جب وہ نکلے تو ان کا رخ گھر کی طرف نہیں تھا یہ 1955
کا سال تھا پاکستان کو آزاد ہوئے ابھی آٹھ برس ہی گزرے تھے اور عبدالحق ایک
نو مسلم ، قابل ،محنتی اور دیانتدار نو جوان تھا جس نے مسعود صاحب کے کہنے
پر سول سروس کے امتحا ن میں حصہ لیا اور کامیاب بھی ہوا تھا ۔مسعود صاحب نے
اسے اپنے ہی ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت دلوائی تھی جس میں وہ ڈائریکٹر جنرل کی
پوسٹ پر تعینات تھے ،عبدالحق کا باپ اس کیلئے بہت کچھ چھوڑ گیا تھا اور اس
کے کامل ایمان کی وجہ سے بھی اﷲ تعالیٰ کی اس پر خاص عنایت تھی یہ ملازمت
اس کیلئے ایک مزدوری کی حیثیت سے تھی کیونکہ جتنا اسے زرمبادلہ اپنی زمینوں
سے آتا تھا یہ تنخواہ اس کے مقابل کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھی لیکن یہ سب اس
نے مسعود صاحب جنہیں وہ چچا جان کہتا تھا ان کیلئے اور نومولود وطن پاکستان
کی محبت میں کر رہا تھا ۔دونوں لارنس گارڈن پہنچ گئے ڈرائیور گاڑی میں ہی
بیٹھا رہا جبکہ دونوں اندر چلے گئے اور قریب ہی ایک بینچ کا انتخاب کر کے
بیٹھ گئے۔اس سے عبدالحق کے اندازے کی تائید ہو گئی کہ مقصد چہل قدمی نہیں
بلکہ اسے سمجھانا تھا ۔اور مسعود صاحب نے بھی بغیر کسی تمہید باندھے بات
شروع کر دی ۔دیکھو بیٹے یہ سول سروس ایماندار اور مخلص لوگوں کیلئے کانٹوں
کا بستر ہے اور بدعنوان لوگوں کیلئے پھولوں کی سیج ،میں تمہیں یہاں اس لیئے
لایا ہوں کیونکہ تمہیں سمجھانا میری ذمہ داری ہے ۔جو کچھ میں نے سیکھا وہ
تمہیں منتقل کرنا چاہتا ہوں ،میرے پاس تمہارے جتنی دولت تو نہیں لیکن الحمد
ﷲ! ،مجھے بھی اس ملازمت کی ضرورت نہیں تھی۔ابا جان اس وقت مجھ سے خفا ہوئے
تھے ۔اس وقت یہ ہندوستان تھا ،پاکستان بننے کے آثار کم از کم واضح ہر گز
نہیں تھے ۔لیکن میری راہنمائی اﷲ کر رہا تھا مجھے یقین تھا کہ پاکستان بنے
گا ،اور اﷲ میاں جانتا تھا کہ اس نئے ملک کو ،جس قدر افراتفری اور بدنظمی
ہوگی، اس کیلئے ایک منظم انتظامیہ کی اشد ضرورت ہو گی، جو تجربہ کار،
ایماندار اور مخلص افسروں پر مشتمل ہو ۔یہ سوچ کر ہم چند دوست اس طرف آئے ،حالانکہ
مسلمان ملازمت کو برا سمجھتے تھے ،بلکہ وہ تو انگریزی تعلیم کے بھی خلاف
تھے ۔آنے والے وقت نے ثابت کر دیا کہ قدرت راہنمائی کبھی غلط نہیں کرتی۔
میں نے انگریزوں کو بہت قریب سے دیکھا اور سمجھا ہے ۔وہ اپنے ملک کو اور
طرح سے چلاتے ہیں اور اپنی نو آبادی کو اور طرح ۔ہمارے ہاں انہوں نے دانستہ
کرپشن کو فروغ دیا یہاں انہوں نے بیوروکریسی کو افسر شاہی بنا ڈالا ۔کچھ تو
ان کی ضرورت تھی کہ وہ ہزاروں افسروں کے ذریعے کروڑوں کی آبادی پر حکومت
کرنا چاہتے تھے ۔یہاں ایک بنائے فساد تو پہلے سے تھی ،وہ یہ کہ یہاں ہندو
بھی تھے ،مسلمان اور سکھ بھی ۔نفاق کی صورت پہلے سے ہی موجود تھی ۔دوسرا
فساد انہوں نے اس کمزور اور کرپٹ بیورو کریسی کی شکل میں چھوڑا، جس کے
نزدیک اس سرزمین پر دو قانون مروج تھے ۔ایک آقاؤں کیلئے اور دوسرا غلاموں
کیلئے اورا نہیں انگریزوں نے عہدوں کی طاقت سے فائدہ اٹھانا بھی سکھا دیا ۔نذرانوں
کی رشوت ،خوشامد ،موقع پرستی ،مکاری اور سیاسی جوڑ توڑ ۔میں انگلستان میں
رہ کر دیکھ چکا ہوں ۔ وہاں یہ سب نہیں تھا ،جو یہاں ہے اور یہ انہوں نے
دانستہ کیا۔ یہاں جو لوگ معاشی طور پر کمزور ہوتے ہیں ،وہ اپنے اور اپنی
نسلوں کے مستقبل کو روشن بنانے کیلئے سول سروس کا رخ کرتے ہیں ۔یہاں عہدہ
اور اختیارات ملتے ہیں اور پھر انہیں کیش کرایا جاتا ہے غلط اور ناجائز کام
کئے جاتے ہیں درست اور جائز کاموں میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے دووجوہات کے تحت،
ایک اپنے سے بڑے افسروں کو خوش کرنے اور ان کی خوشامد کیلئے اور دوسرے عام
لوگوں سے مالی منفعت کیلئے ۔انہیں ملک و قوم کی بہتری سے کوی غرض نہیں صرف
چند برس کی ملازمت میں وہ معاشی طور پر مجھ جیسے لوگوں سے آگے نکل جاتے ہیں
،گاڑیاں ،بنگلے اور دولت کی ریل پھیل۔یہ تو بہتی گنگا ہے جس میں جسے موقع
ملتا ہے ،ہاتھ دھونے کیلئے نہیں نہانے کیلئے چلا آتا ہے ۔واقعی میں یہ بہتی
گنگا ہے اور سبھی اس میں نہانے کیلئے بے تاب ہوئے پھرتے ہیں ۔شاید اس کہانی
کی کوئی اہمیت نہ ہو لیکن عصر حاضر میں اگر اس پر غور کریں تو کچھ بھی بدلا
نہیں لگتا بلکہ پہلے سے بھی پیچیدہ اور بڑھ گیا ہے ۔ملک کے تین فیصد
کاروباری اور دولت مند لوگ کروڑوں لوگوں پر اپنی جھوٹی بادشاہت قام کرنے
کیلئے ہر ہتھکنڈہ استعمال کر رہے ہیں پھر چاہے وہ لوگوں کی زندگیوں سے ہی
کھیلنا کیوں نہ ہو ۔پاکستان میں بڑے بڑے معموں نے سر اٹھایا لیکن ان کا سر
کچل دیا گیا کیوں کہ پاکستانی بیوروکریسی آج بھی اسی بری لت ،لالچ میں لگی
ہوئی ہے جسے ملک و قوم سے کوئی غرض نہیں ! حال ہی میں پاناما کیس پر بننے
والی جے آئی ٹی کے بعد ملک میں ایک انتہائی شدید معاشی بحران آیا ہے جس کی
وجہ یہ ہے کہ چند نام نہاد شان کے مالک اور اصل میں لٹیرے یہی کاروباری لوگ
ہیں جنہوں نے سب کچھ ساکت کر دیا ہے نہ پیسا گردش کر رہا ہے اور نہ ہی
چھوٹے طبقوں کے کاروبار و روزگار چل رہے ہیں ،ان بڑے ٹائیکونز کو تو کروڑوں
سے بھی فرق نہیں پڑتا لیکن دو وقت کی روٹی کمانے والا کس قدر لٹ گیا ہے
انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ۔یوں لگتا ہے آنے والے وقت میں پاکستان ایک شدید
قسم کے معاشی ،سیاسی اور اقتصادی بحران سے دوچار ہونے والا ہے ۔ |