جب آہِنی ڈیلر اورگڑھی کے مجاور جمہوری لیڈر بن گئے!!

’’جمہوریت ‘‘کے عنوان سے وطنِ پاک الم ناک عذابوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ جب مکروفریب کے عالمی چمپئن جمہوریت کے لبادے اوڑھ کربے خبر اورمعصوم رعایا کے محبوب راہ نما کہلائیں اورلوگ ان کے آگے پیچھے والہانہ رقص کرتے ٗ اُن کی عظمتوں کے نعرے لگانے میں مگن ہوں اورجھرلو جمہوریت اپنے کرتب دکھاتی جارہی ہو اورفلاں کا نواسہ ٗ نواسی ٗ فلاں بیٹی ٗفلاں کا داماد جمہوریت کی اعلیٰ ڈگریاں قرار پائیں ٗ جب حکمرانوں کے ذاتی کاروبار مفادات کی حفاظت کے لیے قومی خزانے پر پلنے والے وزیر ومشیر روزمرہ بنیادوں پرطبلچی بنے ہوئے ہوں ٗ جب قانون کی دنیا کے بقراط وسقراط ان حکمرانوں کو ہاتھ لگا کر اﷲ کے عذاب سے پناہ مانگنے کے سوا کر ہی کیا سکتا ہے۔افسوس صد افسوس کہ تاریخ کے صفحات پر اپنے قیام سے حیرت واستعجاب سے دنیا کو دانتوں میں انگلیاں دبائے دیکھنے والی عظیم ریاست آج ان عذابوں کے بوجھ تلے کراہ رہی ہے مگر ایک جانب شعبدہ باز حکمران نئے سے نئے شعبدے ایجاد کررہے ہیں تو دوسری جانب مجاوری کو تقدس ماٰ بی کا درجہ دینے کی چالیں چلنے کی دوڑ جاری ہے۔ پہلے والوں کی سب سے عظیم سیاسی ڈگری اورمیرٹ صرف یہ ہے کہ ایک دور کے غاصب حکمران کے بڑے چیلے کی جیبیں بھرنے کا شرف انہیں حاصل ہوا جب کہ دوسرے والوں کے پاس صاحبِ قبر کی دامادی کے سوا کچھ بھی مثبت کمال نہیں۔ یہ ہے مملکت خداداد اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے لمحہ موجود کی درد بھری داستان۔ وہ پاکستان جس کی پشت پر فکروعملِ اقبال کی نورانی گواہی ہے تو اس سے نجات پانے کے لیے حکمرانوں نے سال میں ایک دن ’’یوم اقبال ‘‘منانے کو بھی جرم قرار دے دیا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ ’’آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں‘‘کے مصداق ہر آنکھ بہت کچھ دیکھ رہی ہے مگر زبان پہ تالے پڑے ہوئے ہیں۔توہینِ عدالت ایک سنجیدہ عنوان تھا مگر یہاں تو وزیر ومشیروں کی زبانیں ایسی کھلی ہوئی ہیں کہ الاماں والحفیظ ۔ لگتا ہے لوہے والوں کے کوئی ’’چنا‘‘ایجاد کرکے اپنی پلٹن کے حوالے کردیا ہے کہ عمرانیوں کے دانتوں میں ڈال کر تماشہ دیکھو۔اسی طرح کسی کو ’’ٹوکا‘‘بنا کر دے دیا ہے کہ جاؤ قصائی ازم کی باتیں کرو۔ بے چارے نہال ہاشمی کو تو کوئی آہِنی حوصلہ ’[ایسا دے دیا گیا کہ سیاست میں نیا آہِنی اسلوب اختیار کرڈالا۔کسی کے پاس ’’آہِنی مونچھیں‘‘ہیں تو کسی کے پاس آہِنی ہتھوڑے بصورتِ الفاظ۔اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کو انتہائی ڈھٹائی سے دونوں ٹولے’’لبرل موروثیہ پاکستان‘‘بنانے پہ تلے ہوئے ہیں۔عید پڑھنے کے لیے بھی اسلام آباد ٗ لاہور کی بجائے لندن کی فضائیں اچھی لگتی ہیں۔ علاج کے لیے لندن کے ہسپتال اوررہنے کے لیے لندن کے فلیٹس۔ دونوں عظیم لیڈروں کی جائیدادیں دنیا کے ملکوں ملکوں میں لشکارے ماررہی ہیں۔ دبئی کے پلازے اورمحلات تو زبان زد عام قصے ہیں۔سوئس خزانہ اورسرے محل پرانے دور کے قصے ہیں اب تو ذوالفقار مرزا کے حلفی بیانات سے کچھ کچھ اندازے کیے جاسکتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے بیانات بھی ریکارڈ پر ہیں۔آج کل کمیشنوں اورجے آئی ٹیوں کی بات عام ہے۔ کیا کوئی کمیشن یا جے آئی ٹی ’’شریف جیلانی ڈیل‘‘اوردنیا بھر میں پھیلے ٗ حکمرانوں کے محلات ٗ خزانوں ٗ پلازوں کی تلاش کا قومی فریضہ سرانجام دے سکے گی۔دونوں پارٹیاں جو عملاًاپنے مالکوں کے اشاروں پر کام کرنے والی جماعتیں ہیں ٗ اُن کے دنیا بھر میں پھیلے خزانوں کی تلاش یقینا نیکی کا کام ہے اورویسے بھی خادم پنجاب اس قسم کے تاریخی بیانات جاری بھی کرتے رہے ہیں۔ ہمیں تو بارہا خیال آتا ہے کہ کیا جنرل جیلانی کو کھلائے گئے پیسے ابھی تک پورے ہی نہیں ہوئے کیا۔سندھ ہو یا پنجاب ٗ دونوں میثاقی بھائیوں کے مشترکہ مفادات کی ڈیل نے ملک کا برا حشر کردیا ہے۔ کراچی کوڑے کا ڈھیر بنادیا گیا اوربھٹو جس جاگیرداری نظام کو ختم کرنے کا نعرہ لے کر اٹھا تھا آج اس کے مجاوروں نے اس کی پارٹی کو سندھ کے جاگیرداروں کی پارٹی بنا کر رکھ دیا ہے۔ کراچی کا تو ’’لندن نشین‘‘بھارتی برطانوی ایجنٹ نے جو حشر کیا وہ اپنی جگہ حقیقت کو جھٹلا یا نہیں جاسکتاکہ پنجاب اوراندرون سندھ میں دونوں قابض سیاسی پارٹیوں کے پیروکاربھی بطور قومی مجرم کسی سے کم نہیں۔ جب ووٹروں کی بڑی تعداد کو منظم سازشوں سے ان پڑھ رکھا جائے ۔ کوئی شک نہیں کہ سب کچھ سامنے آجانے کے باوجود اگر کوئی مجاوروں یا آہِنی ڈیلروں کو ہی لیڈر سمجھنے پر تلا رہے اوران پر لپٹی جمہوری چادر کو سچ مچ جمہوریت مانتا رہے تو پھر یہی سیاست چلتی رہے گی اوراس کے فطری انجام سے ہم بچ نہیں سکتے۔آج افغانستان ٗ ایران ٗ عرب ممالک کے حوالے سے جو پیچیدہ فضائیں ہیں ٗ ایسے میں ہمارا عظیم الشان وزیر خارجہ جو کچھ کارنامے سرانجام دے رہا ہے ٗ کیا قوم کو دکھائی نہیں دے رہے۔عوام کو اس لائن پہ لگایا گیا ہے کہ اپنے سیاسی لیڈروں کی گویا’’پوجاپاٹ‘‘کی جاتی رہے اوربس۔ان کے بعد ان کی نسلوں اورپھر ان کی نسلوں کو پوجا جاتا ہے۔یہ کون سی جمہوریت ہے۔ جمہوریت اورموروثیت کیا ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں ۔ میڈیا گروپوں کی حکمرانوں سے سازباز کی خبریں عام طور پر سنی جاتی ہیں اوربڑے بڑے صحافی جب اپنے پروگراموں میں ’’ڈنڈی‘‘مارتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آجاتی ہے۔ادارے تباہ کرنے کا الزام سامنے ہے۔ اب تو آزاد شخصیات تک کو ملائم کردیا گیا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک محبوب ومحترم قانونی ہستی کو جب حکمران وقت کے مفادات کی حمایت کرتے سنا تو قرآن کا فرمان یاد آیا کہ ظالم کے ساتھ قدم ملانے والا بھی ظلم میں شریک ہوتا ہے۔ بہرحال قومی قیادت کے حوالے سے بقول اقبال’’زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن ‘‘کا منظرہے۔زمین خور ٗ خزانہ خور ٗ ہمہ خور قسم کے کردار قومی قیادت کے تاج سروں پہ سجائے ہیں۔ایسے میں انسان جو دیکھتا ہے وہ کیسے زبان پر لاسکتا ہے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ تاریخ کی کتاب اب سیاسی جمود کو توڑ کر صفحات بدلنا چاہتی ہے۔ سیاسی لیڈروں کی نئی صف بندی ہورہی ہے۔ مگر نسخۂ جیلانیہ سے سیاست میں داخل ہونے والے مسند قیادت پر فائز رہنے اوراپنی نسل کو فائز کرنے کے سوا کچھ اورسننے کو تیار نہیں۔ ایسے میں ہر باشعور پاکستانی ریاست سے اپنی محبت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے مقدور بھر کردار ادا کرے۔ ’’قدم بڑھاؤ/رقم بڑھاؤ نواز شریف‘‘سے اب قوم آگے نکلے۔ یہی تو جمہوریت اوربادشاہت میں فرق ہوتا ہے کہ آج کا حکمران کل تاریخ کے کوڑا دان میں ہوتا ہے۔ اصل میں ضیاء الحق دور میں ایک بہت بڑا ظلم بھی ہوا۔وہ یہ کہ کالجوں ٗ یونیورسٹیوں میں طلبہ یونین کے انتخابات ہوتے تھے جس سے سیاست وقیادت کو توانا خون میسر آتا تھا۔ آج کے سیاستدانوں میں شیخ رشید اس کی نشانی ہے۔ طلبہ یونینوں نے قومی قیادت میں جہانگیر بدر ٗ خواجہ سعد رفیق ٗ لیاقت بلوچ ٗ حافظ سلمان بٹ ٗ فرید پراچہ ٗ جاوید ہاشمی وغیرہ بے شمار افراد سیاست کے شعبے کو نصیب ہوئے مگر گزشتہ پچیس تیس سال سے یہ سلسلہ بند ہوچکا ہے۔اس دوران تعلیمی دنیا میں بہت بڑی تبدیلی بھی ہوگئی کہ قومی تعلیمی نظام کی بجائے تعلیمی کاروباری سلسلے تعلیم پر قابض ہوگئے۔ پورا نقشہ ہی بدل گیا اورسرمایہ دارانہ نظام اورسوچ کا جادو سرچڑھ کر بولنے لگا۔غرض سیاست میں مخلص ٗ دلیر ٗ باضمیر اورنظریاتی نوجوانوں کا داخلہ قصہ پارینہ بن گیا اور’’لفافہ گروپ‘‘یا جنرل جیلانی کی روحانی ذریت کا غلبہ ہوگیااورسیاست بدنام ہوکر رہ گئی۔دکانداروں اورمجاوروں نے سیاست کی دنیا ہی اجاڑ دی ۔ ایسے میں ’’میری بیٹی /میرا بیٹا‘‘ہی وزیر اعظم بنے گا کا منظردیکھ رہے ہیں ۔ آئیے وطن پاک کو سیاست پر قابض خباثت وکینسر سے بچائیں۔

Prof Rasheed Ahmed
About the Author: Prof Rasheed Ahmed Read More Articles by Prof Rasheed Ahmed: 48 Articles with 34060 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.