مقبوضہ کشمیر رمضان المبارک کی پُررحمت ساعتوں میں بھی
خون کے دریا پار کر کے بھی آزادی کی راہ پر گامزن ہے۔ گزشتہ رمضان کے
اختتام پر برہان وانی کی شہادت ہوئی تھی تو اس سال امریکہ نے بھارت کو خوش
کرنے کے لئے مودی کی آمد سے پہلے حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر اور متحدہ
جہاد کونسل ے سربراہ سید صلاح الدین کو علامی دہشت گرد قرار دے ڈالا۔جی
ہاں!وہی امریکہ جس نے نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے سے پہلے اس کے امریکہ
داخلے پر پابندی لگا رکھی تھی کہ یہ دہشت گرد ہے۔امریکہ نے پھر بترا دیا کہ
اس کے کوئی اصول و ضوابط نہیں ہیں اور وہ صرف اور صرف اسلام اور مسلمانوں
کا دشمن ہے۔ایک ایسے وقت میں جب عالم اسلام رمضان المبارک کی آمد پر خوشیوں
سے نہال ہو جاتا ہے، ہماری شہ رگ خون میں نہا رہی تھی۔ ایک سال ہونے کو ہے
کہ بھارت کشمیریوں کو زیر کرنے کیلئے دنیا کا ہر حر بہ آزما چکا اور مسلسل
آزما رہا ہے۔ ویسے تو بھارت نے جون 1986 ء، جب سے موجودہ تحریک آزادی کا
آغاز ہوا، ظلم و ستم کا ہر قدیم و جدید حربہ آزمایا تب سے کشمیریوں نے اس
کے سامنے کبھی سر نہیں جھکایا۔ جون 1986ء وہ زمانہ تھا جب سرینگر میں پہلی
بار دھماکے ہوئے تھے اور پھر 1987کے انتخابات میں کھلی دھاندلی کے بعد
کشمیریوں نے خود کو ہر طرح سے بے بس دیکھ کرموجودہ جہادی تحریک آزادی شروع
کی تھی۔ ان انتخابات میں سید صلاح الدین سرینگر سے بھارت اکثریت سے جیتے
تھے لیکن انہیں دھاندلی سے ہرایا گیا تھا اور پھر انہیں قید میں ڈالا گیا
تھا۔ بھارت نے تو اس سے پہلے یعنی 11 فروری 1984ء کو مقبوضہ کشمیر کے رہنے
والے ایک مجاہد مقبول بٹ کو یہ کہہ کر پھانسی کے پھندے پر لٹکایا تھا کہ وہ
مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی شروع کرنے کا پروگرام رکھتا ہے، اس کے لئے اس
نے بھارتی مفادات پر بھارت سے باہر بھی حملے کئے ہیں۔ ظلم کی انتہا دیکھئے
کہ مقبول بٹ کو پھانسی لگے 34 سال سے زائدہو چکے ہیں لیکن بھارت نے آج تک
ان کا جسد خاکی تو کجا ان کا جیل میں زیر استعمال سامان بھی ان کے لواحقین
کے حوالے نہیں کیا۔ بھارت نے کہا کہ مقبول بٹ کو اسی تہاڑ جیل میں دفنا دیا
گیا تھا جہاں انہیں پھانسی دی گئی تھی۔ اس قدر فرعونیت کے باوجود آج تک
ساری دنیا خاموش ہے کہ اگر ایک نہتے شخص کو سزائے موت دے بھی چکے ہو تو اس
کی لاش ہی اس کے لواحقین کے حوالے کر دو۔ مقبول بٹ کو پھانسی پر لٹا کر بھی
بھارت کو چین نہ آیا ااور اس نے اس ظلم پر آواز بلند کرنے کی پاداش میں اور
تحریک آزادی کا پرچم اٹھانے کے جرم میں ان کے مزید 3 بھائی بھارتی فوجوں نے
مختلف انداز سے قتل کر ڈالے۔ مقبول بٹ کی 90 سالہ والدہ اپنے بیٹوں اور
دیگر کشمیری شہداء کی تصویریں لئے آج بھی سرینگر میں کھڑے ہو کر گونگی بہری
دنیا تک اپنی صدائے مظلومیت پہنچانے کی کوشش کر رہی ہیں اور تحریک آزادی
چلا رہی ہیں لیکن ڈیڑھ کروڑ کشمیریوں میں شامل ہونے کی وجہ سے ان کی بات
کوئی سننے والا نہیں۔ مقبول بٹ کی اس مظلومانہ شہادت اور ان کا جسد خاکی
حوالے تک نہ کئے جانے کی وجہ سے ہی تو کشمیری قوم بھارت کے خلاف میدان میں
اتری تھی اور پھر اس نے ایک شہید کے خون کا قصاص لینے کیلئے ایک لاکھ سے
بھی زائد جانوں کے نذرانے پیش کر دیئے۔ گزشتہ 30 سال کے عرصہ میں بھارت نے
مقبوضہ وادی کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ ڈیڑھ لاکھ
کے لگ بھگ املاک کو جلایا اور تباہ کیا گیا ہے تو شہداء کی بیواؤں کی تعداد
20 ہزار سے زائد اور یتیم بچوں کی تعداد سوا لاکھ سے زائد ہے۔قتل و غارت
گری کا یہ سلسلہ رکا نہیں ہے بلکہ اس میں ہر روز ہی شدت ہے۔ کشمیری عوام کے
جتنے ذرائع آمدن تھے، سب کو ایک ایک کر کے تباہ و برباد کر دیا گیا۔ ترقی
کے لحاظ سے دیکھیں تومقبوضہ کشمیر آج بھی سارے بھارت سے ہٹ کر ایک کوڑے
کرکٹ کا ڈھیر بنا ہوا ہے اور یہاں ترقیاتی کاموں کا نام ونشان دیکھنے کو
نہیں ملتا۔کشمیری جتنی مرضی بڑی سے بڑی آفت کا شکار ہو جائیں ،بھارت ان کے
کسی زخم پر معمولی مرہم رکھنے کے بجائے اس پر صرف بغلیں ہی بجاتا ہے ۔اس
پرمستزاد یہ بھی کہ بھارت نے کشمیر کے تاریخی جنگلات اور صدیوں پرانے
درختوں کو تباہ کرنے اور کشمیر کے حسن کو ملیا میٹ کرنے میں کوئی کسر نہیں
اٹھا رکھی ہے۔ کل تک دنیا میں سب سے زیادہ جھیلیں اور ندیاں نالے رکھنے
والے مقبوضہ کشمیر کا بڑا حصہ آج پانی کی بوند بوند کو ترس رہا ہے۔ کئی کئی
سو سال پرانے درختوں کے بے تحاشا کٹاؤ، جنگلات کو نابود کرنے اور بڑے
پیمانے پر آگ لگانے کی وجہ سے پانی ناپید ہو گیا ہے تو گلیشیئرز اور برفوں
سے آنے والے پانی کو بھارت ڈیموں اور سرنگوں کے ذریعے روک اور اس کا راستہ
تبدیل کر کے مقبوضہ و آزاد کشمیر کے ساتھ ساتھ ہمارے وطن پاکستان کو بھی
بنجر بنا رہا ہے۔
اتنے سخت اور کڑے حالات میں ہمارے سمیت ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ کشمیری نہ
صرف زندہ ہیں بلکہ صرف اور صرف پاکستان کے دفاع کی جنگ انتہائی شاندار
انداز میں لڑتے ہی جا رہے ہیں۔30سال ایک طرف گزشتہ ایک سال سے بھارت نے
مقبوضہ وادی کا انتہائی سختی سے مسلسل محاصرہ کر رکھا ہے۔ آج بھی ہر
روزبھارت کشمیریوں کی لاشیں گرا رہا ہے، ان کی املاک بم و بارود سے اڑا رہا
ہے اور کشمیری ہر صبح ہر شام اس سب کے جواب میں پاکستان کے پرچم لے کر باہر
نکلتے ہیں۔ گولیاں کھاتے ہیں اور پھر پاکستانی پرچموں کے سائے اور پاکستانی
پرچموں میں لپیٹ کر اپنے پیاروں کو قبروں میں اتارتے اور پھر ان کی قبروں
پر بھی پاکستانی پرچم آویزاں کر دیتے جاتے ہیں۔ ہمارے آنکھوں کے سامنے جس
طرح کشمیریوں نے بھارت کا اس دلیری و جرأت سے مقابلہ کیا کہ گزشتہ ہفتے ایک
بار پھر بھارتی فوجی سربراہ کو کہنا پڑا کہ کشمیری طلبہ و طالبات احتجاج
چھوڑ کر پڑھائی پر توجہ دیں۔ یہ وہی بھارت اور اس کا فوجی سربراہ ہیں جو
گزشتہ کئی ماہ سے سرینگر اور نئی دہلی میں ہر روز دوسرے روز انتہائی اعلیٰ
سطحی اجلاس منعقد کر کے کشمیریوں کو کچلنے کے نئے سے نئے طریقے تلاش کرتے
ہیں لیکن کشمیریوں کو زیر کرنے میں ناکام ہیں ۔اپنے تمام پیشرو حکمرانوں کی
طرح مودی نے بھی ایک ہی پلان بنایا تھا کہ جو ہو جیسے ہو،کشمیریوں کو صرف
اور صرف’’طاقت سے کچل دو ،مار دو‘‘ لیکن کشمیری وہ لوہے کا چنا ثابت ہو رہے
ہیں کہ جو نہ نگلا جا سکے نہ چبایا جا سکیایک طرف یہ کشمیری ہیں تو دوسری
طرف ہمارے ہاں جناب وزیراعظم نواز شریف کے بیٹے کے جے آئی ٹی میں پیشگی کے
وقت انتظار میں بیٹھنے کی ایک تصویر کیا سامنے آ گئی، حکمران پارٹی نے اسے
دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ بنا کر وہ ہنگامہ کھڑا کیا کہ خدا کی پناہ۔ پھر
کتنے دن کتنے ہفتے گزرے ، ساری طاقت اور ساری صلاحیت جمع کرکے اس ایک تصویر
کے ا یک ایک نکتے پر زور اور وقت لگایا جا رہا ہے۔لیکن افسوس کہ وہ کشمیری
اور ان کے بیٹے جو روز جسموں کے ٹکڑے کروا کر قبروں میں اتر رہے ہیں، ان کی
کسی کوئی پروا نہیں۔ ہمارے حکمران ہوں یا سیاستدان کسی کو کانٹا چبھ جائے
تو وہ زمین آسمان ایک کر دیتے ہیں لیکن وہ کشمیری جو ہمارے دفاع میں اپنا
سب کچھ لٹا رہے ہیں،سب کے سب ان سے یوں آنکھیں پھیر کر بیٹھے ہیں ، جیسے
جانتے ہی نہیں ،پہچانتے ہی نہیں کہ انہیں کسی بات کی خبر ہی نہیں۔ ہمیں بنچ
پر بیٹھا ایک بیٹا تو خوب یاد آیا لیکن ہزاروں کشمیریوں کے بیٹے کبھی یاد
نہیں رہے جنہیں روز بھارتی فوج گھروں اور سڑکوں سے اٹھا کر لے جاتی اور پھر
انہیں کس کس طرح کے کرب و درد سے گزارا جاتا اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے نامعلوم
قبروں میں اتار دیا جاتا ہے۔ شاید ہمیں علم ہی نہ ہو، ان کے والدین اور ان
کے گھر والوں پر کیا گزرتی ہو گی؟ کیا ہم نے کبھی غور کیا یا سوچا ہے کہ
کیا وہ انسان نہیں، کیا وہ ہمارے جیسے جسم نہیں کہ ہم ان سے یوں بے خبر ہیں
جیسے وہ کسی کھاتے میں ہی نہیں۔ کشمیر پر بھارت کا مودی اور امریکہ کا ٹرمپ
تک ایک ہو چکے لیکن ہماری نیند ختم ہی نہیں ہوتی۔
|