مودی ،ہٹلر کی زبان بول رہے ہیں

 پیر غلام رسول کشمیر یونیورسٹی میں میرے ’’بیچ میٹ‘‘ تھے۔وہ ایک معتبر سکالر سمجھے جاتے ہیں۔سرینگر سے ان کا ایک مراسلہ موصول ہوا ہے۔جس میں بھارت کی نئی جنگی پالیسی کے بارے میں خبر دار کیا گیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ پاک بھارت کے مابین جنگ کا امکان کوئی اچھی خبر نہیں ہوتی۔ لیکن بی جے پی حکومت اور اس کے اداروں سے آنے والے تما م بیانات اور حقائق صاف عندیہ دے رہے ہیں کہ بھارت اب پاکستان کے ساتھ ایک ’’محدود‘‘سرحدی(مطلب جموں وکشمیر تک)جنگ کی جانب بڑھ رہا ہے۔تمام جنگوں کی تاریخ سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سرحدوں پر طویل کشیدگی بالآخر باقاعدہ جنگ پر ہی منتج ہوتی ہے۔کشمیر کی سرحدوں کی صورتحال مختلف نہیں ہے۔اس سے بھی بڑھ کریہ حقیقت کہ بھارتی قوم پرستی کے نئے ناخدا ایک جانب دنیا اور ملک کوجنگ کیلئے تیار کررہے ہیں تو دوسری جانبکشمیر میں فوج کو تیاری کیلئے ضروری وقت بھی دے رہے ہیں۔یہ جنگ بی جے پی کے نظریاتی انقلاب کو کامیاب بنانے کیلئے ضروری سمجھی جارہی ہے ،بالخصوص2019میں مکمل انتخابی جیت کیلئے پاکستان جیسی ’’بدی کی جڑ‘‘کو سبق سکھانا اب ایک سیاسی مجبوری بن گیاہے۔ موجودہ ارباب اقتدار اپنے ہندو توا نظریہ سے مجبور بھی ہیں کیونکہ وہ نصف صدی سے آر ایس ایس کے 30ہزار سکولوں اور لاکھوں شاکھاؤں میں یہی پڑھاتے بھی رہے ہیں اور اس کا عزم بھی دہرا چکے ہیں۔وزیراعظم مودی کی عالمی سفارتی مہم ہو، بھارتی عوام ہو یا پھر میڈیا، ہر طرف جنگ کا بگل بج رہا ہے۔آئے روزجنگ بندی لائنپر شدید گولہ باری اور ہلاکتوں اور پھر ویڈیوز اور جوابی ویڈیوز کا سلسلہ چل پڑا ہے، لیکن حکومت ہند کی جانب سیجو بیانات دیئے جارہے ہیں ،وہ معنی خیز بھی ہیں اور لرزہ خیز بھی۔کشمیر کے بارے میں بار بار کہاجارہا ہے کہ ’’حتمی حل‘‘ہوگا۔یہ وہی زبان ہے جو ہٹلر نے یہودیوں کے بارے میں استعمال کی تھی۔راجناتھ سنگھ اور ارون جیٹلی جب بیان دیتے ہیں تو اس کی زبر دست اہمیت ہے۔وہ اپنی رائے نہیں دیتے ہیں ،نہ ہی وہ مضمون لکھ رہے ہیں بلکہ وہ ریاست اور سرکار کی پالیسی کا اظہار ہوتا ہے۔کیا کشمیری عوام کے خلاف کوئی گہری سرکاری سازش کا خاکہ مکمل کیاگیا ہے اور اب اس کو ہندوپاک محدود جنگ کی شکل میں عملایا جارہا ہے ؟۔

28مئی کو نئی دلّی میں راجناتھ سنگھ نے کہا کہ ہم نے ’’مستقل‘‘حل تیار کرلیا ہے اور اس سلسلے میں اقدامات شروع ہوچکے ہیں لیکن وضاحت نہیں کی کہ وہ کیا ہیں۔پھر چند دن بعد 3جون کو نئی دلّی میں ہی میڈیا کو بتایا’’ہم کیا کرینگے ،اْسے بس دیکھتے ہی جایئے‘‘۔پھر4جون کو حمیر پور ہماچل میں کہا کہ آرمی کو صورتحال سے نمٹنے کی کھلی چھوٹ دی جاچکی ہے۔اس طرح کے بیانات وزیر دفاع ارون جیٹلی بھی دیتے رہے ہیں۔یہ سب ایک خوفناک صورتحال کا پیش خیمہ ہے اور میرے خیال میں یہ سرحدوں پر ایک ’’محدود‘‘سی جنگ کی تیاری بھی ہے۔اسی جنگ کی آ ڑ میں اندرون کشمیر انہیں وہ سب کچھ تباہ و برباد کرنے کا بھی موقعہ ملے گاجو ان کے خیال میں ان کیلئے رکاوٹ ہے۔یہ کوئی تعجب یا اتفاق کا مسئلہ نہیں ہے کہ یکم جون کوآرمی چیف جنرل بپن راوت نے مقبوضہ ریاست کا دورہ کیا اور فوج کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں صرف یہی نہیں کہا کہ انہوں نے صورتحال کا جائزہ لیا بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ انہوں نے حکمت عملی کی تیاری(operational preparedness)کا بھی جائزہ لیا۔2جون کو بحریہ کے سربراہ ایڈمرل سنیل لامبا نے بھی جموں کا دورہ کیا ،حالانکہکشمیر میں بحریہ کا زیادہ کردار نہیں ہے لیکن جھیل ولر سے لیکر جموں تک انڈین نیوی موجود ہے۔انہوں نے9کور ہیڈ کوارٹر میں ’’عملی تیاریوں‘‘کا جائزہ لیا۔اس سے قبل 30مئی کو فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل ہری کمار نے جموں کا دورہ کیا اور ’’عملی تیاریوں‘‘کا جائزہ لیا۔یوں بری ،بحری اور فضائیہ کے سربراہوں کی ’’عملی تیاریوں‘‘کا جائزہ کس جانب اشارہ کرتا ہے ؟۔

اس صورتحال کے بارے میں اقوام متحدہ کا فکر مند ہونا فطری امر ہے۔امریکہ کے قومی انٹیلی جنس سربراہ ڈینیل کوٹس بھیپاک بھارت جنگ کا خدشہ ظاہر کرچکے ہیں۔سی پیک کے حوالے سے اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں بھی صاف طور پر کہاگیا ہے کہ سی پیک کی شدید پریشانی کے حوالے سے دہشت گردی سے نمٹنے کے نام پر بھارت پاکستان پر حملہ کرسکتا ہے،اگر چہ چینی ردعمل سے بچنے کی زبردست کوشش ہوگی۔چین نے بھارت کو 1962کی جنگ یاد دلائی ہے۔اصل میں اس جنگ کے سارے خدو خال 2004میں ہی ’’کولڈ سٹارٹ ‘‘جنگی حکمت عملی سے ترتیب دیئے جاچکے ہیں۔1998میں ہندوستان اور بعد میں پاکستان کے جوہری دھماکوں کے بعد روایتی جنگ ناممکن ہوچکی تھی۔لیکن1999میں کرگل جنگ کے بعد یہ ضرورت بہت بڑھ گئی کہ پاکستان کو جوہری قوت کی چھتر چھایامیں ہندوستان کے خلاف ’’پراکسی وار‘‘ سے کس طرح روکا جائے اور بالآخر’’کولڈ سٹارٹ ‘‘کا فوجی نظریہ بنایا گیا۔

کولڈ سٹارٹ کے مطابق نہایت ہی محدود پیمانے پرجنگ بندی لکیر پر واقع چندعلاقوں پر تیزی سے حملے کرکے قبضہ کیاجائے تاکہ جنگ طویل نہ ہواور جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی نوبت نہ آئے۔یوں لگتا ہے کہ مودی کا بھارت یہ تجربہ کرنا بھی چاہتا ہے تاکہ و ہ ’’کشمیر کا حتمی حل‘‘نکال سکیں اور 2019میں ہندو عوام کوبتاسکیں کہ انہو ں نے پاکستان کو سبق سکھادیا۔اس سلسلے میں کارروائیاں ممکنہ طور پر دراس سیکٹر ،ٹیٹوال ،کیرن،حاجی پیر اوڑی ،بالاکوٹ پونچھ وغیرہ میں ہوسکتی ہیں جہاں پر بہت مختصر مدت میں سینکڑوں فوجی چوکیوں پر قبضہ کیاجاسکتا ہے۔یاد رہے کہ 2004کے ’’کولڈ سٹارٹ‘‘ڈاکٹرین سے قبل بھی 1965اور بالخصوص1971کی جنگ میں سرحدوں پر یہ تجربات کئے جاچکے ہیں۔1984میں سیاچن اور1998میں بٹالک میں بھی یہی حربہ آزماکربہت سارے علاقوں پر مستقل طور قبضہ جمالیاگیا۔ایک بار پھر یہی صورتحال نظریاتی جوش کے ساتھ شاید پھر دہرائی جائے۔یہ خدشہ پیر غلام رسول نے ظاہر کیا ہے۔ تا ہم بھارت کو اس طرح کا کوئی آپریشن کرنے سے پہلے سو بار سوچنا ہو گا۔ پاکستان میں شریف برادران اور ان کے خاندان کے خلاف جس طرح سے جے آئی ٹی کا انٹراگیشن جاری ہے اور جس طرح سے سیاسی حکومت کو کرپٹ اور دھاندلی زدہ قرار دینے کا ماحول تیار ہو رہا ہے۔ اس نے متذکرہ خدشات پر غور کرنے کی دعوت دی ہے۔ امریکہ اور بھارت ہی نہیں اسرائیل بھی کھل کر جنگی ماحول بنا رہے ہیں۔ افغانستان، بنگلہ دیش،ایران کی پالیسی بھی واضح ہو چکی ہے۔ ایسے میں چین کا مثبت کردار اور’’ پاکستان کی مخالفت میں اٹھنے والی آوازوں کا موثر جواب دینے کے لئے تیار ‘‘ہونے کا اعلان ہوا کا ایک جھونکا ہے ۔چین کا یہ اعلان بھی پاکستان دوستی کا آئینہ دار ہے کہ ’’بھارت کو چین ایسا سبق سکھائے گا کہ وہ اس کو صدیوں تک نہیں بھولے گا۔ ‘‘

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555712 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More