جو اماں ملی تو کہاں ملی ...
(Aisha mohsin, Melbourne)
|
حضرت علی کا قول ہے کہ "میں نے خدا کو
اپنےارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا"۔
میں نے ہمیشہ اس بات کی گہرائی کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن شاید اس
بات کے اندر جو بات ہے، میری ناقص عقل کی اس تک رسائی نہیں، بہرحال کم و
بیش یہ مفہوم سمجھ میں آیا ہے۔
کیا ہم خدائے بزرگ و برتر کو اس وقت تک پہچان نہی پاتے جب تک ہمیں کوئی
ٹھوکر نہی لگتی؟ کوئ دکھ نہی پہنچتا؟ یا جب تک ہم کوئ دھوکہ نہی کھاتے؟ یا
مختصرآ یہ کہ کچھ ایسا رو پذیر نہی ہوتا، جس کے ہونے کا ہمیں گمان تک نہیں
ہوتا؟
کیا یہ سچ نہیں کہ بارگاہ الہی میں اپنی دعا کے مقبول نہ ہونے کی صورت میں
ہی انسان پر آگہی کے دروا ہوتے ہیں؟
اور یہ کہ جہاں اپنی کم مائیگی، بے بسی اوراختیار کے محدود ہونے کا احساس
پختہ ہوتا ہے، وہیں اللہ رب العزت كےلا متناہی اختیارات اور بے پایاں طاقت
کا ادراک بھی ہوتا ہے۔
اپنے کسی بھی ارادے، خواب یا مقصدکی تکمیل کے لیے ہم بہت جذباتی ہوتےہیں،
اور ان کے حصول کے لیے اپنا وقت، جان، مال اور پیسہ لگانے سے بھی گریز نہیں
کرتے۔ اور جس سر گرمی اور جوش سے اپنی تمام تر توانائیاں اس خواب کے پورا
ہونے پرمرکوز كر دیتے ہیں، اس سے دگنی مایوسی کا شکار بھی ہو جاتے ہیں
بالفرض وه مقصدپائہ تکمیل پرنہ پہنچے تو۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس پوری کہانی میں جہاں دل شکنی ہونا نا گزیر ہے،
وہاں خدا کو پہچاننے کی صورت کس طرح پیدا ہوتی ہے؟؟
کہتے ہیں کہ دکھ انسان کو اپنے آپ سے و اصل کرتا ہے، جب کبھی میں اور آپ
کسی بھی دکھ یا کرب سے گزرتے ہیں، چاہے وہ کرب کسی توقع کے ٹوٹنے کا نتیجہ
ہو یا کسی خاص مقصد کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے ہو، ہم وقتی طور پہ ہی سہی
لیکن دنیا سے کنارہ کش ہو جاتےہیں۔ عین اس مقام پراپنی کم نصیبی اور احساس
زیاں سے سامنا ہوتا ہے، اورساتھ ہی خدائے لم یزل کی عظمتوں اورلا
محدوداختیارات سےبھی شناسائی ہوتی ہے، اور یوں انسان خدا کو جاننے کی پہلی
سیڑھی پر قدم رکھتا ہے۔
دراصل ، خدا کی صفات کو دل سے جاننا، سمجھنا، ماننا اورعقل کے استعمال سے
ان صفات کا اطلاق ہوتے دیکھنا خدا کو جاننے کی کوشش ہے۔ اوراس کو شش کا
بارآور ہو نا خدا کی رضا پہ منحصر ہے ۔
آج کل کے مادی دور میں ہم سب اسباب کے دھیان میں رہتے ہیں، اور لا محاُلہ
اس یقین کا شکار ہو جاتے ہیں کہ کسی بھی کام کا ہو جانا، اس کے متعلقہ
اسباب کی تشکیل اور ان کی پائداری پہ منحصر ہے، اور اسباب کے perfect ہونے
کے بقدر ہی اس مقصد كے کامیاب ہونے کا امکان ہے۔
بے شک یہ دنیا دار آلااسباب ہےاور اسباب کا اختیار کرنا ہمارے پیادے نبی صل
اللہ علیہ وآل وسلم سے ثابت ہے۔ مثال کے طور پہ، جب انسان بیمار ہوتا ہے تو
شفا من جانب اللہ ہی ہوتی ہے لیکن ڈاکٹر کے پاس جانا، دوا کا بروقت استعمال
اور احتیاط و تد بیر
سے کام لینا، سب اسباب اختیار کرنے کا ہی عمل ہے۔
اسباب ہیں وہ تمام وسیلے، وہ حیلے بہانے ، وہ references یا واسطے جن کا
ہونا ہمیں پراعتماد بناتا ہے، ان اسباب میں انسان کی عقل، شکل، صحت، دوست،
احباب ، رشتے ناطے سبھی شامل ہیں ۔
میرا خیال ہے کہ جب کبھی ان اسباب پر ہمارا اعتماد ضرورت سے زیادہ بڑھ جاتا
ہے، اسی قدر ان کی ہماری لئے افادیت میں کمی آنے لگتی ہے۔ اسکی وجہ؟ ہمارا
دھیان اورایمان خالق سے ہٹ کر مخلوق پہ جا ٹکتا ہے۔ یہ اسباب ، یہ
resources سب اللہ کے حکم کے پابند ہیں ، آرڈر اوپر سے آتا ہے۔ سوچیں کہ
ہاتھ بھرے ہوئے بھی ہوں، اور دامن دل پھر بھی خالی ہو تو یہ اسباب کس کم
کے؟!
اور جب ہاتھ خالی ہوں پر دل ایمان سے بھرا ہوا ہو تو بن ما نگے بھی ملتا
ہےاور بنا کسی اسباب کے بھی ملتا ہے۔
شاید ایسے ہی کسی وقت ، جب ہمارے ہاتھ اور دل اسباب کی محبت سےاتنا بھر
جاتے ہیں کہ مذ ید کچھ سمانے کی گنجائش ہی نہیں رہتی ۔۔ایسے ہی کسی وقت
آرڈر آجاتا ہے اور ارادے ٹوٹ جاتے ہیں ۔ ۔۔ ا
انسان اگر اس وقتی مایوسی کو خدا کی اپنے ساتھ بھلائ سمجھے تو بہتر ہے۔
کیونکہ هر وه تکلیف جو انسان کو خداے قریب کر دے، اس خوشی سے کہیں بڑھ کہ
ہے جو انسان کو خدا کے ہونے سے غافل کر دے۔۔۔
|
|