ہار کر جیتنے والے کو دستی کہتے ہیں

یہ غریب اور کمی کمین لوگ ہماری برابری کرنے کو اسمبلی تک پہنچ کیسے گئے ؟اس علاقے میں ہماری گرفت اتنی کمزور تھی تو اس کمی کمین کو اپنی پارٹی کی ٹکٹ کا لالچ دے دینا تھا کیوں نا وقت پر اچھا فیصلہ کیا گیا ؟ چلو کوئی بات نہیں اب اس کو ہماری داڑھ کے نیچے آنے دو پھر بتائیں گے کہ حکمران کیسے ہوتے ہیں اور حکومت سے پنگا لینا کتنا مہنگا پڑھ سکتا ہے -

پہلے دو پنگے بازوں کو کسی نہ کسی طرح اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ تھی مگر یہ غریب جس دن ہاتھ لگ گیا اس دن یہ روتا رہے گا مگر اس کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہو گا -

یہ دو حکومتی وزراء کی باتیں تھی جو جمشید دستی کےبارے میں کہی جا رہی تھی مگر وقت گزرتا گیا حکومت نے ہر طرح کے حالات میں لوگوں کا مقابلہ کیا مگر اپنے دشمنوں کو یاد رکھا ۔۔یاد رکھا کہ کون کون سا ممبر ہمارے حق میں اور کون ہمارے خلاف بولتا ہے پھر ایک دن مقامی ایم ۔این۔اے نے قانون کی ایک خلاف ورزی کی جو قابل ضمانت جرم تھا اور حکومتی ایماء پر اس کو دھر لیا گیا -

ایک کے بعد ایک کیس اور پھر کیسوں کی ایک لائن لگ گئی کس کس کیس میں ضمانت کرواتا ،جمشید دستی پھر حوالات میں بھیج دیا گیا -

قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہئے مگر اچکزئی صاحب جھوٹا اشٹام پیپر بنا کر آزادی کا نعرہ لگا سکتے ہیں کیونکہ وہ اپنے علاقے کی وڈیرے ہیں وہ کرتا دھرتا ہیں وہ حکومت سے اپنی مرضی کا فیصلہ کروا سکتے ہیں اچکزئی صاحب کا معاملہ جب میڈیا کی زینت بنا تو ان کو مجبوراً گرفتاری دینا پڑی ان کے لیے حوالات میں ائر کولر کا انتظام کیا گیا شام کو گھر جانے کی اجازت دی گئی مگر ادھر جمشید دستی صاحب نے غریبوں کا ساتھ دیا تھا عوام کی جنگ لڑنے کا عظم تھا ان کے لیے ایک سے دوسری جیل میں منتقلی اور پھر بھوکا پیاسا رکھا گیا ان کے بیرک میں بچھو اور چوہے چھوڑ دئیے گئے -

یہ میں نہیں کہہ رہا یہ جمشید دستی صاحب خود میڈیا کو بتا رہے ہیں ۔ان کو لگتا ہے پاکستان کا میڈیا اس خبر کو نشر کرے گا کوئی انقلاب آجاے گا تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے دستی صاحب ۔۔۔۔۔آپ کے پیچھے کوئی اچھا سپونسر ہوتا تو آپ کی گرفتاری کے وقت ہی میڈیا نے واویلا مچا دینا تھا مگر آپ ٹھہرے غریب عوام کے غریب لیڈر ،،، آپ کی سوچ شاید ابھی بھی یہی ہو گی کہ کل آپ کے ساتھ کوئی رعایت کی جاے گی تو اس کی امید مت رکھیں کیونکہ حکومت کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کون کتنی تکلیف میں ہے ان کو اس بات سے تکلیف ہے کہ ان کو اب کوئی تکلیف تو نہیں دے رہا ۔۔۔۔۔۔

جمشید دستی صاحب اب آپ رو رو کر فریاد مت کریں کوئی نہیں سنے گا ، کوئی میڈیا آپ کو کورئیج نہیں دے گا ، ہڑتال اور احتجاج کرنے سے کب قانون تبدیل ہوتا ہے آپ کے پاس دو آپشن ہیں جیل میں مر جائیں یا حکومتی جماعت کے ساتھ این آر او پر دستخط کریں ہو سکتا ہے آپ کے تا دم مرگ باز رہنے سے آپ کی جان بچ سکے ایک آپشن اور بھی ہے کسی دوسری طاقتور جماعت میں شامل ہو جائیں جو آپ کے لیے اپنا احتجاج میڈیا سے کروائیں ۔آپ کے اوپر ایک دو ٹی وی ٹاک شو کا بیانہ دے سکیں اور اوپر نیچے چھے سات پریس کانفرنسیں کر سکیں

مجھے علم ہے ایک خودار انسان ایسی حرکت نہیں کرے گا اور ہماری عوام کے پاس اتنا وقت کب ہے دستی صاحب کے وہ آپ کے لیے آواز اٹھا سکیں ..........ہاں میں تو بولو گا ، میں بتاوں گا سب کو ، میں لکھوں گا کہ اگر کوئی غریب اسمبلی تک پہنچ جاے تو اس کی اتنی مٹی پلید کی جاتی ہے کہ وہ قیدی وین میں رو رو کر فریاد کرتا ہے کہ میاں صاحب میری بہن کو کینسر ہے ، مجھ پر ظلم ہو رہا ہے ،

کاش دستی صاحب وہ لفظ کہہ دیتے جو حکومتی عہدیداروں کو سننے تھے کی مجھے معاف کر دو میں آئندہ ایسا کوئی کام نہیں کروں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کاش جمشید دستی صاحب ان کا یہ خواب پورا کر دیتے کاش ان کے منہ سے یہ سب نکل جاتا تب میڈیا نے ان کے اوپر ایک نہیں پورے دس پروگرام کرنے تھے آخر جیت تو حکومت کی ہونی تھی ناں ۔۔۔۔

یاد رکھو ۔۔۔کبھی کبھی ہارنے والا جیت جاتا ہے اور اس بار جمشید دستی جیت گیا ہے میں سلام پیش کرتا ہوں اس مرد مجاہد کو جو ڈٹ گیا

 

Ahmar Akbar
About the Author: Ahmar Akbar Read More Articles by Ahmar Akbar: 21 Articles with 14556 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.