شش عیدی روزی اور اس کے مسائل

رمضان المبارک کا روزہ ختم ہونے کے بعد شوال کے چھ روزوں کی صحیح احادیث ترغیب ملتی ہے ۔ ان چھ روزوں کی بڑی فضیلت آئی ہے ۔ تزکیہ نفس، عمل پہ مداومت اور مسلسل عبادات مومن کی میراث ہے ۔جہدمسلسل کے ذریعہ بندہ معمولی عمل سے رب کو پالیتاہے اور اس کی رضا حاصل کرکے رحمت ومغفرت کا مستحق بن جاتاہے ۔ شوال کے چھ روزے بھی انہیں غنیمت کے اعمال میں سے ہیں اسے ہمیں لازم پکڑنا چاہئے ۔
شوال کے چھ روزے کی دیکھیں۔
عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ، - رضى الله عنه - أَنَّهُ حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ(صحيح مسلم:1164)
ترجمہ: ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیاکہ نبی ﷺ نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ ہمیشہ روزے رکھنے (کے ثواب)کی طرح ہیں۔
قرآن کے اس فرمان : مَن جَاء بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَمَن جَاء بِالسَّيِّئَةِ فَلاَ يُجْزَى إِلاَّ مِثْلَهَا وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ(الانعام :160)
ترجمہ: جو شخص نیک کام کرے اس کو اس کے دس گنا ملیں گے اور جو شخص برا کام کرے گا اس کو اس کے برابرہی سزا ملے گی اور ان لوگوں پر ظلم نہ ہوگا۔
کی روشنی میں پتہ چلتا ہے کہ ایک نیکی کا بدلہ کم ازکم دس نیکیاں ہیں اس طرح ایک مہینے کے روزے کا اجر دس مہینوں کے برابرہوا۔ اور شوال کے ہرروزے کے بدلے دس دن کا ثواب ، چھ روزوں کا بدلہ ساٹھ یعنی دومہینوں کا ثواب بنتاہے ۔ اس طرح شوال کے چھ روزوں کو رمضان کے ساتھ ملانے سے سال بھر کا ثواب ملتاہے ۔
ایک دوسری حدیث میں اس بات کی صراحت بھی ملتی ہے ۔ چنانچہ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
صِيامُ شهْرِ رمضانَ بِعشْرَةِ أشْهُرٍ ، و صِيامُ سِتَّةِ أيَّامٍ بَعدَهُ بِشهْرَيْنِ ، فذلِكَ صِيامُ السَّنةِ(صحيح الجامع:3851)
ترجمہ:رمضان کے روزے دس مہینوں کے برابر ہیں اس کے بعد چھ روزے دو مہینوں کے
برابر ہیں ، اس طرح سے پورے سال کے روزے بنتے ہیں۔
اس لئے اسے رکھنے کی کوشش کریں فضیلت بھی ملے گی اور بڑے فوائد بھی حاصل ہوں گے ۔ یہ گناہوں کی مغفرت ، تزکیہ نفس، رمضان کی کوتاہی کا تدارک ، شکر الہی کی غنیمت ، مداومت اعمال کا شوق اور اللہ کا پسندیدہ عمل ہے جس پہ دوام کیاگیا۔
کیا شوال کے روزے مکروہ ہیں؟
اس سلسلے میں امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ نے حدیث کی روشنی میں شوال کے چھ روزے رکھنا صحیح قرار دیا ہے مگر امام حنیفہ رحمہ اللہ نے اسے مکروہ کہاہے ۔ فتاوی عالمگیری اردو،کتاب الصوم کے تحت مذکور ہے۔"شوال کے چھ روزے رکھنا امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک مکروہ ہے خواہ جداجدا رکھے یا پے درپے رکھے"۔ امام مالک ؒ کی طرف بھی کراہت کا قول منسوب کیاجاتاہے ۔
ان دونوں اماموں کا مسلک صحیح حدیث کے خلاف ہے ، اس وجہ یہ بات رد کردی جائے اور ایسی کوئی بھی بات خواہ اس کا قائل کوئی بھی ہو سنت کے خلاف ہونے پہ دیوار پہ مار دے جائے گی جیساکہ امام مالک ؒ نے کہا بھی ہے ۔
نبی ﷺ کے سواباقی ہر انسان کی بات قبول بھی کی جاسکتی اور رد بھی۔﴿ارشاد السالک لابن عبدالہادی :1/227 ﴾
شوال کے چھ روزوں کے مسائل
٭ یہ روزے شوال کے مہینے میں ہی رکھنے ہوں گے خواہ مسلسل رکھے جائیں یا ناغہ کرکے ، دونوں صورتیں جائز ہیں کیونکہ اس سلسلے کی حدیث عام ہے۔
٭ جن کے اوپر رمضان کے روزوں کی قضا بیماری، سفریا حیض ونفاس کی وجہ سے ہو انہیں پہلے قضا روزے ادا کرنے ہوں گے کیونکہ قضا فریضہ ہے اور یہ نفلی ۔ فریضہ کونفل پہ تقدم حاصل ہے ۔
٭یہ روزہ نفلی ہے اس کے لئے بیوی کو شوہر کی اجازت لینے کی ضرورت ہے ، اگر شوہر منع کرے تو رک جائے ۔ اسی طرح حاملہ یا مرضعہ کے لئے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتو نہ رکھنا بہترہے۔
٭بعض لوگوں نے عید کے فوراً بعد روزہ رکھنا لکھا ہے حالانکہ اس میں وسعت ہے ، کچھ بعد بھی رکھ سکتے ہیں تاہم مستحب یہی ہے کہ رمضان سے ملاکر رکھے ۔
٭بعض لوگ ایک دو روزہ رکھ کے چھوڑ دیتے ہیں ، اس سے شوال کے چھ روزوں کی فضیلت نہیں مل پائے گی ۔ہاں اگر کوئی ایک دو روزہ رکھا اور بیمار پڑگیا ،مزید روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رہی تو ایسے بندوں کو اللہ تعالی مکمل اجر دے گا۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إذا مرضَ العبدُ ، أو سافرَكُتِبَ له مثلُ ما كان يعملُ مُقيمًا صحيحًا(صحيح البخاري:2996)
ترجمہ: اگر بندہ بیمار ہوگیا یا سفر درپیش ہوگیا تو اس کو اتنا ہی اجر ملے جتنا حالت اقامت اور تندرستی میں عمل کرتا تھا۔
٭ روزوں کے سلسلہ میں ایک بات یہ بھی یاد رکھنی ہے کہ نبی ﷺ نے صرف ہفتے یا صرف جمعہ کا روزہ رکھنا منع کیا البتہ ایک روزہ آگے یا پیچھے کرکے رکھاجاسکتاہے ۔ سوموار اور جمعرات کا اکیلا اکیلا روزہ نبی ﷺ سے ثابت ہے بلکہ بہت بہتر ہے کیونکہ اس دن اعمال اللہ کے حضور پیش کئے جاتے ہیں۔
٭ عید کے دن بھی روزہ رکھنا منع ہے اس لئے عید کے بعدسے روزہ رکھا جائے ۔
٭ بعض علماء نے لکھا ہے کہ جنہوں رمضان کا مکمل روزہ نہیں رکھا چاہے عذرشرعی کیوں نہ ہواسے شوال کے چھ روزوں کا ثواب نہیں ملے گا۔یہ رائے درست نہیں ہےکیونکہ حدیث رمضان کا مکمل روزے رکھنے کی بات ہے خواہ قضاکرکے مکمل ہو۔ اللہ تعالی بندوں پر آسانی کرنے والا ہے وہ عذرپہ مواخذہ نہیں کرتا اور عذر کی وجہ سے صحتمندی میں کئے جانے والے عمل کے برابر ثواب دیتا ہے ، اس لئے اللہ سے رحمت کی ہی امید کرنی چاہئے۔
٭ اگر رمضان کے بعض روزوں کی قضا باقی ہو تو ایک ہی نیت سے قضا اور شوال کے چھ روزوں کو جمع کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ شوال کے روزوں کی فضیلت ان کے لئے ہے جو رمضان کا مکمل روزہ رکھے ۔اس طرح پہلے وہ قضا رکھ کر رمضان کا روزہ مکمل کرے پھر شوال کے چھ روزے رکھے ۔
٭ ایام بیض کے ساتھ ایک نیت سے یہ روزہ رکھا جاسکتا ہے جیساکہ اہل علم نے لکھا ہے۔
٭ چھ روزے اگر شوال میں نہ رکھ سکے تو اس کی قضا دوسرے مہینوں میں نہیں ہے کیونکہ یہ روزہ شوال سے ہی متعلق ہے البتہ کسی نے بعض روزے رکھے مثلا پانچ اور ایک روزہ کسی عذر شرعی کی وجہ سے چھوٹ کیا تو بعد والے مہینے میں ایک مکمل کرلے اور اللہ تعالی سے رحمت کی امید رکھے ۔
Maqubool Ahmad
About the Author: Maqubool Ahmad Read More Articles by Maqubool Ahmad: 315 Articles with 312808 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.