’’دستی ‘‘ضمیر کا قیدی یا حکومت کا

جمشید دستی جنوبی پنجاب کا وہ نام ہے جس نے چند سالوں میں اپنا لوہا منوایا۔مظفرگڑھ کے حلقہ 178سے الیکشن لڑنے والے اس شخص نے پارلیمینٹ میں آتے ہی دھوم مچا دی۔انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز پیپلز پارٹی سے کیا مگر 2013میں پیپلز پارٹی اور پارلیمان سے استعفیٰ دیکر اگلا الیکشن آزاد چیثت سے لڑا اور اپنے مقابل سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے والد کوشکست دیکر اسمبلی میں پہنچ گئے۔جمشید دستی نے سب سے پہلا دھمکا خیز انکشاف اسمبلی کے فلور پر کیا جب انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ لاجز میں سالانہ چار سے پانچ کروڑروپے کی شراب لائی جاتی ہے ، وہاں ہروقت شراب کی بوآتی ہے ، مجرے کیلئے وہاں لڑکیاں بھی لائی جاتی ہیں ۔ ایوان سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ان باتوں کا ثبوت دے سکتے ہیں۔مسلم لیگ (ن) کے اسرار اﷲ زہری اور متحدہ قومی موومنٹ کے نبیل گبول نے جمشید دستی کے انکشافات کی تصدیق کی۔ جس کے بعد ایوان میں ہلچل مچ گئی ۔بے شک بعد میں اس کا نتیجہ کوئی خاص نہیں نکلامگر جمشید دستی اس دن کے بعد سے بہت سے ارکان پارلیمینٹ کی نظر میں آگئے۔ وہ لوگ (جو ایسے غلط کاموں میں ملوث ہیں)جمشید دستی کے مخالف بن گئے۔

وقت گزرتا گیا اور دوسرے سیاستدانوں کی طرح جمشید دستی بھی روایتی سیاستدان بننا شروع ہوگئے۔ جمشید دستی نے عمران خان سے بھی پینگیں بڑھائیں اور جب وہ الیکشن جیتنے کے بعد عمران خان سے ملاقات کرنے لاہور آرہے تھے تو بقول جمشید دستی کے کہ ان کے قافلے کو لاہور میں داخل نہیں ہونے دیا جس کی وجہ سے وہ رکشے میں سوار ہوکر عمران خان سے ملاقات کے لیے ان کے گھر پہنچے۔جمشید دستی نے موجودہ حکمرانوں کے خلاف ہمیشہ اپوزیشن کا رول ادا کیا ۔ تحریک انصاف میں شامل ہونے کی باتیں ہوئیں مگر سب بے سود تھیں ۔

انہوں نے خود اپنی پارٹی بنالی جس کانام عوامی راج پارٹی رکھا۔ انھوں نے اپنی پارٹی منشورعوام کے سامنے پیش کیا جویہ تھا، صدر جو کابینہ تشکیل دے گا اس کے ارکان کی تعدادایک درجن سے زائد نہیں ہوگی، صدراورکابینہ کے ارکان کی تنخواہ مزدور کے برابر ہو گی، فوری اورفری انصاف کیلیے 2 ماہ کے اندر مقدمات کافیصلہ کیا جائے گا، قرآن کی تعلیم پہلی جماعت سے لازم، پی ایچ ڈی تک تعلیم مفت ہوگی۔علاج کی بہتراورمفت سہولتیں فراہم کی جائیں گی، کسانوں کوآب پاشی کیلیے بجلی مفت، بغیر سود قرضے،کھاد اوربیج خریداری میں سبسڈی دی جائے گی، مزدور اور ملازمین کے کام کادورانیہ 6 گھنٹے ہو گا، پولیس نظام تبدیل، ٹیکس وصولی نظام قابل قبول بنایا جائے گا، روزگار دینا ریاست کی ذمہ داری ہوگی، شناختی کارڈاجراکیلیے 16 سال کی عمرمقرر کی جائے گی۔ جب بندہ پارٹی بنا لیتا ہے تو پھر لیڈرشپ قائم کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ ایسا ہی کچھ انہوں نے اپنی عوام کو خوش کرنے کے لیے کیا جس کی خاطر انہیں رونا بھی پڑا۔

خبر آئی کہ جمشید دستی کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔جمشید دستی کی گرفتاری کا قصہ کچھ یوں ہے کہ کاشت کاروں کی نہری پانی کی بندش کی شکایت پر جمشید دستی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر مظفر گڑھ میں 28 مئی کو ہیڈ کالو کے علاقہ میں ڈینگا کینال کو غیر قانونی طور پر کھول دیا تھا۔ محکمہ انہار نے ایک گھٹنے بعد نہر کو دوبارہ بند کر دیا اور ساتھ میں تھانہ قریشی میں ان پر مقدمہ درج کروا کر ایف آئی آر سیل کروا دی۔اس مقدمے کی پاداش میں جمشید دستی کو ساتھی سمیت اسلام آباد سے مظفر گڑھ جاتے ہوئے لیہ کے قریب گرفتارکرلیا گیا۔جمشید دستی اور ان کے ساتھی اجمل کالرو کو رات گئے ڈیوٹی مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا، جنہوں نے جمشید دستی کو ساتھی سمیت سینٹرل جیل ملتان بھجوا دیا۔جمشید دستی کو عید سے پہلے ضمانت رہائی ملی مگر ضمانت ہوتے ہی ایک اور مقدمے میں گرفتار کرلیا گیا۔

وہ 29مئی سے تاحال پولیس کے مہمان بنے ہوئے ہیں۔ ان کی حال ہی میں ایک ویڈیو منظر عام پر آئی جس کو دیکھ کر ہر شخص کا دل پسیج گیا۔اس ویڈیو میں ان کوہاتھ جوڑ کرروتے ہوئے دکھایا گیا اور وہ میڈیا کو کچھ یوں بتا رہے تھے ’’کہ مجھ پر بے پناہ تشدد کیا جارہا ہے، خدا کے لئے بچایا جائے۔ مجھے جیل میں بچھووؤں کے ساتھ رکھا جارہا ہے اور گھسیٹ گھسیٹ کر مارا جاتا ہے۔ 6روز سے بھوکا ہوں، انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جارہا ہے، میری بہن کینسر کی مریضہ ہے، خدا کے لئے مجھ پر رحم کرو‘‘۔

یہ ویڈیو دیکھ کر سوشل میڈیا پر ہلچل مچ گئی۔ہر کوئی ان کے حق میں لکھنے لگا۔حکومت کو برا بھلا کہا گیا۔ موجودہ اور سابقہ ممبران پارلیمینٹ نے ان کے حق میں آوازیں بلند کی۔ مجھے بھی ذاتی طوریہ ویڈیو دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ جب ایک ایم این اے کے ساتھ ایسا سلوک کیا جارہا ہے تو پھر عام آدمی کا کیا حال ہوتا ہوگا جیل میں؟کسی نے اس کو ضمیر کا قیدی کہا تو کسی نے انتقامی کاروائی کا نام دیا۔ تاہم اس ویڈیو کے دوسرے دن میڈیکل رپورٹ بھی منظر عام پر آگئی جس میں ان پر کوئی تشدد نہ ہونے کا لکھا ہوا ہے۔ نوے فیصد لوگوں نے اس رپورٹ کو بوگس قرار دیا کیونکہ یہ رپورٹ حکومت اپنی مرضی کی بھی تیار کرواسکتی ہے۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہمارے ملک کا قانون کیا ہے؟ ایک رکن پارلیمینٹ رورو کر فریاد کرتا ہے کہ جیل میں اس کو اذیتیں دی جارہی ہیں جبکہ دوسرا رکن پارلیمینٹ(اچکزئی ) کو جیل میں عیاشی کرائی جارہی ہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟کیا انصاف حکومت اور اپوزیشن کے الگ الگ بنایا ہوا ہے؟ اگر ہمارے ملک میں انصاف کا ترازوبرابر ہوتو کوئی امیر غریب کا فرق نہ لائے لیکن اس ملک میں تو جس کی لاٹھی اس بھینس کا قانون نظرآتا ہے۔میاں صاحب کے بیٹے کی انتظار میں بیٹھے ویڈیو منظر عام پر آنے پر کہرام مچ جاتا ہے اور غریب کو سرعام پولیس ڈنڈے مارے تو کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتابلکہ زبان پر تالے لگ جاتے ہیں۔

ایک قابل غور بات ضرور کہوں گا کہ جب قانون بنانے والے خود قانو ن توڑنے لگے تواس ملک کا اﷲ ہی حافظ ہے ۔ جمشید دستی جو خود قانون بنانے والوں میں شامل ہیں ان کو کیا ضرورت تھی ڈینگاکینال کھولنے کی؟ کیا اس کو کھلوانے کا کوئی قانونی طریقہ نہیں تھا؟ اگر جیسا دستی صاحب نے کیا ان کو دیکھ کر کل عام آدمی بھی اسی طرح کی بدمعاشی کرے تو پھر کیا ہو گا؟اگر رونے سے انصاف ملتا ہے تو خدا کی قسم میں نے عدالتوں میں بہت سے لوگوں کو دھاڑیں مارتے روتے دیکھا ہے تو پھر وہ بھی ۔۔۔ میں نے مظلوم سے زیادہ ظالم کو روتے دیکھا ہے۔

جہاں تک حکومتی رویے کی بات ہے تو یہ ہمیشہ سے دیکھتے آرہے ہیں کہ حکومت واپوزیشن ساس بہو کی طرح لڑتی آئی ہے۔ نہ ساس گھر چھوڑ کر بھاگتی ہے اور نہ بہو۔ اسی طرح جمشید دستی کو بھی چاہیے کہ وہ مردانہ وار ان کا مقابلہ کریں ۔ ان کے سامنے جاوید ہاشمی کی مثال سامنے ہیں کہ مشرف دور میں کتنے عرصہ جیل کی صعوبتیں برداشت کی مگر وہ روئے نہیں۔ آپ کی اس طرح ویڈیو وائرل ہونے سے عوام میں آپ سے ہمدردی توپیدا ہوسکتی ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں کیونکہ سیاستدان جب شکنجے میں پھنسا ہوتا ہے تو کچھ اور ہوتا ہے اورجب اقتدار میں ہوتا ہے توکچھ اور۔

رہا سوال عوام کا تو یہ عوام انصاف کے لیے سڑکوں پر نہیں آتی۔ جلسے میں ناچ گانے اور تالیاں بجاکر سیاستدانوں کو خوش کرنے نے کے لیے آسکتی ہے مگر اپنے حق کے لیے نہیں۔ دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمارے ملک کو اپنی پناہ میں رکھے اور نظر بد سے بچائے۔ آمین

Aqeel Khan
About the Author: Aqeel Khan Read More Articles by Aqeel Khan: 283 Articles with 234663 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.