عالمی اور ملکی سطح پر مسلمانوں کے بگڑتے حالات کو دیکھ
دیکھ اللہ تعالیٰ کے فرمان:''یقین جانو کہ اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک
نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے حالات میں تبدیلی نہ لے آئے''۔(سورۃالرعد
آیت نمبر11)کی طرف ذہن متوجہ ہوتا ہے کہ قومِ مسلم کیسی عمدہ قوم
تھی،کیاہی زندہ قوم تھی،پھر اس کو کیا ہوااور وہ کیوں غلام بن گئ،تو یہ
دنیابلا شبہ دارالاسباب ہے اور یہاں وہی قوم ترقی کرتی ہے اور کرسکتی ہے جو
اپنے معاملات ومعاشرت اوراخلاقیات میں تبدیلی لاتی ہے.اپنے ماضی سے سبق
حاصل کرتی ہے اور مستقبل کے لیےمینارہ نور تعمیر کرتی ہے اور اپنی تہذیب
وثقافت اور تاریخ کو زندہ رکھتی ہے.تاریخ میں ایسے ہزاروں قصے موجود ہیں،جب
قومیں اپنی کالی کرتوتوں کی بنا د پر صفحہ ہستی سے مٹادی گئیں؛قومِ نوح،
قومِ صالح، قومِ ھودوثمود اس کی واضح مثال ہے اور قرآن کریم میں ان قصوں کے
ذکرکرنے کا مقصد بھی ان قوموں سے عبرت حاصل کرنا ہے،ورنہ تو قرآن کوئ قصۂ
و کہانی کی کتاب تھوڑی ہے.
ظہورِاسلام سے قبل اس دنیا پر مجوسی،عیسائ اور یہودی قوموں کابڑا رعب
ودبدبہ تھا، لیکن ان کی زندگی چونکہ انسانی فطرت کے خلاف تھی، دستورِحیات
اور اصولِ فطرت کی دھجیاں اڑچکی تھیں،تواللہ تعالیٰ نے ان کو مغلوب ومفتوح
بنادیااور تاریخ گواہ ہے کہ جن خوبیوں کی بنیاد پر اسلام نے ان پر فتح حاصل
کیا تھا،جب مسلمانوں نے ان بنیادوں کو مسمار کردیا،اپنی تہذیب وثقافت کو
طاق نسیان کی زینت بنادیا،معاشرت ومعاملات میں یہودونصاریٰ کو بھی پیچھے
چھوڑ دیا،تو وہی قوم اسلام کی انہی خوبیوں کو اپنا کر آج پھر سے دنیاکے افق
پر فتح ونصرت کاپرچم لہرارہی ہےاورمسلمان مذھبی نقطہ نظرسے حق پرہونے کے
باوجودملکی ومعاشرتی، اور ذہنی وجسمانی طور پر ان کے غلام بن چکے ہیں،بلکہ
شب وروزکےانقلابات در انقلابات نے آج مسلمانوں کو ایسے مقام پر لاکر
کھڑاکردیا ہے،جہاں سے نہ نیچے اترنا بنتا ہے اور نہ ہی ان کے آگے بڑھنے کے
لیے راستے ہموار ہیں۔آخر کیاوجہ ہے کہ عیسا ئیوں اور یہودیوں نے''ضالین اور
مغضوب علیھم ''کے باوجودمسلمانوں کا ناطقہ بند کررکھا ہے.اس کے پس منظرمں
اگرہم غورکریں،تو یہ احساس ہوگاکہ مسلمان معاملات ومعاشرت،اخلاق
وتعلیم،بلکہ تمام گوشہ ہائے زندگی میں ان یہودی اور عیسائیوں سے سیکڑوں سال
پچھے ہیں؛چنانچہ جب ہم بات کرتے ہیں، توجھوٹ بولتے ہیں،وعدہ خلافی کرتے
ہیں،ہماری زبانیں کھلتی ہیں تو لوگوں کی تحقیروتذلیل اور انہیں نیچادیکھانے
کے لیے.ہمارےمعاملات میں ہر طرح کی دھوکہ دھری،ناجائزمنافعہ اور رشوت کی
آمیزش ہوتی ہے اوراخلاقیات کا یہ عالم ہے کہ اللہ کی پناہ! ہمارا دل دوسروں
کے تئیں بغض وحسد اورکینہ وکپٹ کی گویا دوکان بن گا ہے.اس کے مقابلہ میں
اگرآپ یہودی اور عسائیوں کے معاملات ومعاشرت کا جائزہ لیں،تودونوں میں
آسمان وزمین کی دوریاں نظر آئیں گی اور جب یہ دنیا دارالاسباب ہےاور اللہ
نے جن صفاتوں کی بنیاد پر کامیابی کا ضمان لیا ہے، ظاہر ہے جو قوم بھی ان
صفات کو اپنائے گی وہ ضرور فتح یاب ہوگی.ہم اپنے اخلاق کا اندازہ اس واقعہ
سے بھی لگاسکتے ہیں کہ کسی مسلمان نے ایک عیسا ئ سے کوئ معاملہ طے کیا.کام
مکمل کرلینےکے بعدوہ اس عیسائ کے پاس گیااور اپنی اجرت کا مطالبہ کیا.وہ
ٹال مٹول کرنے لگا،بلکہ ایک دن اس نے اس کا حق دینے ہی سے انکارکردیا،وہ
مسلمان اس کی شکایت لے کر اس کے مذھبی رہنماپادری کے پاس گیا کہ فلاں نے
ہمارا حق دبا لیا ہے اور دینے سے انکارکررہا ہے،تواس پادری نے ایک پرچی پر
کچھ لکھ کراس کو دیااور کہا کہ اس کو لے کر جاؤ،وہ تمہاراحق تمہیں لوٹادے
گا.بہرکیف وہ پرچی لیتا ہوا اس کے پاس آیا اور اپنی اجرت کا مطالبہ کیا. اس
نے پرچی کھول کردیکھا اور پھر بلا حیل وحجت کے جتنے میں وہ معاملہ طے ہوا
تھا، اتنی مقدار درج سے پیسہ نکال کر اس کو دینے لگا،اب وہ مسلمان اس کو
لینےسے انکار کرنے لگا کہ پہلے یہ بتاؤ کہ اس میں پادری نے آخر ایسی کون سی
بات لکھی تھی کہ تم بلاچون وچرا کے میرامال مجھے واپس کرنے پر مجبور ہوگئے؟
وہ ٹال مٹول کرتارہا،مگر جب ادھرسےاصرار بڑھتا ہی گیا،تو اخیر میں اس نے
درج سے وہ پرچی نکالی اور اس کو کھولتے ہوئے کہا کہ دیکھو پادری نے لکھا
تھا کہ: ''تم کب سے مسلمان بن گئے ہو''. یعنی لوگوں کا حق مارنا یہ تو
مسلمانوں کی صفت ہے، تم نے اس کوکب سے اپنالیا!
یہ حقیقت ہے کہ آج ہمارا اخلاق انتہائ حد تک گرچکا ہے،بلکہ اگر یہ کہاجائے
تو شاید مبالغہ نہیں ہوگا کہ اگر یہی واقعہ کسی مسلمان کے ساتھ
رونماہوتااورطلب گار کوئ عیسائ ہوتااور ہمارے سامنے حق والے کو اس کا حق
دینے کے بارے میں قرآن کریم کی کوئ آیت یاکوئ حدیث بھی پشس کی جاتی، توعجب
نہیں کہ ہم اس کا حق دینے سے انکارکردیتے!
اس قوم کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنے ماضی کو بالکل بھول چکی ہے.یہ
ان قصوں اور واقعات سے عبرت حاصل نہیں کرتی،جن کو پڑھ کر یہ اقوام فتح یاب
ہوئ ہیں.
تاریخ گواہ ہے کہ کبھی ہٹلر یہودیوں پر برق بے اماں بن کرٹوٹا تھا،تو اس کی
نسل ہا نسل کو ہلاک وبرباد کردیا تھا.اس نے تقریباًایک کروڑ دس لاکھ
انسانوں کا قتل عام کیاتھا، جن میں یہودی ساٹھ لاکھ سے زیادہ تھے.مگران کی
کامیابی تودیکھیے کہ دنیا کے نقشہ میں گرچہ اس کی کوئ واضح نشانی نہیں
ہے؛مقبوضہ اسرائیل کا کل رقبہ ہی تقریبا22,072 مربع کیلو میٹر ہے. جبکہ
پوری دنیامیں یہودیوں کی کل تعداد 14.31 ملین ہی ہے.اس کے باوجود آج پوری
دنیا اس کی مٹھی میں ہے.امریکہ جیسی سوپرپاورحکومت بھی اس کی مرضی کے بغر
کہیں زورآزمائ نہیں کرسکتی.اس کے بالمقابل پوری دینامیں پچاس سے زاید مسلم
اور مسلم اکثریت والے ممالک ہیں اور مسلمانوں کی تعداد تقریبا 2.18 بلین ہے
اور ایران وپاکستان کے پاس تو ایٹمی طاقت بھی ہے،مگرپھر بھی ہم مجبور
ہیں.دنیاکے کسی گوشہ میں ہماری عورتیں محفوظ نہیں،ہمارے بچوں کے ساتھ
اچھاسلوک نہیں کیاجاتا،ہمارے نوجوانوں کو شک کی نگاہوں سے دیکھا جاتاہے اور
جس کو جہاں موقع ملتا ہے وہ وہیں مسلمانوں پر برق بے اماں بن کرٹوٹ پڑتاہے
اورکوئ ہماری اس حالتِ زار پر آنسو بہانے والا بھی نہیں ہوتا!
ہماری یہ خوش فہمی ہی کہیے کہ ہم حق پر ہیں اور اپنے حق پر ہونے کے لیے
راتوں کو جلسے بھی منعقد کرتے ہیں.تخت شاہی پربراجمان ہوکرہمارے
علماوداعیان خوب چیختے بھی ہیں.قہوہ خانوں اور آفسزمیں ہمارے جذباتی
مسلمان امریکہ،اسرائیل اورآرایس ایس کو دل بھرکر کوس بھی لیتے ہیں اور
ہمارے سرپھرے نقاد اور تجزیہ نگار حالات حاضرہ پرجم کرتبصرہ بھی کرتے
ہیں،مگر جب عملی میدان میں نکل کر کام کرنے کی باری آتی ہے،تویہی لوگ سب سے
پہلے اسباب کے دامن میں اپنا منھ چھپاتے نظرآتے ہیں؛حالانکہ مخالفین کی
پوری توجہ ہماری شکست پر ہے اور ہم اپنی ساری توانائیاں ان کو اپنا دشمن
ثابت کروانے میں صرف کررہے ہیں، دشمنوں نے تو ہمیں ٹارگیٹ بناکر اپنی ساری
تیاریاں مکمل کی ہیں اور ہم آج تک لائحہ عمل تیارکرنے میں لگے ہیں.
یہ حقیقت ہے کہ آج جن بنیادوں پرہم اپنی عمارتیں تعمیرکررہے ہیں،کبھی منزل
مقصود تک نہیں پہنچ سکتے.ہمیں اپنا طریقہ کار بدلنا ہوگا،شب وروز کے
معمولات میں تبدیلی لاناہوگی،ورنہ اللہ کا نظام:''اگر تم منہ موڑو گے تو وہ
تمہاری جگہ دوسری قوم پیددا کردے گا، پھر وہ تم جیسی نہیں ہوں گے''۔(سورہ
محمد آیت نمبر:38)بھی ہے اور بغداد میں مسلمانوں کی سات سو سالہ شاندار
تاریخ،پھرتاتاریوں کایلغاراور مسلمانوں کی زبوں حالی اور پھرتاتاریوں کا
قبول اسلام اور اسلام کے تیئیں اس کی خدمات کی تاریخ کی مثال بھی ہے |