی تڑتڑاہٹ او ر بموں
کے دھماکوں سے مسلسل گونجتا رہا تھا اور دن بھر آس پاس کے لوگ محاصرے میں
گھرے ان دو رہروانِ حق کو پنجہ فرعونِ زمانہ سے چھڑانے کے لئے چنگیزو ہلاکو
کی تاریخ کو ہر روز مات دیتی بھارتی فوج پر پتھر برساتے اور گولیاں کھاتے
رہے تھے۔یہاں آیا 14سالہ معصوم بچہ احسان احمد ڈار سب سے پیش پیش تھا،
بھارتی سورماؤں کے ہوش اس قدر گم تھے کہ انہیں نہتا 14سالہ احسان اپنے سارے
لاؤ لشکر پر بھاری دکھائی دے رہا تھا سو انہوں نے اس کے سینے کانشانہ لے کر
گولی چلائی ،روزے کی حالت میں احسان وہیں گرا اور دم توڑ گیا۔ یقینا اس کی
افطاری جنت میں ہوئی ہو گی۔بھارتی فوجیوں نے اس کے بعد ان کے پاس جتناسامان
حرب و ضرب تھا ،یہاں جھونک اور پھونک ڈالا۔کتنے مزید بچوں اور جوانوں ہی کے
نہیں، کتنی خواتین کے جسم زخمی و چھلنی ہوئے ،مقامی صحافیوں نے یہ تعداد
60بتائی اور یہ وہ تھے جو ہسپتال پہنچ سکے ورنہ ہسپتال میں گرفتاری سے بچنے
کے لئے کتنوں نے وہاں جانا ہی گوارا نہ کیا۔بھارتی فوج اس قدر آپے سے باہر
ہوئی کہ اس نے مارٹر گولوں کی بارش کے بعد بارود لگا کر اس پورے محلے ہی کو
اڑا دیا جہاں جنید احمد متو اور اس کا ساتھی مورچہ سنبھالے اور بھارت کی
طاقت کو للکارے ہوئے تھے۔ بھارتی فوج کا خیال تھا کہ مارے جانے والے دشمنوں
کے تو مکانات کے بکھرے ملبے میں جسم بھی ریزہ ریزہ ہو چکے ہوں گے لیکن ایسا
نہ ہو ا اور جب شہدا کے اجساد خاکی کو یہاں سے نکالا گیا تو وہ چہروں سمیت
صحیح سلامت نکلے۔ بھارتی فوج سمجھ رہی تھی کہ اس نے کشمیریوں کو ایک بار
پھر شکست دے دی ہے لیکن جب ان شہدا کے جنازے اُٹھے تو بھارت اور اس کی فوج
ایک پھر سر پیٹ رہی ہو گی اورہر جنازے سے کتنے جنید نکلتے ہی جا رہے ہیں۔
یہاں روز مقتل سجتا ہے، یہاں کی سرزمین کشمیریوں کے لہو سے آئے دن لالہ زار
کی جاتی ہے۔آرونی میں کیمرے کی آنکھ نے اُن تصویروں کو بھی قید کیا ہے جن
میں سی آر پی ایف اہلکار ایک نوجوان کو نالہ ویشو میں پھینکتے ہوئے دیکھا
جاسکتا ہے، جب انہیں لگا کہ وہ وہاں نہیں ڈوب مرا توبد ترین ظلم ڈھانے اور
ہزاروں کشمیریوں کو قبر میں اتارنے کے ساتھ آنکھوں سے محروم کرنے والی سی
آر پی ایف اہلکار نالے میں کود کر اسے باہر نکال لیتے ہیں اور پھر سرعام ا
س کی شدید مارپیٹ کرکے اسے نیم مردہ حالت میں چھوڑ دیتے ہیں۔بھارتی فوجوں
پر اس قدر خوف طاری ہے کہ ایک نوجوان کو گرفتار کر کے اسے اپنے بیچوں بیچ
بٹھا لیتے ہیں کہ شاید وہ اس طرح ’سنگساری‘ سے بچ جائیں اور شاید انعام بھی
پکا ہو جائے ۔
یہ اسی دن کی کہا نی ہے جب علاقہ رنگریٹ اسیمابل میں بھی ایک ایسا ہی معرکہ
جاری تھا۔یہاں بانڈی پورہ سے روزگار کے سلسلے میں آیا ویلڈنگ کا کام کرنے
والانصیر احمد شیخ نامی نوجوان بھی موجود تھا کہ بھارتی فوج نے گولیوں کی
بارش کی۔نصیر نکلا تو افطاری خریدنے تھا لیکن جب اسے پتہ چلا کہ یہاں تو
مجاہدین کا معرکہ اور ان کے بچاؤ کی جنگ جاری ہے تو وہ سب کچھ بھول کر اس
میں شامل ہو گیا۔بھارتی فوجیوں نے اس کے سینے کا نشانہ لے کر گولی چلائی
اور اسے وہیں ڈھیر کر دیا۔روزے دار نصیر کی افطاری تو جنت میں یقینا ہو گئی
ہو گی لیکن اب اس کے پسماندگان میں اس کی 11ماہ پہلے بیاہ کر آنے والی بیوی
اور وہ بچہ بھی شامل ہے جس نے ابھی دنیا میں آنا ہے۔
یہ تو ان کی کہانی ہے جو اس دنیا سے رخصت ہو چکے،لیکن وہ اپنے پیچھے سروں
کی ایسی فصل چھوڑ گئے جسے بھارت کاٹتے ،اس پر ہر حربہ آزماتے اپنے ہاتھ
پاؤں شل کر چکا لیکن اس کے ہاتھ اب تک سوائے شکست و رسوائی کے کچھ نہیں
آیا۔اسی فصل کے کچھ برگ و بار بھارت کی جیلوں میں بھی پڑے ہیں ،گزشتہ ایک
سال میں پکڑے اور جیل ڈالے گئے کشمیریوں میں ہزاروں جنت نظیر کشمیر سے باہر
انتہائی سخت گرم تہاڑ جیل سے لے کر مقبوضہ جموں کی جیل تک قید ہیں۔یہاں
کشمیریوں کا سر جھکانے کے لئے ان کے جسموں کے ٹکڑے تک کر دئیے جاتے ہیں
لیکن انہیں پھر بھی جھکایا نہیں جا سکتا۔ یہاں جواں تو ایک طرف، 80برس کے
بزرگ بھی اس بھارتی سربیت و جبریت کا شکار ہیں تو خواتین بھی جیل کاٹ رہی
ہیں۔ سوپور سے تعلق رکھنے والے شیخ محمد یوسف جن کی عمر 80برس سے زائد ہے
کو گزشتہ برس جولائی کے مہینے میں گرفتار کرلیا گیا ہے،ان پر پے درپے اب تک
تین بارکا لا قانون پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کیا جا چکا، ایک میں کٹھ پتلی
عدالت انہیں چھوڑ دیتی ہے تو پولیس دوسرا ایکٹ لگا دیتی ہے۔بھارت کی حالت
دیکھئے کہ وہ ان پر سنگ بازی کا بھونڈا قسم کا الزام عائد کرتا ہے۔ یہ کوئی
عام فرد نہیں کہ جنہیں بھارت جھکا لے ۔یہ وہ فولادی و سیمابی شخصیت ہیں کہ
جن کے دو بیٹے پہلے ہی تحریک آزادی میں کی جدوجہد میں بھارتی فوجوں کا
مقابلہ کرتے جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔وہ تویہی چاہتے ہیں کہ انہیں بھی
بھارت شہادت سے ہمکنار کرے اور وہ اپنے بیٹوں کے پاس پہنچ جائیں لیکن، لگتا
ہے رب ذوالجلال کا فیصلہ ہے کہ بھارت ابھی اس بوڑھے کے ہاتھوں بہت عرصہ
رسوا ہوتا رہے گا۔ان کے گھر میں ان کی بیمار بیوی، شہید بیٹے کی جواں سال
بیوہ بہو اور اس کے کمسن دو بچے ہیں جو بھارت سے ٹکر لئے بیٹھے ہیں۔ ان کے
گھر میں کس طرح کی مشکلات ہو سکتی ہیں، اس کا اندازشاید ہم نہ لگا سکیں۔
بھارتی قید خانوں میں ہندواڑہ سے تعلق رکھنے والے معذور75سالہ برزگ غلام
محمد بٹ بھی ستمبر 2016سے ادھمپور جیل میں قید ہیں۔ بھارت کی حالت دیکھئے
کہ ایک معذور انسان کو بڑی ہی بے شرمی کے ساتھ سنگ بازی میں ملوث قرار دے
کرجیل بھیجاگیا۔ پولیس نے ان پر تین با ر کالا قانون پی ایس اے لاگو کیا
لیکن انہیں رہائی نصیب نہ مل سکی۔ ان کی گھریلو حالت بھی ناگفتہ ہے لیکن
تحریک آزادی سے ایک لمحہ پیچھے ہٹنا گوارہ نہیں۔یہ تو تازہ ترین دو مثالیں
ہیں ورنہ بھارتی قید خانوں کو دن رات شکست دینے والوں میں تو ڈاکٹر محمد
قاسم فکتو، مسرت عالم بٹ، ڈاکٹر محمد شفیع خان شریعتی، غلام قادر بٹ، تہاڑ
جیل میں بند مظفر احمد ڈار، مشتاق احمد کنل ون اسلام آباد، طالب لالی،غلام
محمد بٹ زکورہ، محمد اسلم خان راجوری جیسے بے شمار قیدی ہیں جو مقبوضہ وادی
سے باہر جیلوں میں برسوں سے پابند سلاسل ہیں اور انہیں نئے سے نئے جبر کا
نشانہ بنایا جاتا ہے۔ 25سال سے قید کاٹتے اور اب کبھی رہائی نہ ملنے کا
فیصلہ سننے والے ڈاکٹر قاسم فکتو کی اہلیہ اوردختران ملت کی سربراہ محترمہ
آسیہ اندرابی اور ان کی دست راست فہمیدہ صوفی بھی بھارتی قید و بند کی
سختیاں جھیلتی عقوبت خانوں میں پڑی ہیں اور انہیں شدید بیماری کے باوجو د
مقبوضہ جموں کے امپھالہ جیل کی سختیوں میں قید رکھا گیا ہے۔بھارت کا سامنا
ایسی ماؤں کی اولاد سے ہے جنہیں یوں مقابلہ کرنے اور کٹ جانے میں فخر ہے
۔اب دیکھنا ہے کہ ،زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے۔ |