بھیڑیں، جوئیں اور شیر!

 کالی بھیڑوں کی سازش ایک مرتبہ پھر سامنے آگئی، اس سازش کا بھانڈہ ملی یکجہتی کونسل کے صدر جناب ابوالخیر محمد زبیر نے پھوڑا ہے، انہوں نے بتایا ہے کہ ’’․․․․ پاک فوج نے ہر مشکل وقت میں قوم کی مدد کی ہے، فوجی آپریشن سے امن کے قیام میں مدد ملی ہے، لیکن حکومت کی صفوں میں موجود کالی بھیڑیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان میں امن قائم ہو ․․․․ پارا چنار میں دہشت گردی کے متاثرین ایک ہفتہ تک سراپا احتجاج بنے رہے، مگر حکمرانوں کے کانوں تک جُوں تک نہیں رینگی․․․‘‘۔ہم نے اس بیان پر کافی غور کیا، ملکی معاملات کے الجھاؤاور ٹکراؤ وغیرہ میں کہیں بھیڑ وں اور جوؤں کا ذکر دکھائی نہیں دیا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بھیڑوں کا صفوں سے کیا تعلق ہے، یہ مخلوق اپنی چال کے سلسلے میں تو اپنی مثال آپ ہے، یہ نہیں کہ اس کی چال نرالی ہے، یا جب بھیڑ چلتی ہے تو کوئی شاعرانہ ماحول بن جاتا ہے، یا اس کی چال کو دیکھ کر دیگر جانور بھی تقلید کی منصوبہ بندی کرنے لگتے ہیں۔ بھیڑ کی چال میں ایسا کچھ بھی نہیں، پھر بھی ’’بھیڑ چال‘‘ نہ صرف مشہور ہے، بلکہ اس کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ بھیڑ چال کے بارے میں چاہے کچھ بھی کہا جائے، مگر ’’صف بندی‘‘ کی تہمت نہیں لگائی جاسکتی۔ اگر حکومت کی صفیں کسی اور مخلوق کی ہیں اور ان میں بھیڑیں بھی پائی جاتی ہیں، تو بات بھی قابلِ غور ہے۔ یقینا حکومت کی صفوں میں شیروں کا ذکرزیادہ نظر آتا ہے، کہ ہر حکومتی تقریب میں ’’شیرآیا، شیرآیا‘‘ کے نعرے لگائے جاتے ہیں، ایسے میں وہاں بھیڑ کی موجودگی چہ معانی؟

اگر بات صفوں کی ہے، تو شیر بھی صف بندی کا قائل نہیں، کسی شیر یا بھیڑ پر ہی کیا موقوف، کہ جنگل کا شاید کوئی ہی جانور ہو گا جو صف بناتا اور ترتیب اور سلیقے سے اپنا نظامِ زندگی چلاتا ہے، جنگل تو نام ہی آزادی ہے۔ بات بھیڑ سے شیر تک پہنچ گئی، ہماری بھی مجبوری ہے کہ اپنے ہاں اچھی مثال ہو یا بری، خوبی بیان کرنا ہو یا خامی ، اکثر جانوروں کی مثالوں سے ہی کام چلایا جاتا ہے، جانوروں کی صفات کے مطابق انسان کو وہی نام دیا جاتا ہے، حالانکہ غور کیا جائے تو حضرتِ انسان بھی اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے اکثر جانوروں کی خوبیاں اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔خیر بات طول پکڑ رہی ہے اور کالم کا دامن اختصار کا متقاضی ہے،اگر حکومتی صفوں میں بھیڑیں موجود ہیں تو اچھے کاموں میں رکاوٹ صرف کالی بھیڑیں ہی کیوں بن رہی ہیں، کالی بھیڑیں ہی امن قائم کیوں نہیں ہونے دیتیں، یا وہاں موجود سفید بھیڑیں انہیں اس عمل سے منع کیوں نہیں کرتیں؟ یا سفید بھیڑیں بھی اندر خانے کالی بھیڑوں سے ملی ہوئی ہیں؟ جہاں تک ہمارا خیال ہے کہ بھیڑیں ایک معصوم اور بے ضرر ساجانور ہے، یہ امن پسند بھی ہے، اس لئے یہ کسی کو امن کے قیام سے روکنے کے جرم کا ارتکاب نہیں کر سکتا۔ ابوالخیر صاحب کو اپنے بیان سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

ابوالخیر کی یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے اور حکمرانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ ’’حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی‘‘۔ جُوں کا حکومتوں کے ایوانوں میں داخل ہونا خطرے کی گھنٹی ہے، سکیورٹی کے اتنے سخت انتظامات میں جوؤں کی کیا مجال کہ وہ حکومتی ایوانوں میں داخل ہو سکیں۔ بے شمار چیک پوسٹیں عبور کرنا پڑتی ہیں، منظوریاں لینا پڑتی ہیں، فہرستوں میں نام شامل کروانا پڑتا ہے، بعض اوقات بڑی سفارشوں اور کوششوں سے وہاں تک رسائی ہوتی ہے۔ اگر کسی طریقے سے یہ اندر جانے میں کامیاب ہو ہی جائیں تو بھی حکمرانوں تک ان کی رسائی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، ہاں البتہ یہ ممکن ہے کہ یہ وہاں کے مالیوں سے ہوتے ہوئے یہ محافظوں تک پہنچ جائیں، وہاں سے پھر دیگر اہم افراد تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں۔لیکن سب کچھ کے باوجود اس سے اگلے مراحل بھی آسان نہیں کہ وہ حکمرانوں کے کان تک پہنچیں، اور وہاں جاکر رینگنے کا فریضہ سرانجام دے کر محاوروں کی تکمیل کا ذریعہ بن جائیں۔ ملک میں امن وامان پہلے سے بہت بہتر ہے، اﷲ کرے گا اس میں اور بھی بہتری آئے گی، مگر پریشانی یہ ہے کہ سیاست اور حکومتی ایوانوں سے بھیڑوں، شیروں اور جوؤں وغیرہ کا وجود ختم ہونا چاہیے، تاکہ انسانوں کی خدمت کے لئے انسان ہی کام آئیں۔ یہاں مقامِ شکر ہے کہ زبیر صاحب نے پاک فوج سے یہ مطالبہ نہیں کردیا کہ ’رد الفساد‘ کے ذریعے حکومتی صفوں میں موجود مندرجہ بالا جانوروں کا بھی صفایا کیا جائے۔
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428447 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.