برہان وانی کی شہادت اور تحریک آزادی کا ایک سال

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

تحریر: حبیب اﷲ قمر

کشمیری کمانڈر برہان مظفر وانی کی بھارتی فوج کے ہاتھوں شہا دت کو ایک برس گزر چکا ہے لیکن بھارتی ریاستی دہشت گردی کیخلاف جاری احتجاج میں کوئی کمی نہیں آئی۔ کرفیو جیسی پابندیوں کے باوجود لاکھوں کشمیری سڑکوں پر نکل کر شہر شہر مظاہرے کررہے ہیں، زبردست ہڑتالیں کی جارہی اور کھلے عام پاکستانی پرچم لہرائے جارہے ہیں۔ اکیس سالہ برہان کی شہادت نے تحریک آزادی کشمیر میں ایک نئی روح پھونک دی ہے اور کشمیرکی سبھی سیاسی و مذہبی جماعتیں اور عوام جس طرح آج متحد نظر آتے ہیں اس سے پہلے کبھی ایسی صورتحال پیدا نہیں ہوئی یہی وجہ ہے کہ بھارت سرکار سخت بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ بھارتی آرمی چیف، وزیر دفاع اور دیگر جرنیلوں و عسکری ماہرین کی طرف سے کشمیر کے دورے آئے دن کا معمول بن چکے ہیں۔ برہان وانی کی نماز جنازہ میں تین لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی۔ کرفیو کی پابندیاں توڑ تے ہوئے لاکھوں افراد سڑکوں پر آئے تو بھارتی فوج نے اپنے تئیں مظاہروں پر قابو پانے کیلئے جنازہ کے شرکاء پر اندھا دھند گولیاں برسا دیں جس سے مزید کئی کشمیری شہید ہو گئے۔ ہندوستانی فو رسز کی اس درندگی پر پورے کشمیر میں آگ بھڑک اٹھی اور ہر گلی محلہ سے نوجوان سڑکوں پر نکل کر بھارتی فوج کیخلاف غم و غصہ کا اظہا رکرنے لگے۔اس وقت بھی صورتحال یہ ہے کہ کشمیر میں تحریک آزادی پورے عروج پر ہے۔ بھارتی فوج ہر قسم کے وسائل اور صلاحیتیں صرف کرنے کے باوجود جدوجہد آزادی کشمیر پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ۔ بھارتی فورسز نے پیلٹ گن، پاوا شیل اور دیگر مہلک ہتھیار استعمال کر کے دیکھ لئے۔ سینکڑوں کشمیر یوں کی آنکھوں کی بینائی چلی گئی ، ہزاروں زخمی ہوئے۔کشمیری تاجروں کو اربوں روپے مالیت کا نقصان اٹھانا پڑا۔ ان کی فصلیں اور املاک تباہ کر دی گئیں لیکن کشمیریوں کے جذبہ حریت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ وہ روزانہ اپنے جگر گوشوں کی لاشیں اٹھاتے اور پاکستانی پرچموں میں لپیٹ کر دفن کرتے ہیں۔سبز ہلالی پرچم کشمیر میں ایسے نظر آتے ہیں جیسے لاہور، کراچی، اسلام آباد اور دیگر شہروں میں لہرائے جارہے ہوں۔ہندوستانی حکومت اور فوج کیخلاف نفرت کا ایک طوفان ہے جو ہر کشمیر ی بچے، بوڑھے اور نوجوان کے دل میں ہے۔ کشمیری قوم کا ہر طبقہ اس وقت سڑکوں پر ہے حتیٰ کہ طالبات بھی پیلٹ گن کے چھرے برسائے جانے کے باوجو دآئے دن احتجاج کرتی نظر آتی ہیں۔ اس سار ی صورتحال نے ہندوستانی حکام، فوج اور عسکری اداروں کو سخت تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ بھارتی جرنیل اور عسکری دانشور علی الاعلان یہ باتیں کر رہے ہیں کہ کشمیر بھار ت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ بی جے پی کی نریندر مودی حکومت کی جانب سے کشمیریوں کی دن بدن مضبوط ہوتی جدوجہد آزادی کو کچلنا اس وقت سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔کشمیریوں کاحریت پسند وں کے تحفظ کیلئے اپنی جانوں پر کھیل جانا معمول بن چکا ہے۔ جہاں کہیں مجاہدین گھیراؤ میں آتے ہیں مردوخواتین، بچے اور بوڑھے ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر بھارتی فورسز پر پتھراؤکرتے ہیں اور عسکریت پسندوں کے تحفظ کیلئے اپنی جانیں قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا ۔کشمیر کے یہ حالات دیکھ کر بھارتی آرمی چیف بپن راوت نے بوکھلاہٹ میں کشمیریوں کو کھلی دھمکی دی کہ اگر وہ کشمیری مجاہدین کے تحفظ کیلئے بھارتی فوج کا محاصر ہ توڑنے کی خاطر پتھراؤ سے باز نہ آئے تو پتھر کا جواب گولی سے دیا جائے گااور ایسا کرنیو الوں کے ساتھ باغیوں کی طرح نمٹا جائے گا لیکن یہ دھمکیاں کسی کام نہیں آئیں۔ کشمیر کے عملی حالات یہ ہیں کہ جہاں کہیں کوئی کشمیر ی مجاہد گھیراؤ کے دوران شہید ہو تا ہے تو دوسرے علاقوں کے لوگ مقامی کشمیریوں کو طعنے دیتے ہیں کہ تم گھروں سے کیوں نہیں نکلے اور یہ مجاہدین شہید کیسے ہو گئے؟۔ اس وقت کشمیر کا ہر فرد تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے حتیٰ کہ طالبا ت بھی سڑکوں پر ہیں۔ بھارتی فوج نہتی طالبات پر پیلٹ گن کے چھرے برساتی ہے لیکن آفرین ہے کشمیری بیٹیوں پر کہ جس مقام پر انہیں زخمی کیا جاتا ہے اگلے دن اسی مقام پر وہ دوبارہ پاکستانی پرچم لیکر کھڑی ہوتی ہیں۔ کشمیر کے ہر گلی کوچے سے اﷲ اکبر اور پاکستا ن سے رشتہ کیالاالہ الااﷲ کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔بھارتی فوج نے اس عرصہ میں لوک سبھا کی دو نشستوں پر انتخابات کروانے کی کوشش کی لیکن تمامتر وسائل اور اضافی نفری منگوانے کے باوجود وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکی اور پھر ہندوستانی وزارت داخلہ اور الیکشن کمیشن کے لوگ اپنی ناکامیوں کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالتے رہے۔ بھارتی فوجی حکام ایک سول شخص کو گاڑی کے بمپر کے ساتھ باندھ کر سڑکوں پر گھمانے والے درندوں کیلئے انعامات کا اعلان کر کے اپنی شکست خوردہ فوج کو حوصلہ دینے کی ناکام کوششیں کر رہے ہیں۔ بھارتی فوج نہتے کشمیریوں کیخلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر اتر آئی ہے۔ حالیہ دنوں میں جن کشمیریوں کو شہید کیا گیا ہے ان کی لاشیں قابل شناخت نہیں رہیں۔ موبائل اور انٹرنیٹ سروس بند ہے۔ بھارتی فوج نے ہسپتالوں کو بھی ٹارچر سیلوں میں تبدیل کر رکھا ہے۔ زخمی نوجوانوں کو ہسپتالوں سے اغواء کر لیا جاتا ہے۔ ڈاکٹروں کو زخمیوں کے علاج سے روکنے کے واقعات بھی معمول بن چکے ہیں۔ پیلٹ متاثرہ زخمیوں کی ایسی تصاویر سوشل میڈیا پر نظر آتی ہیں کہ جنہیں دیکھ کر قلیجہ منہ کو آتا ہے۔ کمانڈر ابوالقاسم اور برہان کی شہادت کے بعد سبزار بھٹ، جنید متو اور بشیر لشکری جیسے عظیم کمانڈر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں جس سے تحریک کو ایک نئی قوت ملی ہے۔ پورا کشمیر بھارتی ریاستی دہشت گردی کیخلاف سراپا احتجاج ہے۔ حریت قائدین برہان کے یوم شہادت پر ہفتہ شہدائے کشمیر منارہے ہیں تو پاکستان میں بھی جماعۃالدعوۃ کی جانب سے سات جولائی سے انیس جولائی یوم الحاق پاکستان تک عشرہ شہدائے کشمیر منانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ آٹھ جولائی کو مظفر آباد میں متحدہ جہاد کونسل کے پروگرام میں شرکت کی جائے گی۔ 13جولائی کو راولا کوٹ میں بڑا پروگرام ہو گا۔ 16جولائی کو اسلام آباد اور19جولائی کو لاہور میں بڑے پروگراموں کا انعقاد کیاجائے گا۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد جب تحریک نے زور پکڑا اور کشمیریوں نے مشکل ترین حالات میں بھی پاکستانی پرچم لہراتے ہوئے خون بہانا شروع کیا تو جماعۃالدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید نے اسلام آباد میں موجود حریت قائدین کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے سال 2017کشمیر کے نام کرنے کا اعلان کیا اور کہا تھا کہ کشمیری اگر پاکستان کی خاطر قربانیاں پیش کر رہے ہیں تو ہم پاکستان میں بھی ان شاء اﷲ وہی ماحول پیدا کریں گے۔ملک گیر سطح پر بڑے پروگراموں کا انعقاد کیا جائے گا اور جماعتی تشخص کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہم اپنی جماعت کا نہیں صرف پاکستانی پرچم لہرائیں گے۔ ان کا یہ اعلان کرنا تھا کہ ہندوستانی میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور مودی سرکار نے ٹرمپ کے ذریعہ پاکستانی حکمرانوں پر دباؤ بڑھایا جس پر حافظ محمد سعید سمیت پانچ رہنماؤں کو نظربند کر دیا گیا۔ کشمیری قیادت نے خط لکھ کربھارتی ریاستی دہشت گردی کیخلاف پاکستان میں سب سے مضبوط آواز کو خاموش کرنے کی ناپسندیدہ حرکت پر اپنے تحفظات کا اظہا رکیا تاہم حکمرانوں نے چپ سادھے رکھی اور آج پانچ ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود حافظ محمد سعید و دیگر رہنما بغیر کسی جرم کے نظربندیوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ کشمیر کے حالات اس وقت یہ ہیں کہ بھارتی فوج نہتے کشمیریوں کیخلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر اتر آئی ہے۔ چند ماہ قبل عبدالماجد نامی ایک کشمیری کمانڈر کو شہید کر نے کیلئے کیمیائی ہتھیار استعمال کئے گئے تو اس کی لاش گوشت کے چند لوتھڑوں میں تبدیل ہو گئی تھی۔ اب حال ہی میں پلوامہ میں جن کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا گیا ہے ان کی لاشیں بھی قابل شناخت نہیں رہیں لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ عبدالماجد کی شہادت کے وقت تو حافظ محمد سعید نے آواز بلند کی تھی لیکن اب جبکہ چند دن قبل بھارتی فوج نے ایک مرتبہ پھر اسی قبیح جرم کا ارتکاب کیا ہے تو حکومت پاکستان نے مکمل خاموشی اختیار کر کھی ہے اور کسی ذمہ دارنے ایک بیان تک دینا مناسب نہیں سمجھا۔ یعنی حکومت نے خود بھی مجرمانہ خاموشی اختیا رکر رکھی ہے اور اگر ان کے حق میں کوئی آواز بلند کرتا ہے تو کبھی پیمرا کے ذریعہ اور کبھی نظربندیوں کے ذریعہ ان کی آوازبھی خاموش کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ اس صورتحال سے کشمیری بددل ہو رہے اور ان میں مایوسیاں پھیل رہی ہیں۔ بھارتی فوج کیمیائی ہتھیار استعمال کر کے کشمیریوں کی نئی نسل کو اپاہج بنا رہی ہے لیکن اقوام متحدہ اورسلامتی کونسل جیسے اداروں نے بھی مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور پاکستانی حکمران بھی کشمیر کامقدمہ دنیا کے سامنے صحیح انداز میں پیش نہیں کر رہے۔ ماضی میں ہندوستان کی جارحانہ پالیسیوں کے مقابلہ میں موجود ہ حکومت کی طرف سے فدویانہ رویہ اختیا رکیا گیاجس سے تحریک آزادی کونقصان اور کشمیریوں کا اعتمادمجروح ہوا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس وقت کشمیرکے تازہ ترین حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کشمیری و پاکستانی قوم کے جذبات کی صحیح معنوں میں ترجمانی کریں۔سال بھر میں کشمیریوں کے حق میں ایک دوبیانات دے دینا کافی نہیں ہے۔انہیں اپنی پالیسیوں کی اصلاح کرنی چاہیے ، دنیا بھر میں اپنے سفارت خانوں کو متحرک اور ٹریک ٹو ڈپلومیسی چھوڑ کر واضح اور دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کشمیریوں کی پشتیبانی کا حق ادا کرنا چاہیے۔اسی طرح حافظ محمد سعید جیسے رہنماؤں کو فی الفور رہا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں کشمیریوں کے حق میں اٹھنے والی آواز کو خاموش نہیں کرنا بلکہ مظلوم کشمیریوں کی مددوحمایت کرنے والوں کے ہاتھ مزید مضبوط کرنے چاہئیں تاکہ لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والی کشمیری قوم کو غاصب بھارت کے پنجہ استبداد سے نجات دلائی جاسکے۔ ابوالقاسم، برہان وانی، سبزار بھٹ، جنید متو اور بشیر لشکری جیسے کمانڈروں سمیت لاکھوں کشمیریوں کی شہادت کے بعد بھی مضبوط جدوجہد آزادی سے فائدہ اٹھا کر شہ رگ کشمیرکی آزادی کیلئے کردار ادا نہ کرنا بہت بڑی بدقسمتی ہو گی ۔ پاکستانی حکمرانوں کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ کشمیریوں کی قربانیاں فراموش کر کے بھارت سرکار سے دوستانہ رشتے پروان چڑھانے والوں کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔

Musab Habib
About the Author: Musab Habib Read More Articles by Musab Habib: 194 Articles with 141235 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.