پاکستان نے بھارت کو عبرت ناک شکست دے کر پہلی دفعہ
چیمپینز ٹرافی اپنے نام کر لی اور کپتان سرفراز وطنِ عزیز کو سرفراز کر گیا
۔ لیکن پچھلے چار سالوں سے ایک بڑا میچ پاکستان کے سیاسی کھلاڑیوں میں بھی
جاری ہے جس کا فیصلہ آنا ابھی باقی ہے ۔ ہم امپائر کی انگلی کھڑی ہونے کا
انتظار کرتے کرتے تھک بلکہ ’’ہَپھ‘‘ گئے ہیں لیکن تاحال ’’گوہرِ مقصود‘‘
ہاتھ نہیں آیا۔سیاسی میچ پر کالم کے دوسرے حصّے میں بات ہوگی ، پہلے ذرا
چیمپینز ٹرافی کی شاندار فتح پر خوشیاں تو منا لیں کہ ہم پاکستانیوں کو
کبھی کبھار ہی خوشی کی کوئی خبر نصیب ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ خوشی کی ایسی
کسی بھی خبر پر ہم جی بھر کے دھوم دھڑکا کرتے ہیں ۔ شاید ہمارے ذہنوں میں
یہ خوف جاگزیں ہو چکا ہے کہ پتہ نہیں ایسی خوشی پھر کبھی نصیب ہو گی بھی یا
نہیں۔
اتوار کو ہم نے اپنے گھر میں احباب کی افطاری کا بندوبست کر رکھا تھا ۔دراصل
ہمارے ذہن ہی سے نکل گیا کہ اتوار کو تو ’’حق و باطل‘‘ کا معرکہ ہے ۔ اب
صورتِ حال کچھ یوں تھی کہ ہم اُس دِن میچ ختم ہونے تک کچن سے ٹی وی روم اور
ٹی وی روم سے کچن کی طرف ’’دُڑکی‘‘ لگاتے لگاتے بے حال ہو گئے لیکن جب
پاکستان نے معجزانہ طور پر بھارت کو بدترین شکست سے دوچار کیا تو ہماری
ساری تھکن دور ہو گئی ۔ہم نے اِس جیت پر لفظ ’’معجزانہ‘‘ محض اِس لیے
استعمال کیا ہے کہ ہمارے سمیت سبھی کا خیال ہے کہ یہ جیت رمضان المبارک کی
برکتوں کا نتیجہ ہے کیونکہ 1992ء میں ماہِ رمضان کی انہی تاریخوں میں ورلڈ
کپ جیتا تھا ۔ اسی لیے انگریز پوچھتے ہیں کہ یہ مسٹڑ ’’رمضان‘‘ کون ہے جس
نے پاکستان کو چیمپین بنا دیا؟۔ پاکستان کی اِس جیت پر سوشل میڈیا پر
چٹکلوں کی بہار آئی ہوئی ہے ۔ کسی ستم ظریف نے لکھا کہ تحریکِ انصاف میں
نووارد فردوس عاشق اعوان کہتی ہیں کہ نواز لیگ نے سازش کرکے پاکستان کو
جتوایا ہے تاکہ پاناما لیکس سے توجہ ہٹائی جا سکے۔ ایک چٹکلا یہ ہے کہ
کوہلی جب بھارت واپس گیا تو اُس کی ماں نے اُسے گلاس میں چائے دی ۔ جس پر
کوہلی نے کہا ’’امّی ! آج چائے گلاس میں کیوں دی ۔ ماں نے جواب دیا
’’کیونکہ بیٹاکپ تو تمہارا باپ لے گیا ہے ۔ ایک لطیفہ یہ تھا کہ لوڈشیڈنگ
کا پاکستانی قوم پر اتنا شدید نفسیاتی اثر ہوا ہے کہ حسن علی وکٹ لینے کے
فوراََ بعد جنریٹر سٹارٹ کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ چٹکلے تو خیر اور بھی بہت
سے ہیں لیکن ہم آگے چلتے ہیں ۔
کراچی ،لاہور اور اسلام آباد کے ایئرپورٹس پر پاکستانی شاہینوں کا فقید
المثال استقبال ہوا ۔ یہ استقبال ’’ریڈ کارپیٹڈ‘‘ تھا ۔کھلاڑیوں کو گارڈ آف
آنر پیش کیا گیا اور منوں کے حساب سے پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔ ہر
ایئرپورٹ پر ’’کرکٹ دیوانوں‘‘ کا جمِ غفیر نظر آیا ۔ وزیرِاعظم صاحب کی طرف
سے ہر کھلاڑی کے لیے ایک کروڑ روپے انعام کا اعلان کیا گیا ۔ یہ سلسلہ ابھی
شروع ہوا ہے اور یقیناََ کئی دنوں تک جاری بھی رہے گا کیونکہ میدان خواہ
کوئی بھی ہو ، جب ہم بھارت کو شکست سے دوچار کرتے ہیں تو ہمارا قومی و ملّی
جذبہ اپنی انتہاؤں کو چھونے لگتا ہے اور پوری قوم متحد ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ
ہے کہ ہمارے نیوزچینلز ابھی تک ’’کرکٹ بخار‘‘ میں مبتلاء ہیں۔
اِس جیت پر ہمارا ارسطوانہ ذہن عجیب و غریب خیالات کی آماجگاہ بن گیا ۔ ہم
نے سوچاکہ پاکستان نے 1992ء میں ماہِ رمضان میں ورلڈ کپ جیتا اور پچیس سال
بعد 2017ء کو ماہِ رمضان ہی میں چیمپینز ٹرافی جیتی۔ تَب بھی نواز شریف ہی
وزیرِاعظم تھے اور اب بھی وہی ہیں ۔92ء کی فتح کو جواز بنا کر کپتان عمران
خاں وزارتِ عظمیٰ کے اُمیدوار بنے ۔ اب اگر 2017ء کی فتح کو جواز بنا کر
کپتان سرفراز احمد بھی وزارتِ عظمیٰ کی دوڑ میں شامل ہو گئے تو بیچاری
نوازلیگ کا کیا بنے گا؟۔ اُس سے تو ایک کپتان ہی سنبھالا نہیں جا رہا ،اگر
دو ،دو کپتان ہوگئے اور دوسرے کپتان نے بھی پاناما لیکس جیسی کوئی پٹاری
کھول لی تو پھر نواز لیگ تو گئی ۔پاناما لیکس اب خالص سیاسی مسٔلہ بن چکا
ہے جس کے نتائج بھیانک بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ اب ایک دفعہ پھر امپائر کی
انگلی کھڑی ہونے کی باتیں ہونے لگی ہیں اور پیشین گوئیاں کرنے والے اپنے
فال نکالنے والے طوطوں کے زور پر حکومت کے جانے کی تاریخیں بھی دینے لگے
ہیں۔
پاناما پیپرز پوری دنیا میں افشا ہوئے لیکن جو تماشا پاکستان میں لگا ہے ،وہ
کسی اور ملک میں دیکھنے میں نہیں آیا۔ پہلے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے
معاملات کو دیکھا، پھر جے آئی ٹی بنی جسے ساٹھ دنوں کے اندر تحقیقات کرکے
رپورٹ پیش کرنے کے لیے کہا گیالیکن یہ جے آئی ٹی اپنے ابتدائی ایام ہی میں
متنازع ہو گئی ۔ سپریم کورٹ کا سہ رکنی بنچ جے آئی ٹی کی پشت پر ڈٹ کر کھڑا
ہے اور اُسے کھڑا ہونا بھی چاہیے کیونکہ یہ تحقیقاتی ٹیم اُسی کی منتخب
کردہ ہے لیکن جہاں سوالات اُٹھنے لگیں ،وہاں مدعا علیہان کی تشفی بھی بنچ
ہی کی ذمہ داری ہے ۔سب سے پہلے واٹس اَپ کال کا شور اُٹھا ۔ روزنامہ جنگ کے
انصار عباسی پوری تفصیل سامنے لے آئے لیکن اِس معاملے کو دبا دیا گیا ۔پھر
حسین نواز نے جے آئی ٹی کے دو ارکان پر اعتراضات اُٹھائے لیکن سپریم کورٹ
نے جے آئی ٹی کو کام کرتے رہنے کا حکم صادر فرمایا حالانکہ پاکستان میں یہ
عام ہے کہ اگر کسی کی تفتیش پر اعتراض ہو تو ’’تفتیشی ‘‘ کو بدل دیا جاتا
ہے لیکن یہاں ایسا نہیں ہوا۔حسین نواز کی تصویر لیک ہونے کے بعد ’’فوٹولیک‘‘
اور آڈیووڈیو ریکارڈنگ روکنے کی متفرق درخواستوں پر عدالتِ عظمیٰ نے اپنے
حکم نامے میں کہہ دیا کہ قانون جے آآئی ٹی کو آڈیو وڈیو ریکارڈنگ سے نہیں
روکتا ۔ تصویر کے لیے کمیشن بنانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ
آڈیووڈیو ریکارڈنگ بطور ثبوت پیش نہیں کی جاسکتیں، پاکستانی قوانین کے تحت
دستخط شدہ بیان ہی بطور شہادت استعمال ہوتا ہے ۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں
یہ بھی لکھا کہ بھارت سمیت کئی ممالک میں وڈیوریکارڈنگ کو بطور شہادت
استعمال کرنے کے لیے قانون سازی کی گئی ہے ۔ اِس لیے ضرورت اِس امر کی ہے
کہ دورِ جدید کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے آئینی ترامیم کی جائیں۔
دَست بستہ عرض ہے کہ پاکستان میں آڈیووڈیو ریکارڈنگ کو بطور شہادت استعمال
کرنے کے لیے تاحال کوئی آئینی ترمیم نہیں کی گئی ۔اٹارنی جنرل اوشٹراوصاف
بھی آڈیووڈیو ریکارڈنگ کو غیرقانونی قرار دے چکے ہیں ،اِس لیے جے آئی ٹی کی
موجودہ آڈیووڈیو ریکارڈنگ تو بہرحال غیرقانونی ہی کہلائے گی ،خواہ وہ ٹرانس
کرپٹ کی درستی کے لیے ہو یا کسی اور مقصد کے لیے ۔ویسے بھی حسین نواز کی
تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کا سبب یہی ریکارڈنگ ہے ۔بنچ کے سربراہ
محترم جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ جس شخص نے درخواست گزار حسین نواز کی
تصویر لیک کی ہے ،اُس کی نشاندہی ہو چکی ہے اور اُس کے خلاف کارروائی بھی
ہو چکی ہے ۔اُنہوں نے فرمایا کہ اگر اٹارنی جنرل چاہیں تو تصویر لیک کے
حوالے سے جے آئی ٹی کا جواب پبلک کیا جا سکتا ہے ۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ
اُنہیں کوئی اعتراض نہیں لیکن اِس رپورٹ میں اُس شخص کا ذکر نہیں کیا گیا
جس نے تصویر لیک کی۔
جے آئی ٹی نے کہا کہ تصویر لیک کرنے والے کی نشاندہی ہو چکی اور اُس کے
خلاف کارروائی کرتے ہوئے اُسے واپس اُس کے ادارے میں بھیج دیا گیا ۔معزز جج
صاحبان نے اِس کی تصدیق بھی کر دی۔ گویا تصویر لیک کرنے والے کو مجرم
گردانا گیا ،اَسی لیے تو اُس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی۔ اب سوال
یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی ایسی مجبوری ہے جس کے تحت معزز بنچ اور جے
آئی ٹی ایک ’’مجرم‘‘ کا نام ظاہر کرنے سے ہچکچارہے ہیں۔ کیا وہ شخص یا
ادارہ اتنا ہی طاقتور ہے کہ اُس کا نام منظرِ عام پر نہیں لایا جا سکتا ؟۔
عرض ہے کہ حسین نواز کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونا اور پھر بڑے اہتمام
سے اُسے اخبارات کی زینت بنایا جانا ہمارے نزدیک معمولی معاملہ نہیں اور
اِسے کسی بھی صورت میں نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے ۔ کیونکہ اگر یہ رسم
چل نکلی تو پھر سوشل میڈیا پر وہ طوفانِ بدتمیزی بپا ہو گا جس کا تصور بھی
نہیں کیا جا سکتا۔ پھر شرفا کی پگڑیاں اچھالی اورعزت ووقار کی دھجیاں
اُڑائی جائیں گی ۔معزز جج صاحبان خوب جانتے ہیں کہ ہماری اخلاقی اقدار کی
پامالی کا واحد ذمہ دار سوشل میڈیا ہے جہاں کچھ مادر پِدر آزاد لوگ جعل
سازی سمیت ہر حربہ استعمال کرتے ہوئے شرفا کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔
اِس لیے یہ ضروری ہے کہ حسین نواز کی تصویر لیک کرنے والے شخص کا نہ صرف
نام منظرِعام پر لایا جائے بلکہ اُسے قرار واقعی سزا بھی دی جائے۔
|