اہل مغرب ہمیشہ سے مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہے
ہیں۔اور امت مسلمہ میں اتحاد نہ ہونے کے باعث وہ ان سازشوں میں کامیاب بھی
رہے ہیں۔جب اہل مغرب نے عثمانیہ سلطنت کو شکست سے دوچار کرکے ختم کردیا تو
برطانیہ اور فرانس نے 1916ء کے معاہدہ ”سائیکس اور پیکاٹ“ کے تحت مشرق
وسطیٰ کو آپس میں بانٹ لیا۔ اور اس کے بعد فلسطین برطانیہ کے حصہ میں آیا
۔۔ برطانیہ نے فلسطین پر 1918ء میں قبضہ کر لیا ۔ برطانیہ کے فلسطین پر
منڈیٹ کی تصدیق کونسل آف لیگ آف نیشن نے 1922ء میں کی ۔ اس سے پہلے برطانیہ
کے وزیر خارجہ آرتھر بلفور نے یہودیوں کی ڈائنٹ تحریک سے وعدہ کر لیا تھا
کہ حکومت برطانیہ فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کے لئے ایک الگ قومی ریاست
کے قیام کے لئے مدد کرے گی۔ 1922ء میں فلسطینیوں کی آبادی سات لاکھ تھی اور
یہودیوں کی آبادی صرف اسی ہزار تھی۔ لیکن 1948ء میں جب اسرائیل معرض وجود
میں آیا تو فلسطینی مسلمانوں کی آبادی ڈیڑھ ملین تھی اور فلسطینی یہودیوں
کی آبادی چھ لاکھ تھی۔ اس وقت کے وزیر خارجہ آرتھر بلفور نے بنکنگ کے امیر
ترین یہودی لارڈ راتھ چائلڈ کو ایک خط لکھا تھا۔ اس خط میں وزیر خارجہ نے
یہودیوں کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کی حکومت فلسطین میں یہودی ریاست
قیام کرنے میں پوری مدد کرے گی۔ بعد ازاں اسرائیل کا فلسطین کی دھرتی میں
14مئی 1948ء سے آغاز ہو گیا۔
اسرائیل کے قیام کے بعد یہودیوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم شروع کردیا اور
آہستہ آہستہ ریاست فلسطین پر اپنا قبضہ بڑھانے کی کوشش بھی شروع کردی ۔
سرزمین انبیا ؑ پر یہودیوں کے قبضے کے لئے اسرئیل کی پشت پناہی مغربی ممالک
کرتے رہے۔الفاظ کی سختی درست نہیں ہوتی پر یہاں میں قلم کو روکنے سے قاصر
ہوں ۔میرے مطابق اسرائیل امریکہ اور برطانیہ کی ناجائز اولاد ہے۔۔فلسطین کی
زمین پر بسنے والے عربوں نے کبھی بھی اسرائیل اور یہودیوں کے قبضے کو تسلیم
نہیں کیا ۔اور اسرائیل اور فلسطینوں کی جنگ تاحال جاری ہے۔لیکن اس جنگ میں
توازن نہیں ہے ۔ایک طرف اسرائیل کی جدید ہتھیاروں سے لیس فوج ہے تو دوسری
جانب ہاتھوں مین سنگ اٹھائے مجاہدین اسلام ہیں۔لیکن انشاٗللہ ایک دن یہ
معرکہ بدر کا منظرپیش کرے گا اور ریاست فلسطین آزاد ہوگی ۔مجھے اپنے رب سے
پوری امید ہے۔
اسی طرح ایسٹ انڈیا کمپنی نے کشمیر پر قبضے کےبعد اسے امرتسر معاہدے کے تحت
ڈوگرا حکمران گلاب سنگھ کو فروخت کردیا تھا۔اس ریاست کی اکثریت مسلمان تھی
۔1947میں ہندوستان کی تقسیم کے وقت تمام ریاستوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ
پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک سے الحاق کرلیں یا اپنی آزاد حیثیت برقرار
رکھیں، اس وقت کے کشمیری راجہ ہری سنگھ نے بھارت سے الحاق کا فیصلہ کیا۔
ریاست کشمیر کی عوام نے ہندو مہاراجہ کا بھارت سے الحاق کا فیصلہ تسلیم
نہیں کیا اور عوام اس فیصلے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، بھارت نے ہندو مہاراجہ
کے الحاق کو جواز بنا کر ریاست میں اپنی فوجیں داخل کردیں، دوسری طرف
مجاہدین نے کشمیر کے بہت سے علاقوں پر مہاراجہ کا قبضہ ختم کرکے گلگت
بلتستان اور آزاد کشمیر کے علاقے پاکستان کے زیر انتظام دے دیئے۔ اس دوران
بھارت کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ میں لے گیا، جہاں ایک کمیشن کے ذریعے
کشمیر میں استصواب رائے کا فیصلہ کیا گیا جس کو اس وقت کے بھارتی وزیراعظم
جواہر لعل نہرو نے تسلیم کیا اور رائے شماری کے فیصلے کی تائید کی جس کے
مطابق کشمیر کے عوام رائے شماری کے ذریعے پاکستان یا بھارت سے الحاق کا
فیصلہ کرینگے۔ پاکستان نے بھی یہ فیصلہ تسلیم کیا ۔ لیکن بعد میں بھارت
اپنے اس وعدے سے منحرف ہوگیا ، اور تاحال ریاست کشمیر کے الحاق کا فیصلہ
نہیں ہوسکا۔
بھارت کے کشمیر پر غاصبانہ قبضے کو کشمیری عوام نے کبھی تسلیم نہیں کیا
اورلیکن کشمیر کے غیور مجاہدین اور بھارتی درندوں کے مابین جنگ بھی کسی طرح
توازن نہیں رکھتی ۔ ایک تحقیق کے مطابق 2013تک کشمیر میں بیک وقت صرف
100-150مجاہدین ہوتے تھے اور ان کے مقابلے میں 7لاکھ کے قریب بھارت کی فوج
۔بھارت نے کشمیر میں ظلم کی داستانیں رقم کردیں۔ہزاروں کشمیری شہید کردیئے
گئے۔ ہزاروں بہنوں کی عزتیں تار تار کر دی گئیں ۔مگر غاصب بھارت کشمیر میں
اب تک اپنی حکومت تسلیم نہیں کرا سکا۔آزادی کے عظیم متوالےبرہان وانی کی
شہادت کے بعد اب کشمیر کا بھی ہر فرد ہاتھوں میں پتھر اٹھائے بھارت کی فوج
کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا ہے۔اب بھارت زیادہ دن کشمیر میں نہیں رہ
سکے گا ۔
کشمیر پر بھارت کی گرفت کمزور ہوگئی ۔ادھر فلسطینی اسرائیل کے آگے جھکنے
کو تیار نہیں۔اس صورت حال سے پریشان کرہ ارض پر موجود دو شیطانی ریاستوں کے
سربرہان یعنی مودی اور نیتن یاہو نے آپس میں گٹھ جوڑ کا فیصلہ کرلیا
ہے۔مودی اس وقت اسرائیل کو دورے پر ہیں۔یہ کسی بھی بھارتی وزیرعظم کا
اسرائیل کا پہلہ دورہ ہے۔اس دورہ کا مقصد اصلحہ کی خریداری کے معاہدے
ہیں۔بھارت اصلحہ خریدنے والے ممالک میں دوسرے نمبر پر اور اسرئیل اصلحے کی
فروخت کرنے والے ممالک کی فہرست میں موجود ہے۔اس کے ساتھ ساتھ دونوں جابر
اور فسادی ممالک ایک دوسرے کو اقوام متحدہ میں بھی سپوڑٹ کر سکتے ہیں۔
بھارت اور اسرئیل دونوں مسلمانوں کے دشمن اور قاتل ممالک ہیں ان کا گٹھ جوڑ
مسلمانوں کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔اس خطرے سے نمٹنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور
وہ ہے اتحاد مسلمین ۔ اس مسئلہ کی نزاقت کو سمجھتے ہوئے اب مسلم ریاستوں کو
آپس میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔ مل کر ان سانپوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔سعودی
عرب اور قطر مسلم ممالک میں خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔سعودی عرب کو امریکہ کی
پالیسی کے برخلاف قطر سے تعلقات اسطوار کرنا ہونگے۔مسلم فوج کا فعال ہونا
بھی بے حد اہم ہے۔اس دور میں ان ممالک کا محاسبہ بے حد ضروری ہے ورنہ کشمیر
،فلسطین،افغانستان،عراق، شام اور برمہ جیسے حالات آہستہ آہستہ پوری مسلم
امہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ہمیں کشمیر اور فلسطین کو بھی آزاد کرانا
ہوگا۔ہمیں برمیوں کا بھی ساتھ دینا ہوگا اور سب کو مل کر ان شیطانی صفت
ممالک سے اپنی چادر اور چاردیوارکو بچانا ہوگا۔
ہمیں خالد بن ولید بننا ہوگا ۔علی ؓ کی کی پیروی کرنا ہوگی۔ ہمیں ٹیپو
سلطان محمدبن قاسم کی تاریخ کو دہرانا ہوگا ہمیں افضل گورو اور برہان وانی
بننا ہوگا۔جس دن پوری امت مسلمہ اس نظریہ پر عمل پیرا ہوگئی اس دن پھر سے
خدا کی زمین پر صرف خدا کا نظام نافظ ہوگا۔ |