جنگ آزادی گلگت بلتستان وکشمیر، انکشافات و حقائق

حق نواز صاحب نے کتاب کے نئے ایڈیشن میں اس دور(1947) کے ریکارڈ سے کنگال کر سرکاری عمال کے خط و کتابت کے کچھ عکس دیے ہیں۔ان میں میجربروان وغیرہ کی تصریحات ملتی ہیں قاضی عبدالرزاق کے حوالے سے۔ان کو یہ ریکارڈ ڈپٹی ہائی کمشنریونائٹڈ کنگڈم کی پشاور دفتر سے ملا۔۔جس میں میجربراون، کیپٹن میتھی سن وغیرہ کی دستاویزات ہیں۔ایک لیٹر میں لکھا گیا کہ ’’گلگت میں ایک متشدد اور کٹر مولوی ہے جس استعمار کے نمائندہ کو قتل کرنے کے لیے عامۃ الناس کو اکساتا ہے‘‘یہی وہ مولوی ہے جس سے دنیا قاضی عبدالرزاق ، خطیب جامع مسجد گلگت، اور گلگت کی مقامی آبادی ’’گلمتی استاد‘‘ نام سے جانتی ہے۔ایک طویل عرصہ یہی گلمتی استاد گلگت میں تمام مکاتب فکر کا مرجع رہا۔اہل تشیع کے روحانی پیشوا شیخ کثیر نجفی اور گلمتی استاد کا بہت ہی یارانہ تھا۔اس حوالے سے محترم شیرباز برچہ کے پاس بڑی تفصیلات ہیں۔کہ اس زمانے میں مختلف مسالک کے علماء و مشائخ کس طرح ربط و تعلق رکھتے تھے۔انگریز استعمار کی دشمنی گلمتی استاد، یعنی قاضی عبدالرزاق صاحب دارالعلوم دیوبند سے ہی سمیٹ کر لائے تھے۔حضرت مدنیؒ نے اپنے تلامذہ کے دل و دماغ کو استعمار اور ان کے ایجنٹوں کی دشمنی سے بھر دیا تھا۔اور اگر جنگ آزادی کے دوران صوبیدارمیجر شاہ رئیس خان اورکیپٹن بابر مداخلت کرکے بچ بچاو نہ کراتے تو قاضی عبدالرزاقنے گلگت میں موجود استعمار کا نمائندہ میجر براون کو انجام تک پہنچایا ہوتا۔

کتاب ’’جنگ آزادی گلگت بلتستان وکشمیر، حقائق و انکشافات‘‘ کا ٹاٹئل

علم و ادب کے حوالے سے بلتستان کسی تعارف کا محتاج نہیں۔میں نے کئی لوگوں سے بلتستان کو ”چھوٹا لکھنؤ” کہتے ہوئے بھی سنا ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے اکثر اہل علم و قلم سے میری دوستی ہوتی گئی ہے۔ اس میں بلارنگ و نسل اور بلامسلک و مذہب ہر قلم کار، محقق اور علم دوست انسان سے بہت کم عرصے میں تعلق بنانے میں کامیابی ملی ہے۔گلگت بلتستان کے کئی جید مصنفین اور قلم کاروں نے اس ناچیز کو اپنی کتابیں بطور ہدیہ عطا فرمائیں ہیں۔ اللہ ان کو جزائے خیر دے۔ میں نے حسب توفیق ان عطاکردہ کتابوں کو پڑھ کر ان پر تعارفی تبصرے بھی لکھے ہیں۔یہ ذہن میں رہے کہ تعارفی تبصروں اور تنقیدی وتجزیاتی جائزوں میں بڑا فرق ہوتا ہے۔

اسی طرح تین نئی کتاب مولانا حق نواز صاحب بلتی کی طرف سے بھی موصول ہوئی ہیں۔حق نواز صاحب کا تعلق بلتستان اسکردو سے ہے۔ ایک چلتا پھرتا علمی انسان ہیں۔ان کی ملنساری کی وجہ سے ان کے بہت سارے مشکل کام بھی آسان ہوجاتے ہیں۔ خوبصورت بلتی لہجے میں اردو بولتے ہیں۔ان کی پہلی کتاب اسکردو سے ترکی تک کا سفرنامہ ہےاس کا نام ”خلافت اسلامیہ سقوط و احیاء، تاریخ کے تناظر میں ” ہے۔یہ ایک دلچسپ کتاب ہے ۔ اس سفر کا اہتمام خبیب فاؤنڈیشن نے کیا تھا۔ اس کتاب میں حق نواز صاحب نے ترکی کا موجودہ سیاسی نظام،خلافت ربانیہ، احترام خلافت، خلافت عثمانیہ و عباسیہ، صلیبی جنگ،خلافت کا خاتمہ، جمہوریت کا قیام، نجم الدین اربکان، طیب اردگان، اس کی سیاسی و معاشی پالیساں، دینی و فلاحی سرگرمیاں،مثالی حکومت اور ترکی میں اسلامی احباء کے محرکات جیسے اہم اور ضروری موضوعات پر دلنشیں گفتگو کی ہے۔اس سفر میں حق نوا ز کے ساتھ خطیب مرکزی جامع مسجد گلگت و رئیس جامعہ نصرۃ الاسلام مولانا قاضی نثاراحمد اور مفتی عارف (خبیب فاؤنڈیشن والا) بھی شریک سفر تھے۔ کتاب میں سفری امور اور باہمی گفتگو کو بھی بلاکم وکاست بیان کرکے سفر کی اصلی چاشنی بھی برقرار رکھی گئی ہے۔اس کتاب کے اندر اسماعیلیت اور آغاخانیت کی تاریخ و مذہب پر مفصل بحثیں پائی جاتی ہیں۔یہ کتاب سفر نامہ کم مختلف مسالک و مذاہب کی تعارفی کتاب زیادہ لگتی ہے۔کتاب میں چودہ دن کی سفری روئیداد بھی بیان کی گئی ہے۔ مولانا روم اور شمس تبریزی کے باطنی تعلق کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔بہر صورت رنگارنگ بحثوں پر مشتمل اس کتاب کو زبیر پبلی کیشنز بلتستان نے شائع کیا ہے۔ اس کے 256صفحات ہے، ترکی کے اہم مقامات کے رنگین تصاویر بھی کتاب کا حصہ ہیں۔ ڈیزائنگ اور کاغذ بہت ہی معیاری ہے۔

دوسری کتاب ”فریڈم فلوٹیلا، آزادی کا بیڑا” ہے۔ یہ کتاب بنیادی طور پر خبیب فاؤنڈیشن کے چیئرمین جناب ندیم احمد خان صاحب کی سفری روئیداد ہے جو 2010ء میں انہوں نے مظلوم فلسطینوں کی مدد و نصرت کے لیے کیا تھا۔ سفر کی روائیداد انہوں نے مولانا حق نواز صاحب کو خود سنائی اور ریکارڈ کروائی۔اس کتاب میں اسرائیل اور مسلمانوں کی کشمکش اور مسلمانوں کی فلسطینیوں کے ساتھ محبت و عقیدت کو سلیس انداز میں بیان کیا گیا ہے۔فیکٹ پبلی کیشنز لاہور نے اس کتاب کو شائع کیا ہے۔

حق نواز صاحب کی تیسری اور بہترین کاوش ”جنگ آزادی گلگت بلتستان کشمیر، سازشیں و حقائق” ہے۔پورے خطے میں یہ کتاب اپنی نوعیت کی انوکھی کتاب ہے۔ اس کتاب میں بہت سے پوشیدہ گوشوں پر مفصل روشنی ڈالی گئی ہے۔ کتاب کے عنوانات سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ کتاب بالکل نئی طرز کی ترتیب دی گئی ہے۔چند اہم عنوانات سے آپ کو بھی روشناس کراتے ہیں۔ جنگ آزادی گلگت بلتستان کشمیر سازشیں اور حقائق کے عنوان کے تحت میجر براؤن، جنگ آزادی کے حوالے سے علمائے کرام کے کردار کو نظر انداز کرنے ، علمائے کرام کا جہاد کے حق میں فتویٰ، فاضل دارالعلوم دیوبند(1939) جناب قاضی عبدالرزاق ؒ المعروف گلمتی استاد کا کردار، صوبیدار بابر اور قاضی کا تعلق و کردار،، جامع مسجد گلگت سے جہادآزادی کے حق میں فتویٰ، صوبیدار بابر خان اور قاضی عبدالرزاق کی ملاقاتیں اور انگریزوں کے خلاف جہاد کی کاوشیں وغیرہ کو بہت ہی مفصل بیان کیا گیا ہے۔سربکف سربلند: اس عنوان کے تحت کرنل حسن کی اور صوبیدار بابر کی ملاقاتیں اور کاوشیں، گھنسارا سنگھ کی گرفتاری اور پھر عنوان نوید انقلاب کےتحت بونجی گریژن اور گلگت اسکاوٹس کے مشترکہ کمان کی روئیداد ہے۔

سیکٹر دارس پر حملہ اور مولانا عبدالمنان کا شرعی فتوی اور اس کے اثرات، میجر براؤن کی گلگت میں اپنی حکومت بنانے کی کوشش، گلگت گریٹ گیم یا گریٹر گیم، لڑاو اور حکومت کرو میجر براؤن کی پالیسی، کرنل حسن خان کے خلاف برطانیہ کا منصوبہ، برطانوی جاسوس میجر براؤن کی ایمونیشن چوری کا انکشاف، اسکاوٹس کی تنظیم نو کی داستان، کرنل حسن اور قاضی عبدالرزاق کے تعلقات و اختلافات،اور ان دونوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوششیں،جنگ آزادی بلتستان، ڈوگرہ فوج پر حملے کی تیاریاں، چھورٹ بٹ کا محاذ، پدم پارٹی کی جرات وبہادری کی ناقابل یقین داستان، لارنس عربیہ سے لارنس ٹی ایس لارنس تک کے تعارف ، گھناونے اعمال اور گلگت بلتستان کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی سازشیں، قائد بلتستان وزیر غلام مہدی کے خلاف سرخ پوشوں کی سازشیں، راجہ اسکردو محمد علی شاہ کا تاریخی فیصلہ،شیعہ اسٹیٹ قائم کرنے کے منصوبے کے حوالے سے کرنل حسن کے خط کی حقیقت،یعنی کہ یہ خط جعلی تھا یا اصلی، جیسے بہت سارے نئے موضوعات پرابحاث موجود ہیں۔

اس کتاب میں ٹوٹل 27 عنوانات ہیں اور ان عنوانات کے ذیلی عنوانات قائم کرکے مختلف امور بھی گفتگو کی گئی ہے۔ان کے مطالعہ سے بہت ساری نئی چیزوں کا انکشاف ہوجاتا ہے۔ بہتر ساری باتیں تو سنسنی خیز انکشافات پر مبنی لگتی ہیں جن کا پہلے کسی کتاب میں تذکرہ نہیں ملتا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اب تک لکھی جانی والی کتابوںمیں اہل سنت علماء اور رہنماوں کا کوئی خاص ذکر نہیں ملتا بلکہ کہیں ملتا ہی نہیں۔

ذاتی طور پر مجھے ایک قلق ہوا کہ قاضی عبدالرزاق ؒ اور مولانا عبدالمنان غازی کی دینی خدمات اور جنگ آزادی کے حوالے سے ان کی کاوشوں اور کوششوں اور سرفروشان اسلام کے حوالے سےمعلومات کافی پہلے میں نے مصدقہ ذرائع سے منظر عام پر لایا تھا جو کئی رسائل میں شائع بھی ہوئے اور میری کتاب مشاہیر علمائے گلگت بلتستان کا حصہ بھی ہیں ، ان تفصیلات کو کتاب میں پایا لیکن کتابیات میں اپنا کوئی نام نشان بھی نظر نہیں آیا اور نہ ہی درمیان میں کوئی اشارہ۔اس کتاب میں کرنل حسن اور قاضی عبدالرزاق ؒ کا تعلق وربط میں کچھ مبالغہ کیا گیا ہے۔تاہم حق نواز صاحب کی یہ کاوش بہت ہی اچھی ہے کہ انہوں نے بنیادی ذرائع یعنی سرکاری ریکارڈ اور جنگ آزادی کے دور کے بزرگوں اور نوجوانوں سے مواد حاصل کیا ہے۔یہ دونوں بنیادی ذرائع ہوتے ہیں۔ کتاب میں ان دونوں ذرائع سے کام لیا گیا ہے۔بہت سارے مقامات پر اہم انکشافات تو ہیں لیکن کوئی حوالہ نہیں اور نہ ہی حوالے کی طرف اشارہ ہے۔مجھے تو یہ باتیں الہامی لگتی ہیں۔میں یہ کہنے میں حق بھی بجانب ہوں کہ ’’ جنگ آزادی گلگت بلتستان وکشمیر، انکشافات و حقائق‘‘ کے منظر عام پر آنے سے بہت ساری تحقیقات کا رخ بدل جائے گا۔جنگ آزادی کے حوالے سے اہل سنت علماء و مشائخ اور لیڈروں کا کردار اب تک دانستہ یا غیر دانستہ پوشیدہ رکھا گیا تھا جس کو حق نواز صاحب نے طشت ازبام کردیا۔اور تو اور قاضی عبدالرزاق جیسے مرد حریت کا نام و کردار بھی تاریخ کی کتابوں میں اوجھل تھا۔ یہ وہی مرد تھا جو گلگت میں استعمار کا سب سے بڑا دشمن تھا۔انہوں نے ہی استعمار کے نمائندوں اور ایجنٹوں کو قتل کرنے کا فتویٰ جاری کیا تھا اور جامع مسجد گلگت سے آزادی گلگت بلتستان کے لیے جہاد کا اعلان کیا تھا۔یہی مجاہد برٹش استعمار کی راہ میں کانٹا بنا ہوا تھا، اور ڈوگرہ فوج و سرکاری عمال بھی اسے خائف تھے۔

حق نواز صاحب نے کتاب کے نئے ایڈیشن میں اس دور(1947) کے ریکارڈ سے کنگال کر سرکاری عمال کے خط و کتابت کے کچھ عکس دیے ہیں۔ان میں میجربروان وغیرہ کی تصریحات ملتی ہیں قاضی عبدالرزاق کے حوالے سے۔ان کو یہ ریکارڈ ڈپٹی ہائی کمشنریونائٹڈ کنگڈم کی پشاور دفتر سے ملا۔۔جس میں میجربراون، کیپٹن میتھی سن وغیرہ کی دستاویزات ہیں۔ایک لیٹر میں لکھا گیا کہ ’’گلگت میں ایک متشدد اور کٹر مولوی ہے جس استعمار کے نمائندہ کو قتل کرنے کے لیے عامۃ الناس کو اکساتا ہے‘‘یہی وہ مولوی ہے جس سے دنیا قاضی عبدالرزاق ، خطیب جامع مسجد گلگت، اور گلگت کی مقامی آبادی ’’گلمتی استاد‘‘ نام سے جانتی ہے۔ایک طویل عرصہ یہی گلمتی استاد گلگت میں تمام مکاتب فکر کا مرجع رہا۔اہل تشیع کے روحانی پیشوا شیخ کثیر نجفی اور گلمتی استاد کا بہت ہی یارانہ تھا۔اس حوالے سے محترم شیرباز برچہ کے پاس بڑی تفصیلات ہیں۔کہ اس زمانے میں مختلف مسالک کے علماء و مشائخ کس طرح ربط و تعلق رکھتے تھے۔انگریز استعمار کی دشمنی گلمتی استاد، یعنی قاضی عبدالرزاق صاحب دارالعلوم دیوبند سے ہی سمیٹ کر لائے تھے۔حضرت مدنیؒ نے اپنے تلامذہ کے دل و دماغ کو استعمار اور ان کے ایجنٹوں کی دشمنی سے بھر دیا تھا۔اور اگر جنگ آزادی کے دوران صوبیدارمیجر شاہ رئیس خان اورکیپٹن بابر مداخلت کرکے بچ بچاو نہ کراتے تو قاضی عبدالرزاقنے گلگت میں موجود استعمار کا نمائندہ میجر براون کو انجام تک پہنچایا ہوتا۔

بہرصورت مجموعی طور پر یہ کتاب انتہائی دلچسپی کے حامل ہے۔اس کے 332 صفحات ہیں۔ معیاری کاغذاور جلد ہے۔ کتاب کی ڈیزائنگ بھی کمال کی ہے، سائز بھی درمیانہ ہے۔ کتاب میں بہت ساری تصاویر ہیں جن میں کچھ تحریرات کے عکسی نمونے، قدیم جگہوں اورعمارتوں کی تصاویر خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔یہ کتاب پہلی اگست 2016ء میں زبیر پبلیکشنز اسکردو سے پبلش ہوئی ہے۔گلگت بلتستان اور اسلام آباد کے کتب خانوں میں دستیاب ہے۔اور دوسرا رنگین ایڈیشن بھی شائع ہوکر مارکیٹ میں آیا ہے۔

گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے جدید تعلیم یافتہ احباب سے گزارش ہے کہ حق نواز صاحب کی کتاب ”خلافت اسلامیہ سقوط و احیاء :تاریخ کے تناطر میں” اور جنگ آزادی گلگت بلتستان سازشیں و حقائق” کا ایک دفعہ ضرور مطالعہ کریں، مجھے امید ہے کہ یہ کتابیں آپ کا کچھ نہیں لیں گی بلکہ آپ کو بہت کچھ دیں گی اور آپ کواز سر نو اپنی فکر و نظرکو ترتیب دینے پر مجبور کریں گی اور شاید بہت سارے مبہم سوالات کے جوابات بھی ملیں گی اور بہت سارے سوالات مزید پیدا ہونگے جن پر تحقیق کرنے کی اشد ضرورت ہے اور اب تاریخ پر تحقیق ایک نئے انداز میں آگے بڑھے گی۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

 

Amir jan haqqani
About the Author: Amir jan haqqani Read More Articles by Amir jan haqqani: 446 Articles with 434052 views Amir jan Haqqani, Lecturer Degree College Gilgit, columnist Daily k,2 and pamirtime, Daily Salam, Daily bang-sahar, Daily Mahasib.

EDITOR: Monthly
.. View More