تاریخ پیدائش:
سردار محمد عبدالقیوم خان 4 اپریل 1924 کو(گاؤں جولی چیڑ) ریاست جموں و
کشمیر کے ضلع پونچھ کے گاؤں غازی آباد موجودہ ضلع باغ میں پیدا ہوئے۔
تعلیمی کوائف:
ریاست جموں وکشمیر کے مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم رہے اور تقسیم ہند
سے قبل یونیورسٹی آف پنجاب سے ثانوی تعلیمی سرٹیفیکٹ حاصل کیا ۔
سرکاری ملازمت:
میٹرک تک تعلیم کے بعد وہ برٹش انڈین آرمی کی انجینئرنگ کور میں بھرتی ہوئے
۔1942 سے 1946 تک افریقہ کے صحراؤں سے لے کرمڈل ایسٹ تک کے مختلف ممالک میں
تعینات رہے اس دوران انھوں نے فلسطینی آپریشن کے ابتدائی ایام بھی اپنی
آنکھوں سے دیکھے۔ وطن واپسی کیبعد1946ء میں ملازمت سے استعفیٰ دے کر تحریک
آزاد ی کشمیر میں شامل ہوگئے۔
تحریک آزادی کشمیر میں کردار:
قیام پاکستان کے وقت مہاراجہ کشمیر کی طرف سے کشمیریوں کی خواہشات اور
تقسیم ہند کے پلان کے مطابق الحاق پاکستان سے انکار پر سردار محمد
عبدالقیوم خان نے 23 اگست 1947 ء کو نیلہ بٹ کے مقام سے اپنے ساتھیوں سمیت
جہاد آزاد ی کا اعلان کیا جس کے نتیجے میں انتہائی مختصر عرصہ میں گلگت
بلتستان سمیت آزاد جموں وکشمیر کا 32000 ہزار مربع میل کا علاقہ آزاد ہوا
جہاں آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر کا قیام عمل میں لایا گیا۔ تحریک آزاد
کشمیرمیں نمایاں اور کلیدی قائدانہ رول ادا کرنے کی وجہ سے قوم نے انھیں’’
مجاہد اول‘‘ کا خطاب دیا ۔1975 ء میں پاکستان کے دگرگوں سیاسی ماحول میں
پاکستان نیشنل الائنس (PNA) کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا اور اس کے
سیکرٹری جنرل منتخب کئے گئے اس دوران انھیں گرفتار کر کے 6 ماہ تک پلندری
جیل میں رکھا گیا ۔ ان نازک حالات میں ملک کو بحران سے نکالنے اور قائدانہ
اور مفاہمانہ کردار کے لئے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی نظریں اُن پر
پڑیں۔ انھیں پلندری جیل سے ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے سیالہ ریسٹ ہاؤس میں
مقید (PNA) کے راہنماؤں کے پاس پہنچایا گیا جن کی کوششوں سے PNA اور حکومت
کے درمیان ایک معاہد ہ طے پایا ان کا یہ مصالحانہ رول امن کے پیعمبر کے طور
پر قومی اور عالمی سطح پر سراہا گیا ۔
سیاسی عہدے:
سردار محمد عبدالقیوم خان پہلی دفعہ 1955 ء میں محض31 سال کی عمر میں قائد
ملت چوہدری غلام عباس ، غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان، میر واعظ کشمیر
سید محمد یوسف شاہ، راجہ حیدر خان، سردار فتح محمد کریلوی اور کے ایچ
خورشید کی موجودگی میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے صدر منتخب ہوئے اس
کے بعد مختلف ادوار میں 14 مرتبہ آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے صدر منتخب
ہوتے رہے۔کم عمری میں مسلم کانفرنس کے صدر بننے کا یہ اعزاز آپ کے سوا
ریاست جموں وکشمیر کی کسی اور سیاسی شخصیت کوحاصل نہیں۔2000 ء میں آل جموں
و کشمیر مسلم کانفرنس کا تاحیات سپریم ہیڈ مقرر کیا گیا۔
اقتدار کی سیاست:
سردار محمد عبدالقیوم خان 1951ء میں کشمیر میں استصواب رائے کے لئے قائم
ہونے والی کمیٹی میں آزاد جموں وکشمیر کی طرف سے ممبر بنے۔ 1952 میں وہ
پہلی مرتبہ آزاد کشمیر حکومت کے وزیر بنے اُس وقت ان کی عمر28 سال تھی ۔وہ
1956 میں 32 سال کی عمر میں قائد ملت چوہدری غلام عباس ، غازی ملت سردار
محمد ابراہیم خان، میر واعظ کشمیر سید محمد یوسف شاہ، راجہ حیدر خان، سردار
فتح محمد کریلوی اور کے ایچ خورشید کی موجودگی میں پہلی مرتبہ آزاد ریاست
جموں وکشمیرکے صدر مقرر کئے گئے۔ اس طرح ان کو آزاد کشمیر کے سب سے کم عمر
صدر کا اعزاز بھی حاصل ہے۔1962 میں لوکل باڈیز کے نظام کے تحت آزاد جموں و
کشمیرسٹیٹ کونسل کے پونچھ ضلع سے ممبر منتخب ہوئے ۔سردار محمد عبدالقیوم
خان ایکٹ 70 کے تحت 1971 میں بالغ رائے حق دیہی کے تحت منعقد ہونے والے
الیکشن میں غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان اور کے ایچ خورشید کیساتھ
مقابلے کے بعد بھاری اکثریت سے دوسری مرتبہ آزاد ریاست جموں وکشمیر کے
صدر(چیف ایگزیکٹیو) منتخب ہوئے ۔ 1985 ء کے انتخابات میں دھیر کوٹ کے حلقے
سے پہلی مرتبہ ممبر قانون ساز اسمبلی منتخب ہوئے بعد میں استعفیٰ دے کر
تیسری مرتبہ آزاد جموں وکشمیر کے صدر منتخب ہوئے۔وہ پانچ سال اس عہدے پر
فائز رہے۔1990 ء میں چوتھی مرتبہ آزاد ریاست جموں و کشمیر کے صدر منتخب
ہوئے تاہم 1991 ء میں نئے انتخابات کے بعد عہدہ صدارت سے استعفیٰ دے کر
آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی میں علماء مشائخ کی مخصوص نشست پر
الیکشن میں حصہ لیا اور ممبر قانون ساز اسمبلی منتخب ہوئے اور پھر وزیر
اعظم آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر منتخب ہوئے۔ 1996 میں دھیر کوٹ سے آزاد
کشمیر قانون ساز اسمبلی کے تیسری بار ممبر منتخب ہوئے اور پھر آزاد کشمیر
قانون ساز اسمبلی میں لیڈر آف دی اپوزیشن مقرر ہوئے ۔ 2001 ء میں چوتھی
مرتبہ آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے ۔
سردار صاحب کا اعزاز
سردار محمد عبدالقیو م خان صاحب کو قدرت نے یہ اعزاز بھی بخشا ہے کہ انھوں
نے اپنی زندگی میں اپنے بیٹے سردار عتیق احمد خان کو دو مرتبہ آزاد کشمیر
کا وزیر اعظم منتخب ہوتے دیکھا۔ آزاد کشمیر کی سیاسی تاریخ میں کسی اور
سیاست دان کو یہ اعزاز حاصل نہیں کہ وہ خود بھی متعدد مرتبہ آزاد کشمیر کا
صدر اور ایک مرتبہ وزیر اعظم رہ چکا ہو اور اُن کی زندگی میں اُن کا بیٹا
بھی وزارت عظمیٰ تک جا پہنچا ہو۔
سیاسی و نظریاتی کردار:
سردار محمد عبدالقیوم خان کو 1958 ء میں مسلم کانفرنس کے صدر چوہدری غلام
عباس کی طرف سے شروع کی گئی کشمیر چھوڑ دوْ ْْْْ(KLMْْْْ) کی تحریک کے
دوران سیز فائر لائن کراس کرتے ہوئے چوہدری غلام عباس کے ہمراہ گرفتار کیا
گیا اس دوران وہ چھے ماہ تک جیل میں قید رہے۔ 1959 ء میں مارشل لاء حکام کی
طرف سے Abdo قانون کے تحت ان پر زبان بندی کی پابندیاں عائد کر دی گئیں
لیکن وہ زیر زمین رہ کر کام کرتے رہے ۔ 1965 ء کی جنگ میں انھوں نے پاک
آرمی کی مدد کے لئے رضاکار تیار کئے اور دیگر دفاعی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ
کر حصہ لیا۔ 1968 ء میں کشمیر کی آزادی کے لئے مسلح جہاد کا دوبارہ آغاز
کرتے ہوئے آزاد کشمیر میں المجاہد فورس قائم کی ۔ المجاہد تحریک نے دشمن کے
چھکے چھوڑا دئیے۔سردار محمد عبدالقیوم خان نے 1971 ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد
قوم کو نظریاتی اور فکری انتشار سے بچانے اور شکست خوردہ قوم کو دوبارہ
اپنے نظریاتی استحکام کی طرف موڑنے کے لئے ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کا
نعرہ دیا۔ یہ نعرہ آج بھی سیز فائر لائن کے دونوں اطراف پوری قوت سے گونج
رہا ہے۔
مسلم کانفرنس کے اتحاد کے لئے آزاد کشمیر کے اقتدار سے رضاکارانہ
دستبرداری:
سردار محمد عبدالقیوم خان نے کبھی اقتدار کو اپنا مطمع نظر نہیں رکھا اور
وہ ہمیشہ اس سے پہلو تہی کرتے رہے ۔ 1985ء کے عام انتخابات کے بعد منتخب
ہونیو الی اسمبلی کے اراکین کی واضح اکثریت اُن کو وزیر اعظم دیکھنا چاہتی
تھی لیکن سردار سکندر حیات خان کی خواہش اور شوق پر انھوں نے سردارسکندر
حیات خان کو وزیر اعظم منتخب کرایا ۔1996 ء کے انتخابات میں اندرونی سازشوں
اور وفاقی حکومت کی مداخلت کی وجہ سے مسلم کانفرنس کو شکست ہو گئی جس کے
نتیجے میں مسلم کانفرنس بھی ’’س‘‘ اور’’ق‘‘ گروپ میں تقسیم ہو گئی جس کا
سردار صاحب کو بہت دُکھ تھا اور وہ اس کے دوبارہ اتحاد کے لئے کوشاں رہے
چنانچہ 2001ء میں وہ سردار فتح محمد خان کریلوی کی برسی میں شرکت کے لئے
نکیال جا پہنچے۔ جہاں مسلم کانفرنس کے دوبارہ اتحاد کی داغ بیل ڈالی گئی۔
جس کے نتیجے میں مسلم کانفرنس 2001ء کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے
جیت گئی۔ اب کی بار بھی ممبران اسمبلی کی اکثریت اُن کو وزیر اعظم دیکھنا
چاہتی تھی جب وہ راضی نہ ہوئے تو ممبران اسمبلی کی واضح اکثریت نے سردار
عتیق احمد خان کو متبادل کے طور پر وزیر اعظم نامزد کر دیا لیکن اس مرتبہ
بھی مجاہد اول نے مسلم کانفرنس کا اتحاد قائم رکھنے کے لئے سردار عتیق احمد
خان کے بجائے اپنا وزن سردار سکندر حیات خان کے پلڑے میں ڈال کر مسلم
کانفرنس کا اتحاد اوریکجہتی قائم رکھنے کی ایک اور کوشش کی اور سردار سکندر
حیات خان کودوبارہ وزیر اعظم بنوا دیا۔ اس وقت سردار سکندر حیات سمیت تمام
ممبران اسمبلی کی تمام تر کوششوں کے باوجود مجاہد اول نے عہدہ صدارت قبول
کرنے سے انکار کر دیا اور اپنی جگہ ضلع پونچھ کے میجر جنرل محمد انور کو
صدر بنوا دیا۔ اس عرصہ میں ممبران اسمبلی کی ایک خاصی تعداد سردار سکندر
حیات خان کے خلاف صف آراء رہی لیکن مجاہد اول ڈھال بن کر سردار سکندر حیات
خان کی حکومت کی حفاظت کرتے رہے۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ سردار سکندر حیات
خان بھی تنگ آکر غازی آباد پہنچ گئے اور انھوں نے مستعفیٰ ہونے اور سردار
صاحب کو وزیر اعظم بننے کی پیشکش کر دی لیکن سردار صاحب نہ مانے ۔
پاکستان کی سیاست میں کردار
سردار محمد عبدالقیوم خان کے دل میں پاکستان کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی
ہے وہ پاکستانیوں سے بڑھ کر پاکستانی ہیں تاہم پاکستان میں اقتدار کی سیاست
سے وہ ہمیشہ کنارہ کش رہے۔ ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو، صدر جنرل ضیا ء
الحق ، جنرل پرویز مشرف کے علاوہ اور دیگر کئی سیاسی جماعتوں کی طرف سے
پاکستان کی سیاست میں عملاً حصہ لینے کی پیش کشوں کو انھوں نے کبھی قبول
نہیں کیا۔ کبھی اُن کو قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں پر اور متعدد مرتبہ اُن
کو سینیٹر بننے کی پیشکش بھی ہوئی لیکن وہ ہمیشہ اس سے اعراض ہی کرتے رہے۔
انھوں نے 1971 ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد جب قوم نظریاتی اور فکری انتشار کی
طر ف بڑھ رہی تھی ۔ محب وطن پاکستانی مایوسی کے عالم میں مبتلاء تھے اور
کشمیری عوام اپنے مستقبل سے مایوس ہو کر پاکستان کے بجائے ادھر ادھر دیکھ
رہے تھے اسی دور میں خودمختار کشمیر کا فتنہ بھی سامنے آیا چنانچہ اس نازک
مرحلے میں سردار محمد عبدالقیوم خان نے کشمیری قوم کو’’ کشمیر بنے گا
پاکستان ‘‘کا نعرہ دے کر اُن کے لئے ایک واضح منزل اور سمیت کا تعین کردیا۔
1975ء میں پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی
بھٹو نے آزاد کشمیر کو صوبہ بنانے کی اپنی کوششوں میں ناکامی کے بعد سردار
محمد عبدالقیوم خان کو (FSF) کے ذریعے اقتدارسے محروم کر کے پابند سلاسل کر
دیا ۔رہائی کے بعد سردار محمد عبدالقیوم خان کو پاکستان میں بھٹو حکومت کی
فسطائیت کے خلاف (PNA) کے نام سے قائم ہونے والے قومی اتحاد کی داغ بیل
ڈالنے اور اُس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے الزام میں پھر گرفتار کر کے
پلندر ی جیل میں مقید کر دیا۔جہاں وہ 18 ماہ تک قید و بند کی صعوبتیں
برداشت کرتے رہے۔ 1977ء میں پاکستان کے بدترین سیاسی بحران میں بھٹوحکومت
نے اُن کو پلندری جیل سے بلا کر قومی اتحاد کے رہنماؤں سے مذاکرات کا ٹاسک
دیا انھوں نے محب وطن شخص کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے ساتھ روا رکھے گئے
بھٹو دور کے ظالمانہ اقدام کی پرواہ کئے بغیر حکومت کی پیش کش کو نہ صرف
قبول کیا بلکہ قائدانہ اور تاریخی رول ادا کرتے ہوئے( PNA) کے لیڈروں کو
مذاکراتی ٹیبل پر لا بٹھایا۔ اُن کے اس کردار کو قومی اور بین الاقوامی سطح
پر آج تک سراہا جا رہا ہے۔
1978ء میں پاکستان میں مارشل لا ء کے بعد تحریک بحالی جمہوریت (MRD)کے قائم
کرنے اور اُس کی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لیا کچھ عرصہ تک وہ اس کے
کنوینئر بھی رہے۔ انھوں نے اپنے بڑ ے مخالف ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی
دینے کی بھرپور مخالفت کی اس کے لئے صدر ضیا ء الحق کو ایک خط بھی لکھا اور
اس وجہ سے وہ بڑے عرصے تک جنرل ضیا ء الحق کے زیر عتاب بھی رہے۔ تاہم(
الذوالفقار) تنظیم کی طر ف سے پی آئی اے کا طیارہ اغواہ کر کے کابل لے جانے
کے واقعہ کے بعد انھوں نے(MRD) سے الگ ہو کر مولانا وصی ظفر ندوی
اورروزنامہ وفاق کے ایڈیٹر مصطفی صادق کے ساتھ ملکر تحریک استحکام پاکستان
کی بنیاد بھی رکھی۔سردار محمد عبدالقیوم خان کی اسلام سے وابستگی اور
پاکستان سے محبت کا جذبہ دیکھ کر بعد میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے اُن
کو اپنا پیر و مرشد قرار دے دیا اور کوٹلی کے جلسہ عام میں اعلان کیا کہ وہ
فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد مسلم کانفرنس میں شمولیت کا اعلان کریں گے۔سردار
صاحب 2002 ء میں پاکستان کی صدارتی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے ۔
مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا
سردار محمد عبدالقیوم خان نے 1970 تا 1975 کے دور حکومت میں تحریک آزادی
کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے اور عالمی لیڈروں کو مسئلہ کشمیر کی
سنگینی کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لئے متعدد اقدامات کئے۔ جن میں لاہور
میں منعقدہ 1974 ء کی اسلامی سربراہی کانفرنس میں عالمی رہنماؤں سے
ملاقاتیں اور مسئلہ کشمیر کا تعارف،برطانیہ کے ہاؤس آف کامن میں کشمیر
کمیٹی کا قیام، OIC میں کشمیریوں کو مبصر کی حیثیت دلوانے،1979 ء میں رابطہ
العالم اسلامی کے اجلاس میں کشمیریوں کے درمیان انٹر کشمیر ڈائیلاگ کی
قرارداد کا پیش کرانا اور منظور کرانا، مسلم ممالک میں کشمیر ی طلبہ اور
اساتذہ کے لئے سکالرشپ کا حصول، آزاد کشمیرکے طلبہ بیرون ممالک یونیورسٹیوں
میں تعلیم کے لئے وظائف کا حصول ،اسلام آبا دمیں قائم غیر ملکی سفارت خانوں
میں مسئلہ کشمیر کے تاریخی پس منظر اور کشمیریوں کی جدوجہد کے حوالے سے
لٹریچر کی فراہمی،آزاد کشمیر میں غیر ملکی NGOs کے داخلے پر پابندی کا
خاتمہ اور دنیا بھر کے دارلحکومتوں میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے سلسلے
میں دورے ، سیمناروں اور کانفرنسوں سے خطاب جیسے اہم کارنامے شامل ہیں۔
آزاد کشمیر کی تعمیر و ترقی
سردار محمد عبدالقیوم خان نے اپنے دور حکومت میں آزاد کشمیر میں تعمیر و
ترقی اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے محکمہ ترقیات و منصوبہ بندی ، محکمہ
امور دینیہ ، اکلاس ،AKMIDC،محکمہ قضاء، محکمہ افتاء ،سپریم کورٹ اور
جوڈیشنل بورڈ کا قیام ، دینی مدارس کی باقاعدہ سرپرستی، صدر کی سطح پر ہفتہ
وار درس قرآن کا اہتمام کرانا، اپنے عہدہ صدارت کے دوران انھوں نے آزاد
کشمیر میں مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے ، آزاد جموں وکشمیر کے آئین میں
الحاق پاکستان کا’’ آرٹیکل‘‘ شامل کرانے ،جمعہ کی سرکاری چھٹی، خانہ بدوش
قبیلے کے لئے موبائل سکول اور موبائل ڈسپنسریوں، شہری دفاع کی تربیت،وفاقی
اداروں میں آزاد کشمیر کے لوگوں کے لئے آبادی کے تناسب سے کوٹہ کا مقرر
کرانا، آزاد جموں و کشمیر میں یونیورسٹی کا قیام، اردو کو قومی زبان اور
شلوار قمیض کو قومی لباس قرار دینے جیسے متعدد تاریخی اقدامات اٹھائے۔
انھوں نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے اس قول کی بنیاد پر کہ
’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘ آزاد جموں وکشمیر میں’’ کشمیر بنے گا
پاکستان‘‘ کے نعرے کی ترویج کے لئے سکولوں ،کالجوں ، تعلیمی اداروں اور
سرکاری خط و کتابت کی پیشانی پر اس کو کنندہ کرنے کے احکامات صادر فرمائے۔
بین الاقوامی اعزاز
سردار محمد عبدالقیو م خان 1979 میں رابطہ العالم اسلامی مکہ مکرمہ سعودی
عربیہ میں ہونے والی ’’رابطہ العالم اسلامی‘‘ کے تاسیسی ممبر مقرر ہوئے۔
آزاد کشمیر میں ایکٹ 74 کا نفاذ:
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ حمید گل کہتے ہیں کہ 1974 ء میں
ذوالفقار علی بھٹو آزاد کشمیر میں ایکٹ 70 کی موجودگی میں الیکشن کرا
کروہاں اپنی ذیلی تنظیم پیپلزپارٹی کی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے لیکن اپنے
اس منصوبے کی راہ میں وہ مسلم کانفرنس اور سردار محمد عبدالقیوم خان کو سب
سے بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے ۔ انھوں نے اپنے رفقا ء سے مشورہ کیا کہ ایکٹ 70کی
موجودگی میں آزاد کشمیر سے مسلم کانفرنس کی حکومت کا کس طرح خاتمہ ہو سکتا
ہے۔خفیہ اداروں کی طرف سے انھیں بتایا گیا کہ سردار محمد عبدالقیوم خان کو
اقتدار سے باہر رکھنے کے لئے وہاں پارلیمانی نظام نافذ کیا جائے چنانچہ
آزاد کشمیر میں پارلیمانی نظام محض سردار محمد عبدالقیوم خان صاحب اور اُن
کی پارٹی مسلم کانفرنس کو اقتدار سے محروم کرنے کے لئے نافذ کیا گیا۔
تصانیف :
انھوں نے درجنوں کی تعداد میں اردو اور انگریز ی میں کتب تصنیف
کیں۔اردوکتابوں میں(1) ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘،(2)’’مقدمہ
کشمیر‘‘،(3)’’مذاکرات سے مارشل لا ء تک‘‘(4)،’’آزاد کشمیر شاہراہ ترقی
پر‘‘(5)،’’خطبات ناروے‘‘(6)،’’تفسیر اورا ٹکل پچو‘‘(7)،’’تعمیر و ترقی میں
انتظامیہ کا کردار‘‘(8)،’’نظریاتی کشمکش‘‘(9)،’’کشمیر کی دفاعی
اہمیت‘‘(10)،’’کشمیر اور عالم اسلام‘‘(11)،’’مسئلہ کشمیر‘‘(12)،’’تحریک
آزادی کشمیر‘‘(13)،’’ مسلم کانفرنس کے کارکنوں کی ذمہ داریاں‘‘(14)،’’سیاست
میں اخلاقی قدروں کی اہمیت‘‘(15)،’’اچھی حکمرانی‘‘(16)،’’فتنہ انکار سنت‘‘
اور انگریز ی کتابوں میں درج ذیل ہیں۔
(01) In Search of Freedom (5 volumes)
(02) The Kashmir Case.
(03) The Kashmir Dispute: Options for Settlement.
(04) The Kashmir Problem.
(05) Miracles of Holy Quarn
(06) Operation Jibraltor - 1965 Indo-Pak War.
(07) Consolidated report: National Kashmir Committee 2002-2003, compiled
by Principle Staff Officer Lt. Col. (R) Muhammad Farooq.
|