قیام پاکستان کی ایک وجوہ یہ بھی تھی کہ ہندوؤں نے اپنے
کرداروعمل سے پوری دنیاپربالعموم اوربرصغیرکے مسلمانوں پربالخصوص یہ حقیقت
روزِ روشن کی طرح واضح کردی تھی کہ ہندوقوم اوپرسے نیچے تک تعصب،حسد،عداوت
اور منافرت کےعناصراربعہ میں غرق ہے۔ پاکستان کارمضان الکریم کی مبارک
ساعتوں یعنی لیلتہ القدرکومعرضِ وجودمیں آناجہاں یقینا ً ایک اس صدی
کامعجزہ تھاوہاں اصلاًمتعصب ہندوبنئے کی مسلم دشمنی سے پیداہونے والی
کشیدگی کاقدرتی نتیجہ بھی تھا۔چودہ اگست ۱۹۴۷ء میں اعلانِ آزادی کے ساتھ ہی
دہشتگرد ہندوؤں نے سکھوں کوورغلاکراپنے ساتھ ملاکرجتھوں کی شکل میں مشرقی
پنجاب اورموجودہ بھارتی دارلحکومت نئی دہلی کے علاوہ دیگرعلاقوں میں
مسلمانوں کاجوبہیمانہ قتل عام شروع کیا اس کااحوال غیرمسلم مصنفین اور
مؤرخین کی کتابوں میں موجود ہے جس کوکبھی بھی جھٹلایانہیں جاسکتا۔
انتہائی محتاط اندازوں کے مطابق تین ماہ کے دوران پندرہ لاکھ کے قریب نہتے
مسلمانوں کوشہیدکردیاگیاجن میں معصوم بچوں،خواتین اورعورتوں حتیٰ کہ ضعیف
مردعورتوں کوبھی نہیں بخشاگیا۔اس کے ساتھ ہی جموں وکشمیر، حیدر
آباددکن،منہاوراورجوناگڑھ پربھارت کے ناجائزجارحانہ قبضے سے دونوں ملکوں
میں مفاہمت کی بجائے بدترین دشمنی کی بنیادرکھ دی گئی جوبعدازاں پروان چڑھ
کر ایک دوسرے کے وجود کونیست ونابودکرنے کیلئے اب ایٹمی طاقتوں کی شکل میں
آمنے سامنے موجودہیں۔جس کانتیجہ یہ برآمدہواکہ سرحد پار سے جاسوسوں کی
آمدورفت اور معاندانہ خفیہ کاروائیوں کاسلسلہ چل نکلا جوآج تلک جاری وساری
ہے۔
اکثربھارتی جاسوس مختلف اوقات میں خبروں کی زینت بنتے چلے آرہے ہیں جس میں
کچھ بھارتی جاسوس یقیناًآج بھی قارئین کی آگہی کاسامان ضرور ہوں گے ۔
پاکستان میں بھارت کیلئے جاسوسی کی خدمات انجام دینے والا ایک اہم نام
کشمیر سنگھ تھاجس نے ۱۹۷۱ء میں مغربی پاکستان سے بنگلہ دیش کے حامی
بنگالیوں کے فرارمیں سہولت کاراورمعاون کے فرائض انجام دیئے تھے۔وہ
بالآخر۱۹۷۳ء میں قانون کے شکنجے میں کس دیاگیااورپاکستان میں اس نے ۳۵سال
تک جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے رہا۔اس دوران وہ اس بات کی دہائی دیتارہاکہ
اس پر جاسوسی کاالزام درست نہیں۔اسے ٹھوس اورمضبوط شواہداورثبوتوں کی بناء
پر عدالت نے سزائے موت سنادی جوکہ اس کے اعمال کی بالکل صحیح اوردرست
سزاتھی لیکن ''پاکستان سب سے پہلے''کانعرہ لگانے والے فاسق کمانڈونے بھارت
سے بہترتعلقات بنانے کے بہانے کی آڑمیں اپنے ایک وفاقی وزیرانصاربرنی جنہوں
نے سماجی وانسانی خدمات کانقاب اوڑھ رکھاتھا، اس بدترین دشمن کو معاف کرتے
ہوئے معززمہمان کی طرح گلے میں ہارڈال کراپنی سرکاری گاڑی میں بٹھاکر واہگہ
بارڈرپرمتعصب ہندو دشمنوں کے حوالے کردیا گیا ۔
پاکستان کیلئے جاسوسی کے الزام کی تردیدکرنے والے کشمیرسنگھ کابھارت پہنچنے
پرایک ہیروکی طرح استقبال کیاگیا۔ کشمیر سنگھ نے برملااپنی خدمات کااعتراف
کرتے ہوئے میڈیاکے سامنے سینہ پھلاتے ہوئے بیان دیا:میں ایک جاسوس تھا اور
میں نے بھارت ماتاکیلئے اپنافرض اداکرتے ہوئے پاکستان کو نقصان پہنچانے میں
کوئی کسرنہیں چھوڑی۔بھارتی جریدے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے بقول اس کے
کارناموں کے عوض چارسوروپے ماہانہ کے حساب سے اس تمام عرصے کامعاوضہ
اداکیاگیا۔کشمیرسنگھ نے چندی گڑھ میں میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے بتایا:''میں
اپنے وطن کی خدمت کرنے پاکستان گیاتھا، پاکستانی حکام اس سے کچھ بھی
اگلوانے میں کامیاب نہیں ہوسکے''۔اب مجھے معلوم نہیں اس کے اعترافِ جرم
پرفاسق کمانڈو پرویزمشرف اور انصاربرنی کس قدرشرمساری سے دوچارہوئے مگربعض
ایسی شخصیات تو شرم وحیاکوآنی جانی چیزسمجھتے ہیں۔
ایک اوربھارتی جاسو س سربجیت سنگھ کو۱۹۹۰ء میں جاسوسی کے الزام میں
گرفتارکیاگیاتھاجبکہ بھارتی حکام نے دعویٰ کیاکہ نشے کی لت میں مبتلا۲۷
سالہ سربجیت سنگھ اپنے کھیتوں میں ہل چلانے گیاتھا،اس دوران بھول کرسرحدپار
کر گیااور گرفتار ہوگیا۔جب اہم ذرائع سے تحقیقی کی گئی توپتہ چلا کہ اس کی
زمین اوررہائش پاکستانی سرحدسے کم ازکم تیس میل کے فاصلے پرہے۔اس پرمقدمہ
چلاجہاں اس نے اپنے اقبالی بیان میں کئی وارداتوں کا اعتراف کیا۔پاکستان کے
شہروں فیصل آباد،ملتان اورلاہورکے بھاٹی گیٹ میں چاربم دہماکوں کا اس نے
اعتراف کیا۔ان دہماکوں میں مجموعی طورپر۱۴بے گناہ پاکستانی شہیدہوئے تھے ۔
پاکستان کی عدالت نے سربجیت سنگھ کوسزائے موت کاحکم دیا۔اس کی رہائی کیلئے
اس کی بہن دلجیت کورنے میڈیاپرپروپیگنڈہ مہم چلائی ۔اس وقت آصف زرداری
صدرکے عہدے ،یوسف رضاگیلانی وزیراعظم اورپرویزالٰہی بطورنائب وزیراعظم
اقتدارکے سنگھاسن پربراجمان تھے۔ناقابل فہم وجوہ کی بناءپرحکومت پاکستان
نےدلجیت کورکوغیرمعمولی پروٹوکول دیا۔اس نے کوٹ لکھپت جیل میں اپنے جاسوس
بھائی سے ملاقات کی اور لاہور پریس کلب میں نیوزکانفرنس سے خطاب کیا۔
ملک دشمن جاسوس سربجیت جس کوعدالت کی طرف سے سزائے موت سنادی گئی تھی اوروہ
کسی بھی وقت پھانسی پرلٹکایاجاسکتاتھا،اس کی بہن کی پاکستان یاتراکے بعداس
کے بھائی کو جیل میں دومشقتی فراہم کردیئے گئے۔۲۶/اپریل ۲۰۱۳ ء کوسربجیت
کاجیل میں دوقیدیوں سے جھگڑاہوگیا، سربجیت نے ان کے ساتھ انتہائی بدتمیزی
کرتے ہوئے تمام اخلاقی حدوں کوپارکرگیاجس پران دونوں قیدیوں نے اس کی
ٹھکائی کردی جس میں وہ شدیدزخمی ہوگیا۔ سرپرزیادہ سخت چوٹ آئی تھی۔اسے فوری
طورپرجناح ہسپتال منتقل کردیاگیا جہاں ملک کے بہترین نیوروسرجنزپرمشتمل
میڈیکل بورڈ کی زیرنگرانی اس کاعلاج اوردیکھ بھال ہوئی لیکن وہ بالآخرزخموں
کی تاب نہ لاکر۲مئی ۲۰۱۳ء کوچل بسا۔ اس کی لاش کوبغیرکسی تاخیراس کے اہل
خانہ کے سپردکردیاگیا۔
ایک اوربھارتی باشندے شیخ شمیم کوپاکستانی حکام نے ۱۹۸۹ء میں پاک بھارت
سرحدکے قریب بھارتی جاسوس ادارے ''را''کیلئے رنگے ہاتھوں جاسوسی کرتے ہوئے
پکڑاتھا۔ پاکستانی قانون کی خلاف ورزی اورجاسوسی ثابت ہونے پرشیخ شمیم
کوسزائے موت سنائی گئی اور۱۹۹۹ء میں اسے پھانسی پرلٹکا دیا گیا۔بھارت نے
شیخ شمیم کے بارے میں مکمل خاموشی اختیارکئے رکھی شائد اس لئے کہ وہ مسلمان
تھا۔متعصب ہندونے اپنی فطرت کے عین مطابق شیخ شمیم کوپہلے خوب استعمال
کیااوربعدازاں اس کی قربانی دینے میں اس کی جبیں پرندامت کی کوئی شکن تک
نہیں آئی۔
ایک اورشخص راوندرکوشک بھی بھارتی جاسوس تھا۔وہ بھارتی صوبے راجستھان میں
پیداہوا،وہ تھیٹرآرٹسٹ تھا جبکہ ''را'' نے اسے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل
کیلئے بھرتی کیا او ر پاکستان کے خلاف جاسوسی پرمامورکردیا۔اسے پہلے دوسال
تک تربیت دی اور۱۹۷۵ء میں پاکستان بھیج دیا۔یہاں اس نے کراچی یونیورسٹی میں
نبی احمدشاکرکے نام سے داخلہ لے لیا۔گریجوایشن کے بعدکوشک پاک فوج میں
بھرتی ہوگیا۔وہ کمیشن حاصل کرکے میجرکے عہدے تک جاپہنچا۔ برصغیر میں شائدہی
کسی اورجاسوس نے دشمن ملک کی فوج میں اس طرح عہدہ حاصل کیاہو۔۱۹۷۹ء سے۱۹۸۳ء
تک اس نے بڑی حساس معلومات ''را''کوفراہم کیں۔ آخرکارایک بھارتی جاسو س
پکڑاگیاتودورانِ تفتیش اس نے انکشاف کیاکہ نبی احمدشاکرکے بھیس میں دراصل
راوندرکوشک نامی جاسوس بھی موجودہے چنانچہ کوشک کوحراست میں لیکراس پرمقدمہ
چلایاگیااورفوجی عدالت نے اسے سولہ سال قیدکی سزاسنائی۔یہ۲۰۰۱ءمیں ملتان
جیل میں پھیپھڑوں کی تپ دق(ٹی بی)میں مبتلاہوکرموت سے ہمکنارہوگیا۔
بھارتی جاسوس کلبھوشن پاکستان کی سرزمین پرناپاک قدم جمانے والے بھارتی
جاسوسوں میں اس بناء پراوّل درجے پر فائز ہے کہ وہ محض جاسوس ہی نہیں
بدترین دہشتگردبھی ثابت ہوچکاہے۔بتایاجارہاہے کہ کلبھوشن کے حوالے سے
''عالمی عدالت انصاف''میں زیرسماعت بھارتی درخواست کی آئندہ تاریخ سماعت
پرپاکستان کی جانب سے اس کے ساتھ ساتھ ایک مسلمہ اوراقبالی دہشتگردکے
طورپرمتعار ف کراکے اس کی قسمت کامنطقی انجام ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے گی۔
پاکستانی ارباب حل وعقدعالمی عدالت انصاف کے اگلے اجلاس میں، جس کے
جلدانعقادکیلئے وہ ناقابل فہم تک بے چین ہیں۔کیااس لئے کہ پچھلے اجلاس میں
انہیں اپنی کوتاہ فکروعمل کااحساس ہوگیاہے؟ہمیں پہلے تواس عالمی عدالت کے
دائرہ اختیارپربحث نہیں بلکہ مطلع کرناہے کہ کلبھوشن جوصرف جاسوس نہیں بلکہ
ایک ایسادہشتگردہے جس نے پاکستان میں برسوں سے اپنے نیٹ ورک کے ذریعے
پاکستان کی قومی سلامتی کو شدید نقصان اوردہشتگردی کے ذریعے ہمارے سینکڑوں
معصوم اوربے گناہ شہریوں کی جان لے چکاہے۔
قارئین!آپ کوہندوذہنیت اوربربریت کے چندواقعات کے احوال سے اس لئے آگاہ
کیاہے کہ یہ احوال دلچسپ بھی ہیں اوران میں عبرت و موعظت کاسامان بھی
موجودہے اوردوسری طرف یہ معاملہ اب صر ف بھارتی جاسوسوں کی حدتک محدودنہیں
رہ گیابلکہ اس معاملے سے ذراسی غفلت یارعائت ملک کی قومی سلامتی کوکس
قدرناقابل تلافی نقصان پہنچاسکتی ہے۔ آئندہ مؤرخ جاسوسی کی تاریخ مرتب کرے
گاتوحاضروموجود عالمی عدالت انصاف کے کردارکی بھی چھان پھٹک کرے
گااوردنیاکوبعض سادہ حقائق سے ضرورآگاہ کرے گااوریہ سوال تاریخ کے صفحات
میں درج کرے گاکہ:
٭کلبھوشن نے اپنانام کیوں تبدیل کررکھاتھا؟
٭ وہ جعلی پاسپورٹ پرگزشتہ۱۴برس سے پاکستان میں کیاکررہاتھا؟
٭وہ پاکستان کے ازلی اوراقبالی دشمن بھارت کاحاضرسروس نیوی کمانڈرہے۔
٭وہ رسوائے زمانہ بھارتی جاسوسی ادارے ''را''کاایجنٹ ہے۔اس ایجنسی کا
بنیادی کام ہی پاکستان دشمن سرگرمیاں ہیں۔
٭کلبھوشن کی گرفتاری پربھارت مکرکیوں گیاکہ اس کاکلبھوشن سے کوئی تعلق
یاواسطہ نہیں؟
٭بعدمیں ہوش میں آنے پربھارت سرکاراسے اپنی نیوی کاسابقہ آفیسرتسلیم کر
لیتی ہے۔
٭پھروزیرخارجہ سشماسوراج اس کے دھرتی ماتاکاسپوت ہونے کی بڑہانکتی ہے جسے
بچانے کیلئے آخری حدتک جانے کااعلان کرتی ہے۔
٭کلبھوشن کاباضابطہ اقبالی بیان جس میں تمام جرائم کااعتراف ویڈیوپرکیا
گیااورباقاعدہ طور پر اپنی سفاکانہ دہشتگردی کی ان گنت کاروائیوں کوتسلیم
کیاہے۔
عالمی عدالت کے ایڈوائزری اختیارسماعت میں توکلبھوشن کامقدمہ ہرگزنہیں آتا۔
فوجداری، دہشتگردی، جاسوسی کے خوفناک اورناقابل معافی جرائم میں عالمی
عدالت انصاف کا کیا عمل دخل؟ویاناکنونشن کاآرٹیکل (۳۶۔۱)بھی کلبھوشن پر
لاگونہیں ہوتا۔یہ آرٹیکل شہریوں کیلئے ہے جوباقاعدہ طورپراپنے اصل پاسپورٹ
پراصل نام پرکسی دوسرے ملک میں وہاں کے مروجہ قانونی تقاضے پوری کرکے جاتے
ہیں مگرمین ملک میں کوئی قانونی مسئلہ یاپیچیدگی پیداہوجاتی ہے جس پراس
شہری کو(۳۶۔۱)کاتحفظ حاصل ہے۔
یہ انسانی حقوق کے دائرہ کارمیں بھی آجاتاہے،اسے قونصلررسائی کاحق حاصل ہے
مگرایک دہشتگردخونی جاسوس کیلئے ایسی سہولت فہم سے بالاتر ہے۔اس استثناء
کاایک دہشتگردخونی جاسوس کیسے حق دارہے جبکہ آج کی جدیددنیا دہشتگردوں کے
خلاف سخت سے سخت قوانین بنارہی ہے اوران پرسختی سے عملدرآمدکروارہی ہے
مگرکلبھوشن کوعالمی عدالت انصاف کی طرف سے پناہ دے دیناہمارے حکمرانوں کی
طرف سے بین الاقوامی سطح پردانشمندانہ حکمت عملی کے فقدان کامظہرہے
یاپھرجرمِ ضعیفی یاحکمران خوابوں خیالوں کی دنیا میں رہتے ہوئے بھارت کے
ساتھ ایک ناقابل عمل بیک ڈور پالیسی میں مصروف ہیں جس میں ملکی مفادات
کاکوئی لحاض نہیں رکھاجارہامحض ذاتی اورخاندانی مفادات سرفہرست ہیں جن کی
تفصیل اپنے ان عوام سے بھی خفیہ رکھی جارہی ہیں۔
ایک طرف تویہ روّیہ ہے کہ ہمارادشمن ہمارے پچاس کے قریب طالب علموں بچوں کو
چندگھنٹوں کے اندراندربذریعہ روڈبراستہ واہگہ ویزے جاری نہیں کرتا، کرکٹ
مقابلوں کے معاہدے کرکے صاف انکاری ہے۔ہمیں اجاڑ،بنجرویران کرکے
بھوکاپیاسامارنے کیلئے کبھی بین الاقوامی قانون کی پرواہ کئے بغیر
ناجائزڈیم پرڈیم بنائے جارہاہے۔کھلے عام بلوچستان کوتوڑنے کی باتیں
کرتاہے،پاکستان کوسبق سکھانے کی دہمکیاں دیتاہے۔مشرقی پاکستان کاسانحہ یاد
دلاتا ہے اورمسلسل دہمکیاں دیئے جارہاہے،دنیامیں تنہاکرکے مارنے کی دہمکی
دیتاہے اورایک ہم ہیں کہ اس کے آگے پیچھے جا رہے ہیں۔ حلف برداری کی تقریب
میں جانااپنے لئے باعث مسرت سمجھتے ہیں۔ذاتی شادیوں پربلاتے ہیں، ساڑھیوں
کے تحفے وصول کرتے اور بھیجتے ہیں۔اپنے دلی سجن جندال کو مری کے صحت افزاء
تفریحی مقام کی سیرکراتے ہیں اورویزے ایسی پابندیاں خاطرمیں نہیں لاتے۔ کیا
محض اس بناء پرکہ ہم عالمی سطح کے تاجرکا مخصوص کردارنبھاناضروری یا
ناگزیرسمجھتے ہیں۔
ماہرقانون خواجہ خوشدل فہیم نے محولابالاوتیرہ کے تذکرہ میں لکھاہے:صلاح
الدین ایوبی ایک معمولی جسم کے دبلے پتلے قدکامالک تھا جسے شکست دینے کیلئے
مسیحی دنیانے صلیبی جنگیں شروع کیں اورسارایورپ وقت کی تمام جدید ترین جنگی
مشینوں کے ساتھ امڈآیاتھاپھربھی یورپ ناکام و نامراد رہا ۔ان کے مقابلے میں
ایک محب وطن،ارض مقدس کافرزنداللہ پربھروسہ کرنے والامجاہد کھڑاتھاجوفیاض
اورسخی اتناتھاکہ رچرڈ کے بیمار پڑنے پر خود بھیس بدل کراس کاعلاج کرتاہے،
پھل بھیجتاہے تاکہ صحراکی گرمی رچرڈکوہلاک نہ کر دے۔ جری اتناہے کہ
رچرڈکاگھوڑاہلاک ہو جانے پراپنا بہترین گھوڑا دیتاہے کہ رچرڈ بے سروسامانی
کوشکست کاعذرنہ بنالے لیکن جوہری عرف حکمت ودانائی و شجاعت کاعظیم پیکریہ
بھی جانتاہے کہ میدانِ جنگ میں دشمن کے ہزاروں سپاہیوں کوتہہ تیغ
کردینااتنافائدہ مندنہیں جتنادشمن کے ایک جاسوس کو نشان عبرت بنادینا۔ایسے
وطن دوست کودشمن مؤرخین بھی گریٹ صلاح الدین کے نام سے یادکرتے ہیں۔دیکھیں
تاریخ ہمارے موجودہ حکمرانوں کوکس نام سے یاد رکھتی ہے؟ |